قائد کے اوصاف محسن انسانیت ﷺ

آج چاروں طرف قیادت وسیادت کا شور ہے۔ ہر شخص خود کو قائد مانتا ہے اور دوسرے لوگوں سے بھی خود کو قائد منوانے کی کوشش میں رہتا ہے۔ حالاں کہ یہ معاملہ خلوص و للہیت کا ہے۔ جو قوم کی ہمدردی اور اس کی فلاح و بہبودکے لیے کام کرکے اس کے دل میں جگہ بنا سکے وہی دراصل قائد بھی ہے اور رہ نما بھی۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے حق گو اور انصاف پسند قائد کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔ اس کے برعکس نام ونمود کے خواہاں اور مفادپرست قائد و رہنما کا انجام دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذابِ جہنم ہے۔
اگر مردِ مومن قیادت کی بات کرے گا تو ظاہر ہے کہ اس کے پیش نظر اسلامی قیادت کا ہی تصور ہوگا، اور جب بات اسلامی قیادت کی ہوگی جس کی طرف آیات و احادیث اشارہ کرتی ہیں تو اس زمرے میں تمام قائد و پیشوا آئیں گے۔ ایسی صورت میں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے استفادہ کرنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ بے شمار پہلوؤں کی حامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر جو بھی صفات تھیں وہ کمال درجہ کی تھیں۔ ان اوصافِ کاملہ کے سبب آپؐ پوری انسانیت کے لیے نمونہ ہیں: ’لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۂ حسنہ‘ اس لیے اگرکوئی شخص ایک اچھا معلم بننا چاہتا ہے تو اسے اپنے آپ کو آئیڈیل بنانا ہوگا۔ ایک شخص خود اچھا والد، اچھا شوہر، اچھا داعی یا پھر اپنی قوم کا ہمدرد، مفکر و مدبر قائد اور رہنما بننا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ آپؐ کی پیروی کرے۔ اس موضوع پر غور کرتے ہوئے ہمیں کچھ بنیادی چیزوں کو سمجھنا ہوگا۔ سب سے پہلے ہم اس بات پر غور کریں کہ قیادت کے معنی و مفہوم کیا ہیں؟ قیادت کے معنی ہیں کہ اسلام جس اجتماعیت کا خواہاں ہے اس کو برقرار رکھتے ہوئے اعلیٰ مقصد کے حصول کی کوشش کی جائے۔ قرآن کریم میں ارشادِ الٰہی ہے:
(ترجمہ)’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں نہایت اچھی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ اے ایمان والو! اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں۔‘‘ (سورہ النساء آیت 58۔59)
اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
اذاکان ثلاثہ فی سفر فلیؤمراحدہم
کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ
مطلب یہ کہ جس طرح وقتی طور پر سفر کے دوران منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ایک امیرِ کارواں منتخب کرنا ضروری ہے اسی طرح اجتماعی زندگی کے قافلے کو اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے ایک قائد و رہنما کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ کامیابی سے ہم کنار ہوسکے۔ معلوم ہوا کہ قائد کی بڑی اہمیت ہے۔ جیسا کہ قائدِ اعظم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جس کا مفہوم ہے کہ ’امیرکی اطاعت کرو اگرچہ وہ کالاحبشی ہی کیوں نہ ہو۔‘
قائد کے اوصاف
جس طرح سونا اپنی خوبیوں کی وجہ سے کھرا قرار پاتا ہے، اسی طرح قائد اپنے اوصاف کی وجہ سے ایک کامیاب قائد و رہنما تسلیم کیا جاتا ہے۔ قائد و رہنما کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایمان مضبوط ہو، وہ حسن اخلاق سے متصف ہو، حق گو اور انصاف پسند ہو، دوررس، امانت دار ہو، قوم کا ہمدرد و غم گسار ہو، اور دین کی حفاظت، دنیا کا نظم، مظلوموں کو انصاف دلانا اور ظالموں کو ظلم سے روکنا جیسے واجبات کا پابند ہو۔ تاکہ سلطنت کی ترقی ہو ، لوگوں کو امن و اطمینان حاصل ہو اور فساد کا خاتمہ ہو۔ علامہ اقبال نے ان اوصاف کو اس شعر میں یکجا کرنے کی کوشش کی ہے:
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
حضور پُرنور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی بہ حیثیت قائد آپؐ کی امارت وحکومت، سیادت و قیادت، دلیری و شجاعت اورکمالِ علم وعمل کی مکمل تصویر تھی۔ اسی طرح وہ جہد و مشقت، صبروقناعت اور زہدوعبادت کا بھی اعلی نمونہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قائدانہ بصیرت سے اختلاف و انتشار، قتل وغارت گری، بدکاری و بداخلاقی سے معمور فضا کو پاک کیا۔ امن و اطمینان، اخوت اور بھائی چارہ اورانسانیت کا درس دے کر انسانیت کو ایمان وحقائق کی روشنی سے منور کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو اس کی حیثیت بتائی کہ اس کا سر، جن دیوی دیوتاؤں کے سامنے سجدہ ریز ہے ان سے ہزار گنا بہتر خود اس کی ذات ہے، جسے رب العالمین نے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا عبادت خالقِ کائنات ہی کی ہونی چاہیے، نہ کہ کسی غیر کی یا خود تراشیدہ بتوں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کے اندر پھیلے ہوئے غرور و تکبر اور حسب ونسب پر فخر کو ختم کیا۔ آپؐ نے ان کے سامنے وضاحت فرمائی کہ ’’تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیداکیے گئے۔ اے لوگو! بلاشبہ تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک ہے، جان لوکہ کسی کو کسی پر کوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیں ہے، سوائے تقویٰ کے‘‘۔ بہ حیثیت قائد و رہنما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ظلم و ناانصافی کے خلاف برسرپیکار رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مظلوم، بے کس اور لاچارکی حمایت کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ظلم سے روک کر اور مظلوموں کو انصاف دلاکر ظالم اور مظلوم دونوں کی مددکی۔ اس طرح آپؐ نے ظلم و فساد کا سدباب کرکے انسانوں کو جینے کا سلیقہ عطا کیا۔
ایک قائد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ مفتوحہ ممالک سے انتقام کے بجائے انھیں سدھرنے اور سنبھلنے کا موقع دے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت انتقاماً قتل عام نہیں کروایا، بلکہ’لاتثریب علیکم الیوم۔اذھبواوانتم الطلقاء ‘ کی بشارت دی اور عفو و درگزرکا اعلانِ عام کرکے ایسا کارنامہ انجام دیا جسے تاریخ انسانی کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق زندہ درگور کی جانے والی بچیوں کو زندہ رہنے کا قدرتی حق دلوایا اور ان کی پرورش و پرداخت کو لائق تحسین قرار دیا، اورایسا کرنے والے کو جنت کا حقدار ٹھیرایا۔
میدان جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ بہادری اور دلیری کا مظاہرہ کیا۔آپؐ کا بارعب چہرۂ مبارک کبھی دشمنوں سے مرعوب نہیں ہوا۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب ‘ (میں نبی ہوں، اس میں ذرا بھی جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا (پوتا) ہوں) یہ درس تھا استقامت وبہادری کا، جو قائد کا بہترین وصف مانا جاتا ہے۔
مشاورت ایک کامیاب قائد کا وصفِ خاص ہے۔ آپؐ نے اس کے تصور کو عام کیا۔ چنانچہ جب بھی کبھی کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا فوراً آپؐ ذی صلاحیت اور تجربہ کار صحابہ کرامؓ کو اکٹھا کرتے اور ان کے مشورے سے اس کا حل نکالتے۔ جب کہ آپؐ نبی اور رسول کی حیثیت سے بذاتِ خود اقدام کرسکتے تھے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعیت میں مشاورت کی اہمیت کو باقی رکھنے کے لیے یہ طریقہ عام کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائدانہ زندگی انسانیت کی تعمیر کے لیے وقف تھی۔ نفاذِ قانون میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکسانی برتی۔ دنیا میں کوئی ایسا نمونہ نظر نہیں آتا، جس نے مساوات اور برابری کو اس خوبی سے نافذکیا ہو۔ دنیا کے ہر معاشرے میں کچھ لوگ قانون سے بالاتر ہوکر جو جی میں آئے، کرلیتے ہیں۔ یہ روش انصاف کے سراسر خلاف اور سببِ فساد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا ایسا قانون نافذکیا جس میں عرب وعجم، امیر وغریب، بڑے چھوٹے،گورے کالے سب قانون کے سامنے برابر اور یکساں دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجرمہ کے سلسلے میں حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سفارش پر ارشاد فرمایا تھا کہ ’’بخدا اس کی جگہ فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔
بہ حیثیت قائد آپؐ نے یہ تصور بھی عام کیاکہ رعیت کو حق ہے کہ وہ قائد کے ہر اُس کام پر بازپرس کرے جو غیرضروری ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہترین اسلام بیکار و غیرمناسب کام ترک کرنا ہے‘‘۔ اسی طرح اگر کسی مزدور نے اپنا کام مکمل کیا ہے تو فوراً اس کا حق دیا جائے۔ آپؐ نے فرمان جاری کیا کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی اس کی مزدوری دے دی جائے۔ رعیت کے ساتھ حسنِ ظن اور حسنِ معاملہ سے پیش آیا جائے، اورغیراخلاقی رویہ اختیار نہ کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جو شخص چھوٹوں پہ شفقت اور بڑوں کا ادب و احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ ساتھ ہی کوئی قائد جب کسی کو کسی معاملے کا والی بنائے تو قرابت یا آپسی محبت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی اہلیت کی بنیاد پر۔ آپؐ نے اپنے چچا عباس کو کسی معاملے کا والی بنایا تو فرمایا: ’’اے میرے چچا! میں اس معاملے میں کسی دوسرے کو مناسب نہیں سمجھتا کہ اسے ولی بناؤں‘‘۔ اسی بنا پر عمرؓ نے فرمایا: ’’جس نے قرابت یا آپسی محبت کی بنیاد پر کسی کو والی یا امیربنایا اس نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت کی۔‘‘
قائد کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ان تمام چھوٹی چھوٹی باتوں پر نظر رکھے جن کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے بازار کا معائنہ کیا اور ناپ تول میں کمی کو ناپسند کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشیائے فروخت کی خوبی وخامی واضح کرنے کا حکم صادرکیا۔ عام طور پر ہونے والے فساد زبان سے سرزد ہوتے ہیں، اس لیے آپؐ نے گفتگوکے آداب سکھلائے اور حق گوئی کو ایمان کا وصف قرار دیا۔ جب کہ جھوٹ، غیبت، چغلی اور ٹوہ میں لگے رہنے کو شیطانی عمل قرار دیا۔ صبر و تحمل اور قناعت کو اپنایا اور فرمایاکہ ’’صبر مشکلات کو ختم کردیتا ہے اور صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے‘‘۔ یہ پاک ارشاد عام لوگوں کو دنیا میں مشکلات سے لڑنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ افراد سازی کا فریضہ انجام دے، تاکہ قوم کی مختلف ضرورتوں کے لیے مختلف ذی استعداد اور باصلاحیت افراد تیار ہوں، جو آنے والے دنوں میں قیادت کے فرائض انجام دے سکیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’انسان سونے چاندی کی کان کی مانند ہیں‘‘۔ علم وصلاحیت ایک نعمت ہے لہٰذا اس کا صحیح استعمال ضروری ہے، جس کے بارے میں قیامت کے دن صاحبِ علم و بصیرت افراد سے بازپرس ہوگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنی امت کے لیے فکرمند رہتے تھے اور اپنی ضرورتوں پر ان کی ضرورتوں کو ترجیح دیتے تھے۔ حتیٰ کہ آپؐ نے بعض مواقع پر بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھا جسے دیکھ کر صحابہؓ کرام اشکبار ہوجاتے تھے۔ پُرعزم، باہمت قائد کبھی مشکل حالات سے نہیں گھبراتے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طائف میں نادانوں نے لہولہان کیا اور قوم کے لوگوں نے آپؐ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے شعبِ ابی طالب میں آپؐ کو اورآپؐ کے خاندان کو نظربند کردیا، مگر آپؐ اپنے مؤقف پر جمے رہے اور آپؐ کے پایۂ استقلال میں جنبش تک نہیں آئی۔ یہ ایک قائد کی تڑپ تھی کہ آپؐ ہمیشہ اپنی امت کی فلاح ونجات کے لیے دست بہ دعا رہتے تھے اور بارگاہِ الٰہی میں ’امتی امتی‘ کی صدا لگاتے تھے۔ (باقی صفحہ 41پر)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی احساس عام کیا کہ ہر شخص کسی نہ کسی حیثیت سے قائد و رہنما ہے۔ اسے اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ روزِ قیامت جب کوئی کسی کا نہ ہوگا اُس سے ان کے بارے میں بازپرس کی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج میں صحابہؓ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں نے تم لوگوں تک خدا کا پیغام (دستورِ حیات) پورا پورا پہنچا دیا ہے؟‘‘ صحابہ نے جواب دیا: ’’ہاں‘‘۔
یہ سیرتِ طیبہ کی محض ایک جھلک ہے۔ طوالت کے خوف سے تفصیل سے گریز کیا گیا۔ سیرت النبی میں آپؐ کے عملی کردار کے بے شمار واقعات ایسے ہیں، جن میں کامیاب قائد اپنے اوصاف، اپنے کردار اور فرائض تلاش کرسکتا ہے۔ اگر قائدینِ امت اور رہنمایانِِ ملت نے ان اوصاف کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے قوم وملت کی باگ ڈور سنبھالی تو پھر خدا کی مدد و نصرت شاملِ حال ہوگی اور انھیں ان کے اہداف اور نصب العین کے حصول سے کوئی روک نہیں سکتا۔