(پروفیسر عبدالغفور اھمد اس عہد کی معتبطر نشانہ(سجاد میر

وہ ایک ہیرا تھا جس نے ہماری سیاست کو مالا مال کر رکھا تھا۔ میں نے کم لوگ دیکھے ہیں جو پروفیسر غفور احمد کی طرح صاف ستھری زندگی کے ساتھ سیاست کرتے ہوں۔ انہوں نے اُس زمانے میں سیاست کی جب ملک پر بھٹو کا راج تھا اور جماعت اسلامی پر میاں طفیل محمد جیسے سادہ لوح مردِ درویش کی امارت کا دور دورہ تھا۔ اس بات کا کیا مطلب ہے؟ یہ میں بتانے کی کوشش کروں گا۔ ذاتی طور پر میرا اُن سے بہت ہی محبت اور احترام کا رشتہ تھا۔ کراچی میں، مَیں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا ہے۔ بات کہاں سے شروع کروں، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ مجھے یاد ہے کہ 1970ء کے انتخابات کے نتائج نے جماعت اسلامی ہی نہیں، ملک بھر میں اسلامی ذہن رکھنے والوں کو مضطرب کردیا تھا۔ ملک میں جماعت اسلامی کے صرف چار افراد قومی اسمبلی تک پہنچے تھے۔ کراچی سے محمود اعظم فاروقی اور پروفیسر غفور صاحب، پنجاب سے ڈاکٹر نذیر احمد اور اُس زمانے کے سرحد سے صاحبزادہ صفی اللہ۔ پنجاب کے لوگ محمود اعظم فاروقی سے ان کے پہلے سے موجود پارلیمانی پس منظر کی وجہ سے تو واقف تھے مگر پروفیسر غفور احمد کا نام عام آدمی کے لیے نیا تھا۔ بعض لوگوں کو حیرانی ہوئی کہ جماعت نے ان کو اسمبلی میں پارلیمانی قائد مقرر کیا ہے! ادھر ڈاکٹر نذیر احمد بھی اس زمانے کی دریافت تھے، وہ بھی دلوں کو مسخر کررہے تھے۔ ایسے میں سب لوگوں کی توجہ پروفیسر صاحب پر مرکوز ہوئی کہ ہو نہ ہو ان میں ضرور کوئی ایسا جوہرِ قابل ہوگا کہ جماعت نے انہیں اپنا پارلیمانی قائد مقرر کیا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ خدائی فیصلہ تھا، آسمانوں سے دلوں پر اتارا گیا تھا۔ رفتارِ زمانہ نے جس کی اہمیت کو جلد ہی واضح کردیا۔
پروفیسر صاحب سے میری پہلی ملاقات اسلام آباد میں ہوئی جب اسمبلی کا پہلا اجلاس ہونے والا تھا۔ میں بھی وہاں ’زندگی‘ اور ’اردو ڈائجسٹ‘ کا مقدمہ لے کر پہنچا ہوا تھا۔ وہ بھی کیا اسمبلی تھی۔ شیرباز مزاری، شاہ احمد نورانی، مولانا ظفر احمد انصاری۔۔۔ کراچی نے حزبِ اختلاف کو کیسے قدآور لوگ فراہم کیے تھے۔ پروفیسر غفور احمد نے دھیرے دھیرے اپنے جوہر دکھانا شروع کردیئے تھے۔ ایک طرف آئین سازی کا مرحلہ، دوسری طرف بھٹو کی آمرانہ روش اور تیسری طرف انتہائی احترام سے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ میاں طفیل محمد کی امارت جو اپنے تقویٰ اور پارسائی کے باوصف سیاست کے پیچ وخم میں بھی صراط مستقیم کی تلاش میں رہتی تھی۔ چند دنوں کے اندر معلوم ہوگیا کہ جماعت کو سیاسی میدان میں ایک لیڈر مل گیا ہے۔ جماعت نے غالباً اپنے نظام کے تحت پروفیسر صاحب کو سیاسی معاملات میں آزادانہ کام کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ وہ بڑے ہی تحمل اور احتیاط سے یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی دھوم تھی۔ ملک بھر میں بالخصوص نوجوانوں کی نگاہیں ان کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ جماعت کے اندر ان کی رائے کا احترام کیا جاتا تھا۔ میں انہی دنوں کراچی چلا گیا تھا۔ وہاں مجھے غفور صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں اُن دنوں کہا کرتا تھا کہ پاکستان میں قومی سطح پر بس دو ڈھائی سیاستدان ہی ایسے ہیں جو صاف ستھری سیاست کرتے ہیں۔ شیرباز مزاری اور اصغر خاں کا نام پتا تھا۔ پروفیسر صاحب کی خوبی اس کے ساتھ یہ بھی تھی کہ انہوں نے بڑی کامیاب سیاست کی۔ مطلب یہ کہ وہ جس مقصد کے لیے اس خارزار میں اترے تھے اس کی طرف قدم بہ قدم بڑھتے ہی رہے۔
اصل میں مجھے اپنے قائداعظم جن خوبیوں کی وجہ سے پسند ہیں، ان میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہ ایک راست باز اور صاف ستھرے سیاست دان تھے۔ جھوٹ نہیں بولتے تھے، ان پر چکر بازی کا کوئی گمان نہ تھا، اس کے باوجود حریفوں کے چھکے چھڑا دیتے تھے کیونکہ ان کی ہر چال کو سمجھتے تھے۔ بددیانتی ان کے قریب بھی پھٹک نہیں سکتی تھی۔ میں انہیں بیسویں صدی میں مسلم سیاست دان کی ایک آئیڈیل مثال کہتا ہوں۔ میری بات واضح ہوگئی ہوگی کہ میں پروفیسر صاحب کی شخصیت کے حوالے سے کس بات پر زور دے رہا ہوں۔
مجھے ان کی ایک تقریر اب بھی یاد ہے۔ وہ امریکہ اور یورپ کے دورے کے بعد واپس آئے تھے۔ ویسے تو جماعت کے قائدین جماعتی سرگرمیوں کے لیے آتے جاتے رہتے ہیں، مگر غالباً غفور صاحب کا یہ پہلا دورہ تھا۔ مجھے یاد ہے، انہوں نے بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: جو شخص اپنی ایک ہی پرانی شیروانی میں یورپ اور امریکہ گھوم کر آسکتا ہو، اسے تم کس بات پر ڈرا رہے ہو۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں کارکنوں کو سمجھا رہے تھے کہ حلال حرام کے خوف سے وہ سفر میں پنیر اور ڈبل روٹی پر گزارہ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا: یہاں تو پنیر باہر سے آتا ہے اور مہنگا ہوتا ہے، مگر وہاں عام ہے اور سستا ہے۔ میں اسی شام اُن کے ہاں پہنچا، ساہیوال میں ان دنوں پنیر کی فیکٹری نئی نئی لگی تھی۔ ساتھ دو ایک ڈبے لیے اور جاکر انہیں پیش کیے کہ یہ پاکستان ہی میں بنتا ہے اور سستا بھی ہے۔ ہنسنے لگے، ’’بھئی میرا یہ مطلب نہیں تھا‘‘۔ ان کا چہرہ آج بھی میرے سامنے ہے جیسے کوئی شرمندہ ہو کہ میں نے یہ کیوں کہا، کہیں یہ حسن طلب نہ سمجھا جائے۔ اور اس کے ساتھ یہ خیال کہ یہ بچہ ہے، اس کو انکار بھی اچھا نہیں، اور شاید کچھ میری ستائش بھی، کہ دیکھو اسے کیا خیال آیا۔ یوں سمجھیے یہی ان سے میرا رشتہ تھا اور یہی ان کی شخصیت کا حسن تھا۔
اس وقت ذاتی باتوں کا ہجوم ہے جو امڈا چلا آرہا ہے۔ ان کا زیادہ تذکرہ نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے قومی اتحاد یعنی پی این اے کے وہ دن بھی یاد ہیں جب انہیں اس اتحاد کا سیکرٹری جنرل بنایا گیا۔ نورانی میاں کی خواہش پر یہ منصب ان کی پارٹی کے رفیق احمد باجوہ کو دیا گیا، وہ اپنی سادگی یا بقول ان کے نواب زادہ نصر اللہ کے کہنے پر بھٹو صاحب سے ملنے اسلام آباد چلے گئے۔ اُن دنوں بھٹو مخالف تحریک اپنے عروج پر تھی۔ یہ گویا بہت بڑا سانحہ گنا گیا۔ ساری محنت اکارت جاتی نظر آئی۔ نورانی میاں نے انہیں پارٹی سے فارغ کردیا۔ پھر اس اتفاقِ رائے میں شامل ہوگئے کہ سیکرٹری جنرل کا منصب ان کی پارٹی کے کسی فرد کو دینے کے بجائے پروفیسر غفور صاحب کے سپرد کردیا جائے۔ غفور صاحب نے بھٹو سے مذاکرات کرنے والی سہ فریقی ٹیم میں جس طرح کردار ادا کیا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی تھے تو کراچی میں ایک اجتماع میں انہوں نے پروفیسر صاحب کا تذکرہ یہ کہہ کر کیا کہ یہاں میرے مربی اور محسن پروفیسر غفور بھی موجود ہیں۔ منور حسن اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ سیاسی مذاکرات میں ایک جونیئر پارٹنر کے طور پر شریک ہوتے رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب آئی جے آئی کے بھی سیکرٹری جنرل رہے۔ وہ لاہور آئے تو دیکھا باہر ایک پجارو ٹائپ گاڑی کھڑی ہے۔ پوچھا: یہ کیا ہے؟ پتا چلا، سیکرٹری جنرل کے استعمال کے لیے ہے۔ فوراً واپس بھیج دی۔ اور جب دیکھا کہ آئی جے آئی کو فعال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، تو اس سے مستعفی ہوگئے۔ نوازشریف کو اقتدار میں آنے کے بعد اس تنظیم کے سہارے کی ضرورت نہ تھی۔ ہوسکتا ہے، سیاسی طور پر میاں صاحب کا فیصلہ درست ہو، مگر اس نے ملک کی سیاست پر نظریاتی گرفت کو اتنا کمزور کردیا کہ پھر وہ روح کبھی توانا نہ ہوسکی جو تحریک نظام مصطفیؐ سے لے کر اس مرحلے تک بہت طاقتور رہی ہے اور دائیں بازو کی سیاست کی جان تھی۔
مجھے یاد ہے کہ جب وہ سینیٹر تھے تو سب سے پہلے انہوں نے آکر بتایا تھا کہ بلوچستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ حالانکہ اُن دنوں ایسی کوئی خاص تشویش ناک خبریں نہیں آرہی تھیں۔ وہ کہتے تھے: بلوچستان کے بیس میں سے ایک سینیٹر بھی ایسا نہیں جو مطمئن ہو۔ پہلی بار مجھے اس بات پر تشویش ہوئی۔ پروفیسر صاحب کی بصیرت اور سچائی پر سب کو اعتبار تھا۔
ایک بات اور یاد آئی۔ قومی اسمبلی کا رکن بننے سے پہلے وہ ایک ادارے کے چیف اکاؤنٹنٹ تھے، غالباً چھ سات ہزار روپے تنخواہ لیتے تھے اور بہت سی مراعات بھی تھیں۔ یہ اُس زمانے میں بہت بڑی تنخواہ تھی۔ اسی سے انہوں نے اپنا گھر بنایا تھا جو خاصا کشادہ تھا، غالباً ایک ہزار یا ڈیڑھ ہزار گز پر، جہاں جماعت کے اجتماعات بھی ہوتے تھے۔ قومی اسمبلی کا رکن بننے کے بعد جماعت نے انہیں ملازمت چھوڑنے کا حکم دیا۔ باقی وقت انہوں نے اس معاوضے پر گزارا جو قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے انہیں ملتا تھا۔ یہ ڈیڑھ ہزار روپے تھے۔ جماعت کے اصول کے مطابق یہ رقم جماعت کو منتقل کردی جاتی ہے۔ ضرورت محسوس ہو تو جماعت اسے اپنے اس رکن کو استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے جس کا ذریعہ آمدنی اور کوئی نہ ہو۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار غفور صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ بھئی اب تو گھر والے بھی تنگ آچکے ہوں گے کہ جب میں اپنا ماہانہ خرچ چھ ہزار سے ڈیڑھ ہزار پر لے آؤں گا تو انہیں پریشانی تو ہوگی۔ یہ تو ان کا احساس تھا جو خاندان کے ایک اچھے سربراہ کا ہونا چاہیے، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس خاندان نے بھی بڑی عزیمت کا مظاہرہ کیا۔ ان کا بیٹا فوزی میرا دوست ہے۔ وہ کچھ عرصہ سعودی عرب میں گزار کر آیا تھا۔ یہاں آکر ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ کسی نے کہا کہ حفیظ پیرزادہ آپ کی بڑی عزت کرتے ہیں انہیں کہہ دیں تو آپ کے بیٹے کے لیے میرٹ پر ایک اچھی جگہ ان کے زیر کنٹرول موجود ہے، مگر پروفیسر صاحب خود کو اس پر آمادہ نہ کرسکے۔ میں نے فوزی کے وہ دن دیکھے ہیں۔ جب اسمبلی کی رکنیت ختم ہوئی تو پروفیسر صاحب کو ذریعہ معاش کی فکر ہوئی۔ دوست احباب نے مشورہ دیا، یہ دفتر حاضر ہے، ملک سے باہر قالینوں کے کاروبار کی گنجائش ہے، اپنے ہی لوگ ہیں، آپ دفتر سنبھالیں۔ وہ دفتر جاتے رہے، مگر کوئی لمبا چوڑ ا بزنس نہ کر پائے۔
nn