(فاٹا کا خیبر پختون خواہ میں انضمام ؟(عالمگیر آفریدی

جب سے فاٹا کا آئینی، انتظامی، سیاسی اور اقتصادی مستقبل طے کرنے کے حوالے سے نت نئی تجاویز سامنے آنا شروع ہوئی ہیں، اس ممکنہ تبدیلی کے حوالے سے قبائل کی امیدیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ اور اس ضمن میں جب بھی کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو اس کے ساتھ قبائل کے دلوں کی دھڑکنیں بھی تیز ہوجاتی ہیں۔ عمومی سوچ یہی تھی کہ قبائلی علاقوں کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کیا جائے گا اس میں قبائل کی خواہشات اور ان کی آراء کو لازماً ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا۔ لہٰذا اس پس منظر کے ساتھ اب جب سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ایف سی آر کے خاتمے اور قبائلی علاقوں کے خیبرپختون خوا میں انضمام کی تجاویز سامنے آچکی ہیں اور ان پر تقریباً تمام قبائل گرم جوش ردعمل بھی ظاہر کرچکے ہیں ایسے میں اب ایک بار پھر جو قوتیں قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام کی مخالفت کررہی ہیں اور ان کی جانب سے اصلاحات کے عمل کو جس غیر حکیمانہ انداز میں شکوک وشبہات کا شکار بنایا جارہا ہے اس کو کسی بھی لحاظ سے مستحسن قدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
خیبر پختون خوا اسمبلی نے گزشتہ دنوں کثرتِ رائے سے فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کے حوالے سے جو قرارداد منظور کی ہے، موجودہ بحث کے تناظر میں اس کی اہمیت بھی دوچند ہوگئی ہے۔ صوبائی اسمبلی میں پاس کی جانے والی قرارداد پی ٹی آئی کے رکن ڈاکٹر حیدرعلی نے پیش کی، جس پر قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدر اور سینئر صوبائی وزیر سکندرحیات شیرپاؤ، پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر محمد علی شاہ باچا، جماعت اسلامی کے صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید ایڈووکیٹ اور مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اورنگ زیب خان نلوٹھا نے دستخط کیے تھے، جبکہ جمعیت (ف) کے ارکان نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کو صوبے میں ضم کرنے اور فاٹا کے مستقبل کا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل قبائلی عوام کی آراء اور خواہشات کو مدنظر رکھنے کا مطالبہ کیا۔ صوبائی اسمبلی سے منظور کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں کو وہاں کے عوام کی مرضی اور خواہش کی روشنی میں جلد از جلد خیبرپختون خوا میں ضم کیا جائے۔ قبائلی علاقوں کے لیے دہرے قوانین نہ صرف آئینِ پاکستان سے انحراف ہے بلکہ یہ قبائلی عوام کے ساتھ بھی بہت بڑی زیادتی ہے۔ قبائلی عوام عرصۂ دراز سے مشکلات سے دوچار ہیں۔ پاکستانی ہونے کے باوجود وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ تمام سابقہ حکومتیں فاٹا کو پسماندہ رکھنے کی ذمہ دار ہیں۔ فاٹا اصلاحات کمیٹی نے جو اصلاحات مرتب کی ہیں وہ تمام قبائلی ایجنسیوں کا دورہ کرنے اور وہاں کے مقامی قبائل سے مشاورت کے بعد مرتب کی گئی ہیں، لہٰذا ان کو بلاچوں وچرا اور فی الفور نافذ کیا جائے۔ فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے حیران کن امر یہ ہے کہ جس دن صوبائی اسمبلی نے قبائلی علاقوں کو صوبے میں ضم کرنے کی قرارداد منظور کی، اُس کے اگلے ہی دن ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں (جس میں فاٹا کے خیبرپختون خوا میں انضمام کا فیصلہ کیا جانا تھا) وفاقی کابینہ نے غیر متوقع طور پر اس فیصلے کو وسیع تر اتفاقِ رائے کے حصول تک مؤخر کرنے کا فیصلہ کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ وزیراعظم محمد نوازشریف کی زیرصدار ت ہونے والے وفاقی کابینہ کے مذکورہ اجلاس میں سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد اس پر سیر حاصل بحث کی گئی۔ کابینہ میں موجود جمعیت (ف) کے وفاقی وزیر اکرم خان درانی نے جب انضمام کی تجویز کے خلاف پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کا مؤقف پیش کیا تو وزیراعظم نے سرتاج عزیز کمیٹی کے فیصلے کو مؤخر کرتے ہوئے مؤقف اختیارکیا کہ جب تک تمام فریقین کو اعتماد میں نہیں لیا جائے گا اُس وقت تک انضمام کے فیصلے کو مؤخر رکھا جائے گا۔
وفاقی کابینہ کو عین آخری لمحات میں قبائل کے مستقبل کے حوالے سے اس اہم ترین فیصلے کو کیوں مؤخر کرنا پڑا؟ اور اگر یہ فیصلہ مؤخر ہی کرنا تھا تو پھر اس کو کابینہ کے ایجنڈے پر رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ اگر قبائل کے ساتھ یہ مذاق کرنا ہی تھا تو پھر ان کے ساتھ اصلاحاتی کمیٹی کا ناٹک کھیلنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ بات انتہائی تعجب خیز ہے کہ جب سرتاج عزیز کمیٹی فاٹا اصلاحات کے لیے ساتوں ایجنسیوں سمیت ایف آرز کے دورے کرکے قبائل کے نمائندہ طبقات سے ملاقاتیں کررہی تھی تو اُس وقت تک سوائے چند روایتی ملک حضرات کے کوئی بھی مؤثر اور معتبر قوت بشمول جمعیت (ف) فاٹا اصلاحات کی مخالفت نہیں کررہی تھی، لیکن اب جب ایک جانب تمام سیاسی جماعتیں اتفاقِ رائے سے فاٹا اصلاحات اور قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختون خوا میں ادغام کے حق میں فیصلہ دے چکی ہیں اور دوسری جانب صوبائی اور وفاقی حکومت بھی اس حوالے سے رضامندی ظاہر کرچکی ہیں، جبکہ تیسری جانب قبائلی عوام کی اکثریت بھی فاٹا کے، بندوبستی علاقوں میں ادغام کے لیے ذہناً اور عملاً تیار نظر آتی ہے ایسے میں ادغام اور اصلاحات کے فیصلے کو غیرمعینہ وقت تک مؤخر کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ اتفاقِ رائے کے ضمن میں اگر وزیراعظم کا اشارہ اپنے اتحادیوں مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کی جانب ہے تو یہ دونوں بھی نہ صرف فاٹا اصلاحات کے حق میں ہیں بلکہ جمعیت(ف) فاٹا سیاسی اتحاد کا حصہ ہونے کے ناتے فاٹا کو خیبرپختون خوا میں شامل کرنے کی اس مہم اور منصوبے کا حصہ رہی ہے جو کئی سالوں سے فاٹا میں اصلاحات اور ایف سی آر کے خاتمے کے ایجنڈے پرکام کررہا تھا، جس میں اگر ایک طرف اے این پی، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور نیشنل پارٹی جیسی سیکولر جماعتیں
(باقی صفحہ 49 پر)
شامل تھیں تو دوسری طرف جمعیت (ف) اورجماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعتیں بھی اس اتحاد کا حصہ تھیں، جبکہ تیسری جانب اس اتحاد میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) کی نمائندگی بھی موجود تھی۔ اب جب فاٹا اصلاحات کے حوالے سے سارا عمل آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے تو اس سارے عمل کو اگرمگر کی شرائط کے ساتھ محض ایک دو شخصیات کو نوازنے یا انہیں خوش کرنے کے لیے سرد خانے کی نذر کرنا جہاں اس پورے عمل اور بالخصوص تمام سیاسی جماعتوں کی توہین کے مترادف ہوگا وہاں ایسا کوئی بھی قدم خود قبائل کے زخموں پر بھی نمک پاشی کے مماثل ہوگا۔
اصلاحات کے عمل کے التواء کا ایک افسوسناک پہلو اگر ایک طرف مولانا فضل الرحمن کی ناراضی یا اعتراض ہے تودوسری جانب پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کے مؤقف کو بھی التواء کے لیے وجۂ جواز بنایا گیا ہے۔ حالانکہ پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کا نہ تو قبائلی علاقوں اور نہ ہی خیبرپختون خوا میں کوئی وجود اور ووٹ بینک ہے۔ واضح رہے کہ2013ء کے عام انتخابات میں پختون خوا ملّی عوامی پارٹی نے قبائلی علاقہ جات سے محض ڈھائی سو ووٹ حاصل کیے تھے، جبکہ خیبرپختون خوا میں اس کے حصے میں کبھی یونین کونسل کی نظامت کی کوئی نشست بھی نہیں آئی ہے، لہٰذا ایسے میں جب قبائلی علاقوں میں گہرا اثرو رسوخ رکھنے والی جماعتیں اور سرکردہ سیاسی شخصیات جن میں موجودہ اورسابقہ منتخب ارکانِ پارلیمنٹ بھی شامل ہیں، بغیر کسی شرط کے قبائلی علاقوں کو خیبرپختون خوا میں ضم کرنے کے حق میں فیصلہ دے چکے ہیں، قبائلی علاقوں کو اصلاحات اور خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کے حق سے محروم رکھنا سراسر زیادتی اور نا انصافی ہوگی۔