قوموں کی ترقی میں جامعات کا کردار کلیدی ہے، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہر شعبۂ زندگی میں جدید خطوط پر تحقیقکا کام ہورہا ہے، تعلیم کے ساتھ تحقیق کا معیار بھی بلند ہوا ہے اور سوچنے و غورو فکر کرنے کا عمل تسلسل سے جاری بھی ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی جامعات انحطاط اور تنزلی کا شکار ہیں اور یہاں تعلیم و تحقیق کے سوا سب کام ہورہا ہے۔ اس کی ذمہ داری صرف ان جامعات پر عائد نہیں ہوتی بلکہ ریاست کی سطح پر بھی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایسے میں کہیں سے سوچنے اور غوروفکر کرنے کے ساتھ اپنے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی کسی سعی کی خبر ’’بڑی خبر‘‘ ہوتی ہے لیکن وہ بریکنگ نیوز کا حصہ نہیں بنتی۔ آج کے میڈیا کے تیز رفتار فروغ پر غالب کی زبان میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
اسی پس منظر میں علمی، تحقیقی، تعلیمی اور مالی بحران کا شکار جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے زیراہتمام ابلاغ عامہ کے نصاب کو بہتر بنانے کے لیے بین الاقوامی میراتھون دو روزہ کانفرنس بعنوان ’’پاکستان میں میڈیا کی تعلیم، تحقیق اور میڈیا انڈسٹری‘‘ آرٹس آڈیٹوریم میں منعقد کی گئی جو کہ اپنے موضوع اور درجنوں ذیلی موضوعات کے حوالے سے ایک منفرد اور اہم کانفرنس تھی، جس کا سہرا حال ہی میں شعبہ ابلاغ عامہ کی بننے والی نئی چیئرپرسن ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر کے سر جاتا ہے کہ جن کی قیادت میں اساتذہ اور طلبہ نے ایک طویل عرصے کے بعد شعبے میں وقت کی ضرورت کے مطابق کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا۔ اس سے قبل آخری کانفرنس ’’میڈیا قومی کانفرنس‘‘ کا انعقاد شعبے کے سابق چیئرمین ڈاکٹر طاہر مسعود کی سربراہی میں ہوا تھا جس کے بعد سے ایک جمود طاری تھا جو اب ٹوٹ چکا ہے اور شعبے کی ظاہری حالت بھی بتدریج بہتر ہورہی ہے، جس میں شاہد آفریدی اور شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کا بھی اہم کردار ہے۔
بین الاقوامی میراتھون کانفرنس ’’پاکستان میں میڈیا کی تعلیم، تحقیق اورمیڈیا انڈسٹری‘‘ میں ملک بھر کے علاوہ بیرونِ ملک سے تعلق رکھنے والے نامور ماہرین اور معروف صحافی شریک ہوئے۔ اس دو روزہ کانفرنس میں 17 پروگرام رکھے گئے تھے جو بیک وقت تین مقامات پر ہورہے تھے۔کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی کے ڈین اور پروفیسر ڈاکٹرلارنس پنٹک نے کہا کہ جمہوریت کو بچانے کا واحد طریقہ آزادئ صحافت ہے، صحافت ایک جنگی ہتھیار بن چکا ہے، عرب انقلاب سوشل میڈیا اور صحافیوں کی انفرادی کوششوں سے وقوع پذیر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ صحافی کو صحافتی اقدار کے مطابق صحافت کرنی چاہیے۔ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر نے کہا کہ میڈیا سنسنی اور ریٹنگ کی دوڑ میں اکثر بعض اہم اور حساس خبروں کو بغیر تصدیق کے نشر کردیتا ہے جو بعد میں غلط ثابت ہوتی ہیں، میڈیا اور صحافت کے تعلیمی اداروں پر قومی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جدید عصری تقاضوں کے مطابق نصاب ترتیب دیں اور سالانہ بنیادوں پر نصاب میں تبدیلی اور ترامیم پر غورکریں۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ارشد علی نے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ہر تعلیمی شعبے کے لیے پالیسیاں مرتب کررہا ہے جس میں نیشنل ریسرچ پروگرام بھی شامل ہے، جس کے لیے تاحال تین ہزار پروپوزل موصول ہوچکے ہیں اور اس کا بجٹ 3 ارب روپے ہے، ایچ ای سی ملک میں تدریسی اور تحقیقی معیار کو بلند کرنے کے لیے ہمہ جہت مصروف ہے کیونکہ کسی بھی مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے کے لیے تعلیم اور تحقیق ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ دانش اثاثہ ایکٹ پر کام کی ضرورت ہے تاکہ علمی سرقہ روکا جاسکے۔ شعبے کی چیئرپرسن ڈاکٹر سیمی نغمانہ کا کہنا تھا کہ جرنلزم کے تعلیمی اداروں اور میڈیا ہاؤسز کو ایک دوسرے سے بہت شکایات رہتی ہیں، میڈیا ہاؤسز کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ طلبہ کو وہ نہیں پڑھایا جارہا جس کی مارکیٹ میں طلب ہے، اور میڈیا ہاؤسز سے بھی میڈیا کے تعلیمی اداروں کو کچھ شکایات رہتی ہیں اور مذکورہ کانفرنس کا مقصد بھی اس خلا کو پُر کرنا ہے۔ کانفرنس کے رپورٹنگ سیشن سے بحیثیت صدر خطاب میں معروف سینئر صحافی محمود شام کا کہنا تھا کہ میڈیا اداروں کے مالکان صحافتی اصولوں اور قواعد و ضوابط سے آشنا نہیں ہیں، ذرائع ابلاغ کے مقاصد کو مسخ کرنے میں صرف سیاست دان ہی نہیں بلکہ دیگر دفاعی ادارے بھی شامل ہیں۔ فہیم الدین زمان نے کہا کہ تفتیشی رپورٹنگ کے لیے صحافیوں کو اداروں کے قوانین اور ضابطۂ اخلاق کا علم ہونا ضروری ہے، حقائق کے بغیر کسی خبر کو نشر اور شائع کرنا اخلاقی جرم ہے۔ صحافی رہنما اے ایچ خانزادہ نے کہا کہ موجودہ صحافت بنیادی ضوابط سے عاری ہے۔ جنگ گروپ سے وابستہ سینئر صحافی قیصر محمود کا کہنا تھا کہ صحافت کا تعلق محض کتابوں سے نہیں ہے، عملی صحافت کے لیے فیلڈ میں جانا ناگزیر حیثیت کا حامل ہے، تدریسی اداروں میں عملی صحافت کی مشق کرانے پر زور دیا جائے۔ کانفرنس کے ٹی وی براڈ کاسٹنگ، انٹرٹینمنٹ سیشن سے بحیثیت صدر خطاب میں ’ہم‘ ٹی وی کی ایم ڈی سلطانہ صدیقی نے کہا کہ عصرِ حاضر میں نیوز سے زیادہ انٹرٹینمنٹ چینلزکو بزنس مل رہا ہے، اور یہی ان کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پروفیسر شاہدہ قاضی کا کہنا تھا کہ ہمیں ڈراموں کے مواد کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈین ڈاکٹر عبدالسراج کا کہنا تھا کہ انٹرٹینمنٹ کے ذریعے گلوبلائزیشن اور مغربی ایجنڈے کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ سیشن سے گرین وچ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے چیئرمین خالد انعم کا کہنا تھا کہ ہم میڈیا کے ذریعے طلبہ کی اچھی تربیت نہیں کررہے۔کانفرنس کے ’’ریڈیو براڈ کاسٹنگ‘‘ سیشن سے خطاب میں ممتاز براڈ کاسٹر انیس منصوری کا کہنا تھا کہ آج ایف ایم میں جو کچھ ہورہا ہے درحقیقت لوگ اسے سننا چاہتے ہیں، ہم ابلاغ کے لیے زور دیتے ہیں کہ زبان وہی بہتر ہے جو آسانی سے لوگوں کی سمجھ میں آئے۔ جامعہ کراچی کے استاد اور براڈ کاسٹر انعام باری کا کہنا تھا کہ نئے زمانے کے باوجود اگر زبان و بیان میں خرابی ہوگی تو ابلاغ صحیح نہیں ہوگا۔ اسلام آباد ریڈیو پاکستان کے فخرعباس کا کہنا تھاکہ ریڈیو پاکستان الیکٹرانک میڈیا کی ماں کی حیثیت رکھتا ہے اور ہم اپنے لوگوں کی تربیت پر زور دیتے ہیں۔ کانفرنس کے رائے عامہ سیشن سے بحیثیت صدر خطاب میں ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا تھا کہ کارپوریٹ سیکٹر کے میڈیا میں آنے سے ریٹنگ کو میکنزم کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ معروف صحافی مظہر عباس نے طلبہ سے کہا کہ وہ ادارتی صفحہ ضرور پڑھیں، اس سے انہیں اپنی رائے قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ سینئر صحافی احمد حسن کا کہنا تھاکہ تجزیاتی صحافت کی مہارت کے لیے طلبہ کو مطالعے کا شوق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جامعہ جامشورو کے شعبہ ابلاغ عامہ کے صدر بدر سومرو نے کہا کہ صحافی رائے عامہ قائم کرتے ہیں، وہ جتنا اچھا بولیں گے اتنی اچھی رائے قائم ہوگی۔ کانفرنس کے ’’ورکنگ ان نیوز روم ‘‘ سیشن سے خطاب میں جنگ کے ایڈیٹر مدثر مرزا نے کہا کہ ابلاغ عامہ کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد نے صحافت کی ڈگری نہیں لی، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ معلوم کیا جانا ضروری ہے کہ تعلیم میں کہاں غلطی ہورہی ہے۔ ایکسپریس کے ایڈیٹر طاہر نجمی نے کہا کہ صحافت کا نظام تاریخ پر مبنی ہے، اس میں عملی صحافت کی ضرورت ہے۔ حمیر اشتیاق نے کہا کہ ٹیکنالوجی انسان کو صحافی نہیں بناتی، اس کا تعین سوچ کرتی ہے۔ کانفرنس کے سیشن ’’ٹی وی براڈکاسٹنگ نیوز‘‘ سے اطہر وقار عظیم، فرزانہ علی، فہد حسین اور سجاد میر نے بھی خطاب کیا۔
کانفرنس کے دوسرے روز ’’زبان، ثقافت اور میڈیا‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے اجلاس کے صدر رضا علی عابدی نے کہا کہ میڈیا زبان کے تحفظ اور اس کی ترویج میں بری طرح ناکام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالب علموں کو معیاری کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ چیف ایڈیٹر جسارت، سینئر صحافی اطہر ہاشمی نے جو فرائیڈے اسپیشل میں ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ کے عنوان سے زبان درست اور ٹھیک کرنے کی بھی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ سیکھنے کا عمل تمام عمر جاری رہتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ الیکٹرانک میڈیا نے اردو کو بگاڑنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، الیکٹرونک میڈیا کو اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے، لیکن ایسے میں اردو لکھنے والوں کو اچھی اردو لکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اسے انگریزی ملغوبے سے بچا کر رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ثقافت تبدیل ہورہی ہے اور بے ہنگم محاورے زبان میں شامل ہورہے ہیں۔ وسعت اللہ خان نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زبان معاشرے کی لسانی ڈی این اے ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ ناتجربہ کاری کے سبب الیکٹرونک میڈیا نے بولی اور زبان کا فرق ختم کردیا ہے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے کہا کہ اخبارات اور برقی ذرائع ابلاغ اردو زبان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ذرائع ابلاغ پر پیش کی جانے والی اردو زبان میں انگریزی الفاظ کے بے جا استعمال سے نئی نسل کی زبان متاثر ہوئی ہے۔ سینئر صحافی اور انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ آئی اے رحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں انسانی حقوق کا معاملہ ریاستی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ انسانی حقوق صرف آئینی اور عدالتی معاملہ نہیں، بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کو نصاب میں شامل کرکے ملک میں دیرپا امن قائم کیا جا سکتا ہے، میڈیا کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انسانی حقوق اور میڈیا کے نصاب کے موضوع پر ہونے والے اجلاس سے ڈاکٹر خالد عراقی (ڈین فیکلٹی برائے نظمیات)، ڈاکٹر الطاف اللہ (چیئرمین شعبہ ابلاغ عامہ، یونیورسٹی آف پنجاب)، تسنیم احمر (ڈائریکٹر عکس) اور مہوش علی (لیکچرار شعبہ ابلاغ عامہ سردار بہادر خان یونیورسٹی کوئٹہ) نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر خالد عراقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ میڈیا کے نصاب کو عملی بنیادوں پر ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر الطاف اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ صحافیوں کو اپنی ترجیحات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے ڈیکلریشن کے مطابق اپنے خیالات کو ترتیب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے لیے انسانی حقوق سے متعلق خبروں پر کام کرنا دشوار ہوتا ہے۔ انسانی المیے کی وجہ سے جذبات کو قابو میں رکھنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ صحافیوں کو انسانی حقوق سے متعلق معاملات پر کوریج کے وقت ایشوز کی میپنگ پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ تسنیم احمر نے اپنے خطاب میں کہا کہ صحافیوں اور میڈیا کے طالب علموں کو خواتین اور بچوں سے متعلق خبروں کی اشاعت میں محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا اور صحافت کے موضوع پر منعقد ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جاوید جبار نے کہا کہ سوشل میڈیا بہت بڑی نعمت ہے۔ اور اس کے بڑھتے ہوئے استعمال سے صحافت کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ ولی خان یونیورسٹی مردان کے شعبہ ابلاغ عامہ کے صدر پروفیسر شیراز پراچا نے اپنے خطاب میں کہا کہ انٹرنیٹ موجودہ صدی کی سب سے بڑی ایجاد ہے اور اس کو وہی اہمیت حاصل ہے جو پرنٹنگ پریس کو حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کے ماہر حسن خان نے کہا کہ آج کے دور میں خبر کا اہم ذریعہ فیس بک اور ٹوئٹر ہے، لیکن ہمیں درست اور غلط خبر میں فرق کرنا سیکھنا ہوگا، اسی طرح ہم سوشل میڈیا سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر متحرک اور اس پر گہری نظر رکھنے والے، جن کی تحقیق کا موضوع بھی سوشل میڈیا ہے ڈاکٹر اُسامہ شفیق نے کہا کہ نیو میڈیا کی بدولت ابلاغ کی دنیا میں حیرت انگیز انقلاب برپا ہوگیا ہے جس سے براہِ راست الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا متاثر ہوا ہے، سوشل نیٹ ورک نے لوگوں کو ابلاغ کی وہ صلاحیت فراہم کی ہے جس کے باعث روایتی میڈیا کا ایجنڈا سیٹنگ کا کردار کم ہوگیا ہے، اب لوگ کسی روایتی میڈیا کی تقلید کے بجائے اپنے ایجنڈے خود سیٹ کرسکتے ہیں اور ان کو ذرائع ابلاغ پر اجاگر کرسکتے ہیں۔ میڈیا کے اداروں میں ہونے والی تحقیق کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عرفان عزیز نے کہا کہ تحقیق کی صلاحیت طالب علموں کے لیے ہر طرح کے میڈیم میں ملازمت اختیار کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ کا نصاب میڈیا کے اداروں میں ہونے والی تحقیق کے لیے طالب علموں کو تیار کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف خان نے کہا کہ امریکہ میں بھی حساس موضوعات پر یونیورسٹیوں میں مباحثوں اور تحقیق پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں، اگر پاکستان میں بھی ایسا ہوتا ہے تو یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ ڈاکٹر ریاض شیخ نے کہا کہ سماجی علوم کے مضمون کے مندرجات ناقص ہیں۔ جبران پیش امام نے اپنے خطاب میں کہا کہ یونیورسٹیوں کو طالب علموں کو تحقیق سکھانی چاہیے۔ انڈسٹری اور یونیورسٹیوں کے درمیان تحقیق ایک رابطہ قائم کرسکتی ہے۔ ڈاکٹر نوید اقبال نے کہا کہ شعبہ میں پڑھایا جانے والا نصاب معیاری ہے، اصل معاملہ میڈیا کی انڈسٹری میں غیر اخلاقی اور غیر قانونی پریکٹس ہے۔ جیونیوز کے سینئر ایگزیکٹو پروڈیوسر جبران پیش امام نے کہا کہ جامعات کو چاہیے کہ وہ طلبہ میں ریسرچ کی صلاحیتوں کو فروغ دیں، میرا شو ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ ہمیشہ تحقیق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے لائف اسٹائل صفحے کے مدیر رافع محمود نے کہا کہ پاکستانی سینماؤں میں فلموں کی کمی ہے جبکہ بھارت بھی ہمیں اپنی فلمیں دینے پر آمادہ نہیں۔ پاکستانی حکومت نے بھارتی فلموں پر سطحی قسم کی پابندی نافذ کی ہوئی ہے۔ ڈاکٹرعرفان عزیز نے کہا کہ میڈیا کا نصاب طلبہ میں ریسرچ کی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں ناکام ہوچکا ہے۔ نصاب میں تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا انڈسٹری، مفکرین، اساتذہ، طلبہ اور سول سوسائٹی کے نمائندے اپنا اپنا کردار ادا کریں، انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کلیدی حیثیت حاصل ہوگی۔ پاکستان کے فلم ڈائریکٹر و پروڈیوسر جے ایم انصاری نے کہا کہ ہماری فلمی صنعت کینسر زدہ ہے اور تاحال آئی سی یو میں ہے، فلم بنانا ایک انتہائی خوبصورت عمل ہے مگر اس کو بیچنا سب سے مشکل عمل ہے۔ شعبہ ابلاغ عامہ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ محمود نے کہا کہ آرکائیوز کے بغیر تحقیق ناممکن ہے، جب تک طلبہ اور عوام کو آرکائیوز میسر نہیں ہوں گے اُس وقت تک تحقیقی معیار کو بہتر نہیں کیا جاسکتا۔ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آرکائیوز کی تعلیمی اور کمرشل بنیادوں پر فراہمی کو یقینی بنائیں۔ بابر ایاز نے کہا کہ کلاس رومز اور صنعتوں کے مابین فاصلوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ حبیب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فرام جی مینوالا نے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو فلم سازی میں بہت مشکلات درپیش ہوتی ہیں، کیوں کہ وہ دنیا کی پیچیدگیوں کے بارے میں نہیں سوچتے، ایک اچھا فلم ساز وہ ہوتا ہے جو دنیا، انسانی رویوں، رشتوں کی پیچیدگیوں اور مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اسکرپٹ تیار کرے۔ شعبہ کی چیئرپرسن ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر نے اختتامی اجلاس میں مختلف سیشن میں پیش کی جانے والی سفارشات پیش کیں تاکہ کانفرنس کی سفارشات کی روشنی میں پاکستان کی جامعات کے نصاب کو بہتر بنایا جاسکے۔
پاکستان میں ابلاغِ عامہ کے اساتذہ اور صحافیوں کے درمیان یہ اپنی نوعیت کا پہلا مکالمہ تھا۔ کانفرنس کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ تھی کہ اس میں طلبہ نے بھرپور سوالات کیے اور جن مقررین کی گفتگو سے وہ الجھن کا شکار ہورہے تھے اس پر اپنی رائے کا بھی احسن انداز میں اظہار کیا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ کانفرنس اپنے موضوعات، ایجنڈے اور انتظامات کے لحاظ سے ایک کامیاب کانفرنس تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس میں پیش کی جانے والے تجاویز سے مستقبل میں کس حد تک استفادہ کیا جاتا ہے۔
nn