وفاقی نظام کی سب سے بڑی حامی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کا شمار کبھی پاکستان کی چوٹی کی جماعتوں میں ہوتا تھا۔ پیپلز پارٹی چاروں صوبوں سمیت فاٹا، گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر میں خاص اثر رکھتی رہی ہے، لیکن جب سے شیرپاؤ خاندان اور پیپلزپارٹی کے راہیں جدا ہوئی ہیں، پیپلزپارٹی کو صوبے میں دوبارہ اقتدار نصیب نہیں ہوسکا ہے۔ یہ بات بلاشک وشبہ کہی جاسکتی ہے کہ پیپلزپارٹی اگر ایک جانب ملک کے طول وعرض میں اپنا وجود اور اثر رسوخ رکھتے ہوئے حقیقی معنوں میں ایک ملک گیر جماعت ہے تو دوسری جانب خیبر پختون خوا کی حد تک بھی پیپلز پارٹی صوبے کے کسی ایک مخصوص علاقے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا ووٹ بینک پورے صوبے میں پھیلا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی ماضی میں دیر، ملاکنڈ، سوات، مردان، نوشہرہ، چارسدہ، صوابی، پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو، کوہاٹ اور بنوں کے اضلاع سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتتی رہی ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ملک کے دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختون خوا میں بھی نہ صرف اس کے ووٹ بینک میں واضح کمی آئی ہے بلکہ اس کے بعض سرکردہ راہنماؤں اور دیرینہ نظریاتی اور مخلص کارکنان کی پارٹی سے کنارہ کشی یا پھر دیگر جماعتوں میں شمولیت سے اس کے سیاسی قد کاٹھ اور وزن پر بھی خاصا اثر پڑا ہے۔ پیپلزپارٹی جو کبھی غریب ہاریوں، کسانوں، مزدوروں، محنت کشوں اور پسے ہوئے طبقات کی نمائندہ جماعت سمجھی جاتی تھی، پچھلی چند دہائیوں کے دوران بالعموم اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد بالخصوص سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ پنجاب اور خیبرپختون خوا جو 1970ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی کی سیاست کے پاور ہاؤس تھے، جب ان دو اہم صوبوں کی قیادت پیپلزپارٹی کے روایتی مخلص جیالے راہنماؤں کے بجائے مسلم لیگی پس منظر رکھنے والے قائدین کے حوالے کی گئی تو یہاں سے ان دونوں صوبوں میں پیپلزپارٹی کا زوال شروع ہوا، اور تب سے ان دونوں صوبوں میں پیپلز پارٹی نہ تو اقتدار میں آسکی ہے اور نہ ہی پارٹی صفوں میں پائی جانے والی سردمہری اور مایوسی کی فضا کو ختم کیا جاسکا ہے۔
خیبر پختون خوا میں پیپلزپارٹی کو شروع میں سب سے زیادہ نقصان شیرپاؤ گروپ (جسے ان دنوں قومی وطن پارٹی کہا جاتا ہے) نے پہنچایا، جبکہ ماضئ قریب میں اس کے رہے سہے ووٹ بینک میں سب سے بڑا نقب پی ٹی آئی نے لگایا ہے۔ پیپلزپارٹی کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ اس کی صفوں سے مخلص، دیرینہ اورکہنہ مشق نظریاتی کارکنان اور راہنماؤں کا اخراج تو ہوتا رہا ہے لیکن اس میں نئے خون کی شمولیت کی جانب کبھی بھی کسی نے کوئی سنجیدہ توجہ نہیں دی۔ ہمارے ہاں چونکہ سیاست سیاسی خانوادوں کی مرہونِ منت ہے اور سیاسی مجاوروں کے اس جمہوریت کُش سیاسی کلچر کی وجہ سے چونکہ عام کارکن اور متوسط و غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے راہنماؤں اور کارکنان میں کوئی خاص ہم آہنگی نہیں پائی جاتی، اس وجہ سے ہمارے ہاں نہ تو خالص جمہوری کلچر پروان چڑھ سکا ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتیں بلوغت کے اُس مقام پر پہنچ سکی ہیں جسے جمہوریت کے استحکام کا لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے ملک میں مفاہمت کی جو سیاست شروع کررکھی ہے اور پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جس سرعت اور خاموشی کے ساتھ پارٹی کی گمشدہ میراث کی بازیابی کے لیے جو ہاتھ پیر مار رہے ہیں ان کی یہ کاوشیں یقیناًپارٹی کے تنِ مُردہ میں نئی روح پھونکنے میں ممد ومعاون ثابت ہوسکتی ہیں، لیکن اس کے لیے انہیں آصف علی زرداری کے فلسفۂ سیاست کے بجائے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کا فلسفہ اور طرزِعمل اپنانا ہوگا۔ پارٹی کے پرانے آزمائے ہوئے راہنماؤں کے بجائے بلاول بھٹو زرداری نے نئی قیادت کو آگے لانے کا جو سلسلہ سندھ کے 80 سالہ بزرگ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی تبدیلی سے شروع کیا ہے اس کے پارٹی کے حق میں اچھے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اسی سوچ اور حکمت عملی کے تحت طویل خاموشی اور جمود کے بعد خیبر پختون خوا کی قیادت میں بھی تبدیلی کا آغاز کرکے نئی صف بندی کا اشارہ دے دیا گیا ہے‘ جو صوبے میں پارٹی کی ڈھیلی پڑتی ہوئی گرفت پر قابو پانے کے حوالے سے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ واضح رہے کہ پارٹی کے دیرینہ راہنما اور سابق صوبائی وزیر خزانہ انجینئر ہمایوں خان کی بطورصوبائی صدر تعیناتی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ پارٹی کا صوبائی صدر شمالی اضلاع سے لینے کے بعد صوبائی جنرل سیکرٹری کا عہدہ جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی کو دیا گیا ہے۔ جبکہ سیکرٹری اطلاعات ونشریات کا عہدہ پشاور سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی صدر سید ظاہر علی شاہ کی ہمشیرہ سینیٹر روبینہ خالد کو دیا گیا ہے۔ انجینئر ہمایوں خان کا تقرر اس حوالے سے تو خوش آئند ہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے سیاسی خانوادے کے چشم وچراغ ہیں اور سیاست ان کی گھٹی میں شامل ہے۔ اسی طرح وہ چونکہ ایک بردبار، تحمل مزاج، سنجیدہ اور دیانت دار راہنما کی شہرت رکھتے ہیں اس لیے ان کے چناؤ کو سیاسی حلقے بجا طور پر ایک اچھی اور متوازن چوائس قرار دے رہے ہیں۔ لیکن یہاں یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ وہ صوبے میں پیپلزپارٹی کی عظمتِ رفتہ کی بحالی میں آخر کس طرح کامیاب ہوسکیں گے؟ یاد رہے کہ انجینئر ہمایوں خان پیپلز پارٹی کے دسویں صدر ہیں جنہیں پارٹی کی مرکزی ہائی کمان نے پیراشوٹ سے صوبائی عہدۂ صدارت پر اتارا ہے۔ انجینئر ہمایوں خان پیپلزپارٹی کے دیرینہ اور مخلص راہنما حنیف خان آف ملاکنڈ کے فرزندِ ارجمند ہونے کے باوجود چونکہ پارٹی صفوں میں زیادہ متحرک نہیں رہے ہیں اس لیے ان کی تقرری کو ان کے ساتھ ساتھ پارٹی کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج قرار دیا جارہا ہے۔ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج پارٹی کے نصف درجن سے زائد سابق صدور جن میں بیرسٹر مسعود کوثر، رحیم دادخان، سید ظاہر علی شاہ، سردار علی خان، انور سیف اللہ خان اور خانزادہ خان کو قرار دیا جارہا ہے جن کی پارٹی میں موجود مخصوص لابیاں نئے صوبائی صدر کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا کوئی موقع یقیناًہاتھ سے جانے نہیں دیں گی۔ لہٰذا ایسے میں نئے صوبائی صدر کو نہ صرف پارٹی کے ان تمام ہیوی ویٹس کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا بلکہ انہیں پارٹی میں نئی روح پھونکنے کے لیے ناراض اورگمنام مخلص کارکنان اور راہنماؤں کو اعتماد میں لے کر انہیں ایک نئے عزم کے ساتھ متحرک کرنا ہوگا۔ یہی ان کی قیادت اور سیاسی بصیرت کا اصل امتحان ہوگا۔
nn