(ادب نبی (ڈاکٹر تابش مہدی

ادب کے لغوی معنی شائستگی، پسندیدہ طریقۂ اظہار، تہذیب، تمیز اور ہر کام کو صحیح اور دل چسپ انداز سے کرنے کے ہیں۔ اردو و فارسی لغات میں اور بھی کئی معنی اس کے لکھے ہیں۔ لیکن علما نے اس کی جامع تعریف حسنِ کلام اور تاثیر کلام بتائی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو بات تہذیب و شائستگی اور موقع و محل کی مناسبت سے کی جائے گی، اس میں حسن بھی ہوگا اور تاثیر بھی ہوگی۔ ہم بچپن میں اساتذہ سے اکثر یہ شعر سنا کرتے تھے:
خموش اے دل بھری محفل میں چلاّنا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
یہ شعر تو آج کہاوت کی شکل اختیار کر گیا ہے اور آئے دن سننے میں آتا رہتا ہے:
ادب ہی سے انسان، انسان ہے
ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے
یہ ایک ایسی حقیقت ہے اور آئے دن ہمارے مشاہدے میں آتی رہتی ہے کہ کسی بھی اہم کام کو انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اندر وہ صفات پیدا کی جائیں، جن کا ادب کے معنی و مفہوم کے ذیل میں مذکور ہوا ہے۔ تہذیب، شائستگی، تمیز یا حسنِ بیان و تاثیر کلام کے بغیر کسی بڑے کام کو نہیں انجام دیا جا سکتا۔
رسولِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رشد و تربیت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی اور تعلیم و تربیت کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی ایک ایک ادا میں ہمارے لیے تعلیم و تربیت کے گراں قدر پہلو ہیں اور ان میں ہماری ہدایت و رہنمائی کے خزانے پوشیدہ ہیں۔ آپؐ کے کسی بھی قول و فعل کو اس سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ آپؐ نے جو بات کہی یا سنی، یا جس بات سے روکا یا اس کے کرنے کا حکم دیا، یا جس کام کو کرتے دیکھا اور اس کے سلسلے میں خاموشی اختیار کی، یہ سب کی سب باتیں حدیث کے ذیل میں آتی ہیں اور ان میں ادب کی جملہ شرائط اور صفات و خصوصیات بہ درجۂ اتم موجود ہونے کی وجہ سے انہیں ہم ادبِ نبوی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بلاشبہ ان میں تمام انسانوں کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص تعلیم وتربیت کے روشن و تابندہ پہلو موجود ہیں۔ آپؐ کا یہ مقام و مرتبہ ہمارا، آپ کا یا دنیا کے کسی بھی انسان کا دیا ہوا نہں، بلکہ ساری دنیا کے خالق و مالک اور بادشاہِ حقیقی کا عطا کردہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
(ترجمہ)’’اور وہ (محمدؐ) اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتے، یہ تو ایک وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘ (النجم:4,3)
اس ارشادِ الٰہی سے یہ بات صاف اور واضح ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کہا یا کیا، وہ عین حکم خداوندی یا وحی الٰہی کے مطابق کہا یا کیا۔(مسند احمد)
صحیح مسلم کی مشہور حدیث ہے:
سعد بن ہشام فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے عرض کیا کہ مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار کے بارے میں بتائیے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: آپؐ اخلاق و کردار کے لحاظ سے سراپا قرآن تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ زوجۂ رسول تھیں۔ شب و روز کا ساتھ تھا۔ کسی بھی بیوی کے سامنے شوہر کی پوری زندگی آئینے کی طرح صاف، عیاں اور واضح ہوتی ہے۔ شوہر باہر کچھ بھی ہو، لیکن بیوی کے سامنے وہی ہوتا ہے، جو واقعی وہ ہے۔ اس لیے کہ وہاں کسی قسم کی آمیزش نہیں چلتی۔ ایسی صورت میں حضرت عائشہؓ کی یہ گواہی کہ ’’آپؐ اخلاق و کردار کے اعتبار سے سراپا قرآن تھے‘‘ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے اس قول کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے:
’’اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو۔‘‘ (القلم:4)
ہم جس عہد میں رہ اور بس رہے ہیں، یہ فتنوں کا عہد ہے۔ آئے دن ایسے ایسے نئے نئے فتنے سر ابھارتے رہتے ہیں، جن کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کے اندر سے دینی و روحانی قدروں کو نیست و نابود کرکے انہیں ماڈرن یا دوسرے لفظوں میں مغربی دنیا سے آشنا کرانا ہوتا ہے۔ ان تمام فتنوں کے سرے بالعموم مغرب ہی سے ملتے ہیں۔ ان میں ایک بڑا فتنہ حجیت حدیث و سنت کا انکار بھی ہے۔ مغرب کے اثر سے ایک ایسا گروہ میدان میں سرگرم عمل ہے، جو کہتا ہے کہ دین میں حجت تو بس قرآن مجید ہی ہے اور حدیث یا سنت پر کسی دینی یا شرعی مسئلے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ ایک ایسا میٹھا زہر ہے، جو بڑی آسانی سے پیا جارہا ہے اور ایک بڑا طبقہ قرآن فہمی کے فریب میں آکر اس کا شکار ہوچکا ہے۔
حدیث و سنت کے منکرین کی بنیادی کجی یہ ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حیثیت اور آپؐ کے مقام اور مرتبے کو سمجھا ہی نہیں۔ نہ پڑھا اور نہ ایسی مجلسوں میں کبھی بیٹھنے کی ضرورت محسوس کی، جہاں بیٹھ کر اللہ کے دین سے تعلق پیدا ہوتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے محبت و مناسبت پیدا ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور مرتبہ و مقام کا صحیح شعور پروان چڑھتا ہے۔ اگر انہیں یہ سعادت نصیب ہوئی ہوتی تو یقیناًانہیں معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت محض پیغام بر یا پیام رساں کی نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطاع، متبوع، امام، ہادی، قاضی، حاکم اور حکم بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حیثیت بھی دنیا کے خالق و مالک اور حقیقی حاکم و بادشاہ کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔‘‘
اس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا بھی حکم ہے اور اللہ کے رسول کی اطاعت کا بھی۔ دونوں جملے الگ الگ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ نہ اللہ کی اطاعت کے بغیر اطاعتِ رسول کا دعویٰ درست ہے، اور نہ اطاعتِ رسول کے بغیر اطاعتِ الٰہی کا۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اس کی مزید وضاحت قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہیے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا‘‘۔(آل عمران:31)
قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد باری ہے:
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف، تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو، یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔‘‘ (النساء: 61)
اس آیت میں اللہ کی طرف بلانے کے ساتھ، رسول کی طرف بلانے کا جس طرح ذکر ہے، وہ اس بات کی روشن اور واضح دلیل ہے کہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت بھی ایمان کے لیے ناگزیر ہے۔ اس میں کسی طرح کی تاویل یا چوں و چرا کی گنجائش نہیں ہے۔
رسولِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی، آپؐ کا ہر قول و عمل اور آپؐ کی زندگی کی ایک ایک ادا شرافت و سنجیدگی، تہذیب و شائستگی اور عظمت و وقار کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ ادب و اخلاق میں تو پوری انسانی دنیا میں آپؐ کا کوئی ثانی و ہمسر نہیں مل سکے گا۔ اس لیے کہ آپؐ کو براہِ راست خالقِ کائنات سے تربیت ملی تھی۔ کسی موقع پر آپؐ نے فرمایا:
’’میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور بہترین ادب سکھایا۔‘‘ [جامع الصغیر، جلد: 1 ،ص 127]
ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:
’’مجھے میرے رب نے اس لیے بھیجا ہے کہ میں اخلاقی اچھائیوں کو تمام و کمال تک پہنچاؤں۔‘‘ [مؤطا امام مالک، جلد: 2، صفحہ 211]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول ادب و بلاغت کا شاہکار ہے اور اپنے اندر تعلیم و تربیت کے مؤثر و دل پذیر پہلو لیے ہوئے ہے۔ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ آج کے بڑے سے بڑے ادبی فن پارے کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ہر پہلو سے اس کا پلڑا بھاری ملے گا۔ کبھی رکیک، مبتذل یا غیر معیاری لفظ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلا ہی نہیں۔ آپؐ جو بات بھی فرماتے تھے فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ممتاز ہوتی تھی۔ آپؐ کی تشبیہ و تمثیل علم و حکمت اور حسنِ ادب کے اعتبار سے منفرد اور اچھوتی ہوتی تھی۔ ذہن و فکر اور سماعت و بصارت کو منور کرنے والے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں۔ ارشاد فرمایا:
’’مومن نکیل پکڑے ہوئے اونٹ کی طرح نرم خو اور اطاعت شعار ہوتا ہے۔ اگر اُسے ہانکا جائے تو چلنے لگتا ہے اور اگر اُسے چٹان پر بٹھا دیا جائے تو بیٹھ جاتا ہے۔‘‘
’’میرے تمام صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔ ان میں سے جس کا طریقہ بھی تم اختیار کرو گے‘ ہدایت پالو گے۔‘‘(مشکوٰۃ، باب مناقب الصحابہ، فصل سوم، جامع بیان العلم، جلد :2، ص: 110-96)
’’مومن شہد کی مکھی کی طرح ہے، جو پاک اور خوش ذائقہ چیز ہی کھاتی ہے اور پاک اور خوش ذائقہ چیز ہی کھلاتی ہے۔‘‘
’’اگر تم اللہ پر بھروسا کرو تو وہ تم کو پرندوں کی طرح روزی پہنچائے گا کہ وہ صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹ آتے ہیں۔‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان، جلد :2، ص:66 )
یہاں وقت اور موقع کا لحاظ کرتے ہوئے صرف چار احادیث نقل کی گئی ہیں۔ پہلی حدیث میں مومن کو ایسے اونٹ سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کی ناک میں نکیل لگی ہو۔ اس لیے کہ جب اونٹ کی ناک میں نکیل لگی ہوئی ہو تو وہ پورے طور پر اپنے مالک کے قبضے میں رہتا ہے، مالک جہاں اور جب اُسے ہانکتا ہے، چلنے لگتا ہے اور جب اُسے بٹھانا چاہتا ہے تو ایک معمولی اشارے پر بیٹھ جاتا ہے۔ دوسری حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ستاروں کی مانند بتایا گیا ہے اوریہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اس پوری جماعت میں سے جس کا بھی طریقہ اختیار کرلیا جائے یا اس کے نقشِ قدم پر چلا جائے، صراطِ مستقیم سے سر مو انحراف نہیں ہوگا۔ ستاروں میں سے ہر ستارہ اپنی جگہ روشن اور تابندہ ہے، اس میں کسی کو مطلق فوقیت دینا انسان کا کام نہیں ہے۔ اسے بس ان سے روشنی حاصل کرنی ہے۔ تیسری حدیث میں مومن کو شہد کی مکھی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس لیے کہ شہد کی مکھی پاک و طاہر چیز ہی کھاتی اور کھلاتی ہے۔ یہی حیثیت ایک سچے اور پکے مومن کی بھی ہوتی ہے۔ اور چوتھی حدیث میں مومن کو توکل اور اللہ پر بھروسے کا درس دیا گیاہے۔ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم اللہ پر بھروسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اُن پرندوں کی طرح رزق پہنچائے گا، جو صبح گھر سے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔ یہ چاروں احادیث بہ ظاہر نہایت مختصر ہیں لیکن معنویت اور جامعیت کے اعتبار سے ہر حدیث اپنے اندر ایک دفتر سمیٹے ہوئے ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں کوئی حدیث مختصر بلکہ مختصر ترین ہونے کے باوجود غیر واضح اور مبہم نہیں ہے۔ یہ تمام حدیثیں ادب و انشاء اور فصاحت و بلاغت میں بھی اپنی ایک شان رکھتی ہیں اور تعلیم و تربیت کے اعتبار سے بھی جامع اور مکمل ہیں۔
میں یہاں اسلامی تاریخ سے ماخوذ دو واقعات مزید پیش کرنا چاہوں گا۔ پہلا واقعہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہے۔
حضرت ابن مسعودؓ اپنے والد کے انتقال کے بعد تلاشِ معاش میں مکہ آئے اور وہاں عقبہ بن ابی محیط کی بکریاں چَرانے لگے۔ ایک دن ان کی ملاقات دو آدمیوں سے ہوگئی۔ اُن میں سے ایک نے ان سے بڑی شیریں گفتگو کی۔ اس سے مل کر انہیں بڑی خوشی ہوئی۔ بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ دونوں اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی ابوبکرؓ ہیں۔ یہ معلوم ہوتے ہی وہ عقبہ کے پاس آتے ہیں، اُس کی بکریاں اُس کے پاس چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپؐ کی خدمت میں پہنچ کر آپؐ سے درخواست کی کہ جو باتیں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں، انہیں سکھا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت پیش کی، جسے سن کر وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔
دوسرا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برادرِ عم زاد حضرت علیؓ کے اسلام لانے کا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہؓ کو نماز پڑھتے دیکھا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: آپ یہ کیا کررہے تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو توحید کی تعلیم دی، اپنی نبوت و رسالت سے آگاہ کیا اور ایمان لانے کی دعوت دی۔ حضرت علیؓ نے جو ابھی کمسن لڑکے تھے، کہا کہ میں اپنے باپ (ابوطالب) سے مشورہ کرلوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخفا کے خیال سے منع فرمایا۔ اگلے روز حضرت علیؓ ایمان لے لائے۔
یہ دونوں واقعات حسنِ کلام کی بھی تصویرکشی کرتے ہیں اور تاثیر کلام کی بھی۔ یہی دونوں خصوصیات جہاں ملتی ہیں، اُسے ہم ادب کہتے ہیں۔
عام ادب اور نبوی ادب میں بنیادی اور نمایاں فرق یہ ہے کہ عام ادب کو کلی طور پر تعمیری و تربیتی نہیں کہا جاسکتا۔ اس میں روشن اور تاریک دونوں پہلو کارفرما رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے وہ شعرا جنہیں ہم شاعرِ اسلام کے نام سے یاد کرتے ہیں، ان کے ہاں بھی متعدد چیزیں واضح طور پر ایسی ملتی ہیں جنہیں نہ ایمان و اخلاق کے لیے مفید کہا جاسکتا ہے اور نہ عام ذہن و فکر کے انسان کے لیے۔ علامہ اقبال کا نام بیسویں صدی کا ایک نمایاں نام ہے۔ انہیں اسلامی فکر کا علَم بردار تصور کیا جاتا ہے اور اسلامی شاعر کی حیثیت سے ان کی شناخت ہوتی ہے۔ لیکن ان کے ہاں بھی ایسے کچھ اشعار ملتے ہیں جنہیں علما نے کتاب و سنت سے تجاوز قرار دیا ہے۔ جب کہ ادبِ نبوی پورا کا پورا انسانیت کی فلاح و تربیت اور اس کی ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر فلاح و تربیت اور ہدایت ورہنمائی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ آپؐ نے جو کچھ کہا یا کیا، وہی کہا یا کیا‘ جو اللہ نے آپؐ سے کہلوایا، یا کرایا۔ اللہ کی مرضی و منشا کے بغیر آپؐ نے نہ ایک قدم آگے بڑھایا اور نہ زبان سے ایک لفظ نکالا۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لیا کہا ہے:
گفتۂ او گفتۂ اللہ بود
گرچہ از حلقومِ عبداللہ بود
nn