ہنری کسنجر کا انکشاف

جنرل یحییٰ خان کا مارشل لا پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اس دور میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے تھے، لیکن ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے اور منتخب سیاسی جماعت کو اقتدار سپرد نہ کرنے کی وجہ سے بحران پیدا ہوا، اور سب سے زیادہ آبادی کا اعزاز رکھنے والی نوآزاد مسلم ریاست پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ مسلم تاریخ میں دشمنوں کے مقابلے میں شکست و فتح کی داستانیں تو ملتی ہیں لیکن جس طرح بھارتی فوج کے آگے ہتھیار ڈالنے کی ذلت اٹھانی پڑی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ سانحہ کیسے پیش آیا، اس بارے میں حقائق کو ہمیشہ چھپایا گیا ہے۔ سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ آج تک ہمارے قومی ضمیر کو کچوکے لگا رہا ہے۔ عروج و زوال انسانی تاریخ کا حصہ ہے، اسی لیے تاریخ بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت اور سبق کا باعث ہوتی ہے اگر کوئی تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر ہم بہ حیثیت قوم اس سانحے سے شعوری طور پر سبق حاصل کرتے تو یہ ہماری قومی قوت و طاقت میں اضافے کا سبب بنتا، لیکن پاکستان کے حکمراں طبقات نے شعوری طور پر قومی سانحات کے اسباب اور ان کے ذمے داران سے نئی نسل کو بے گانہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جو قوم اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھتی اُس کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ سقوطِ ڈھاکا یا پاکستان کے مشرقی بازو کی علیحدگی کا سانحہ زیادہ پرانا نہیں ہے۔ یہ واقعہ ذرائع ابلاغ کے روشن ایام میں پیش آیا ہے۔ اگر اس سانحے کا حقیقی معنوں میں تجزیہ کیا جاتا تو آج ہم اپنے قومی، ملّی اور سیاسی امراض کے اسباب جان لیتے۔ ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ قوم سے حقائق پوشیدہ رکھے ہیں، لیکن سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے سانحۂ سقوطِ ڈھاکا کے اصل راز کو فاش کردیا ہے۔ ہنری کسنجر جنرل یحییٰ خان کے دورِ حکومت میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے وزیر خارجہ تھے۔ ہنری کسنجر کو امریکہ کے اہم ترین وزرائے خارجہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ اُن لوگوں میں سے ایک ہیں جو امریکی خارجہ پالیسی کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے دورِ وزارتِ خارجہ میں عالمی سیاست میں ایک بڑی اور بنیادی تبدیلی آئی، اُس زمانے میں امریکہ اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع تھے۔ عملاً امریکہ نے چین میں ثقافتی انقلاب کے بعد قائم ہونے والی ماؤزے تنگ اور چواین لائی کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہوا تھا۔ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کے دور میں حکومتِ پاکستان نے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے خفیہ دورۂ چین کا اہتمام کیا۔ وہ اسلام آباد سے خفیہ طور پر بیجنگ گئے، ماؤزے تنگ اور چواین لائی سے ملاقات کی۔ امریکہ نے چین کی انقلابی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح چین امریکہ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ اسی دور میں پاکستان میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے۔ جنرل یحییٰ خان کی حکومت سابق فوجی آمر جنرل ایوب خان کے جبر و استبداد کے خلاف عوامی سیاسی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ جنرل ایوب خان نے اس تحریک کے نتیجے میں اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اپنی سربراہی میں بنائے گئے 1962ء کے دستور کے تحت چیف جسٹس کو اختیار منتقل کرنے کے بجائے فوج کے کمانڈر انچیف کو اقتدار منتقل کردیا، جس نے دستور منسوخ کرکے دوبارہ دستور سازی کی مشق کا اعلان کردیا۔ یہ مشق اس اعتبار سے خطرناک تھی کہ پاکستان میں دستور سازی پر اتفاق آسان نہیں تھا۔ جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے مشرقی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے سے گریز کیا جس کے نتیجے میں ایسا بحران پیدا ہوا کہ سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ پیش آیا، اور جان بوجھ کر عوامی لیگ اور اس کے قائد شیخ مجیب الرحمن سے مصالحت کے تمام دروازے بند کردیے گئے۔ بھارت نے پہلے تو مشرقی پاکستان میں دہشت گرد گروہ داخل کیے اور بعد میں براہِ راست فوجی مداخلت کردی، اور مشرقی کمان کے سربراہ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے بھارتی فوج کے سامنے مرکزی کمان کے حکم پر ہتھیار ڈال دیے۔ اسی زمانے میں چھٹے امریکی بحری بیڑے کا شور تھا جو پاکستان کی حفاظت کے نام پر مشرقی پاکستان پہنچنے والا تھا۔ یہ شور قوم کو صرف بے وقوف بنانے کے لیے تھا، اس بیڑے کو نہ پہنچنا تھا اور نہ پہنچا۔ طویل عرصے کے بعد سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کا راز افشا کیا ہے، یعنی امریکہ نے پاکستان کی اُس وقت کی فوجی حکومت کو حکم دیا کہ وہ مشرقی پاکستان کو ’’آزاد‘‘ کردے۔ ہنری کسنجر کے انکشاف کے مطابق اُس وقت کے حکمرانوں یعنی جنرل یحییٰ خان اور اُن کی ٹیم نے وعدہ کرلیا کہ مارچ 1972ء تک مشرقی پاکستان کو ’’آزاد‘‘ کردیا جائے گا۔ ہمارے حکمرانوں نے وعدے کی مدت سے قبل ہی یعنی 16 دسمبر 1971ء کو امریکی حکم پر بھارت کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلت اٹھالی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کوکمیونزم کے خلاف ’’خطِ اول‘‘ (Front Line State) قرار دیا جاتا تھا۔ پاکستان امریکی جنگی اتحادوں کا رکن تھا، لیکن یہ دوستی پاکستان کی ’’سلامتی‘‘ کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کو دولخت کرنے کا سبب بنی۔ ہمارے حکمران طبقات نے اس سانحے سے سبق نہیں لیا اور وہ آج تک طوطے کی طرح امریکہ کا پڑھایا ہوا سبق ہی دہراتے ہیں۔ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویزمشرف نے اپنے سابق پیش رو جنرل یحییٰ خان کی طرح امریکی حکم پر نام نہاد دہشت گردی کے خاتمے کی امریکی جنگ میں ماضی کی طرح ’’خطِ اول‘‘ کا اتحادی یعنی Front Line State بننے کا فیصلہ کیا۔ اِس مرتبہ تو امریکہ نے راز بھی نہیں رکھا اور دنیا کو بتادیا کہ جنرل پرویزمشرف کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر تم نے حکم نہیں مانا تو پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیل دیا جائے گا۔ یہ ہے آج تک امریکہ سے دوستی کی تاریخ، یعنی ہمارے حکمرانوں نے ’’دوستی‘‘ کے نام پر ایسی ’’غلامی‘‘ کی ہے جو دشمنی سے بھی بدتر ہے۔ اس عرصے میں گزری ہوئی تاریخ کا اصل سبق یہ ہے کہ اصل طاقت اللہ کی ہے۔ ہم نے اس مختصر عرصے میں دیکھ لیا کہ پہلے ایک سپر طاقت سوویت یونین اپنی عالمی بالادستی برقرار نہیں رکھ سکی، امریکہ نے بلاشرکت غیرے دنیا پر عالمی حکمرانی کا دعویٰ کیا، لیکن افغانستان میں جس طرح شکست ہوئی اس نے امریکی سپر پاور کا غرور خاک میں ملادیا۔ اس کے باوجود ہمارے حکمرانوں نے تاریخ سے ابھی تک عبرت نہیں پکڑی ہے اور اسی کوئے ملالت کی طرف دوڑے جاتے ہیں جو پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔