سلمان عابد

پاکستان اور بالخصوص پیپلز پارٹی کی سیاست میں آصف علی زرداری کی حیثیت ایک بڑے سیاسی شاطر کی ہے۔ ان کے سیاسی حامی ان کو پاکستان کی سیاست میں بے تاج بادشاہ کہتے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں آصف علی زرداری طاقت کے مراکز میں اپنے سیاسی کارڈ کھیلنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں آصف زرداری جوڑ توڑ کی سیاست زیادہ سمجھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آصف زرداری کی سیاست سے پارٹی کو کتنا فائدہ اور نقصان ہوا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے داخلی عہدے داروں کا انتخاب مکمل ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت بلاول بھٹو اور پارلیمنٹرین کی قیادت خود آصف زرداری نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ یقیناًیہ ایک انتظامی اور قانونی نکتہ ہے جس کے تحت پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ لیکن اس فیصلے سے جہاں انتظامی اور قانونی نکتہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے وہیں اس فیصلے کا سیاسی پس منظر بھی ہے۔کیونکہ اس انتظامی گتھی کو سلجھانے کے لیے پیپلز پارٹی نے کوئی ایسی حکمت عملی اختیار نہیں کی جس سے اس کی سیاسی حیثیت ایک ہی جماعت کے نام پر موجود رہے۔ قمرزمان کائرہ سمیت کچھ لوگوں نے تجویز بھی دی کہ اب دونوں جماعتوں کو ضم کرکے آگے بڑھا جائے، لیکن لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی یا آصف زرداری کو بھی ایک ہی جماعت میں دو طرح کے پلیٹ فارم سودمند لگتے ہیں، تاکہ بوقتِ ضرورت کسی کو بھی اپنے حق میں استعمال کیا جاسکے۔ اگرچہ پارٹی میں کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ اس تقسیم کو ختم کیا جائے، اس سلسلے میں آصف زرداری نے ایک کمیٹی بھی بنادی ہے۔ جہاں تک پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے نئے عہدے داروں کا تعلق ہے اس نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی داخلی جمہوریت پر کوئی یقین نہیں رکھتیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بھی داخلی انتخابات ہوئے تھے، اس میں بھی جس انداز سے شریف برادران نے پارٹی کے عہدوں پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی وہ بھی جمہوری سیاست کے منہ پر طمانچہ ہے۔ جب سیاسی جماعتیں خود داخلی جمہوریت اور اس کے تقاضوں پر یقین نہیں رکھتیں تو ان جماعتوں کی عوامی اور جمہوری ساکھ ہمیشہ ہی سوالیہ نشان رہے گی۔
بہرحال بنیادی طور پر اس وقت ملکی سیاست میں جہاں پانامہ پیپر جیسے مسائل ہیں، وہیں ایک مسئلہ 2018ء کے انتخابات بھی ہیں۔ سیاسی جماعتیں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ’’انتخابی سیاست‘‘ میں اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کی کوشش کررہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی کی توجہ نوازشریف حکومت کے خلاف تحریک چلانے سے زیادہ نئے انتخابات پر لگتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کسی بڑی تحریک کے عمل کو آگے بڑھاتی تو اس سے پارٹی کو ایک نئی طاقت بھی مل سکتی تھی، مگر آصف علی زرداری کی حکمت عملی میں تحریک چلانے کے حامیوں کو سیاسی پسپائی دیکھنی پڑی ہے۔ بنیادی طور پر آصف علی زرداری مزاحمتی یا احتجاجی سیاست کے حامی نہیں، وہ جوڑ توڑ، کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنا سیاسی کردار تلاش کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس سے قبل بھی آصف علی زرداری کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ہم مفاہمت کی سیاست کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح خود بلاول بھٹو کے بارے میں آصف زرداری کی رائے ہے کہ ابھی بلاول کو بہت کچھ سیکھنا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ بلاول کو پارٹی معاملات میں اختیارات دینے کے حامی نہیں، بلکہ کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کی سیاسی بحالی کے تناظر میں بڑے پُرجوش طریقے سے سامنے آئے تھے اور ان کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہی2018ء کی انتخابی سیاست کو لیڈ کریں گے۔ بلاول بھٹو نے بھی پنجاب کو اپنی سیاست کا مرکز بنانے کا اعلان کیا تھا اور ان کے حامیوں کو محسوس ہوا تھا کہ بلاول بھٹو پارٹی کو نئے سرے سے ایک بڑی سیاسی طاقت میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ بلاول نے پنجاب میں نوازشریف کی سیاست کو چیلنج بھی کیا اور تاثر دیا کہ اب ان کی سیاسی جدوجہد تختِ لاہور کے خلاف ہوگی۔ اس اعلان نے پنجاب میں موجود مُردہ پیپلز پارٹی میں جان بھی ڈالی اور وہ جیالے جو ناراض ہوکر خاموش ہوگئے تھے اُن کو بھی جگایا، سب نے کہا کہ اب بلاول ہی نانا اور ماں کی سیاست کو بحال کرے گا۔ کیونکہ پنجاب میں مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کا کارکن اور ووٹر دونوں ہی آصف زرداری کی سیاست سے نالاں نظر آتے تھے، ان کو لگتا تھا کہ بلاول نے ان کو نئی زندگی دی ہے۔ بلاول نے جس انداز سے لاہور میں چند دن کے لیے سیاسی ڈیرہ لگایا اس نے خود نوازشریف کو بھی حیران کیا کہ بلاول ان کے مقابلے میں کیونکر میدان میں آیا ہے! لیکن بلاول کیا چاہتے ہیں اس سے زیادہ اہم بات خود آصف علی زرداری کی ہے کہ وہ کیا کارڈ کھیلنا چاہتے ہیں، یا ان کی اپنی سیاسی حکمت عملی کیا ہے۔ اصولی طور پر پارلیمنٹرین کی قیادت خود آصف زرداری نے سنبھال کر یہ واضح عندیہ دے دیا کہ وہی اس وقت پارٹی میں فیصلہ کن طاقت رکھتے ہیں۔ جب بھی بلاول بھٹو اپنے باپ کی سیاست سے ہٹ کر سیاست کرنے کی کوشش کریں گے، آصف زرداری کسی بھی مسئلے کو بنیاد بناکر اُن کو مجبور کریں گے کہ وہ آزادانہ بنیادوں پر فیصلے نہ کریں۔ حتیٰ کہ پنجاب تو کیا خود سندھ میں بھی بلاول بھٹو خود سے فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
دراصل یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جو بہت عرصے سے پیپلز پارٹی کی داخلی سیاست میں زیر بحث تھا۔ کیونکہ پارٹی عملی طور پر دو حصوں میں بٹ گئی ہے اور یہ تقسیم محض سیاسی فیصلوں تک محدود نہیں، بلکہ سندھ اور پنجاب کی قیادت میں بھی تقسیم نظر آتی ہے۔ آصف زرداری کے حامی ان کو اقتدار کے مرکز میں جوڑتوڑ کے ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے بقول اب اقتدار کی سیاست میں یک جماعتی نظام کی گنجائش کم ہے۔ جو بھی اقتدار کی تکون بنے گی وہ مرکز اور صوبوں میں مخلوط حکومت کی صورت میں ہی طاقت پکڑے گی۔ آصف زرداری اور ان کے حامی سمجھتے ہیں کہ اس طرز پر مبنی اقتدار کی سیاست میں جوش کے بجائے ہوش کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیا دپر آگے بڑھنا ہوگا۔ یہی حکمت عملی ان کو اقتدار کے کھیل سے کسی نہ کسی شکل میں جوڑے رکھ سکتی ہے۔ 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ہماری سیاست قومی کے بجائے صوبائی سیاست میں تبدیل ہوگئی ہے۔ سیاسی جماعتیں قومی سوچ رکھنے کے بجائے صوبائی سیاست کو کنٹرول کرکے اپنی سیاسی طاقت منوانا چاہتی ہیں۔ اس طرزِ سیاست میں سب جماعتوں کو اقتدارکے کھیل میں حصہ دار بنا کر قومی سیاست کو کمزور کیا جارہا ہے جو کسی بھی طور پر پاکستان کے حق میں نہیں۔
جبکہ اس کے مقابلے میں بلاول کے حامی سمجھتے ہیں کہ بلاول کو ایک نئے سیاسی کردار میں پیش کرکے دو مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔ اول یہ کہ ملک میں، بالخصوص پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) سے مفاہمت کے تاثر کو ختم کرکے ایک جارحانہ حکمت عملی سے پیپلز پارٹی میں نئی جان ڈالی جاسکتی ہے۔ دوئم جو ووٹر آصف زرداری سے نالاں ہے اور انتخابی سیاست میں بطور ووٹر پیپلز پارٹی سے دور ہے اس کو بلاول کی صورت میں متبادل قیادت پیش کی جائے۔ اسی طرح یہ تاثر بھی سامنے لایا جائے کہ بلاول بھٹو نظریاتی بنیادوں پر پارٹی کا اصل چہرہ بحال کرنا چاہتے ہیں، لیکن آصف زرداری کی حکمت عملی مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 27 دسمبر سے حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک کا عندیہ دینے والے بلاول بھٹو کی آواز گم ہوکر رہ گئی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو یقینی طور پر مایوسی ہوئی ہے اور انہیں لگتا ہے کہ ان کے والد نے ان کو سیاسی میدان میں تو اتار دیا ہے، لیکن ان کے پر کاٹ کر میدان میں دھکیلا ہے اور جہاں ان کی حیثیت کسی پتلی تماشہ کے کھیل سے زیادہ نہیں ہوگی۔
آصف زرداری کو اندازہ ہے کہ اس وقت کی سیاسی صورت حال میں وہ اپنی جماعت کو ایک بڑی جماعت یا طاقت کے طور پر بحال نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے وہ کم ازکم 2018ء کے انتخابات میں حلقوں کی بنیاد پر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو اندازہ ہے کہ پنجاب میں ان کی سیاسی بحالی کا فوری کوئی امکان نہیں۔ ان کی اقتدار کے کھیل میں ساری توجہ سندھ پر ہوگی اور وہ سندھ میں مطلوبہ نتائج کے حصول کے بعد مرکز کی سیاست میں شطرنج کے مہرے کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ دیگر صوبوں میں وہ کچھ نشستوں پر اپنی حکمت عملی وضع کرکے دیگر جماعتوں کے اشتراک کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ دراصل پچھلی دو دہائیوں میں جس انداز سے پنجاب کے چھوٹے علاقوں سمیت دیہی علاقوں سے لوگوں کی شہروں میں آمد ہوئی ہے اور جیسے جیسے دیہی اور شہری تقسیم میں فرق کم ہوا ہے، ویسے ویسے پیپلز پارٹی کی اہمیت شہری علاقوں میں کم ہوگئی ہے، پارٹی ان محرکات کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی دونوں تنظیموں میں جو نئے عہدے دار سامنے آئے ہیں وہ بھی شہری سیاست میں اپنا اثرو نفوذ کم رکھتے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے انتخابات سے قبل پنجاب کی سطح پر پارٹی کے اندر زیادہ مایوسی دیکھنے کو ملے گی۔ اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ بہت سے لوگ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر نئی سیاسی راہیں بھی تلاش کرسکتے ہیں۔ پنجاب میں نوازشریف ایک بڑی طاقت کے طور پر موجود ہیں اور ان کی طاقت کو چیلنج کرنے کے لیے اس وقت عمران خان بھی میدان میں موجود ہیں۔ اس لیے اس بڑی لڑائی میں جہاں نوازشریف اور عمران خان موجود ہیں وہاں پیپلز پارٹی کیسے اپنا اثرو نفوز قائم کرکے طاقت بن سکے گی؟
آصف زرداری اور بلاول بھٹو اب پارلیمنٹ میں بھی جارہے ہیں۔ لیکن اب پارلیمنٹ کی مدت ہی کیا رہ گئی ہے جہاں وہ جانا چاہتے ہیں! بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو خود 2017ء کو انتخابات کا سال قرار دے رہے ہیں! لیکن مسئلہ مدت کا نہیں بلکہ آصف زرداری کو پتا ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے جو بھی انتظامی سیٹ اپ طے ہوگا اُس میں حکومت اور حزبِ اختلاف کا کردار کلیدی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری پارلیمنٹ کے محاذ پر بھی ڈٹ جانا چاہتے ہیں۔ زرداری سمجھتے ہیں کہ لین دین، جوڑ توڑ سمیت اسٹیبلشمنٹ کے داؤ پیچ کو سمجھنا ابھی بلاول کے بس کی بات نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ کنٹرول اپنے پاس رکھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ان کو پتا ہے کہ اگر وہ مقدمات سے بھی بچنا چاہتے ہیں تو پارلیمنٹ کو وہ بطور ہتھیار استعمال کرکے ہی اپنے آپ کو محفوظ بناسکتے ہیں۔ پہلے تو یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ بلاول پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں، لیکن آصف زرداری نے اپنے پارلیمنٹ میں آنے کا اعلان کرکے جہاں سیاسی پنڈتوں کو حیران کیا وہاں اس خبر سے کہ وہ سیاسی جماعت پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں، یہ خبر آصف زرداری کے حامیوں سے زیادہ خود نوازشریف کے لیے اطمینان کا باعث بنی۔ کیونکہ نوازشریف سمجھ رہے تھے کہ بلاول کی سیاست ان کے لیے مسائل پیدا کررہی ہے۔ نوازشریف اور آصف زرداری دونوں ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ایک ہیں اور دونوں کا مشترکہ دشمن عمران خان ہے۔ کیونکہ دونوں طاقت کے مرکز کو ایک دوسرے کے تابع ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن عمران خان اس میں رکاوٹ پیدا کرکے اس اقتدار کی جوڑی کو توڑنا چاہتے ہیں۔
اب آصف زرداری کی حکمت عملی کیسے پیپلز پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرسکے گی، یہ خود بڑا سوالیہ نشان ہے۔کیونکہ ممکن ہے آصف زرداری جوڑ توڑ اور سیاسی کارڈ کھیل کر کچھ حاصل کرلیں، لیکن اس کی بھاری قیمت پیپلز پارٹی کو بطور جماعت ادا کرنا پڑے گی جو پارٹی میں ایک بڑی تبدیلی چاہتی تھی، لیکن آصف زرداری پارٹی کو مضبوط کرنے سے زیادہ اپنی سیاسی گرفت اور طاقت کو بچانا چاہتے ہیں۔ یہ پاکستان کی سیاست کا المیہ ہے کہ بعض اوقات آپ اقتدار کی بندر بانٹ کی سیاست میں کامیاب ہوجاتے ہیں، لیکن اس کی بھاری قیمت دینی پڑتی ہے۔ اس کی اہم مثال پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے درمیان مفاہمت کی سیاست ہے اور اس کا نقصان پیپلز پارٹی کو بالخصوص پنجاب کی سیاست میں برداشت کرنا پڑا ہے۔ بہرحال پیپلز پارٹی اس وقت ایک بڑے امتحان سے گزررہی ہے اور اس امتحان میں آصف زرداری کسی نئے تجربے کے بجائے طاقت کی سیاست کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، لیکن کیا پیپلز پارٹی کا ووٹر جو پہلے ہی ناراض ہے اورجس نے پارٹی کو ووٹ دینے کے بجائے لاتعلقی اختیار کی ہوئی ہے، آصف زرداری کے سیاسی کھیل میں بطور مددگار اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے؟ اس کا فیصلہ جیسے جیسے انتخابی ماحول بنتا جائے گا، سامنے آجائے گا کہ پارٹی کا حقیقی مستقبل کیا ہوگا؟
nn