(انتخابی جمہوری نظام کے تحفظ کی بحچ (سید تاثیر مصطفی

سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ازخود شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے وطن واپسی پر وہی بات دہرائی ہے جو کہتے ہوئے وہ خودساختہ جلاوطنی پر دبئی گئے تھے۔ کراچی آمد پر اپنے پہلے خطاب میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں جاری نظام کو بچانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کی جس بات پر انہیں اگلے چند گھنٹوں میں ملک چھوڑنا پڑا تھا اُس میں بھی نظام اور سسٹم کو بچانے کی یہی بات پوشیدہ تھی۔ وہ جس کسی کی بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کررہے تھے اُسے یہی پیغام دے رہے تھے کہ وہ اس سسٹم کو بچانے کے لیے یہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ یہی بات ان کی آمد سے چند روز قبل قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی کہی تھی۔ وزیراعظم نوازشریف کے خلاف تحریکِ استحقاق کے اسپیکر چیمبر میں مسترد کردیے جانے کے بعد پوائنٹ آف آرڈر پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح طور پر کہا کہ انہیں (پیپلزپارٹی کو) فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دیا جاتا ہے لیکن انہوں نے سسٹم کو بچانے کے لیے اس طعنے کو قبول کیا۔ یہ بات وہ اس سے قبل بھی کئی بار کہہ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے 126 دن کے دھرنے کے موقع پر بھی انہوں نے یہ بات بار بار کہی تھی، کیونکہ حکومتی وزراء بھی اس سسٹم کو بچانے کے لیے ان کی منتیں کررہے تھے اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی تقریباً یہی بات اپنے اپنے انداز میں کہہ رہی تھیں۔ 2013ء کے انتخابات سے ذرا قبل جب ڈاکٹر طاہرالقادری وطن واپس آئے تھے تب بھی یہی کہا جارہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کسی کے اشارے پر سسٹم کو ڈی ریل کرنے آئے ہیں۔ چنانچہ اس موقع پر ملک کی متعدد جماعتوں نے نوازشریف کی صدارت میں جاتی امرا لاہور میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں بھی سسٹم کو بچانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ وہ کون سا سسٹم ہے جسے بچانے کی حکومت اور پیپلزپارٹی بار بار بات کرتی ہیں اور دیگر جماعتیں اکثر مواقع پر اس کی تائید کرتی ہیں۔ بظاہر یہ ملک میں جاری جمہوری اور انتخابی نظام ہے جس کے تحت فوج یا کوئی غیر منتخب ادارہ یا فرد اقتدار پر قابض نہیں ہوسکتا، بلکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے لوگ ہی حکومت بناتے اور نظام مملکت چلاتے ہیں۔ بظاہر تو یہ بڑا خوش کن نعرہ ہے اور عام سادہ لوح آدمی کے لیے اس میں بڑی کشش اور سیاسی ترغیب موجود ہے، لیکن ملک کے سوچنے سمجھنے والے لوگ اب یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ یہ سسٹم تو عوام کو کچھ ڈیلیور نہیں کررہا۔ یہ تو لوٹ مار کا ایک نظام ہے جس میں چند لوگ موجیں کرتے ہیں اور عوام پستے ہیں۔ کیا اس نظام کو بچانا درست ہے؟ اور جو لوگ اس نظام کو بچانا چاہتے ہیں ان کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ کیا وہ واقعی ملک کو فوجی اور شخصی آمروں سے بچانا چاہتے ہیں، یا یہ دباؤ ڈال کر اپنی ضرورت کے تحت ان سے تعاون کے خواہشمند ہیں؟ کیا وہ واقعی حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں اور اس کی بقا کے لیے نیک نیت ہیں؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں جو نظام قائم ہے وہ واقعتا جمہوری ہے؟ اس میں ہر کسی کا احتساب ممکن ہے؟ ہر کسی کو انصاف مل رہا ہے؟ اور کیا امورِ ریاست میں عام آدمی شریک ہے؟ اور کیا یہ نظام اپنی ڈیلیوری سے اسے شرکت کا احساس دلا رہا ہے؟ یا عملاً صورت حال کچھ اور ہے؟
حقیقت میں اس وقت صورت حال بہت مختلف ہے اور ہرگزرتے ہوئے دن کے ساتھ اس میں اس قدر خرابی آتی جارہی ہے کہ عام آدمی اس نظام سے مایوس اور بددل ہوکر لاتعلق ہوتا جارہا ہے۔ عوام کی شکایات بڑھ رہی ہیں اور سسٹم، ڈیلیور کرنے میں مکمل ناکام ثابت ہورہا ہے۔ اس سسٹم کے حامی اور اسے بچانے کی جدوجہد میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے والے لوگ ایک عجیب و غریب نعرہ لگاتے ہیں۔ یہ نعرہ بظاہر تو بہت پُرکشش ہے لیکن زمینی حقائق سے بہت دور ہے۔ یہ خوش کن نعرہ ہے: ’’بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے‘‘۔ یہ نعرہ فوجی آمریتوں کے دنوں میں تو بہت مقبول ہوتا ہے اورجب کبھی ہمارا موجودہ نظام ڈولنے لگتا ہے تب اپنی ضرورت کے تحت اسے ایک بار پھر زندہ کرلیا جاتا ہے، اور یہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو اپیل بھی کرجاتا ہے، لیکن ذرا غور کیجیے کہ کیا ’’بہترین‘‘ کا نعم البدل اور متبادل ’’بدترین‘‘ ہوسکتا ہے! اگر کوئی شے اپنی اصلیت کے اعتبار سے بدترین ہے اور اپنی ڈیلیوری کے لحاظ سے بدترین ثابت ہورہی ہے تو وہ کسی بہترین شے کی متبادل کیسے ہوسکتی ہے! یہ درست ہے کہ آمریت کوئی اچھی یا بہتر چیز نہیں ہے اور اس پر سب کو اتفاق ہے، لیکن اگر کوئی نظام اپنی بدترین شکل میں رائج ہے، وہ عوام کو کچھ ڈیلیورنہیں کررہا، احتساب کے بجائے انتقام، اور شفافیت کی جگہ لوٹ مار چل رہی ہے، عوام اس نظام سے تنگ ہیں تو کیا اسے ایسے عارضی نظام کے متبادل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جو کچھ نہ کچھ ڈیلیور کررہا ہے چاہے وقتی طور پر ہی سہی۔ اس گفتگو اور بحث کا یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ یہ آمریت کی حمایت ہے یا جمہوریت کے خلاف کسی مہم کا حصہ ہے، بلکہ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جائے اور یہی ہمارا مقصد بھی ہے کہ موجودہ نظام کی خرابیوں کی اصلاح کی جائے اور اس میں بہتری لائی جائے، ورنہ جلد یا بدیر عوام اور مختلف طبقات اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
اب یہ سوال کیا جارہا ہے کہ اس سسٹم کو کیوں بچایا جائے جس میں سیاسی جماعتیں موروثی جائداد کی وراثت کی طرح فیملی لمیٹڈ کمپنیاں بن گئی ہیں؟ جس میں ذوالفقار علی بھٹوکے بعد بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور بلاول ہی آگے آتے ہیں اور 80 لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی اس جماعت کو بھٹو خاندان سے باہر قیادت کے لیے کوئی شخص نہیں ملتا۔ جس نظام میں نوازشریف کے بعد کلثوم نواز، شہبازشریف اور مریم نواز آخری امید ہیں اور ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والی اس جماعت کو اس خاندان سے باہر کسی دوسرے شخص کا نام تک لینے کی جرأت نہیں ہوتی۔ جس نظام میں ہزاروں جید علماء کی موجودگی میں مولانا مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن اور اُن کے دوسرے بھائی ہی قیادت کے لیے نظر آتے ہیں اور مولانا عبدالحق کے بعد مولانا سمیع الحق ہی واحد متبادل ہیں۔ جس نظام میں عطا اللہ مینگل کے بعد اختر مینگل، عبدالصمد اچکزئی کے بعد محمود اچکزئی، باچا خان اور ولی خان کے بعد نسیم ولی خان یا اسفند یار ولی ہی پر ان پارٹیوں کی نظر پڑتی ہے اور پارٹی اور حکومت کا نظام چلانے کے لیے پیپلزپارٹی فریال تالپور، مسلم لیگ (ن) حمزہ شہباز یا اسحق ڈار، اور دیگر جماعتیں بھی اپنے قریبی عزیزوں ہی کا انتخاب کرتی ہوں اور بدقسمتی سے انہیں ایساکرنے سے نہ کوئی ادارہ روکتا ہے اور نہ ہی پارٹی کارکن اس کی جرأت کرسکتے ہیں کہ اوّل تو بیشتر جماعتوں میں انتخاب کا نظام ہی موجود نہیں، موجودہ سسٹم میں بھی ان قابض خاندانوں کو ایسا کرنے سے روکنے کا کوئی طریقِ کار ہی موجود نہیں، بلکہ یہ نظام تو ایک کے بعد دوسرے ہی کو آگے بڑھاتا ہے۔ نہ ملک میں جمہوریت کے نام پر خاندانی فسطائیت کو روکنے کے لیے کوئی قانون سازی کی گئی ہے اور نہ کارکنوں کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ اس کے لیے کوئی کوشش کریں۔ خود الیکشن کمیشن بھی اس بارے میں مجرمانہ خاموشی کا شکار ہے۔ جمہوریت کی علَم بردار ان جماعتوں میں قابض خاندانوں کے سوا کسی اور شخص کا جیتنا تو بڑی دور کی بات ہے، یہاں ایسی تعصب کی فضا موجود ہے کہ آج تک سیاسی جماعتوں کے ان اجارہ داروں کے خلاف کسی نے پارٹی عہدے کے لیے کاغذات جمع کرانے کی جرأت بھی نہیں کی۔ یہ جماعتیں انتخاب کے نام پر ڈھکوسلہ کرتی ہیں۔ ایک دن چند سو افراد کو بلاکر اور کھانا کھلا کر نومنتخب عہدیداروں کے ناموں کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ کھانے پر آئے ہوئے ان نام نہاد کارکنوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوتا جو اس صریحاً غیر جمہوری رویّے کے خلاف ایک جملہ بھی ادا کرسکے۔ الیکشن کمیشن بھی اس پر مکمل خاموشی اختیار کرتا ہے۔ اُس کے نزدیک بھی اس سسٹم کو بچانا ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کبھی کسی ایسی جماعت سے نہیں پوچھتا کہ یہ کیسا انتخاب ہے جس کی نہ تو باقاعدہ ووٹر لسٹ ہے، نہ باقاعدہ کاغذاتِ
(باقی صفحہ 41پر)
نامزدگی جمع ہوئے ہیں، نہ کسی عہدے پر مقابلہ ہوا ہے اور نہ کسی نے ووٹ ڈالا ہے! پھر ایک ہی عہدے پر ایک ہی شخص گزشتہ تیس چالیس سال سے کیسے قابض ہے، یا اُس کے بعد اُس کی جائداد کا وارث ہی اس پارٹی کا وارث کیسے بن گیا ہے؟ کیا یہ کوئی موروثی جائداد ہے یا سیاسی جماعت؟ دراصل یہ خاندان اپنے سیاسی رسوخ اور پیسے کی بنیاد پر ان پارٹیوں پر قابض ہیں اور ادارے بھی ان کے اس قبیح جرم پر نہ صرف پردہ ڈالتے ہیں بلکہ انہیں ایسا کرنے کی کھلی چھوٹ بھی دیتے ہیں۔ اس موضوع پر اگلی قسطوں میں گفتگو جاری رہے گی۔