(علم شیرت ومتعلقات شیرت پر ایک وقیع تحقیقی کتاب (ملک نواز احمد اعوان

نام کتاب
:
مصادرِسیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
اسلام کا علمی وثقافتی ورثہ (حصہ اوّل)
صفحات
:
638 قیمت1000 روپے
نام کتاب
:
مصادرِ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
اسلام کا علمی و ثقافتی ورثہ(حصہ دوم)
صفحات
:
666 قیمت1000 روپے
مؤلف
:
ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی حفظہ اللہ
ناشر
:
دارالنوادر الحمد مارکیٹ، اردو بازار لاہور
فون نمبر 0300-8898639
ڈسٹری بیوٹرز
:
کتاب سرائے، فرسٹ فلور، الحمدمارکیٹ، غزنی اسٹریٹ اردو بازار۔ لاہور

فون نمبر042-37320318

فضلی بک سپر مارکیٹ اردو بازار کراچی

فوننمبر021-32212991-32629724
ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی حفظہ اللہ (ولادت 26 دسمبر 1944ء)۔ مدرسہ حیاتیہ اسلامیہ گولا ضلع لکھیم پور کھیری یوپی نے ان کی اولین تعلیم و تربیت کی، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ نے علم و فضیلت کے در کھولے (1953 ء۔1960ء)، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے عصری علوم سے آگہی بخشی (1953ء۔1960ء)۔ ان دونوں تربیت گاہوں کی تکمیل عظیم ترین دانش گاہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے کی۔ جس نے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی (تاریخ)کی اسناد اور مناسبِ تدریس سے سرفراز کیا اور ایک طالب علم کو طلبِ علم و جستجوئے تحقیق کا ذوق پیہم عنایت کیا، شبلی و سلیمان کے معنوی شاگرد اور مدرسہ ندوہ کے مولوی عالم کو نصف صدی سے علم و تحقیق کا متوالا بنانے کی سبیل کی، تاریخ و سیرت میں تحقیق و تصنیف کا ذوق بخشا۔ سیرتِ نبویؐ کا ایک جاں سوز، فکر انگیز اور مثالی نمونہ سرسید کے خطباتِ احمدیہ جن پر شبلی کی سیرۃ النبی استوار ہوئی۔ اردو سیرتی ادب کے شہسواروں نے اپنے ایک طالب علم کو اسی عظیم و جمیل موضوع کے بے کراں میدان میں کارِ تحقیق میں لگا دیا۔ نئے نئے موضوعات اور نادر اور اچھوتے ابوابِ سیرت کے گوشے روشن کیے اور تحقیقاتِ سیرتِ عالیہ کا شرف بخشا۔ اسی جہانِ سرسید نے قرآن کریم اور حدیث شریف کی تحقیق و تصنیف اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار و موضوعات پر کارگزاری کی سعادت عطا کی۔ پچاس سے زیادہ کتابوں اور ان کے دس گنا مقالات و مضامین کا موادِ روشنائی اسی سرزمین نے فراہم کیا۔
علوم اسلامیہ کے دوسرے گوشوں کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کا خاص میدانِ تحقیق سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ تیرہ سو صفحات پر پھیلی ہوئی دو جلدوں میں یہ تحقیق ان کی نئی کتاب ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز نئی دہلی کے ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں عالم وجود میں آنے والے انسٹی ٹیوٹ کے، چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم تحریر فرماتے ہیں:
’’قرآنیات، حدیث، اصولِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، تصوف، عمرانیات، طبیعیات، کیمیا، حیوانیات، نباتیات، ریاضیات، طب، فنونِ لطیفہ اور فنِ تعمیر پر مشتمل اسلام کے علمی و ثقافتی ورثے کو انسٹی ٹیوت آف آبجیکٹو اسٹڈیز نے ایک باضابطہ منصوبے کی شکل اس لیے دی تاکہ ہماری نئی نسل اس سے استفادہ کرسکے۔ اس لیے کہ ملتِ اسلامیہ خصوصاً اس کے نوجوان اور خواتین اپنے اس عظیم حقیقی ورثے سے واقف نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے علماء میں معدودے چند ہی لوگ اس سے واقف ہیں۔‘‘
اس گراں قدر اور عظیم کتاب کے پیش لفظ میں محترم ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی نے کچھ مفید معلومات تحریر کی ہیں، وہ یہاں درج کرتے ہیں:
’’انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز، نئی دہلی نے اپنے قیام و آغاز کے دن سے بہت سے علمی اور تحقیقی منصوبوں کا ہدف اپنے سامنے رکھا اور پوری منصوبہ بندی، خاصی دوراندیشی اور مناسب تدریجی رفتار سے ان پر عمل درآمد شروع کیا۔ ان میں سے ایک وسیع المیعاد، کثیرالمقاصد اور مختلف الجہات منصوبہ Legacy of Islam یا ’’اسلام کا علمی ثقافتی ورثہ‘‘ ہے۔ اس کے تعارفی بروشر میں اس کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جس کا عملی پہلو یہ ہے کہ ’’جن اسلامی علوم وفنون میں مسلمانوں نے عظیم کارنامے انجام دیے ہوں ان میں سے ایک ہزار کتابوں کو منتخب کیا جائے، خواہ ان علوم وفنون کا تعلق خاص اسلامی علوم و فنون سے ہو جیسے علوم قرآنی، حدیث، فقہ، اصولِ حدیث واصولِ فقہ، تصوف و غیرہ، یا دنیاوی علوم کی تقسیم سے ہو جیسے تمام سماجی علوم (یعنی فلسفہ، منطق، کلام، تاریخ، جغرافیہ، سیاسیات، معاشیات، سماجیات وغیرہ)، یا سائنس سے ہو جیسے طبیعیات، کیمیا، حیوانات، نباتیات، ریاضی، طب وغیرہ، یا فنونِ لطیفہ اور فنِ تعمیر وغیرہ سے ہو۔ محتاط مطالعے کے بعد ہر ماخذ/کتاب کے بنیادی مباحث اور خاص مشمولات کا ایک مضمون کی صورت میں جامع تجزیہ کیا جائے جو بیس سے پچاس صفحات پر بالعموم مشتمل ہو۔ یہ تجزیہ ایسا ہو کہ قارئین اور محققین ایک نظر میں اپنے کام کا مطلوبہ مواد تلاش کرلیں۔ کتاب/ماخذ کا خلاصہ قطعی درکار نہیں، صرف بنیادی مباحث کا مختصر مگر جامع تجزیہ مطلوب ہے۔ ہر مضمون کے آغاز میں مصنف کا مختصر اور ضروری تعارف ہو جس میں اس کے ذاتی اوصاف، مذہبی و سیاسی میلانات، مسلکی تعصبات، سماجی پس منظر، علمی کمالات اور ان تمام امور کو ابھارا گیا ہو جو انسان کی شخصیت کی تفہیم کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔‘‘
’’ اس منصوبۂ عظیم الشان کی نگرانی اس ہیچمداں کے سپرد کی گئی جو اپنے محدود علم و فہم کے علاوہ فرائضِ منصبی کی پابندیوں اور دوسری علمی اور تحقیقی مصروفیات کی بنا پر تقریباً عدیم الفرصت تھا۔ لیکن انسٹی ٹیوٹ کے کارگزار و فعال صدر جناب ڈاکٹر محمد منظور عالم کی نگاہِ مہرآمیزاور اندازِ ذرہ نواز میں خاکسار راقم ہی موزوں ٹھیرا۔ ان کے محبت آگیں اور علم پرور اصرار کے علاوہ اپنی طالب علمانہ خو اور تحقیقی جستجو بھی اس اہم منصوبے سے وابستگی کی وجہِ قاطع بنی۔
منصوبے کی مشکلات کا اندازہ اس کے آغاز سے ہی تھا لیکن توفیقِ الٰہی، اعانتِ ربانی اور امدادِ علماء و اہل قلم کے سہارے کام کا آغاز کردیا۔ سب سے پہلے تو علوم فنون کی تشخیص و تعیین ہی امرِ مشکل بنی۔ کسی طرح اہم ترین علوم وفنون کی ایک عارضی اور سرسری فہرست سازی بھی ہوگئی مگر جو کام خاصا ہمت شکن ثابت ہوا وہ ہر علم و فن میں امہات الکتب کی تشخیص و تعیین تھی۔ متعدد اہلِ قلم کے تعاون سے بعض اسلامی علوم وفنون کی کتابوں کی فہرستیں بنالی گئیں اور بقیہ کے بارے میں یہ طے کیا گیا کہ کام کی رفتار کے ساتھ ساتھ فہرست سازی بھی کی جاتی رہے اور متعدد صاحبانِ علم و فن کے زبانی اور تحریری مشوروں کے بعد اس میں ترمیم و تنسیخ اور اصلاح و ترمیم کا عمل بھی جاری رکھا جائے تاکہ کام پہلے ہی مرحلے میں تعطل کا شکار نہ ہو۔‘‘
’’ترجیحی ترتیب کے مطابق سرفہرست تو علومِ قرآنی تھے مگر ان کے ماہرین اور نکتہ شناس محققین کی توجہ و عنایت سے محرومی کے سبب یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس علم و فن میں کام جلد از جلد پورا ہوجائے اسی پر مبنی جلد مکمل کرلی جائے، اور اسی طرح بلا ترتیب عددی اس جلد کو اہلِ علم کے سامنے پیش کردیا جائے۔ حسنِ اتفاق سے حدیثِ نبوی اور سیرتِ نبوی کی دو جلدیں سب سے پہلے تیار ہوگئیں۔ انھی کو سردست خدمتِ علماء و فضلاء میں پیش کیا جارہا ہے۔
سیرتِ نبوی پر مشتمل جلد میں اننچاس امہات الکتب پر مضامین ہیں اور وہ سب کے سب خاکسار نگرانِ منصوبہ کے قلمِ آثم رقم سے ہیں۔ عظیم دفترِ سیرت کی ہزار ہا کتابوں میں سے ان پچاس سرناموں کا انتخاب بہت مشکل کام تھا، تاہم بعض طے شدہ رہنما اصولوں کی وجہ سے وہ کچھ آسان بھی ہوگیا۔ اول یہ کہ مشہور ترین اور اہم ترین کتابوں کو اوّلین ترجیح دی گئی جن پر فنِ سیرت کا انحصار ہے جیسے حضرت عروہ بن زبیرؓ کی کتاب ’المغازی‘، ابن اسحاق و ابن ہشام کی ’سیرتِ نبویہ‘، واقدی و ابن سعد کی کتاب ’المبعث و المغازی‘ وغیرہ۔ دوم، ان کی اہم شرح و حواشی جو بجائے خود کلاسیکی کتب بن گئی ہیں جیسے امام سہیلی کی ’الروض الانف‘ وغیرہ۔ سوم، وہ تمام مشہور و اہم کتبِ سیرت جو مختلف دیارو امصار میں اور مختلف ادوار و عہود میں اوّلین امہات الکتب پر مبنی ہیں۔ چہارم، ہر صدی کی بعض نمائندہ کتابوں کو ضرور منتخب کیا گیا۔ پنجم، بلادِ اسلامی کے فنِ سیرت کے لحاظ سے اہم ترین مراکز جیسے حرمین شریفین، یمن، عراق، شام، مصر، مغرب، وسط ایشیا اور اندلسِ مرحوم کا بھی بھرپور لحاظ کیا گیا۔ ششم، موضوعات کے لحاظ سے بھی اہم ترین کتابوں کا انتخاب کیا گیا، جیسے قاضی عیاض کی ’کتاب الشفاء‘ اور ابن قیم جوزیہ کی ’زادالمعاد‘ وغیرہ۔ ہفتم، بعض کتب کا زمانی تقدم کی بنا پر انتخاب عمل میں آیا جیسے خلیفہ بن خیاط کی ’سیرتِ نبوی‘۔ ہشتم، اسلامی تاریخ کے مصادرِ اولین میں موجود موادِ سیرت کا بھی تجزیہ پیش کیا گیا جو بجائے خود کامل سیرت ہے۔ نہم، بعض ایسی کتبِ سیرت کا تعارف و تجزیہ بھی پیش کیا گیا جو فقہ و لغت، ادب و شعر وغیرہ دوسرے فنون کے حصے ہونے کے سبب سیرتی اعتبار سے زیادہ معروف متداول نہ تھیں مگر ان کی مواد، موضوع، اسلوب، تجزیہ اور پیشکش کی بنا پر کچھ کم اہمیت نہ تھی۔ دہم، برصغیر پاک و ہند کی جدید نمائندہ کتب کو بھی اس لیے شامل کیا گیا کہ اردو زبان و ادب میں نہ صرف ان کی اہمیت و ناگزیری مسلّم ہے بلکہ وہ اردو اہلِ قلم و سیرت کے لیے امہات الکتب کا کلاسیکی درجہ اختیار کرگئی ہیں جن پر وہ اپنی کتبِ سیرت کی بنیاد و نہاد رکھتے ہیں۔ ایسے ہی بعض اور رہنما خطوط تھے جن کی بنا پر موجودہ انتخاب حاضرِ خدمت کیا جارہا ہے۔
یہاں یہ اعتراف کرلینا ضروری ہے کہ بہت کوششوں کے باوجود بعض اہم کتابیں ہمیں دستیاب نہیں ہوسکیں۔ اگر وہ مل جاتیں تو ہمارے مجموعہ میں بعض دوسری کتابوں پر مضامین کو خارج کرنا پڑتا۔ دو چار ایسی بھی کتابیں ہیں جن کا تعارف و جائزہ کسی حد تک ناقص رہ گیا کہ ان کی کئی جلدوں میں سے ہمیں صرف ایک یا دو جلدیں ہی مل سکیں۔ لیکن ان کے مضامین کی تکمیل یا تعارف میں دوسری کتب سے مدد مل گئی۔ کوشش ہوگی کہ آئندہ اشاعت میں ان کی تکمیل کردی جائے، ورنہ ضمیمہ کے ذریعے ان خامیوں کو دور کرنے کی سعی کی جائے گی کہ وہ ہماری دیرینہ روایت ہونے کے علاوہ ایسی کتابوں کی پس نوشت ضرورت ہوتی ہے، اور بسا اوقات ناگزیر ہوتی ہے۔
ہماری کوشش تو یہی ہے کہ ہر علم و فن کی کم از کم پچاس کتابوں کا تعارف و جائزہ پیش کیا جائے بشرطیکہ مطلوبہ تعداد میں نمائندہ اور امہاتِ کتب اس میں موجود و دستیاب ہوں۔ سیرتِ نبوی اور حدیثِ نبوی پر اس سے کہیں زیادہ کتابیں موجود و فراہم ہیں لیکن ان کو پچاس تک محدود رکھا گیا۔ ہمارے پروجیکٹ کے مطابق یہ تعارف و تجزیہ ایک طرح سے کتابیاتی تبصرہ/مبصرانہ کتابیات(Annotated Bibliography ہے۔ خیال کیا جاسکتا ہے کہ وہ ماہرین اور اہلِ علم کے لیے اتنا کارآمد اور کارکشا نہیں ہے جتنا طالبانِ علم اور محققینِ فن بالخصوص نوآموزگانِ تحقیق کے لیے۔ لیکن یہ بلاخوفِ تردید عرض کیا جاسکتا ہے کہ ماہرین خصوصی بھی بیک نظر اپنے فن کی پچاس کتابوں اور ان کے مؤلفین کے بارے میں اتنی معلومات نہیں رکھ سکتے جو ہر ایک جلد میں پیش کی جارہی ہیں۔ لہٰذا یہ جلدیں تمام اہلِ علم کے لیے کارآمد و مفید ہیں کہ ایک جگہ اتنی معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اہلِ علم و ماہرینِ فن مقابلہ و موازنہ کرکے فنی بصیرت حاصل کرسکے ہیں اور طالبِ علم و تحقیق موادِ علم و فن پر اکتفا کرسکتے ہیں۔
سیرتِ نبوی اور حدیثِ نبوی دونوں کی جلدوں میں مضامین و مقالات کو زمانی ترتیب اور تاریخی تنظیم کے ساتھ مرتب و آراستہ کیا گیا ہے تاکہ بیک نظر علم و سیرت و فنِ حدیث کا ارتقا اور نشوونما بھی نظر آتا رہے۔ اور ہر مؤلف و مصنف کی انفرادی خصوصیات کے ساتھ اجتماعی اور فنی اوصاف کا ادراک و شعور بھی ہوتا رہے۔ سیرت کی موجودہ جلد میں پہلی صدی ہجری/ ساتویں صدی عیسوی سے چودھویں صدی ہجری/بیسویں صدی عیسوی تک کی کتبِ خاص کا احاطہ کیا گیا ہے۔
مضامین سیرت کی نوعیت یہ ہے کہ شروع میں ہر مؤلفِ کتاب کا تعارف چند عناوین کے تحت پیش کیا گیا ہے۔ تمہید کے بعد نام و نسب، تعلیم و تربیت، اساتذہ و شیوخ، مشغلۂ حیات، علمی اکتسابات، تلامذہ و شاگردان، وفات و مدتِ حیات، تصانیف و تالیفات اور طرزِ تالیف و تصنیف کے بعد اس حصے کا خاتمہ مؤلفِ متعلقہ کے مصادر و مآخذ پر ہوتا ہے۔ کتابِ سیرت کے جائزے میں ابتدائی سطریں کتاب کے نام وعنوان، طباعت اور اس کے مقام و سنہ، محقق و مرتب کے مقدمہ اور دوسری تمہیدی چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد سلسلۂ کلام کتاب کے مباحث سے جوڑ دیتی ہیں۔ بنیادی مضامینِ کتاب کا جائزہ بالعموم باب در باب اور فصل تا فصل لیا گیا ہے اور آخر میں زیرمطالعہ طبع کے صفحات کا اندراج بھی اس غرض سے کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی قاری اسی ایڈیشن سے استفادہ کررہا ہو تو متعلقہ مواد تلاش کرنے میں اسے مزید آسانی ہو، تلخیصِ مضامین اور تنقیدِ مباحث سے حتی الامکان گریز کیا گیا ہے۔ صرف قارئین کی دلچسپی اور دلجمعی کے لیے کہیں کہیں بعض معلومات بھی دے دی گئی ہیں، ورنہ اصل مقصود کتاب کے بنیادی مباحث کی نشاندہی کرنا ہے۔ جائزہ کتاب پر مبنی حصے میں اس امر پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے کہ مؤلف کے کام اور کتاب کی موضوعاتی نوعیت سے قاری اور طالبِ تحقیق و علم کو بھی متعارف و روشناس کیا جائے اور صرف اس کی بات پیش کی جائے۔ تنقید و تبصرہ اور بحث و تمحیص سے کام مؤلف کے سوانحی خاکہ میں لیا گیا ہے اور تالیفِ زیر مطالعہ کے حوالے سے اس کے آخری عنوان ’طرزِ تالیف‘ کے تحت کتابِ مسطاب کی خصوصیات و نقائص اور خوبیوں اور خامیوں سے تعرض کیا گیا ہے تاکہ قاری کو کتاب متعلقہ کے اصل مطالعہ کے وقت ان کا استحضار رہے۔ مؤلف کتاب کے بارے میں سوانحی خاکے کے مطالعہ کے بعد کتاب کی تفہیم و ادراک بھی آسان ہوجاتا ہے اور اس سے استفادہ بھی۔
اللہ تعالیٰ سے بصد الحاح و زاری دعا ہے کہ وہ اپنے اس کام کو قبولیت و مقبولیت عطا فرمائے اور اس سے وابستہ تمام افراد، شرکاء اور اداروں کو سعادتِ دارین سے نوازے اور اس کے ذریعہ علوم و فنون کی اسلامی ترقی، صالح نشوونما اور خیر پر مبنی متعدی ارتقا کا عمل جاری و ساری فرمادے۔
آخر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کے صالح و فعال کارگزار وکارساز اور فہیم و زکی صدر جناب ڈاکٹر محمد منظور عالم صاحب مدظلہ العالی کا شکریہ صمیم قلب سے ادا کروں جن کی ہدایت و رہنمائی، سرپرستی و اعانت اور دلچسپی و جاں سپاری کے بغیر یہ عظیم الشان منصوبہ شروع ہوسکتا تھا نہ یہ قیمتی علمی جلدیں مرتب ہوسکتی تھیں۔ میں پروجیکٹ کمیٹی کے فاضل و عالم ارکان مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ ، مولانا جلال الدین انصر عمری، ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر فضل الرحمن فریدیؒ ، پروفیسر عبدالحق انصاریؒ اور جناب محمد مقیم الدین کا بھی انتہائی شکر گزار ہوں کہ ان سے قدم قدم پر تعاون ملا۔ بالخصوص ڈاکٹر فریدی کا مرہونِ منت ہوں کہ وہ اس کم مایۂ علم و آگہی پر ہمیشہ دستِ شفقت رکھے رہے۔ اور اختتام پر اللہ تعالیٰ کی توفیقِ ارزانی کو بطور تحدیثِ نعمت بیان کرتا ہوں کہ جس کے بغیر قلم چل سکتا ہے نہ تحریر اجاگر ہوسکتی ہے۔‘‘
یہ عظیم علمی و دینی منصوبہ ان شاء اللہ تکمیل تک پہنچے گا، اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہم نے اس کا مفصل تعارف اپنے قارئین کے لیے پیش کیا ہے، گو اتنی طوالت کے لیے ہمارے ہاں جگہ نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر مظہر صاحب نے مبسوط مقدمہ: سیرت نبوی: آغاز و ارتقا کے نام سے تحریر فرمایا ہے جو اپنے موضوع پر عمدہ تحریر و تحقیق ہے۔
مصادر سیرتِ نبوی جلد اول میں جن سیرت نگار حضرات اور ان کی تحریر کردہ کتب پر مقالات ہیں وہ درج ذیل ہیں:
امام عروہ بن زبیر
:
22-94 ھ/713 ۔643 ء
امام ابن اسحاق
:
150 ۔85 ھ/767 ۔704 ء
امام عبدالملک ابن ہشام
:
م218 ھ/833 ء
علامہ واقدی
:
207 ۔130 ھ/823 ۔747 ء
امام ابن سعد
:
230 ۔168 ھ/845 ۔784 ء
علامہ خلیفہ بن خیاط عصفری
:
م240 ھ /854 ء
علامہ محمدبن حبیب بغدادی
:
م 245 ھ /860 ء
حافظ ابن قتیبہ دینوری
:
270 ۔213 ھ/882 ۔828 ء
علامہ بلاذری
:
279 ۔185 ھ/882 ۔810 ء
امام ترمذی
:
279۔210ھ/ 892 ۔825 ء
امام طبری
:
310 ۔224 ھ/923 ۔838 ء
علامہ یعقوبی
:
م315 ھ/927 ء
علامہ ابوزید احمد سہیل بلخی
:
322 ۔236ھ/934 ۔850 ء
مطہر بن طاہر مقدسی
:
م355 ھ/966 ء
علامہ مسعودی
:
345 ۔280 ھ/956 ۔893 ء
امام ابن حبان بُستی
:
354۔269 ھ/965 ۔882 ء
امام ابن حزم
:
456 ۔383 ھ/1064 ۔954 ء
امام ابن عبدالبرقرطبی
:
463 ۔368 ھ/1070 ۔978ء
قاضی عیاض بن موسیٰ یحصبی
:
544 ۔476 ھ/1149 ۔1083 ء
حافظ ابن عساکر
:
571 ۔499 ھ/1105-1176 ء
امام سہیلی
:
508-581 ھ/1114-1185 ء
امام ابن الجوزی
:
508-897 ھ/1116-1200 ء
حافظ عبدالغنی مقدسی
:
541-600 ھ/1146-1203 ء
علامہ ابن اثیر شیبانی
:
555-630 ھ/1160-1233 ء
حافظ کلاعی
:
565-634 ھ/1170-1237 ء
مصادر سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جلد دوم میں جن سیرت نگار اصحاب اور ان کی کتبِ سیرت پر مقالات ہیں وہ درج ذیل ہیں:
امام محب الدین طبری
:
615-694 ھ/1218-1294 ء
علامہ ابوالفداء اسمٰعیل
:
672-732 ھ/1273-1331 ء
امام نویری
:
677-733 ھ/ 1279-1332 ء
امام ابن سید الناس
:
671-734 ھ/1273-1334 ء
امام ذہبی
:
673-748 ھ/1274-1348ء
امام ابن قیم الجوزیہ
:
691-751 ھ/1292-1350 ء
حافظ مغلطائی
:
689-762 ھ/1290-1361 ء
امام ابن کثیر
:
701-774 ھ/1301-1373 ء
حافظ عراقی
:
725-806 ھ/1325-1404 ء
علامہ عبدالرؤف المناوی
:
952-1031 ھ/1545-1622 ء
علامہ ابن خلدون
:
732-808 ھ/1332-1406 ء
علامہ مقریزی
:
766-845 ھ/1364-1442 ء
امام یحییٰ بن ابی بکر العامری
:
816-893 ھ/1413-1488ء
امام قسطلانی
:
851-923 ھ/1448-1517ء
علامہ زرقانی
:
1055-1122 ھ/1645-1710ء
امام ابن الدیبع الشیبانی
:
866-944 ھ/1461-1537 ء
علامہ حسن بن محمد بن حسن دیار بکری
:
م حدود 966 ھ/1559 ء۔۔۔
علامہ حلبی
:
975-1044 ھ/1567-1634ء
نواب سید صدیق حسن خاں قنوجی بھوپالی
:
1248-1307 ھ/1832-1890 ء
علامہ شبلی نعمانی
:
1274-1332 ھ/1857-1914 ء
مولانا سید سلیمان ندوی
:
1302-1373 ھ/1884-1953 ء
قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری
:
1284-1349 ھ/1867-1930ء
مولانا عبدالرؤف دانا پوری
:
1291-1368 ھ/1874-1948 ء
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
:
1317-94 ھ/1899-1974 ء
مورخہ 20نومبر 2015 ء کو پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی کی نئی تصنیف ’’مصادر سیرت نبوی‘‘ کا اجرا نائب صدر جمہوریۂ ہند جناب محمد حامد انصاری کے ہاتھوں ہوا۔ اس موقع پر مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند نے کتاب اور مصنف کے بارے میں جن تاثرات کا اظہار فرمایا تھا، افادۂ عام کے لیے انھیں ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
’’محترم صدرِ مجلس عزت مآب نائب صدر جمہوریہ ہند جناب حامد انصاری صاحب و معزز شرکائے مجلس! منتخب اہل علم و دانش کی اس مجلس میں اظہارِ خیال میرے لیے بہت بڑی سعادت ہے۔ اس کے لیے آبجیکٹو اسٹڈیز اور خاص طور پر اس کے چیئرمین برادر عزیز ڈاکٹر محمد منظور عالم کا یہ عاجز شکر گزار ہے۔ ہمارے محترم دوست ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی حفظہ اللہ کی سیرتِ نبوی اور تاریخِ اسلام پر بڑی وسیع نظر ہے۔ سیرتِ نبوی کے مختلف پہلوؤں پر انھوں نے اپنے تحقیقی مقالات اور تصنیفات میں روشنی ڈالی ہے۔ اور بعض اُن گوشوں کو اجاگر کیا ہے جن کی طرف عموماً نظر نہیں جاتی۔
ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی سے میرے روابط بہت قدیم ہیں۔ سہ ماہی ’تحقیقاتِ اسلامی‘ علی گڑھ اِس عاجز کی ادارت میں اپنی عمر گریزاں کے 34 برس پورے کرچکا ہے۔ اس طویل عرصہ میں اللہ کا شکر ہے کہ اس کے ایک شمارے کا بھی کبھی ناغہ نہیں ہوا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کے آغاز ہی سے رفیقِ محترم محمد یٰسین مظہر صدیقی کا قلمی تعاون اسے حاصل رہا اور بعض سال ایسے بھی گزرے ہیں کہ ان کی نگارشات بغیر کسی انقطاع کے اس کی زینت بنتی رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا شکرگزار ہوں کہ آج تک ان کا تعاون ’تحقیقاتِ اسلامی‘ کو حاصل ہے۔
سیرتِ نبوی پر مشہور تصنیفات کے آغاز میں بطور تمہید ماخذِ سیرت پر بھی گفتگو ملتی ہے۔ لیکن مصادرِ سیرت پر اردو زبان میں یہ سب سے مبسوط اور جامع کوشش ہے۔ اس موضوع پر بہت سا مواد جو وسیع ذخیرۂ کتب اور علمی ذخائر میں موجود ہے، اسے تحقیق و تنقید کے ساتھ اس کتاب میں یکجا کردیا گیا ہے۔ ہر ماخذ کی علمی حیثیت بھی متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اہلِ علم، خاص طور پر سیرت سے دلچسپی رکھنے والے اس سے بہ آسانی فائدہ اٹھاسکیں گے۔ دعا ہے کہ ہمارے محترم دوست اور مصنف گرامی کو سیرتِ طیبہ کی مزید خدمت کی سعادت حاصل ہو اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیرتِ پاک کے مطالعہ، اس سے استفادہ اور اس پر عمل اور زندگی میں اسے جذب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس موقع پر انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز اور اس کے چیئرمین برادرِ عزیز محترم ڈاکٹر منظور عالم صاحب کا بھی شکریہ ادا کرنا ضروری ہے کہ انھوں نے اس کتاب کو اتنے اعلیٰ معیار سے شائع کیا ہے کہ اردو کی دینی اور علمی کتابیں کم ہی اس معیار سے شائع ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر سے نوازے۔‘‘
دونوں جلدیں علمِ سیرت اور متعلقاتِ سیرت میں وقیع و ثمین اضافہ ہیں۔ اللہ پاک اس محنت کو قبول فرمائے۔ کتابیں مجلّد ہیں، نیوز پرنٹ پر طبع کی گئی ہیں۔ بوڑھے آدمی آسانی سے اٹھاسکتے ہیں۔ بڑے سائز میں ہیں۔