162ر بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا تنازع ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا چلا جارہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان آبی تنازعات کے حل کی بہترین مثال قرار پانے والا سندھ طاس معاہدہ بھارت کے رویّے کے باعث غیر مؤثر ہوتا جارہا ہے۔ ورلڈ بینک کی صورت میں اس معاہدے کے عالمی ضامن بہت صفائی کے ساتھ دنیا کے پیچیدہ سیاسی اور عسکری تنازعے میں گھرے دو ملکوں کے درمیان سے غائب ہونے لگے ہیں۔ ماضی میں اقوام متحدہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر تنازعے میں اسی رویّے کا مظاہرہ کیا تھا۔ مسئلہ کشمیر دہائیوں تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا حصہ رہا اور پورے شد ومد کے ساتھ عالمی ایوان میں زیربحث آتا تھا۔ ان میں کچھ قومیں پاکستان اورکچھ بھارت کے مؤقف کی حمایت کرتی تھیں، مگر تنازع اصل سیاق وسباق کے ساتھ موجود تھا۔ پھر1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد سوویت یونین کے شہر تاشقند میں دونوں ملکوں کے سربراہوں کو ایک میزکے گرد بٹھاکر اقوام متحدہ غائب ہوگئی تھی۔ یوں اقوام عالم نے یہ کہہ کر اس مسئلے سے جان چھڑا لی تھی کہ اب پاکستان اور بھارت باہمی طور پر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ اس کے بعد سے مدت گزر گئی مگر پاکستان اور بھارت مسئلہ حل کرسکے اور نہ وقت کی طوالت اور بہاؤ مسئلے کی شدت اور حدت کو کم کرسکا۔ اس کے بعد بھی دونوں ملک کشمیر کی سرزمین پر اُلجھتے اور جھگڑتے چلے آرہے ہیں۔ اب یوں لگتا ہے کہ عالمی طاقتیں کچھ یہی رویہ پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں سے چلے آنے والے آبی تنازعے کے بار ے میں اپنا رہی ہیں۔ یہ تاثر سندھ طاس معاہدے کے عالمی ضامن ورلڈ بینک کے حالیہ رویّے سے بن رہا ہے، جس کے بعد بظاہر تو سندھ طاس معاہدے کے مستقبل کے آگے سوالیہ نشان کھڑا ہورہا ہے مگر درحقیقت یہ خطے کے مستقبل کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ تمام ماہرین اور محققین اس بات پر متفق چلے آئے ہیں کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازع لاینحل ہوتا چلا گیا تو اس کا نتیجہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک تباہ کن جنگ کی صورت میں برآمد ہوگا کیونکہ پانی ایک ایسی بنیادی انسانی ضرورت ہے جس کے بغیر افراد اور قوموں کے لیے زندگی اور موت کا فاصلہ اور حد بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔
ورلڈ بینک نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کرانے کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے دونوں کو اپنے تنازعات جنوری تک حل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت میں کشیدگی ہمہ جہتی ہے۔ یہ کشیدگی جہاں اقوام متحدہ کے سفارتی محاذ پر جاری ہے، وہیں کنٹرول لائن پر فوجی محاذ پر بھی جاری ہے۔ اس کشیدگی اور آویزش کا ایک اور اہم مورچہ پانی کی جنگ ہے۔ بھارت بہت آہستہ روی کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنانے میں مصروف تھا، جس کی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا جاری سلسلہ تھا۔ بارہا عالمی اداروں نے بھی ان تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی۔ یوں تو بھارت دریائے نیلم پر کشن گنگا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے نام سے 330 میگا واٹ اور دریائے چناب پر رتلے پاور پروجیکٹ کے نام سے 850 میگاواٹ کے بجلی گھر تعمیر کررہا ہے، مگر نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد تو پاکستان کا پانی روکنے کی کوششوں میں دیدہ دلیری آگئی اور بات یہاں تک جا پہنچی کہ مودی نے عالمی طاقتوں کی گارنٹی کے نتیجے میں 1960ء میں سندھ طاس معاہدے کے نام سے طے پانے والے پانی کی تقسیم کے معاہدے کو ختم کرنے کی باتیں برسرعام کہنا شروع کردیں۔ مودی نے کہا کہ جس پانی پر بھارت کے کسان کا حق ہے وہ پانی کسی کو نہیں دیا جائے گا۔ نریندر مودی کے اس دھمکی آمیز طرزِبیان سے پاکستانی قیادت کا ماتھا ٹھنکا اور بھارت کی آبی جارحیت کا خوف حقیقت میں ڈھلتا نظر آنے لگا۔ پاکستان نے دوٹوک انداز میں کہا کہ بھارت یک طرفہ طور پر پاکستان کے حصے کا پانی نہیں روک سکتا۔ اس کے باوجود بھارت بہت سے چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرنے میں مصروف ہے اور اس معاملے میں پاکستان کے اعتراضات کو پرِکاہ برابر اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ پانی کی کشمکش کا ایک نیا موڑ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ اور فیصلہ سازی کے لیے ایک ٹاسک فورس کا قیام ہے۔ اس ٹاسک فورس کا کام چھ دریاؤں پر قائم کیے جانے والے ڈیموں اور دیگر کاموں کا جائزہ لینا ہے۔ ٹاسک فورس کی سربراہی نریندر مودی کے پرنسپل سیکرٹری نرپیندرا مشرا کریں گے، جبکہ ارکان میں وزیراعظم کے قومی سلامتی سے متعلق مشیر اجیت دووال، سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر اور ماحولیات اور پانی کے سیکرٹری شامل ہوں گے۔ یہ ٹاسک فورس تمام اسٹرے ٹیجک اور پالیسی فیصلے کرنے کے علاوہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھی فیصلے کے اختیار کی حامل ہوگی۔
اب بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان نے آبی تنازعے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ پانی کا موجودہ تنازع اگر وقتی طور پر حل بھی ہوجائے تو اب دونوں ملکوں میں بداعتمادی کا جو عنصر پیدا ہوگیا ہے اس میں حقیقی کمی کا کوئی امکان نہیں۔ بھارت نے اپنے عزائم اور ارادے واضح کردئیے ہیں کہ وہ پاکستان کے حصے کا پانی روک کر پاکستان کے لہلہاتے کھیتوں کو بنجر بنانے کا صرف خواب ہی نہیں دیکھتا بلکہ اس میں رنگ بھرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ پاکستان کو بھارت کے اس رویّے کو مدنظر رکھ کر طویل المیعاد حکمت عملی تشکیل دینا چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ پانی دونوں ملکوں کے درمیان ایک خوفناک تصادم کی بنیاد بن سکتا ہے۔