خودی کی تیغِ فساں

چلیے، آج آغاز فرائیڈے اسپیشل ہی سے کرتے ہیں۔ اس ہفت روزہ میں علامہ اقبالؒ کا کلام اور اس میں موجود وہ الفاظ جو اَب مشکل سمجھے جانے لگے ہیں، ان کے معانی کا سلسلہ یقیناًاچھا اور قارئین کے لیے فائدہ مند ہے۔ شمارہ نمبر 48 میں علامہ کی مشہور نظم ’لاالہٰ الا اللہ‘ دی گئی ہے۔ مطلع کا دوسرا مصرع ہے
خودی ہے تیغ، فساں لاالٰہ الا اللہ
مصرع میں تو تیغ اور فساں کے بیچ میں کوما لگا کر واضح کردیا گیا ہے کہ یہ دو الفاظ ہیں یعنی تیغ اور فساں، لیکن نیچے جہاں معانی دیے گئے ہیں وہاں پر ایک ہی ہوگئے ’’تیغ فساں‘‘۔ اور اسی لحاظ سے مطلب بھی دیا گیا ہے کہ ’’تلوار کا وار روکنے والی ڈھال‘‘۔ فساں کا مطلب ڈھال ہرگز بھی نہیں ہے، بلکہ فساں اور افساں اُس آلے یا پتھر کو کہتے ہیں جس پر چاقو، چھری، تلوار کی دھار تیز کی جاتی ہے۔ سان پر چڑھانا یا سان رکھنا محاورہ ہے۔ آپ نے بھی کبھی چاقو، چھریاں تیز کروائی ہوں گی یا دیکھا ہوگا کہ ایک گول گھومنے والے پتھر کی مدد سے دھار رکھی جارہی ہے۔ یہی فساں یا سان ہے، اور علامہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ خودی اگر تیغ ہے تو اس کی دھار کلمے کی فساں سے تیز ہوتی ہے۔ جانے یہ ڈھال کے معنی کہاں سے آگئے۔ جہاں تک تیغ فساں کو ملا کر لکھنے کا معاملہ ہے تو کئی گانے والے اسی طرح گاتے ہیں یعنی تیغ فساں۔ کسی غیر معتبر کتاب سے معانی لینے کے بجائے بہتر ہوگا کہ مولانا غلام رسول مہر کی کتاب سے استفادہ کیا جائے۔ اسی طرح علامہ کا مصرع
کیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا
میں متاعِ غرور کا مطلب ’’فخر و تکبر کی پونجی‘‘ دیا ہے۔ بے شک اردو میں غرور تکبر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن علامہ نے اس کو قرآنی معنوں میں استعمال کیا ہے، یعنی دھوکا، فریب، بے حقیقت چیز۔ اسے دھوکے کی ٹٹی بھی کہہ سکتے ہیں۔ مذکورہ مصرع میں علامہ نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ تُو نے جس متاع کا سودا کیا ہے وہ محض فریب اور بے اصل چیز ہے۔ اسی کو دوسرے مصرع میں واضح کردیا کہ
فریبِ سود و زیاں، لاالٰہ الا اللہ
برسبیل تذکرہ، ایک ’سان‘ ہندی کا بھی ہے، جس کا مطلب ہے نشان، علامت۔ سان، گمان یعنی خیال، وہم، اندیشہ، اشارہ، کنایہ اردو میں عام مستعمل ہے۔ نون غنہ کے ساتھ فارسی میں ’ساں‘ ہے۔یہ حرف تشبیہ ہے، مانند، مثل۔ مثلاً
شمع ساں ہم پگھل پگھل کر آخر جل کر خاک ہوئے
ساں کا اردو میں ایک استعمال یک ساں ہے جسے ملا کر یکساں بھی لکھا جاتا ہے۔
یکساں اور اسی قسم کے الفاظ کو ملا کر یا الگ الگ لکھنے کی بحث بھی پرانی ہے۔ اس حوالے سے رشید حسن خاں نے پروفیسر غازی علم الدین کے نام اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ ’’دو لفظوں کو ملا کر لکھنے یا نہ لکھنے کے بارے میں کوئی اصول نہیں بن سکا ہے۔ بہت سے لفظ ایسے ہیں کہ ملا کر لکھے جائیں تو بھی ٹھیک معلوم ہوتے ہیں اور الگ الگ لکھے جائیں تو بھی ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً عقلمند، دلخوش، گرمجوشی، بیوفا، بیکار، بجائے عقل مند، دل خوش، گرم جوشی، بے وفا، بے کار وغیرہ۔ ایک موٹا اصول یہ ہے کہ مخلوط لفظ کے مفرد ٹکڑے اگر الگ الگ لفظ کی طرح بھی رائج ہیں تو انہیں الگ الگ لکھنا بہتر ہے، مثلاً دلچسپ، دلچسپی، نہ کہ دل چسپ/ دل چسپی۔ خدمتگار، نہ کہ خدمت گار، پائمال نہ کہ پائے مال وغیرہ۔ کچھ مخلوط لفظ ایسے ہیں کہ دونوں طرح ٹھیک معلوم ہوتے ہیں، مثلاً راست باز/ راستباز، ایماندار/ ایمان دار، بیہوش/ بے ہوش، تنگدست/ تنگ دست، تہبند/ تہ بند وغیرہ۔ کچھ میں یہ معاملہ ہے کہ ایک ہی املا رائج ہے، مثلاً ’’پنگھٹ‘‘ کہ اسے پن گھٹ نہیں لکھا جاتا۔ اسی طرح جوابدہی، دانشور، دستخط وغیرہ‘‘۔
یہاں تک تو بات صحیح ہے لیکن دانشور تو الگ الگ لکھا جاتا ہے یعنی دانش ور۔ ایک معروف مصرع ہے ’’دانش تری، نہ کچھ مری دانش وری چلے‘‘۔ یہ خود رشید حسن خاں کے اس اصول کے مطابق ہے کہ مخلوط لفظ کے مفرد ٹکڑے اگر الگ الگ لفظ کی طرح بھی رائج ہیں تو انہیں الگ الگ لکھنا بہتر ہے۔ دستخط بھی اسی اصول کے تحت دست خط لکھا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ٹی وی چینل پر الفاظ کو توڑنے کی مہم چل پڑی تھی۔ اب اس کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ ادارہ ہمدرد کے تحت شائع ہونے والے رسائل اور کتابوں میں بھی الفاظ کے ٹکڑے کرنے کا رواج ہے لیکن خود ہمدرد کو ’ہم درد‘ نہیں لکھا جاتا۔ بسا اوقات اس توڑ پھوڑ کی صورت حال اس شعر کے مصداق ہوجاتی ہے کہ:
اس نے پہلے مُس کہا، پھر تق کہا، پھر بل کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیے
الفاظ بھی تصویر کی مانند ہوتے ہیں کہ سنتے ہی ان کی صورت سامنے آجاتی ہے۔ ماہنامہ ’قومی زبان‘ کے شمارہ نومبر میں آخری صفحہ پر قومی زبان اور سہ ماہی اردو کے لیے تعاون کی غرض سے ایک اشتہار دیا گیا ہے جس کا آخری جملہ ہے ’’ان رسائل کی سرپرستی فرمایے‘‘۔ اس ’’فرمایے‘‘ کا تلفظ کیا ہوگا؟ گائے اور بابائے کے اوپر سے تو ہمزہ اتار ہی لی گئی ہے لیکن یہ تو فرمائیں کہ ’’فرمائیے‘‘ نے کیا قصور کیا ہے۔ فرمانا فارسی فرمودن سے بنا ہے۔ فرمودن کا حاصل مصدر فرمایش ہے۔ فارسی میں بفتح پنجم ہے (ی کے اوپر زبر) تاہم اردو میں بالکسر پنجم ہے۔ ’فرمایے‘ کوئی لفظ ہے تو قومی زبان کے مدیران مطلع فرمائیں۔
منگل 29 نومبر کو حضرت علامہ ڈاکٹر عامر لیاقت کا پروگرام دیکھ رہے تھے۔ اس میں انہوں نے پہلے مولانا فضل الرحمن کی طرف سے گڑے مُردے کو مُردے گڑھے کہنے پر مذاق اڑایا، پھر فرمایا کہ یہ گڑھے مُردے ہے۔ یہ بھی غلط ہے۔ پھر ایک اینکر شاہزیب خانزادہ کو درس دیا کہ ضرب عَضَب نہیں عضْب ہوتا ہے۔ (ض پر جزم، بر وزن نرم، شرم)۔ اس کے بعد موصوف نے طمطراق کا لفظ استعمال کیا اور غلط تلفظ کے ساتھ۔ طُمطُراق میں دونوں ’ط‘ پر پیش ہے اور وہ زبر کے ساتھ ادا کررہے تھے۔ دوسروں پر اعتراض کرنے سے پہلے اپنا تلفظ درست کرلیا جائے تو اچھا ہے، ورنہ پڑھے لکھے لوگ مذاق بنائیں گے۔ انہیں شاید طمطراق کا مطلب بھی نہ معلوم ہو۔ ہم اپنے قارئین کے لیے بتادیں کہ یہ دو الفاظ طُم اور طُراق کا مجموعہ ہے۔ طُم کا مطلب ہے بلندی اور طُراق کا مطلب آوازہ۔ طُمطُراق کا مطلب ہے کروفر، شان و تجمل، دھوم دھام۔ اردو میں یہ غرور اور ڈینگ کے معنوں میں آتا ہے۔ ایک شعر استاد تسلیم کا ہے:
ہم نہ کہتے تھے کہ ہے بیجا غرور
طمطراق اب آپ کا وہ کیا ہوا