15 اگست 2016 ء کو اپنی زندگی کے سو سال (ایک صدی) پوری کرنے والے جماعت اسلامی کے بزرگ ترین رہنما مولانا محمد افضل بدر جنوبی پنجاب کے پسماندہ لیکن سیاسی اہمیت رکھنے والے ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کے قصبہ دائرہ دین پناہ میں معروف حکیم مولانا محمد اکرم جن کا تعلق ملک جٹ ساٹیہ برادری سے تھا کے گھر 15 اگست 1916 ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں حاصل کی۔ والد چونکہ خود عالم تھے اس لیے انہوں نے بیٹے کو بھی عالم دین بنانا طے کیا اور اس مقصد کے لیے ملتان کے مدرسہ جنیدیہ میں داخل کرادیا‘ ابتدائی تعلیم کے بعد دورۂ حدیث کے لیے مدرسہ نعمانیہ ملتان میں داخل ہوگئے۔
عالم دین بن کر بدر صاحب نے والد کی خواہش تو پوری کردی لیکن معاش کے لیے دینی تعلیم کا سہارا لینا پسند نہ تھا بلکہ پیشہ ور مذہبی طبقہ کے قریب رہ کر ان کی معاشرتی اور اخلاقی کیفیت دیکھ کر مذہبی طبقہ سے متنفر ہوگئے اور جدید علوم کے حصول کے لیے لاہور جاکر اورینٹل کالج میں داخلہ لے لیا اور فاضل عربی کرلی چونکہ اوائل عمری سے شعر و ادب سے لگاؤ تھا اس لیے علم دوست افراد سے گہرا تعلق بن جاتا تھا۔ ایسے ہی ایک علم د وست شخص سید محمد نواز تھے جن کا تعلق جھنگ کے ایک مشائخ گھرانے سے تھا اور وہ اردو‘ فارسی میں ایم اے تھے‘ لاہور قیام میں بدر صاحب کا تعلق سید محمد نواز سے ہوگیا۔
مولانا مودودی سے تعارف اور ملاقات
1939 ء میں بدر صاحب لاہور میں زیر تعلیم تھے اور نیلا گنبد کے قریب رہائش پذیر تھے۔ جنگ عظیم اول کا آغاز ہوچکا تھا۔ بدر صاحب نواز صاحب کے ساتھ گھوم پھر رہے تھے کہ ایک جگہ کوئی مذہبی اجتماع ہورہا تھا جس کے باہر کتابوں کے اسٹال لگے ہوئے تھے۔ بدر صاحب رک کر کتب و رسائل دیکھنے لگے کہ ایک رسالہ پر نظر پڑی ’’ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور ایڈیٹر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ‘‘ پہلے تو ایک نئے نا م کو پڑھ کر چونکے۔ رسالہ کھول کر دیکھا تو اداریہ سنسر شدہ تھا اور عنوان تھا ’’عالمی فساد‘‘ آغاز سورہ الروم کی آیت اکتالیس سے تھا ۔(ظہرالفساد۔۔۔)
سید محمد نواز سب کچھ دیکھ رہے تھے ‘کہا کہ ’’بدر تم تو مولویوں کے بارے میں سخت رائے رکھتے ہو لیکن ایک مولوی کے رسالہ میں بڑی دلچسپی لے رہے ہو۔‘‘ بدر صاحب نے جواب دیا کہ ’’نواز یہ شخص روایتی مولوی نہیں بلکہ انقلابی شخص لگتا ہے نام بھی منفرد ہے اور جس کی تحریر کو حکومت اپنے لیے خطرہ جانے اور اس کی تحریر کو سنسر کردے۔ایسے شخص کی تحریریں لازماً پڑھنی چاہیں۔ ‘‘ اشتیاق دیکھ کر نواز صاحب نے کہا کہ آپ مودودی سے ملنا چاہتے ہیں‘ بدر صاحب نے پوچھا کیا آپ مودودی کو جانتے ہیں نواز صاحب نے بتایاکہ میں اکثر ملنے جاتا ہوں۔ اس طرح نواز صاحب بدر صاحب کو لے کر اسلامیہ پارک چوبرجی لاہور مولانا مودودی کی رہائش گاہ گئے۔ بدر صاحب کے ذہن میں تھا کہ لمبی داڑھی ‘ لمبا کرتہ‘ سر پر پگڑی یا رومال والا شخض مودودی ہوگا۔ دروازہ کھولنے والے شخص کے فرنچ کٹ بال‘ چھوٹی داڑھی‘عام کرتہ پاجامہ لباس اور سر سے ننگے تھے گمان ہوا کہ یہ کوئی معاون ہوگا۔ مودودی صاحب اندر ہوں گے۔ کمرہ میں بیٹھ کر نواز صاحب نے بتایا کہ دروازہ کھولنے والے مولانا مودودی تھے تو بدر صاحب کو اپنے تصور پر حیرت ہوئی۔ اس کے بعد کثرت سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور فہم دین کے حصول کے ساتھ ساتھ بے تکلف گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔
مولانا مودودی کی قوت برداشت
بدر صاحب کے بیان کے مطابق علی گڑھ کے دو طالب علم قمر الدین اور ظہور احمد علی گڑھ چھوڑ کر لاہور آگئے اور مولانا کے ہاں مقیم ہوگئے۔ ان کا کھانا پینا مولانا کے ہاں تھا۔ مولانا سے ملاقاتوں کے دوران دونوں نوجوانوں سے بھی دوستی ہوگئی۔ رمضان المبارک میں بدر صاحب نے دونوں دوستوں کی دعوت کی اور خود مچھلی پکا کر کھلائی۔ مولانا دعوت کے پروگرام سے بے خبر تھے۔ گپ شپ میں کافی رات ہوگئی۔ دونوں مہمانوں نے کہا کہ رات بہت ہوگئی ہے جانے پر مولانا ناراض ہوں گے۔ بدر صاحب نے دونوں کو اپنی سائیکل پر سوار کیا اور چھوڑنے کے لیے گئے۔ دروازہ مولانا نے خود کھولا اور کسی ناراضی کے بغیر صرف اتنا کہا کہ آپ لوگ کہاں رہ گئے کھانا رکھا رکھا مٹی ہوگیا ہے۔‘‘ بدر صاحب خالص دہلوی محاورہ سن کر بڑے محظوظ ہوئے اور بتایا کہ مولانا میں نے ان دونوں کی دعوت کی تھی اور خود مچھلی پکا کر کھلائی ہے تو مولانا نے انتظار کی کلفت کو بھلا کر بڑی اپنائیت سے کہا کہ آپ میرے حصے کی مچھلی کیوں نہ لائے۔ مولانا کے اس رویہ سے بدر صاحب کی گرویدگی میں اور اضافہ ہوگیا۔
ملازمت اور رکنیت
بدر صاحب کا تعلق انتہائی سفید پوش خاندان سے جس میں ہر بالغ فرد کے لیے معاشی جدوجہد ضروری ہوتی ہے تھا‘ اس لیے فاضل عربی کرنے کے بعد ملازمت کی کوشش شروع کردی گئی جس کے نتیجہ میں عارف والا کے ایک اسکول میں عربی استاد لگ گئے ماہانہ تنخواہ صرف چالیس روپے تھی‘ دو سال تک مولانا سے ملاقات اور خطوط کتابت کا سلسلہ منقطع رہا۔ اسی دوران اگست 1941 ء میں جماعت اسلامی قائم ہوگئی اور بدر صاحب بے خبر رہے کیونکہ قلیل آمدنی کی وجہ سے ترجمان القرآن کے خریدار نہ تھے جب کسی طرح جماعت کے قیام کی اطلاع ملی تو بہت روئے اور بذریعہ خط مولانا کو اپنی کیفیت سے آگاہ کیا۔ بدر صاحب تاسیسی رکن بننے کا اعزاز تو نہ حاصل کرسکے لیکن تشکیل جماعت سے پہلے مولانا سے تعارف اور رابطے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ جماعت میں شمولیت کے لیے طاغوت کی نوکری سے پرہیز لازم تھا۔ جماعت کا دستور پڑھا تو یہ رکاوٹ نظر آئی ۔ مولانا کو لکھا کہ جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ میں ملازمت معاشی مجبوری ہے کیا کروں؟ مولانا نے جواب دیاکہ محکمہ تعلیم کی نوکری براہ راست طاغوت کی نوکری نہ ہے جس طرح محکمہ فوج‘ پولیس‘ عدالت‘ انتظامیہ ا ور محکمہ مال کی نوکری براہ راست طاغوت کی خدمت ہے۔ اس لیے آپ رکن بن سکتے ہیں‘ بدر صاحب نے رکنیت کی درخواست دے دی۔ رکنیت منظور ہونے پر مولانا نے ملتان میں مولانا خان محمد ربانی سے رابطہ کرنے اورجماعت کا کام شروع کرنے کی ہدایت کردی۔
مولانا خان محمد سے رابطہ
بدر صاحب ملتان آئے اور مولانا ربانی کی تلاش شروع کردی اپنے بیان کے مطابق مغرب کی نماز مسجد املی والی گھنٹہ گھر میں ادا کی اور چیدہ چیدہ لوگوں سے ربانی صاحب کا پتادریافت کیا کوئی نہ بتاسکا۔ بوہڑ گیٹ کی طرف جارہے تھے کہ چھوٹے قدر کے مولوی ٹائپ شخص سے پوچھا۔ اس شخص نے آواز اور لہجہ سن کر کہا (سرائیکی میں) کیا تم محمد افضل بدر ہو۔ بدر صاحب حیران ہوئے کہ یہ پہنچاننے والا شخص کون ہے۔ ملنے والے نے جواب دیا کہ میں ہی خان محمد ربانی ہوں جو تمہارے ساتھ مدرسہ جنیدیہ میں پڑھتا رہا ہوں۔ دونوں بغل گیر ہوگئے اور جب بدر صاحب نے بتایا کہ میں جماعت اسلامی کا کارکن بن گیا ہوں اور مولانا نے مجھے آپ سے رابطہ میں رہنے کا حکم د یا ہے۔ تو ربانی صاحب کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے۔ دونوں نے مقصد زندگی کی تکمیل کے لیے دوبارہ مل جانے پر رب کا شکریہ ادا کیا۔
تقریر اور خطابت کا لائسنس
جماعت کے قیام کے بعد کئی سال تک ارکان پر پابندی رہی کہ وہ مرکزی اجازت کے بغیر کسی اجتماع میں تقریر نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی کسی مسجد میں خطابت کرسکتے تھے۔ عارف والا میں اسکول کے قریب ایک مسجد میں عالم دین امام تھے لیکن گلے کی خرابی کی وجہ سے ان کی تقریر بالکل سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ اس لیے ذمہ داران نے بدر صاحب کو تقریر جمعہ کے لیے پابند کیا ہوا تھا۔ رکنیت کے بعد مرکز کی اجازت ضروری تھی۔ اجازت کے لیے شرط تھی کہ مقرر مسلکی اور اختلافی امور زیر بحث نہ لائے گا۔ جوش سے زیادہ ہوش کا مظاہرہ کرے گا۔ سادہ اور عام فہم الفاظ میں دین کی دعوت دے گا۔ لچھے دار تقریر نہ کرے گا اور اگردوران تقریر اس کو کوئی ٹوک دے تو وہ مشتعل نہ ہوگا۔ ربانی صاحب نے مطلوبہ فارم برائے اجازت پُر کراکر مرکز ارسال کردیا۔ جلد ہی مرکز سے اجازت موصول ہوگئی اور بدر صاحب کو آغاز سے ہی تقریر و خطابت کا لائسنس مل گیا‘ جس کو وہ اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور تاریخ کی دہرائی میں اس کا خصوصی تذکرہ کرتے ہیں۔
مہاجرین کی خدمت اور ملازمت سے استعفیٰ
تقسیم کے بعد مہاجرین کیمپوں میں مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر کئی ماہ کت جماعت کے کارکنان نے مہاجرین کی امداد اور دیکھ بھال کی خدمات انجام دیں۔ ربانی صاحب کے ساتھ بدر صاحب بھی تیار ہوگئے۔ سکندر خان نامی محکمہ تعلیم میں افسر تھا جو جماعت اور مولانا سے کدورت رکھتا تھا۔ بدر صاحب نے رخصت کی درخواست دی سکندر خان نے زبانی وجہ دریافت کی بدر صاحب نے بلاجھجک بتایا کہ جماعت اسلامی مہاجرین کی خدمت کررہی ہے مولانا مودودی نے پورے ملک سے کارکنان کو آکر کیمپوں میں خدمت کرنے کا حکم دیا ہے چونکہ میں جماعت کا رکن ہوں اس لیے میرا جانا ضروری ہے ۔ افسر نے رخصت نامنظور کردی ‘بدر صاحب نے فوراً تحریری استعفیٰ پیش کردیا لیکن افسر نے استعفیٰ پھاڑ دیا۔ آپ بلااجازت و رخصت لاہور آگئے اور چوہدری علی احمد مرحوم جو کہ ریلیف انچارج تھے کو حاضری رپورٹ پیش کردی اور ایک ماہ سے زائد خدمات انجام دیں‘ اس دوران وہ خود شدید بیمار ہوگئے او ربہت لاغر ہوگئے تو چوہدری علی احمد نے ان کو واپسی کی ہدایت کردی۔ سید محمد نواز ان کو لے کر معروف ہومیو ڈاکٹر مسعود کے کلینک لے گئے ڈاکٹر مسعود خود موجود نہ تھے دوسرے ڈاکٹر نے دوا دی جس نے کوئی افاقہ نہ کیا‘ اگلے دن دوبارہ گئے ڈاکٹر مسعود نے خود پوری کیفیت معلوم کی اور مختلف کتابوں کا مطالعہ کرکے دوا تجویز کی جس کی دو تین خوراک نے فوری اثر دکھایا چند یوم کے بعد مکمل صحت یاب ہوگئے اور دوبارہ چوہدری علی احمد خان کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔
مظفر گڑھ واپسی
لاہور سے واپسی پر عارف والا جا نہیں سکتے تھے کیونکہ استعفیٰ دے چکے تھے جو کہ منظور نہیں ہوا تھا ربانی صاحب کے مشورہ پر منظر گڑھ آگئے۔ کیونکہ وہاں کوئی جماعتی فرد موجود نہ تھا اور بقول بدر صاحب جس سرائے میں کوئی موجود نہ ہو وہاں چوہے کی راجدھانی ہوتی ہے۔ مظفر گڑھ میں جماعت کے اول بانی رکن کا اعزاز مل رہا تھا لیکن معاشی مصروفیت بھی لازم تھی اتفاقاً وہاں کے اے ڈی آئی اسکول غلام رسول آتش جو کہ قادیانی ہونے کے باوجود بدر صاحب کی شخصیت سے متاثر تھے نے بدر کو آمادہ کرلیا کہ وہ ملازمت میں رہیں اور کوشش کرکے بصیرہ مڈل اسکول میں عربی ٹیچر تعینات کرادیا۔ اس طرح روزگار بھی میسر آگیا او رجماعتی دعوت پھیلانے اور تنظیم سازی کا موقع بھی مل گیا۔ ڈیوٹی سے فارغ ہوکر سائیکل پر علاقہ علاقہ گاؤں گاؤں دعوتی دورے شروع ہوگئے اور چندسال میں پورے مظفر گڑھ ضلع میں ہر قابل ذکر مقام پر مقامی جماعتیں بن گئیں اور بدر صاحب ایک طویل عرصہ ضلعی امیر رہے۔
جماعتی مناصب
مظفر گڑھ میں ضلعی نظام قائم ہونے پر بدر صاحب تقریباً پچیس سال سے زائد ضلعی امیر رہے ‘اس دوران مولانا مودودی ‘ میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کی امارت کے دوران مرکزی مجلس شوریٰ اور صوبائی نظم قائم ہونے پر صوبہ کی مجلس شوریٰ کے رکن رہے 1983 ء میں امیر جماعت اسلامی پنجاب مولانا فتح محمد صاحب نے آپ کو صوبائی ٹیم میں شامل کرکے صوبہ کا نائب امیر بنادیا آپ کے بعد ڈاکٹر دوست محمد بزدار ضلع کے امیر بن گئے۔ 1988 ء کے بعد آپ نے مناصب کی ذمہ داری لینے سے معذرت کرلی۔
جسمانی معذوری
2000 ء کے آخر میں بدر صاحب مظفر گڑھ شہر کے ایک نواحی علاقے میں عوامی مطالبہ پر نماز عیدکے اجتماع سے خطاب اور امامت کے لیے تشریف لے گئے نماز کے بعد خظبۂ عید دیتے ہوئے درمیانی وقفہ میں ٹھیک طرح سے نہ بیٹھ سکے گر گئے جس کی وجہ سے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی علاج کے باوجود چلنے پھرنے کی مستقل معذوری ہوگئی۔ ابتدائی چند سال واکر اور وہیل چیئر کے ذریعہ سفر جاری رہا لیکن پیرانہ سالی نے بالکل لاغر کردیا۔ اب تو کئی کئی دن بستر سے اٹھنا نصیب نہیں ہوتا۔ طویل العمری نے قوت سماعت اور بصارت کو بہت متاثر کیا ہے لیکن یادداشت اب تک غضب کی ہے ۔ آیات‘ دعائیں‘ اشعار‘ تلفظ کی درستی ‘ جماعتی تاریخ کاتذکرہ اب بھی ازبرہے۔ کبھی کبھی سماعتی لہریں درست ہوں تو باآسانی سن لیتے ہیں او رمفصل جواب دیتے ہیں۔ البتہ اب کمزورئ صحت کی بنا پر ملاقاتیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری مشکل آسان کرے اور طویل العمری سے بچائے۔
عوام الناس کی خدمت
بدر صاحب میں تعلقات استوار کرنے کی خوبی خداداد ہے۔ بہت جلد لوگوں کو متاثر کرلیتے ہیں اس وجہ سے ضلعی انتظامیہ ‘ عوامی خدمات کے محکمہ جات خصوصاً محکمہ تعلیم میں اعلیٰ افسران سے گہرے تعلقات قائم رہے اور ان تعلقات کو خاندانی مفادات کا ذریعہ بنانے کے بجائے عوام الناس کے مسائل حل کرنے کا ذریعہ بنایا۔ ضیاء الحق کے مارشل لا میں سارا دن پریشان حال لوگوں کا جمگھٹا لگا رہتا اور بدر صاحب اپنے دفتر میں بیٹھ کر فون پر لوگوں کے مسائل حل کراتے۔ آپ کی اسی اہلیت کی بنیاد پر 1979ء میں نظام زکوٰۃ و عشر کے اجرا پر ضلعی انتظامیہ نے آپ کو ضلعی چیئرمین بنانے کی سفارش کی۔ بطور ضلعی چیئرمین آپ نے اپنی انتظامی قابلیت اور دیانت داری کا لوہا منوایا جس کی بنیاد پر سیکرٹری زکوٰۃ پنجاب نے آپ سے دوسری میقات میں بھی بطور چیئرمین رہنے کی درخواست کی‘ لیکن آپ نے صاف انکار کردیا۔ بلاشبہ آپ نے محکمہ تعلیم کے سینکڑوں پریشان حال ملازمین کے تبادلے بلارشوت کرائے‘ جس کی گواہی یار محمد قریشی ریٹائرڈ سینئر ہیڈ ماسٹر سابق امیر جماعت اسلامی ضلع ڈیرہ غازی خان بھی دے سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
کاروبار اور معاشی خوشحالی
جماعتی خدمات کے لیے ملازمت کی پابندیاں طرح طرح سے رکاوٹ بنتی ہیں اس لیے بدر صاحب کے دل میں ہمیشہ آزاد معاشی مصروفیت کی خواہش رہی ملتان کے ایک عالم دین عبدالسلام دینی کتب کی تجارت کرتے تھے انہوں نے بدر صاحب کو کہا کہ وہ کمیشن پر ان کی کتابیں فروخت کریں۔ بدر صاحب نے پیشکش قبول کرلی لیکن ان کتابوں کی مانگ بہت زیادہ نہت ھی لیکن کچھ تجربہ ہوگیا آپ نے ہائی اسکول مظفر گڑھ کے قریب ایک دکان لے کر نصابی کتب ‘ اسٹیشنری کا کام شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے برکت دی اور بہت جلد آپ کا مرکز علمی کتب خانہ مظفر گڑھ کا معروف ادارہ بن گیا اور آپ کو تعلیمی اداروں کی طرف سے ضروریات کے آرڈر ملنے شروع ہوگئے اور آپ جنرل آدر سپلائر بن گئے اور اپنی صحت برقرار رہنے تک کاروبار کرتے رہے لیکن جماعتی سرگرمیوں میں کاروبار کی وجہ سے خلل نہ آنے دیا۔ اولاد کے جوان ہونے پر ایک بیٹے کو کاروبار سونپ دیا جواب تک بخوبی چلارہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے خادم دین کو یوں نوازا کہ ایک طرف پورے ملک میں اس کی شہرت اور عزت و توقیر کو معروف دوسری طرف دنیای طور پر تما بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرادیا سب سے بڑا بیٹا محکمہ تعلیم میں گریڈ انیس کا ہیڈ ماسٹر بنا‘ دوسر ابیٹا چوک سرور شہید میں طب یونانی کا معروف معالج ہے۔ تیسرا بیٹا مختلف ادویہ ساز کمپنیوں کا سیلز آفیسر رہا‘ ایک بیٹا وکالت کرتا ہے جبکہ تین بیٹے کاروبار کررہے ہیں اور سب خوشحال ہیں۔
ستر کی دہائی میں میونسپل کمیٹی کے دفتر کے قریب انتہائی گنجان علاقے میں صرف ڈیڑ لاکھ روپے میں تیس مرلہ کا ایک مکان مل گیا جسکی اب قیمت کروڑوں روپے ہے ۔ بدر صاحب سراپا شکر گزار بن کر بتاتے ہیں کہ میں بہت غریب تھا بسااوقات بنیادی ضروریات کے وسائل بھی نہیں ہوتے تھے میرے رب کریم نے مجھے اتنا نوازا کہ میرے مکان میں دس دکانیں ہیں اور ایک دکان کیق یت چالیس لاکھ سے زیادہ ہے کیونکہ رب کی عنایت ہو کہ جب اس کے بندے اپنی طویل عمر کا بڑا حصہ اللہ کے دین کی دعوت اور اس کی اقامت میں صرف کیا او رجب دنیاوی معاملے میں امتحان کا وقت آیا تو اپنے آپ کو یوں کھرا ثابت کیا کہ وہ دکان جس میں کاروبار کا آغاز کیا ایک بیوہ مہاجر خاتون کو الاٹ ہوئی تھی خاتون فوت ہوگئی اور اس کا وارث سامنے نہ آیا۔ موقع تھا کہد کان خود قبضہ کرلیتے اور ملکیت کے دستاویزتیار کرالیتے لیکن رب نے جب اپنی جگہ عطا کی تو کوشش کرکے بیوہ کے بھائیوں کو تلاش کیا اور دکان ان کے حوالے کردی۔
اولاد
بدر صاحب اللہ تعالیٰ نے سات بیٹے اور چھ بیٹیاں عطا کیں جن میں چھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں زندہ ہیں۔ سو سال کی عمر پانے کی وجہ سے پڑدادا اور پڑنانا ہیں بلکہ اس سے بھی آگے۔ اپنی اولاد اور اولاد کی اولادیں ملا کر دو سو زائد اہل ع عیال بنتے ہیں۔ ماشاء اللہ پورا بدلہ قبیلہ موجود ہے۔ ایک بیٹے کے مطابق سید محمد نواز مرحوم جب خط لکھتے تو طوالت سے بچنے کے لیے لکھتے کہ تمام بدریات کو دعا پیار۔
بدر صاحب کویوں تو تمام رفقا سے محبت و الفت ہے لیکن ڈاکٹر نذیر شہید سے خصوصی قلبی تعلق تھا ڈاکٹر صاحب کو جب بھی ملتان آنا ہوتا راستہ میں بدر صاحب کو لیتے اورپھر ملتان آتے بہت کم ایسا ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب اکیلے ہوتے۔ جون 1972ء بدر صاحب ڈاکٹر صاحب کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کے لیے کیے ہوئے کہ ان کی اہلیہ کھانا پکاتے ہوئے آتشزدگی کا شکار ہو گئیں اور داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ اگلے دن مرحومہ کی تجہیز تکفین ہوئی اس طرح بدر صاحب کو دو شدید صدمات تسلسل سے ملے لیکن آپ نے ایمانی شعورکے ساتھ صدمات کو برداشت کیا اور اللہ کی رضا پر راضی رہے۔
پہلی اہلیہ کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد نکاح ثانی کر لیا۔ دوسری اہلیہ سے اللہ تعالیٰ نے دو یٹے عطا کیے جو اب خود صاحب اولاد ہیں۔ ضعیفی میں جب انسان خود خدمت کرانے کا ضرورت مند ہوتا ہے اہلیہ فالج کا شکار ہو گئیں اور ایک طویل عرصہ بستر پر رہیں۔ بدرصاحب نے خود معذوری کی حالت میں علاج اور خدمت کا پورا انتظام کیا دو تین سال بیشتر انتقال ہو گیا۔ نوے سال کی عمر میں بڑے بیٹے اور بڑی بیٹی کے جنازوں میں وہیل چیئر پر بیٹھ کر شرکت کی تمام صدمات کومومنانہ شان سے برداشت کیا۔
خود راوی ہیں کہ ڈاکٹر نذیر کی شہادت اورپہلی اہلیہ کے انتقال کے بعد لاہور گیا۔ مولانا مودودی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا بدر صاحب آپ کو تو بیک وقت دو صدمات برداشت کرنے پڑے اللہ تعالیٰ آپ کو صبر اور حوصلہ دے اب کیا کیفیت ہے؟ بدر صاحب نے جواب میں اپنی تعزیتی نظم جو کہ ان کے مجموعہ کلام ’’حاسل بہار‘‘ میں شامل ہے سنائی جس کا پہلا مصرع ہے کہ ۔۔۔ کنج زنداں ہے۔ شب دارہے۔ تنہائی ہے۔
مولانا یہ نظم سن کر بہت متاثر ہوئے اور دوبارہ سنانے کی فرمائش کی۔
تذکرۂ قائدین
ایک دفعہ بدرصاحب اپنے دوست سید محمد نواز کے ساتھ آدھی رات کے قریب مولانا مودودی کے گھر گئے۔ مولانا کے کمرے کی روشنی باہر سے نظر آرہی تھی۔ دستک دینے پر مولانا نے ہی دروازہ کھولا۔ بات چیت میں پتہ چلا کہ رات گئے تک تصنیف و تالیف کی مصروفیت مولانا کا مستقل معمول ہے۔ نواز صاحب نے ایک شعر پڑھا کہ
عطار ہو۔ اولی ہو۔ رازی ہو کہ غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے بے آہ سحر گاہی
مولانا نے بے ساختہ کہا کہ نواز صاحب ان شاہ اللہ نالۂ نیم شبی سے کبھی محروم رہوں گا۔ بدر صاحب کہتے ہیں میں مبہوت رہ گیا اور ایسا لگا کہ جیسے مولانا کو پہلے سے پتہ تھا کہ ان سے یہ سوال ہو گا اور اس کا جواب ہو گا یہ مکالمہ سن کر مولانا کے علم و فضل کا اور زیادہ گرویدہ ہو گیا ۔ بدر صاحب کے بقول وہ شوریٰ میں بے باک رکن کے طور پر معروف تھے۔ گفتگو میں اشعار کا اضافہ ماحول کو خوشگوار بنا دیتا۔ ممبران بسا اوقات اردو اور عربی کے الفاظ غلط بولتے میں صدر مجلس کی اجازت سے درست تلفظ بیان کرتا۔ اسی لیے میاں طفیل محمدؒ نے مجھے ’’صحت زبان‘‘ کا ناظم مقرر کر رکھا تھا۔ تمام رہنمایان جماعت محبت و احترام سے پیش آتے تھے۔ میں بھی تمام رفقاء دل سے احترام کرتا ہوں اور ان کے لیے دنیاو آخرت کے تمام حسنات کی دعا کرتاہوں لیکن تقویٰ پرہیزگاری اور جماعت کے لیے فدائیت کی بنا پر میاں طفیل محمد اور سید منور حسن کے لیے گہرے عقیدت کے جذبات رکھتا ہوں۔
سپاس گزاری
بدرصاحب اس بات پر رب کے انتہائی شکر گزار ہیں کہ نوعمری سے ہی مقصد زندگی کا شعور حاصل ہوا اور اقامت دین کی جدوجہد کے لیے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے تعلق بن گیا اور اللہ تعالیٰ کی عنایت و توفیق سے عمر کا بڑا حصہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلانے میں صرف ہوا۔ انعام کے طور پر اللہ تعالیٰ نے تمام اہل عیال کو جماعت اسلامی کا ہم خیال بنا دیا۔ دو بیٹے رکن جماعت ہیں ایک بیٹا امیدوار رکنیت ہے اور ایک بیٹی بھی رکن جماعت ہے۔ پورے خاندان کا تعارف جماعت کے حوالے ے ہے۔ دنیاوی ضروریات کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے کسی کا محتاج نہیں کیا اور اتنی نعمتیں عطا کیں جن کا شکر ادا کرنا مشکل ہے۔
تعارف کا خلاصہ
بدر صاحب کی ہمہ گیر شخصیت کا مختصر تعارف اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ * قیام جماعت سے پہلے مولانا مودودی سے تعلقات۔ *قیام پاکستان سے پہلے جماعت کے رکن بن گئے۔ طویل عرصہ ضلع مظفر گڑھ کے امیر رہے اور سارے ضلع میں جماعت کی تنظیم قائم کی۔ * مولانا مودودی کی امارت سے لے کر قاضی حسین احمد کی امارت تک مرکزی شوری کے رکن رہے۔ * جماعت اسلامی پنجاب کی مجلس شوریٰ کی رکنیت کے ساتھ مولانا فتح محمد مرحوم (امیر صوبہ) کے نائب امیر رہے۔ * مستند عالم دین اور جدید علوم پر دسترس۔ * قادر الکلام شاعر اور بے مثال خطیب۔ * بڑوں اور چھوٹوں کے یے سراپا شفقت۔ *جماعت کی تاریخ کے حافظ اور ہر مجلس کے روح رواں۔ * خوش مزاجی۔ مہمان نوازی اور اپنائیت کا مجسم پیکر۔
ہم مولانا محترم کو مقصد حیات کے مطابق قابل رشک اور قابل تقلید زندگی کی صدی پوری کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعا کر تے کہ اللہ تعالیٰ مولانا کی خدمات کو قبول فرمائیں اور ہم سب کو مولانا کے قشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔