گزشتہ دنوں(13،14دسمبر) بلوچستان کی ساحلی پٹی پر اہم نوعیت کی سرگرمیاں ہوئیں۔ یہ سرگرمیاں ترقیاتی اور دفاعی تھیں۔ دونوں کا تعلق چین پاکستان اقتصادی راہداری سے تھا۔ پہلی تقریب13دسمبر کو ساحل گوادر پر سی پیک کی میری ٹائم سیکورٹی کے لیے ٹاسک فورس88 سے متعلق تھی۔ پاکستان نیوی نے اس ٹاسک فورس کا افتتاح کیا۔ اس تقریب میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیئرمن جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل زبیر حیات، پاکستان نیوی کے سربراہ ایڈمرل ذکاء اللہ، ایئر چیف سہیل امان، وزیراعلیٰ بلوچستان، وزراء اور چینی حکام نے شرکت کی۔ یقیناًاس اہم نوعیت کی تقریب پر ہمسایہ ملک اور اُن قوتوں کی نظریں جمی ہوں گی جو نہیں چاہتیں کہ پاکستان جدت اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ پاکستان ایک لمبے عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بعد اس ملک کے لیے خطرات و مشکلات کا ایک نیا در کھل چکا ہے۔ چین بڑے پیمانے پر پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کی پالیسی و منصوبہ بندی پر کاربند ہے۔ اس ضمن میں اس کی ہر ممکن کوشش ہوگی کہ گوادر کے راستے تجارت کو محفوظ بنایا جائے۔ چین اقتصادی طور پر آگے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ تعلق اور دوستی کے اس انداز اور نیت سے پاکستان کو پوری طرح اور بڑی ایمان داری سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ماضی میں پاکستان امریکی دوستی کے سراب میں بہت نقصان اٹھا چکا ہے جس سے اِس وقت بھی ملک دوچار ہے۔ پاکستان کے اندر امریکی افواج عملاً لمبا عرصہ موجود رہیں۔ اہم ایئر پورٹ ان کے تصرف میں تھے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان ساتھ نہ دیتا تو افغانستان کے اندر امریکی مقاصد کا پورا ہونا ناممکن تھا۔ مگر جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا تو پاکستان کو نظرانداز کرکے بھارت کو گلے لگایا۔ یوں پاکستان کے اندر امن وامان کا مسئلہ انتہائی گمبھیر ہوگیا۔ یہاں تک کہ ’’جی ایچ کیو‘‘ پر بھی دہشت گرد حملہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ افغانستان سے منسلک پاکستان کی سرحدیں غیر محفوظ ہوگئیں۔ جبکہ چین کے مقاصد فی الوقت سیاسی اور دفاعی نہیں ہیں۔ وہ معاشی اور اقتصادی تعلق استوار رکھے ہوئے ہے، چنانچہ حکومتِ پاکستان کو آزمائش کی اس گھڑی میں سرخرو ہونے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ ضروری ہے کہ ملک کے اندر افہام وتفہیم اور اتفاقِ رائے کا ماحول یقینی بنایا جائے جہاں کسی بھی صوبے کی حق تلفی نہ ہو۔
گوادر بندرگاہ کی مکمل فعالیت کے بعد گوادر اور قرب و جوار کے علاقوں میں ایک نئی دنیا بس جائے گی۔ ایسے میں وہاں کی آبادی کے مفادات ہر چیز پر مقدم ہونے چاہئیں۔ کہا گیا ہے کہ سی پیک منصوبے سے 2030ء تک سات لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ یہ سوال اہم ہے کہ یہ سات لاکھ ملازمتیں کن کو دی جائیں گی؟ بلوچستان حکومت کو صاف شفاف اور واضح مؤقف اپناکر صوبے اور یہاں کے عوام کے جائز حق کے لیے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ سی پیک اور گوادر بندرگاہ کے ثمرات سے صوبہ پوری طرح مستفید ہو۔ یقیناًبیرونی سازشوں اور تخریب کاری کا اسی صورت میں ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکتا ہے کہ اس جنگ میں صوبے کے عوام اور اہل الرائے تن، من دھن سے شریک ہوں۔ الغرض برّی راستوں کے ساتھ بحری تجارتی راہداری کی حفاظت کی خاطر پاک بحریہ نے خصوسی سیکورٹی فورس تشکیل دے دی۔ یہ 88 ٹاسک فورس جاسوس طیاروں، ڈرونز، جنگی جہازوں، جدید ہتھیاروں اور آلات سے لیس ہوگی۔ ٹاسک فورس88 اور اقتصادی راہداری اسپیشل سیکورٹی ڈویژن مشترکہ طور پر سیکورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔ گوادر بندرگاہ اور بحری راہداری میں پاک بحریہ کے فریگیٹس، فاسٹ اٹیک کرافٹس، ڈرونز تعینات ہوں گے۔ پاک میرینز کے خصوصی دستے گوادر بندرگاہ اور اطراف کی سیکورٹی پر تعینات ہیں۔ حکومتِ چین نے پاکستان کو تیز رفتار پیٹرولنگ کشتیاں فراہم کی ہیں۔ یہ کشتیاں اس سیکورٹی فورس کا حصہ بنیں گی۔ گویا پاکستان نے چین کی بدولت سیاست و ترقی کے ایک نئے سفر کا آغاز کردیا ہے۔ گوادر جیسا کہ بتایا جاتا ہے، مختلف بڑے منصوبوں کی تشکیل کے بعد ایک جدید اور بین الاقوامی شہر ہوگا۔ اس پیش رفت کو دیکھتے ہوئے ناقدین بھی مستقبل کے روشن اور بدلتے منظرنامے کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کے اندر سے تو بعض حلقوں نے کوئٹہ کے بجائے نئے صوبائی دارالحکومت کے قیام کی تجویز پیش کی ہے، بلکہ لابنگ کا آغاز کردیا ہے جو اس بات کا اعتراف ہے کہ گوادر بندرگاہ اور اس سے جڑے بڑے منصوبے خواب نہیں حقیقت بن چکے ہیں۔ یہ حضرات گوادر یا اس کے قریب کسی علاقے میں صوبائی دارالحکومت قائم کرنے کی جانب توجہ دلارہے ہیں۔ جب نواب اسلم رئیسانی نے اپنے دورِ وزارت عُلیا میں گوادر کو سرمائی دارالحکومت قرار دیا تب بھی کوئٹہ سے مستقلاً جان چڑانے کی رائے سامنے آئی تھی۔ گویا یہ رائے بلوچستان کو عملاً دو حصوں میں تقسیم کرنے کی ہے۔
دوسری تقریب14دسمبر کو ضلع کیچ (تربت) کے علاقے بالگتر میں منعقد ہوئی جہاں وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے این اے 85 سوراب ہوشاب شاہراہ کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری، سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی اس موقع پر موجود
(باقی صفحہ 49 پر)
تھے۔ 448 کلومیٹر طویل شاہراہ پر کام 22 ارب روپے کی لاگت سے سوا دو سال میں مکمل ہوا۔ یہ شاہراہ بھی گوادر کو نیشنل ہائی وے سے ملائے گی۔ بقول وزیراعظم، اس شاہراہ کی تعمیر سے گوادر بندرگاہ نیشنل ہائی وے سے منسلک ہوجائے گی اور وسطی ایشیا تک رسائی کا یہ سب سے کم ترین فاصلہ ہے۔ یہ شاہراہ رابطے اور سی پیک کا اہم حصہ ہے۔ اس دوران وزیراعظم نے ہوشاب آواران لسبیلہ روڈ کی تعمیر اور پنجگور سے پروم تک 40کلومیٹر سڑک کی تعمیر کا اعلان بھی کیا۔ وزیراعظم کو13 دسمبر کو پہنچنا تھا، تاہم بتایا گیا کہ وہ دھند کی وجہ سے سفر نہ کرسکے۔ اس شاہراہ کے افتتاح کے بعد میاں نوازشریف کو پشین آنا تھا جہاں کے معروف ریسٹ ہاؤس میں پشین کے قبائلی عمائدین سے خطاب بھی کرنا تھا اور رات اسی ریسٹ ہاؤس میں بسر کرنا تھی۔ اس ضمن میں تیاریاں بھی کرلی گئی تھیں۔ ریسٹ ہاؤس کا تمام فرنیچر تبدیل کرکے نیا لایا گیا۔ پردے، کارپٹ تبدیل کیے گئے۔ ریسٹ ہاؤس اور اس سے متصل سرکاری عمارتوں کو بھی رنگ و روغن کیا گیا۔ نئے قیمتی گیس ہیٹر رکھ دیئے گئے۔ یعنی اس قیام پر70لاکھ روپے کے قریب لاگت آئی اور رات کے عشائیہ پر بھی لاکھوں کا خرچہ آیا جو ضائع ہوگیا۔ البتہ ریسٹ ہاؤس کی تزئین و آرائش پر آنے والا خرچہ درست جگہ ہوا۔ وزیراعظم کی آمد نہ ہوتی تو اس تاریخی ریسٹ ہاؤس کو کون پوچھتا! ضروری ہے کہ وزیراعظم وقت نکال کر پشین کا دورہ بھی کریں۔