اب تک تو امریکہ، روس، برطانیہ اور اسرائیل، یا یوں کہیے کہ صلیبی و صہیونی اتحاد باقاعدہ ایجنڈے، منصوبے اور مشن کے تحت عالم اسلام کو تاراج کرتا آیا تھا۔ جارج بش، ٹونی بلیئر، بورس یلسن، پیوٹن، میلاسووچ اور ایریل شیرون جیسے بھیڑیے مسلمانوں کے لیے نفرت کی علامت تھے، مگر عراق پر امریکی حملے کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں جو خونیں کھیل شروع ہوا اور شام کے شہر حلب کی تباہی کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچا، اُس نے امتِ مسلمہ کو اس کے دشمنوں کے ساتھ کھڑے ایک اور کردار سے بھی متعارف کرادیا۔
اس بحث میں جائے بغیر کہ حلب میں شہریوں پر آسمان سے روسی جنگی طیارے کلورین بم برسا رہے تھے اور زمین پر ایرانی حمایت یافتہ اپنی ملیشیاؤں اور حزب اللہ کے کارندوں نے کشت و خون کا بازار گرم کیا ہوا تھا، ہمارا سوال یہ ہے کہ جب شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا، تمام اسپتال تباہ ہوگئے، مریض اور ڈاکٹر خاک ہوگئے، عسکریت پسند علاقے سے انخلا پر راضی ہوگئے اور روس پر ترکی کے دباؤ کے نتیجے میں شہریوں و جنگجوؤں کے انخلا کا معاہدہ طے پاگیا تو پھر ایران نے اپنی ملیشیاؤں کے ذریعے معاہدے کو کم از کم تین بارکیوں ناکام بنایا؟ جنگ بندی کے باوجود تاخیری حربوں کی آڑ میں کیوں نہتے شہریوں اور زخمیوں کو لے جانے والی ایمبولینسوں کو نشانہ بنایا گیا؟ اور کیوں عورتوں اور بچوں کو زندہ جلایا گیا؟ یہ بات طے ہے کہ اگر روس پر ترکی کا دباؤ نہ ہوتا تو شاید ہی حلب میں محصور ہزاروں شہری وہاں سے نکل کر محفوظ مقام پر پہنچ سکتے۔ اس سے پہلے حلب پر اسدی افواج کے قبضے سے قبل جب علاقے سے آبادی کا انخلا شروع ہوا تو چن چن کر مردوں اور لڑکوں کو غائب کیا گیا۔ کیا ایرانی آیت اللہ علی خامنہ ای اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ یہ بتا سکتے ہیں کہ آخر دنیا کا کون سا مذہب، کون سا عقیدہ نہتے شہریوں کو اس بے دردی سے نشانہ بنانے کی تعلیم دیتا ہے؟ حلب میں کھیلے گئے خونیں کھیل کے بعد داعش، ایران، روس اور حزب اللہ میں آخرکیا فرق رہ گیا؟ داعش کے خلاف نام نہاد جنگ لڑنے والی طاقتیں آخر خود کس طرح داعش سے مختلف ہیں؟
حلب میں بشارالاسد اور ایران کو جو کامیابی ملی وہ دراصل روسی جنگی طیاروں کی مرہونِ منت ہے۔ اپوزیشن گروپ مسلسل یہ مطالبہ کرتے رہے کہ انہیں اینٹی ایئرکرافٹ گنیں فراہم کردی جائیں تو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں دیر نہیں لگے گی۔ مگر امریکہ کی جانب سے عائد پابندی کے باعث شامی اپوزیشن کے حامی ممالک یہ قدم نہ اٹھا سکے۔ حلب دراصل ابتدا سے ہی شام پر حکمراں اقلیتی نصیری فرقے کے حکمران طبقے کے خلاف مزاحمت کا گڑھ رہا ہے۔ جب قاتل بشارالاسد کا ظالم باپ حافظ الاسد شام کا حکمران تھا تو اس نے بھی حلب کے شہریوں پر ایسے ہی مظالم ڈھائے تھے۔ حافظ الاسد نومبر 1970ء میں ملک کی صدارت پر قابض ہوا تھا۔1980ء کی دہائی کے آغاز میں جب شام کے مسلمانوں نے بعث پارٹی کے مظالم سے تنگ آکر اُس کے ناجائز اقتدار کے خلاف بغاوت کی تو شامی افواج نے اُس وقت بھی طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا تھا۔ سابق امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کے الفاظ میں:
’’1984ء میں جب اخوان المسلمون کے نوجوانوں نے اسد کی بعث پارٹی کے ذلت آمیز طرزِ حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے آواز بلند کی تو اس کے بھائی رفعت اسد کی نگرانی میں آپریشن شروع ہوا جس میں شام کے شہروں حلب، جسر اور انطاکیہ وغیرہ کو نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ حماہ شہر جو اخوان المسلمون کے عابدوں اور زاہدوں کا مرکز تھا، کا محاصرہ کیا گیا، اور پھر ہوائی جہازوں، توپوں اور میزائلوں سے گولہ باری کرکے پورے شہر کو، شہریوں کے ساتھ کھنڈرات اور قبروں کا ڈھیر بنادیا گیا۔ ہزاروں نوجوانوں کو سنگینوں سے چھلنی اور گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ عفت مآب اخوانی بہنوں کی عصمت دری کی گئی اور انہیں جیلوں میں سڑنے کے لیے پھینک دیا گیا۔ جیلوں میں ان پاکباز خواتین پر ہولناک مظالم ڈھائے گئے۔‘‘ (’’مشاہدات‘‘ از میاں طفیل محمد)
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج اگر علی خامنہ ای بشار الاسد کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں تو اُس وقت خمینی صاحب ظالم حافظ الاسد کی حمایت میں سرگرم تھے۔
دراصل سرزمینِ شام ہمیشہ سے ہی اپنے اندر ایک خاص کشش رکھتی آئی ہے، مدینہ کے بعد خلافت کا دوسرا دارالخلافہ دمشق تھا، صلیبی حملہ آوروں کے خلاف مدافعت کا مرکز بھی یہی خطہ تھا، اسلامی دنیا میں دارالحدیث کے نام سے پہلی عمارت بھی شام میں تعمیر کی گئی۔ شام کی خاک میں کئی جلیل القدر صحابہ دفن ہیں جن میں حضرت بلالؓ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ اور سیف الاسلام حضرت خالد بن ولیدؓ اور دیگر اصحاب شامل ہیں۔ حضرت سیدہ زینب کا مزار بھی یہیں ہے۔ تاریخی اہمیت کی حامل جامع مسجد اموی آج بھی اموی دور کی یاد دلاتی ہے۔ جامع مسجد اموی کے نزدیک ہی عظیم جرنیل سلطان صلاح الدین ایوبی آسودۂ خاک ہیں۔ 20ویں صدی میں ملتِ اسلامیہ کی رہنمانی کرنے والی چند عظیم شخصیات مثلاً علامہ رشید رضا اور مصطفی سباعی کا تعلق بھی شام سے ہی تھا۔ علامہ شکیب ارسلان بھی شام سے عثمانی پارلیمنٹ کے رکن رہے۔
معروف نومسلم اور عظیم اسکالر محمد اسد نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ میں دمشق کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
’’اہلِ دمشق کی زندگی میں مجھے ایک روحانی سکون نظر آیا، باہم ایک دوسرے کے ساتھ ان کا جو رویہ اور معاملہ کرنے کا طریقہ تھا اس میں یہ روحانی سکون اور باطنی طمانیت بخوبی دیکھی جاسکتی تھی۔ جماعت اسلامی کے بانی سیدابوالاعلیٰ مودودی جب پاکستان میں زیر عتاب تھے تو 1956ء میں اخوانی رہنما سعید رمضان کی دعوت پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے دمشق پہنچے تو ایئرپورٹ پر استقبال کے لیے شام کے وزیراعظم ہبری العلی بذاتِ خود تشریف لائے۔‘‘
معروف عالم دین مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنے سفرنامے ’’دریائے کابل سے دریائے یرموک تک‘‘ میں دمشق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حرمین شریفین کے بعد اگر کسی شہر کو اپنا محبوب ترین شہر کہہ سکتا ہوں تو وہ دمشق ہی ہے، میں اس کے بہت سے محلوں، سڑکوں اور باغات و مناظر سے واقف ہوں، دمشق میں میرے عزیز ترین دوست و احباب تھے جن سے خاص فکری اتحاد اور مناسبت تھی، اور دمشق کا قیام ہمیشہ میرے لیے خوشگوار اور مسرت بخش ثابت ہوا، دل کو سکون اور روح کو راحت نصیب ہوئی، میں جب شوقیؔ کا یہ شعر پڑھتا تو اس میں کوئی مبالغہ نظر نہ آتا: اللہ تعالیٰ پر میرا ایمان ہے، میں اس کی جنت کو مستثنیٰ قرار دے کر کہتا ہوں کہ دمشق سراپا باغ وبہار اور روح و ریحان ہے۔‘‘
تاہم بعث پارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد آپ دوبارہ 1970ء کی دہائی میں شام گئے تو منظر کافی حد تک تبدیل ہوچکا تھا۔ آپ لکھتے ہیں:
’’ہم کو دو نئی تبدیلیوں کا احساس ہوا، ایک تو یہ کہ لوگوں کی گفتگو میں رازداری اور بڑھی ہوئی احتیاط محسوس ہوئی جیسے ہر آدمی کو یقین ہو کہ اس پر پہرہ ہے اور اس کی ہر بات ریکارڈ ہورہی ہے۔ دوسری تبدیلی تھی بے محابا بے پردگی، وسیع پیمانے پر عجیب و غریب قسم کا جنسی اختلاط، راستوں اور سڑکوں پر ہر طرف فحش تصاویر اور جنسی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے اشتہارات چسپاں اور آویزاں تھے، ہم کو اندازہ ہواکہ جو شہر اپنی قدامت پسندی اور وضع داری کے لیے مشہور تھا، وہ اب آزادی، بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط میں بہت آگے جاچکاہے۔‘‘
بشارالاسد حکومت کے خلاف جاری حالیہ تحریک کا آغاز 2011ء میں پُرامن مظاہروں سے ہوا تھا۔ بشار الاسد نے پُرامن مظاہرین کے مطالبات پر کان دھرنے اور اصلاحات کا عمل شروع کرنے کے بجائے انہیں ماضی کی طرح طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی، تاہم اِس بار یہ کوشش زیادہ کامیاب نہ رہی اور جلد ہی ملک میں مسلح تصادم شروع ہوگیا۔ اسد مخالف آبادی کو خلیجی ممالک کی جانب سے اسلحہ کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہوگیا، جب کہ ایران اور حزب اللہ بشار کی ناجائز حکومت کو بچانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ گزشتہ سال کے وسط تک صورت حال یہ تھی کہ شام کا 80 فیصد رقبہ بشارالاسد کے کنٹرول سے نکل چکا تھا، اس مرحلے پر شامی حکومت نے ایران اورروس کو مداخلت کی دعوت دی۔ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنی سرزمین پر واقع فضائی اڈے روسی جنگی طیاروں کو شامیوں کو نشانہ بنانے کے لیے بڑی فراخدلی سے پیش کردیے۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے شام میں کارروائی کے آغاز سے پہلے اسرائیلی و امریکی قیادت کو اعتماد میں لیا۔ اسی تناظر میں پاپائے روم (رومن کیتھولک) اور روسی اسقف اعظم (آرتھوڈوکس چرچ)کے درمیان کیوبا میں تاریخی ملاقات ہوئی، ان دونوں شخصیات کے درمیان ایک ہزار سال میں یہ پہلی ملاقات تھی۔ عالمی مبصرین کے مطابق ملاقات کی پشت پر دراصل سیاسی عزائم تھے، تاہم کلیسا کے نمائندوں کے مطابق بات چیت کا مرکزی موضوع’’مشرق وسطیٰ میں عیسائیوں پر مظالم‘‘ تھا۔ پوپ فرانسس اس سے پہلے روسی صدر سے بھی متعدد ملاقاتیں کرچکے تھے۔ یاد رہے کہ اسقف اعظم ولادی میر پیوٹن کو خدا کا معجزہ قرار دیتے ہیں۔
بہرحال گزشتہ سال روس کی مداخلت نے شام میں توازن ایک بار پھر تبدیل کردیا۔ میدانِ جنگ میں اسد افواج، ایرانی سرپرستی میں لڑنے والی ملیشیاؤں اور حزب اللہ کو شکست کا سامنا تھا، لیکن روسی جنگی ماہرین اور بمبار طیاروں کی معاونت ملنے کے بعد دوبارہ کھوئے ہوئے علاقے واپس حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ ادھرروس کی شام میں مداخلت نے روس ترکی تعلقات بھی نہایت خراب کردیے تاہم جب 15جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد ترک حکومت کے امریکہ اور یورپ سے بھی تعلقات کشید ہ ہوگئے تو اس کے پاس روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے سوا کوئی راستہ نہ بچا۔
حلب کی صورت حال پر فری سیرین آرمی کے سربراہ نے ترک اخبار ’ینی شفق‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایرا ن کے عزائم ابتدا سے ہی یہ رہے کہ حلب میں شہریوں کو قتل کیا جائے یا پھر انہیں بے گھر کردیا جائے۔ شہریوں کے قتلِ عام میں مرکزی کردار بھی ایران کا رہا ہے اور وہ اپنے مفادات کے لیے فرقہ واریت کا کارڈ کھیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی نے ہمیں متحد رکھنے اور توازن قائم رکھنے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں مگر کثیرالملکی مداخلت اور تعلقات کے پیچیدہ جال کے سبب یہ مدد کافی ثابت نہیں ہوسکی۔ اگر بین الاقوامی برادری ہمیں اینٹی ایئرکرافٹ گنیں فراہم کردے تو ہم چھیماہ میں کھوئے ہوئے علاقے واپس حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘
حلب میں کامیابی کے بعد اب شامی حکومت ایرانی و روسی مدد سے ادلب پر حملے کی تیاری کررہی ہے جہاں جنگجوؤں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ شام میں متحرک تمام گروپ اب ایک کمانڈ کے تحت متحد ہوچکے ہیں اور انہوں نے باہم لڑنے یا الگ الگ لڑنے کے بجائے متحد ہوکر حکومت سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پانچ دن کی بات چیت کے بعد قائم کی گئی تنظیم اسلامی کمیٹی فار سیریا میں 14 گروپ شامل ہیں۔گزشتہ پانچ سال سے جاری خانہ جنگی اب تک 5لاکھ افراد کو نگل چکی ہے،50لاکھ سے زائد افراد ملک چھوڑ چکے ہیں، مگر اقوام عالم صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں۔ ملاّعمر، صدام حسین اور معمر قذافی کو اقتدار سے بے دخل کرنے والی طاقتیں بڑے آرام سے شام میں اسدی افواج، مسلح تنظیموں اور روسی مظالم کا نظارہ کررہی ہیں، انہیں بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی کوئی جلدی نہیں۔
nn