وزیراعظم نوازشریف ایک پُرپیچ شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ وہ ایک عرصے تک لوگوں کو یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ وہ ایک سادہ انسان ہیں اور ان کی معلومات کا دائرہ محدود ہے۔ وہ بہت سی ملاقاتوں اور اجلاسوں میں یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ انہیں زیربحث معاملے کا کوئی زیادہ علم نہیں ہے، اور محض اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو سے نتائج اخذ کریں گے اور اپنا ذہن بنائیں گے۔ لیکن انہیں زیادہ قریب سے جاننے والوں کا خیال ہے کہ وہ بہت گہرے آدمی ہیں، ان کی معلومات کا دائرہ وسیع اور معلومات کے ذرائع قابلِ اعتبار ہیں۔ وہ محض خاص مقاصد کے لیے یہ تاثر دیتے ہیں تاکہ شرکائے گفتگو کھل کر اپنی پسند ناپسند، محبت و نفرت اور مفادات و مقاصد کا اظہار کرسکیں۔ نوازشریف عمومی طور پر اپنے ان مقاصد کے حصول میں کامیاب رہتے ہیں اور انٹیلی جنس معلومات، متعلقہ لوگوں کی گفتگو اور اپنے ذاتی ذرائع سے معاملات کی تصدیق و توثیق کے بعد کوئی رائے بناتے ہیں، اور یہ رائے بناتے ہوئے اپنے ذاتی، خاندانی، سیاسی اور کاروباری مفادات کے علاوہ مستقبل کے خدشات اور امکانات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ وہ جلدبازی میں فیصلے کرنے کے عادی نہیں۔ جو فیصلے وہ بظاہر عجلت میں کرتے ہیں ان پر بھی ان کا ہوم ورک ہفتوں نہیں مہینوں پر محیط ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کے جن فیصلوں اور اقدامات پر مخالفین جلدبازی کا الزام لگاتے ہیں وہ ان پر دل ہی دل میں ہنستے ہیں اور دھیرے دھیرے انہیں آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔
ان کے مخالفین کا خیال ہے کہ وہ پنگے (معذرت کہ کوئی متبادل لفظ پورا ابلاغ نہیں کرسکتا) لینے کے شوقین ہیں اور تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد ایسے پنگے لیتے ہیں جو خود ان کے گلے پڑ جاتے ہیں یا قوم کو ان کے برے اثرات سمیٹنے پڑتے ہیں، جبکہ ان کو قریب سے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ نوازشریف یقیناًپنگے لینے کے شوقین ہیں، ذاتی زندگی میں بھی وہ مہم جوئی کرتے ہیں اور سیاسی معاملات میں بھی ایسا کرتے رہتے ہیں، لیکن وہ تمام پنگے سوچ سمجھ کر لیتے ہیں۔ اور حقیقت میں یہ پنگے نہیں ان کا ایجنڈا ہوتا ہے۔ یہ ایجنڈا ان کا ذاتی ایجنڈا ہوتا ہے یا کہیں سے ان پر مسلط کردیا گیا ہوتا ہے، دونوں صورتوں میں اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اس ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں جسے سادہ لوگ پنگا سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن چونکہ ایجنڈے سے جڑا ہوا پنگا بھی بعض اوقات گلے پڑ جاتا ہے اس لیے نوازشریف کو بھی بعض اوقات اس طرح کی صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ ان کا ہر پنگا ایک ایجنڈا لیے ہوئے ہوتا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کا تازہ پنگا قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ طبعیات کا نام ڈاکٹر عبدالسلام سینٹر آف فزکس رکھنے کی منظوری دینا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام نہ صرف ایک اعلانیہ قادیانی تھے بلکہ مرتے دم تک اپنے عقائد پر اس حد تک ڈٹے رہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان میں ہونے والی ایک سائنسی کانفرنس میں شرکت کے لیے انہیں دعوت نامہ بھیجا گیا تو انہوں نے اس دعوت نامے پر یہ ریمارکس لکھ کر اسے وزیراعظم سیکریٹریٹ کو واپس بھیج دیا کہ ’’میں اس ملزم سرزمین (پاکستان) پر اُس وقت تک قدم رکھنا پسند نہیں کروں گا جب تک قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی۔‘‘
یاد رہے کہ یہ آئینی ترمیم پاکستان کی قومی اسمبلی نے طویل غور وخوض کے بعد منظور کی تھی اور اس ترمیم سے قبل قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد کو جو رکن اسمبلی نہیں تھے، قومی اسمبلی کے ایوان کے سامنے مسلسل تین روز تک اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے متذکرہ بالا تحریری ریمارکس اُس وقت دیے تھے جب وہ وزیراعظم پاکستان کے سائنسی امور کے مشیر تھے۔ وہ اس عہدے پر آئینی ترمیم سے قبل متعین کیے گئے تھے اور آئینی ترمیم کے بعد بھی انہیں اس عہدے پر برقرار رکھا گیا تھا، لیکن وہ اس آئینی ترمیم کے فوری بعد مستقلاً لندن منتقل ہوگئے تھے اور اطلاعات کے مطابق پورے بھٹو دور میں پاکستان نہیں آئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ریمارکس پڑھنے کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا چہرہ سرخ ہوگیا اور انہوں نے اسی وقت اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری کو فون کرکے ڈاکٹر عبدالسلام کو سائنسی امور کے مشیر کے عہدے سے برطرف کرنے کا حکم دیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالسلام یقیناًاپنی پیدائش کے اعتبار سے پاکستانی شہری تھے اور پاکستان کی ایک غیرمسلم اقلیت کے نمایاں فرد تھے۔ لیکن 1974ء کی آئینی ترمیم کے بعد وہ عملاً برطانیہ کے شہری ہوگئے تھے اور وہیں کے اداروں میں کام کرتے تھے۔ انہیں فزکس کا نوبیل انعام بھی 1979ء میں دیا گیا تھا جب وہ برطانوی سائنسی اداروں میں کام کررہے تھے۔ اگر اس انعام کے لیے اُن کی نامزدگی کے کاغذات کا جائزہ لیا جائے تو یقیناًانہوں نے خود اور انعام دینے والی کمیٹی نے بھی انہیں برطانوی شہری تسلیم کیا ہوگا۔ وہ نوبیل انعام لینے کے بعد پاکستان آئے تھے۔ یہاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے سینٹ ہال میں اپنے اعزاز میں ہونے والی ایک تقریب میں بھی شرکت کی تھی۔ اس موقع پر راقم کو بھی اُن سے مختصر ملاقات کا موقع ملا۔ اُن کی موت بھی برطانیہ میں ہوئی اور اُن کی آخری رسومات بھی وہیں ادا کی گئیں۔
وزیراعظم کے اس تازہ پنگے یا ایجنڈے پر پاکستان کے سیاسی، دینی، علمی اور عوامی حلقوں میں بہت سے سوالات گردش کررہے ہیں۔ ان سوالات میں تشویش کا اظہار بھی ہے اورمستقبل کے بہت سے انجانے خوف بھی ان میں جھلک رہے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں، وہ اپنے پہلے دو ادوار میں اس معاملے پر مکمل خاموش رہے۔ حالیہ دور کے بھی تین سال گزارنے کے بعد اچانک انہوں نے یہ اعلان کیوں کیا؟ اس کے علاوہ شہبازشریف چار بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ان کے ذریعے بھی یہ اعلان کرایا جاسکتا تھا، مگر اس سلسلے میں اب تک پراسرار خاموشی اختیار کیوں کی گئی؟ اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ نوازشریف پہلی بار آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے وزیراعظم بنے تھے۔ آئی جے آئی کا بڑا حصہ دینی جماعتوں پر مشتمل تھا۔ قاضی حسین احمد، پروفیسر ساجد میر، مولانا سمیع الحق، ڈاکٹر اسرار احمد اور مفتی محمد حسین نعیمی جیسے لوگوں کی انہیں سرپرستی حاصل تھی۔ جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں اور جنرل (ر) حمیدگل جیسے دانشوروں کا ختمِ نبوت کے معاملے پر ٹھوس اور واضح مؤقف تھا۔ اس لیے وہ اُس دور میں خاموش رہے۔ پھر اگلے دور میں جب بے نظیر مضبوط اپوزیشن لیڈر تھیں اُس وقت بھی نوازشریف یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے، کیونکہ بے نظیرقادیانیوں کو اقلیت قرار دینے والی اسمبلی کے قائدِ ایوان ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھیں اور ڈاکٹر عبدالسلام کے رویّے اور ذوالفقار علی بھٹوکے شدید ردعمل سے آگاہ تھیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جب1989ء میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں، ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان آئے، وہ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے دو دن تک اسلام آباد میں ٹھیرے رہے مگر بے نظیر نے نہ صرف اُن سے ملاقات نہیں کی بلکہ انہیں یہ بھی کہلا بھیجا کہ ان کے پاس ملنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ ایسے ماحول میں نوازشریف نہ تو خود یہ خطرہ مول لے سکتے تھے اور نہ شہبازشریف کو اس کھائی میں اتار سکتے تھے۔ چنانچہ خاموش رہے اور دینی حلقوں کی حمایت سے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ شاید اُس وقت ان کے پیٹ میں لبرل ہونے اور اپنے آپ کو لبرل، ترقی پسند اور روشن خیال ثابت کرنے کے مروڑ بھی نہیں اٹھ رہے تھے کہ اُس وقت کے تقاضے اور تھے۔ اس معاملے میں دوسرا سوال یہ ہے کہ اس قسم کے اعلان کا یہ کوئی موقع نہیں تھا۔ وزیراعظم کسی سائنس کانفرنس سے خطاب نہیں کررہے تھے۔ کسی سائنسی یونیورسٹی کے کانووکیشن یا وہاں کے بورڈ آف گورنرز سے مخاطب نہیں تھے۔ قوم کے کسی طبقے کی جانب سے ایسا مطالبہ نہیں کیا جارہا تھا۔ پھر انہوں نے اچانک یہ اقدام کیوں اٹھایا اور اچانک یہ فیصلہ کیوں کیا؟ اس فیصلے کی اس وقت کیا ضرورت تھی؟ اس کا بھی مختصر جواب یہی ہے کہ آج کے ملکی اور خصوصاً بین الاقوامی حالات میں نوازشریف خود کو، اپنی فیملی، اپنی حکومت اور پارٹی کو لبرل ثابت کرنا چاہتے ہیں اور دنیا خصوصاً بڑی طاقتوں کو یہ باور کرانے میں لگے ہوئے ہیں کہ ان کے ترقی پسند اور روشن خیالی کے ایجنڈے کو وہی آگے بڑھاسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں تیسرا سوال یہ ہے کہ اس کام کے لیے قائداعظم یونیورسٹی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ ڈاکٹر عبدالسلام کا اس یونیورسٹی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ ان کا سارا تعلق گورنمنٹ کالج لاہور (اب جی سی یونیورسٹی) سے رہا ہے جس پر وہ ہمیشہ فخر کرتے رہے ہیں۔ اگر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے شعبہ طبعیات کو ان کے نام سے منسوب کردیا جاتا تو اس کا کچھ نہ کچھ جواز موجود ہوتا، لیکن یہ اقدام نوازشریف نے جان بوجھ کر اس لیے کیا ہے کہ ایک تو قائداعظم یونیورسٹی بین الاقوامی حیثیت کی حامل یونیورسٹی ہے۔ دوسرے یہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں قائم ہے۔ تیسرے یہ بانئ پاکستان کے نام سے منسوب ہے جہاں کے شعبہ طبعیات کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام آباد اور قائداعظم کا نام استعمال کرتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ ہم اتنے لبرل اور اتنے بولڈ ہیں کہ کوئی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ اس فیصلے کا وزیراعظم کی سطح پر اعلان خود بہت سے سوالات اٹھا رہا ہے کہ یہ اعلان وزیر تعلیم یا وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بھی کرسکتے تھے۔
اس سلسلے میں سب سے اہم اور آخری سوال یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے ربیع الاول کے ماہِ مبارک کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ جب پوری قوم اور پوری امتِ مسلمہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مہینہ احترام و عقیدت سے منارہی تھی ختم نبوت کے ایک کھلے منکر کو یہ اعزاز کیوں بخشا گیا؟ اور اعزاز بھی ایک ایسے ملک میں جو اس مسئلے پر اپنے سب سے اعلیٰ ایوان میں قانون سازی کرچکا ہے! کیا اتفاقاً ایسا ہوگیا ہے یا عملاً ایسا کیا گیا ہے؟ اس کا جواب تو نوازشریف کے ذمے ہے، لیکن وہ ایک بات نوٹ کرلیں کہ عید میلادالنبی پر صرف کراچی میں ایک ہزار جلوس نکالے گئے ہیں۔ اس قوم نے ختم نبوت کے معاملے پر بار بار تحریکیں چلائی اور قربانیاں دی ہیں۔ علما نے اس پر اجتہاد کیا، اور اسمبلی نے آئین میں ترمیم کردی۔ ربیع الاول کے ماہِ مبارک میں ختم نبوت کے کسی منکر کو سرکاری اعزاز دینا مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ ان کی غیرت کے لیے چیلنج ہے، جس پر مسلمانانِ پاکستان، نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے اور ختم نبوت کے پروانے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ شاید نوازشریف اور ان کے حواریوں نے اسے نوٹ بھی کرلیا ہے، اسی لیے ان کے درباری اور مخبر قسم کے کالم نگار ان کے اس فیصلے کی ستائش میں سرگرم ہوگئے ہیں جنہیں غیر ضروری طور پر میڈیا میں نمایاں کرکے پیش کیا جارہا ہے۔ یہ درباری قلم کار اس طرح انعام و اکرام تو وصول کرلیں گے کہ ان کی اوقات یہی ہے لیکن قیامت کے دن نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے، اس پر بھی غور کرلیں۔
nn