محمود خان اچکزئی کا بیان

پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ نے اسلام آباد میں عبدالصمد خان شہید کی برسی کے موقع پر جو خطاب کیا اُس نے سیاسی ماحول کو گرم کردیا ہے۔ ان کے بیان کا ردعمل کسی صوبے میں ہو نہ ہو لیکن بلوچستان میں ضرور ہوتا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں قوم پرست اس بات پر زندہ ہیں کہ اپنے اپنے حلقوں میں عوام کو اپنے ساتھ ملا کر رکھا جائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک دوسرے کے خلاف کشیدگی پیدا کی جائے۔ صوبے میں قوم پرست پارٹیوں کی سیاسی زندگی کا دارومدار اسی طرز کی سیاست میں پوشیدہ ہے۔ محمود خان اچکزئی سال میں مختلف مواقع پر اپنے مؤقف کو جس طرح دہراتے ہیں اس سے بلوچ قوم پرست جماعتوں میں شدید ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ اب انہوں نے اسلام آباد میں جو خطاب کیا ہے اُس کے اُن حصوں کو لیں گے جو بلوچ قوم پرست جماعتوں میں ردعمل کا سبب بنے ہیں۔
بلوچستان میں جب افغان مہاجرین آئے تو اس کا ردعمل روس نواز قوم پرست جماعتوں میں ہوا۔ چونکہ جہاد شروع ہوچکا تھا اس لیے پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف ردعمل روس کو مطلوب تھا تاکہ افغانستان میں مجاہدین کو پریشان رکھا جائے۔ اس حوالے سے سیکولر روس نواز، بائیں بازو کی روس نواز اور قوم پرست روس نواز قوتوں کو استعمال کیا گیا‘ اس کا مقصد پاکستان کو دباؤ میں رکھنا اور جہاد کو کمزور کرنا تھا۔ سوویت یونین اپنے انجام کو پہنچ گیا تو امریکہ اور نیٹو طالبان کو ختم کرنے افغانستان میں در آئے۔ پاکستان میں سابق روس نواز تمام گروہ امریکہ کے حامی بن گئے اور طالبان کے خلاف سرگرم ہوگئے۔ 2001ء سے یہ کشمکش چلی آرہی ہے۔ ان دونوں جنگوں کی وجہ سے 50لاکھ مہاجرین پاکستان اور ایران میں چلے گئے تھے۔ ایران میں افغان مہاجرین کی شناخت بہت واضح تھی لیکن پاکستان میں یہ مشکل تھی کہ صوبہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں پشتون موجود تھے۔ نسل اور عقیدے کے لحاظ سے کوئی بُعد نہ تھا اور پاکستان نے افغان مہاجرین کے نام سے بے دریغ مالی اور سیاسی فوائد حاصل کیے۔ سوویت یونین چونکہ ایک کمیونسٹ ملک تھا اس لیے وہ پاکستان پر براہِ راست دباؤ نہ ڈال سکا اور پھر مغرب کو یہ جنگ پسند تھی کہ اس کا طاقتور حریف اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس لیے افغان مہاجرین کی ہر طرح مدد کی گئی۔ لیکن اب معاملہ امریکہ اور مغرب کا ہے اور پاکستان امریکہ کے زیراثر ہے۔ اب جنگ طالبان اور امریکہ کی ہے اس لیے امریکہ کا دباؤ پاکستان پر ہے کہ طالبان کو جو افغان مہاجرین کی شکل میں پاکستان میں موجود ہیں، باہر نکالا جائے۔ مگر افغانستان میں امریکہ کے لیے اپنے کھیل کو انجام تک پہنچانا اسی صورت میں ممکن ہے جب پاکستان طالبان سے ہاتھ کھینچ لے۔ اور بھارت نے افغانستان میں اپنے لیے جگہ بنالی ہے، اس لیے کہ طالبان بھارت کے لیے بھی خطرہ ہیں اور اگر افغانستان میں ایسی تبدیلی آئے جو بھارت کے مفاد میں نہ ہو تو وہ کشمیر کے حوالے سے مشکل میں پڑ سکتا ہے۔ اس لیے امریکہ اور بھارت دونوں کے لیے طالبان کی مکمل شکست کے نکتے پر اتفاق ہے۔
بلوچستان میں قوم پرست قوتیں مکمل طور پر امریکی کیمپ میں کھڑی ہیں اور سی پیک کے حوالے سے ایک نئی کشمکش امریکہ اور چین کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے۔ بلوچ قوم پرست جماعتیں اور مسلح گروہ بھی سی پیک کے مخالف اور اس کی راہ میں مزاحم ہیں۔
نیشنل پارٹی اور بی این پی البتہ ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور محمود خان اچکزئی کے بیان نے بلوچ قوم پرست پارٹیوں کو ہم آواز بنادیا ہے اور ان کا ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے۔ نیشنل پارٹی اب مسلم لیگ (ن)کی حلیف پارٹی ہے، اس لیے اُس کا ردعمل سی پیک کے حوالے سے بی این پی سے مختلف ہے۔ لیکن افغان مہاجرین کے حوالے سے وہ بیانات دینے پر مجبور ہے۔ اسی لیے سردار اختر مینگل کی پارٹی کا بیان تندوتیز ہے اور وہ بلوچ علاقے میں اس کی حریف ہے، اس لیے نیشنل پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے افغان مہاجر کارڈ بڑی قوت سے استعمال کررہی ہے اور کرے گی۔ نیشنل پارٹی کے لیے ایک اور مشکل سامنے کھڑی ہے، وہ صوبے میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے ساتھ حکومت کرچکی ہے اور اب دونوں جماعتیں مسلم لیگ (ن) کی دست و بازو بنی ہوئی ہیں۔ نیشنل پارٹی کا ردعمل پشتوں کے خلاف اتنا شاید نہ ہو جتنا بی این پی کا ہوگا۔
اب آیئے محمود خان اچکزئی کے بیان کے اُس حصے کی طرف جس نے بلوچستان میں سیاسی شعلوں کو ہوا دی ہے، ماحول کو گرم اور کشیدہ کیا ہے۔ اور بلوچ قوم پرست سیاست کو متحرک کردیا ہے:
’’افغان مہاجرین کو شہریت دے کر سرحد سے اٹک اور میانوالی تک ان علاقوں پر مشتمل ایک نیا صوبہ ’’افغانیہ‘‘ بنایا جائے۔ پارلیمنٹ میں ایسے اراکین موجود ہیں جو دہری شہریت رکھتے ہیں، افغان مہاجرین کو بھی دہری شہریت دی جائے۔ اور جو بچے پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں انہیں پاکستان کی شہریت دی جائے۔ دوہری شہریت ان کا حق بنتا ہے اور ہمیں برابری کی بنیاد پر رہنا ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کا بھائی توڈاکٹر ہو، افسر ہو اور میرا بھائی چوکیدار ہو، ایسا پاکستان قبول نہیں ہے۔ پشتون دہشت گرد نہیں ہے۔ ہم جس سرزمین پر آباد ہیں یہ ہمارے آباو اجداد کی ہے اور ورثے میں ملی ہے۔ ہم ہر حملہ آور سے اس کا دفاع کریں گے۔ میں نے افغانستان میں بھی جرگہ میں کہا تھا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے اور فاٹا کے مسئلے پر کسی کو بھی گڑبڑ کرنے نہیں دیں گے۔ میرے نزدیک فاٹا کے لیے یہ راستے ہیں:
(1) وہاں پر منتخب کونسل تشکیل دی جائے، جس کا فیصلہ پولیٹکل ایجنٹ صدرِ پاکستان کو پیش کریں۔
(2 اگر فاٹا کے عوام الگ صوبہ چاہتے ہیں تو انہیں صوبہ دیا جائے، اور اگر فاٹا صوبۂ خیبرپختون خوا کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو اُن سے پوچھا جائے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کسی افغانی کو پاکستانی پاسپورٹ دیا جائے، لیکن جس کے پاس مہاجر کارڈ ہے اسے تنگ نہ کیا جائے۔ پاکستان میں 5 قومیں آباد ہیں، ہم ان کے ساتھ برابری کے اصول پر رہنا چاہتے ہیں اور جو حقوق باقی قوموں کو حاصل ہیں وہ پشتونوں کو بھی دینا ہوں گے۔‘‘
غلام احمد بلور نے کہا کہ محمود خان اچکزئی کے مطالبے سے
(باقی صفحہ 41 پر)
اتفاق نہیں ہے، ہم فاٹا کے قبائل کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ بی این پی کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغانیہ کا مطالبہ کرنے والے بلوچ تاریخ کو مسخ کرنا چاہتے ہیں، مہاجرین کو بلوچستان سے نکالا جائے، صوبائی حکومت میں شامل جماعتوں کی خاموشی پر تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔ افغان مہاجرین کے حوالے سے حکومت پالیسی بنائے۔ ان کو بلوچستان میں آباد رکھنا کسی طرح قبول نہیں ہے۔ 40لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری ہم قبول نہیں کریں گے۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ اور جہاز رانی کے وفاقی وزیر حاصل بزنجو نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم افغانیہ صوبے کے مطالبے سے متفق نہیں ہیں اور نہ ہی ہمیں بلوچستان میں افغان مہاجرین کی موجودگی قبول ہے۔ 18لاکھ افغانیوں کے پاس POR کارڈ سمیت کوئی شناختی قانونی دستاویز نہیں ہے۔ 40لاکھ افغان مہاجرین کی واپسی کا بندوبست کیا جائے افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے واپس کیا جائے۔ ان کی موجودگی میں مردم شماری سے عدم توازن پیدا ہوجائے گا۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ میں نے CCI کے اجلاس میں مردم شماری کی مخالفت کی تھی۔ ہمارا آج بھی مطالبہ ہے کہ افغان مہاجرین سمیت تمام غیرملکیوں کو نکالا جائے۔ ہم اس معاملے میں سپریم کورٹ تک جائیں گے۔
جب کچھ عرصہ پہلے مردم شماری کی گئی تھی تو پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے احتجاج کرتے ہوئے مردم شماری کا بائیکاٹ کردیا تھا اور آج بلوچ قوم پرست پارٹیاں بائیکاٹ کا اعلان کررہی ہیں اور احتجاج کررہی ہیں۔ حالانکہ مردم شماری اپنے وقت پر ہونا چاہیے تھی۔ اب سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ مردم شماری 15 مارچ کو ہوگی۔ مردم شماری میں افغان مہاجرین کو شامل نہ کیا جائے خواہ وہ بلوچ، پشتون یا ہزارہ ہوں، تاکہ صوبے کی ایک حقیقی تصویر نمایاں ہوسکے۔