فاٹا جو مملکتِ خداداد پاکستان کی مغربی سرحد پر 27000 مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے اور جہاں ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب عوام انگریز کے فرسودہ نظام ایف سی آرکے تحت غلاموں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ فاٹا دنیا میں واحد سرزمین ہے جو بے آئین ہے۔ جہاں اب تک پاکستان کا آئین و قانون نافذ نہیں ہے۔ جہاں سیاست و جمہوریت اور اظہارِ رائے پر پابندی ہے۔ یہ ایسی سرزمین ہے جہاں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہورہی ہے۔ایف سی آر کے فرسودہ نظام کی وجہ سے فاٹا میں روز بروز غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہزاروں ڈگری رکھنے والے نوجوان روزگار نہ ہونے کی وجہ سے دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ فاٹا میں صحت و تعلیم کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں تک کہ لوگ صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ فاٹا ایک شہرِ ناپرساں ہے اور حکمران فرعون بن کر بیٹھے ہو ئے ہیں جن کی ہر بات حرفِ آخر ہوتی ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود نہیں ہے۔ اختیارات کے ناجائز استعمال نے فاٹا کے عوام پر ظلم و جبر مسلط کررکھا ہے۔ ایف سی آر کے تحت فاٹا میں جاری آپریشن سے فاٹا کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے۔ جہاں ہزاروں لوگ شہید اور زخمی ہوئے ہیں، ہزاروں مکانات مسمار، اسکول، ہسپتال اور سڑکیں ویران، اور یہاں کا انفرااسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔
فاٹا اصلاحات پاک فوج کا منصوبہ ہے اور نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے، اور یہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا ایجنڈا ہے، اس لیے نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے موجودہ ’ایف سی آر نامنظور قبائلی جرگہ‘ مطالبہ کرتا ہے کہ پاک فوج فاٹا اصلاحات کو عملی جامہ پہنائے اور فاٹا میں اصلاحات کے خلاف جو بیوروکریٹ سازشیں کررہے ہیں اور اصلاحات کو ناکام بنا رہے ہیں، پاک فوج اُن بیوروکریٹس کو سزا دے کر یہاں سے ٹرانسفر کرے اور پاکستان کے استحکام کے لیے کردار ادا کرنے والے اداروں کی سرپرستی ہونی چاہیے۔ یہ قبائلی جرگہ اتفاقِ رائے سے مطالبہ کرتا ہے کہ:
(1) سب سے پہلے حکومت جلد از جلد ایف سی آر کے خاتمے اور فاٹا کو صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کا نو ٹیفکیشن جاری کرے۔
(2) فاٹا میں مردم شماری کرائی جائے تاکہ صحیح اعدادو شمار سامنے آجائیں۔
(3) 2017ء میں قبائلی علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں اور 2018ء کے جنرل الیکشن میں قومی الیکشن کے ساتھ صوبائی الیکشن کا بھی انعقاد کیا جائے۔
(4) دفعہ247 میں ترمیم کرکے یہاں مکمل آئین نافذ کیا جائے اور اعلیٰ عدالتوں، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرۂ کار فاٹا تک بڑھایا جائے۔ قبائلی عوام کو اسلامی شریعت اور جرگہ کے ذریعے فیصلے کا حق دیا جائے۔
(5) متاثرین کی دوبارہ بحالی، شہدا اور زخمیوں کے لیے پیکیج، مسمار شدہ گھروں، اسکولوں اور سڑکو ں کی دوبارہ تعمیر کے لیے دس کھرب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا جائے۔
(6) تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے اور یہاں یونیورسٹی کیمپس، خواتین یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی، میڈیکل کالجوں، کیڈٹ کالجوں،ٹیکنیکل کالجوں، اور تعلیمی اداروں کا جال بچھایا جائے۔ محکمہ تعلیم پر پانچ سال سے عائد پابندی ختم کرکے تعلیمی ترقی کے بند دروازے کھول دیئے جائیں۔ ملک کے تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کے لیے موجودہ کوٹہ دگنا کیا جائے۔
(7) فاٹا میں قدرتی وسائل اور معدنیات کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں، انہیں بروئے کار لاکر فاٹا کے عوام کی معیشت کو بہتر بنایا جائے۔ نوجوانوں کے لیے باعزت روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ ہر ایجنسی ہیڈکوارٹرکی سطح پر انڈسٹریل زون بنایا جائے۔ خود روزگار اسکیم کا آغاز کیا جائے جس کے تحت باصلاحیت نوجوانوں کو بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں۔
(8) نوجوانوں کی صحت مندانہ سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے۔ ہر ایجنسی کی سطح پر اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کیے جائیں۔
(9) فاٹا کے تمام پہاڑوں پر قیمتی پودوں کی پلانٹیشن کی جائے اور بارانی ڈیم بنائے جائیں تاکہ زرعی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔
(10) تمام ایجنسی ہیڈکوارٹر ہسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جائے۔ وزیراعظم مفت صحت پروگرام کا دائرۂ کار فاٹا تک بڑھایا جائے۔
(11) این ایف سی ایوارڈ میں 3 فیصد کے بجائے 6 فیصد حصہ دیا جائے۔
(12) پولیس کے بجائے خاصہ دار اور لیویز کو منظم فورس بناکر مزید تیس ہزار لیویز کو بھرتی کیا جائے۔
جماعت اسلامی کا یہ گرینڈ قبائلی جرگہ ایسے وقت میں منعقد ہوا ہے جب سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات اور تجاویز سامنے آنے کے بعد یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ شاید اب وہ گھڑی آن پہنچی ہے جب قبائل کے دن پھرنے والے ہیں، اور وہ دن دور نہیں جب قبائل کا شمار بھی پاکستان کے برابر کے شہریوں میں ہونے لگے گا اور یہاں انگریز کے بنائے ہوئے سیاہ قانون ایف سی آر سے انہیں ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔ اس موقع پر جو لوگ ایف سی آر کو برقرار رکھنے کے حق میں دلائل دے رہے ہیں وہ یہ سب کچھ یا تو ناسمجھی کی بنیاد پر کررہے ہیں، یا پھر یہ مٹھی بھر عناصر اپنے ذاتی مفادات کے اسیر ہیں، جنہیں نہ تو قبائل کی غربت، بے چینی اور ان کے دربدر کی ٹھوکریں کھانے سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی یہ لوگ لٹے پٹے قبائل کے زخموں پر کوئی مرہم رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ لہٰذا ایسے میں یہ نہ صرف قبائل بلکہ ملک وقوم اور اس پورے خطے کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ قبائلی علاقوں میں فی الفور اور بلاتاخیر اصلاحات کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ یہ اگر ایک طرف قبائل کی خواہش ہے تو دوسری جانب اس پورے خطے کی اجتماعی ضرورت بھی ہے۔