ابن عساکر نے عبداللہ ابن حذیفہ کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ یہ صحابی تھے، ان کو رومیوں نے گرفتار کرلیا اور اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ بادشاہ نے انہیں کہا کہ آپ نصرانی بن جائیں میں آپ کو اپنے اقتدار میں بھی شریک کرتا ہوں اور اپنی لڑکی آپ کے نکاح میں دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا: اگر تُو مجھے اپنی پوری مملکت دے دے اور تمام عربوں کی حکومت بھی عطا کردے اس کے عوض کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو ترک کردوں اور وہ بھی پلک جھپکنے جتنی دیر کے لیے، تو بھی میں یہ کام نہ کروں گا۔ اس نے کہا: تو پھر میں تمہیں قتل کردوں گا۔ انہوں نے کہا: تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ نے حکم دیا اور انہیں سولی پر چڑھا دیا گیا۔ پھر اس نے تیراندازوں کو حکم دیا کہ وہ ان کے ہاتھ اور پیروں کے قریب تیر ماریں۔ چنانچہ وہ تیر مارتے رہے اور بادشاہ ان کو نصرانیت کا دین پیش کرتا رہا، لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ اس کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ ان کو سولی سے اتار دیں۔ چنانچہ انہیں تختہ دار سے اتارا گیا۔ اس کے بعد تانبے کی ایک (تیل کی) ہنڈیا یا دیگ لائی گئی۔ اسے گرم کیا گیا۔ اس کے بعد ایک مسلمان قیدی لایا گیا، اسے اس کے اندر پھینکا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چمکدار ہڈیاں بن کر رہ گیا۔ اس کے بعد پھر بادشاہ نے ان پر اپنا دین پیش کیا۔ پھر انہوں نے انکار کردیا۔ اب اس نے حکم دیا کہ ان کو بھی اس دیگ میں پھینک دیا جائے۔ انہیں لوہے کی چرخی پر چڑھایا گیا تاکہ اس کے اندر پھینک دیں۔ اس وقت وہ روئے۔ اُس وقت بادشاہ کو یہ لالچ پیدا ہوگیا کہ شاید اب مان جائیں، تو بادشاہ نے انہیں بلایا اور رونے کا سبب پوچھا۔ وہ بولے: میں رویا اس لیے ہوں کہ میری جان ایک ہے اور وہ بھی ابھی اس دیگ میں ڈال دی جائے گی اور ختم ہوجائے گی، لیکن میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے ہر بال کے برابر جانیں عطا ہوتیں اور وہ اللہ کی راہ میں قربان ہوتیں۔
ایک روایت میں ہے کہ بادشاہ نے ان کو قید کردیا اور کھانا بند کردیا۔ ایک عرصے تک یہ پابندی رہی۔ اس کے بعد انہیں شراب اور خنزیر بھیجا تو انہوں نے اس کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ بادشاہ نے بلا کر پوچھا کہ تم نے ان کو ہاتھ کیوں نہ لگایا؟ انہوں نے کہا: یہ چیزیں اِس وقت تو میرے لیے حلال ہیں لیکن میں تمہیں خوش کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس پر بادشاہ نے کہا: چلو میرے سر ہی کو چوم لو میں تمہیں اس کے عوض رہا کردوں گا۔ اس پر انہوں نے کہا: کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کردو گے؟ بادشاہ نے کہا ہاں۔ تو انہوں نے اس کے سر کو چوم لیا اور بادشاہ نے وہ تمام قیدی رہا کردیے جو ان کے ساتھ تھے۔ جب وہ لوٹے تو عمرؓ بن الخطاب نے فرمایا: ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ عبداللہ ابن حذیفہ کا سر چومے اور میں اس کی ابتدا کرتا ہوں۔ وہ اٹھے اور انہوں نے ان کے سر کو چوما۔ اللہ دونوں سے راضی ہو۔
یہی حال حبیب ابن زید انصاری کا رہا۔ ان سے مسیلمہ کذاب نے کہا ’’کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہاں‘‘۔ پھر اس نے کہا: ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں رسول ہوں؟‘‘ توانہوں نے کہا: ’’میں نہیں سن رہا۔‘‘ وہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا۔ وہ یہی جواب دیتے رہے، یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں شہید ہوگئے۔
یہ اس لیے کہ عقیدہ اور نظریہ ایک عظیم دولت ہیں۔ نظریے میں کمزوری نہیں دکھائی جاتی اور رخصتوں پر عمل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگرچہ رخصت ہوتی ہے لیکن ایک مومن نفس اس کو ترجیح دیتا ہے کہ وہ عزیمت پر عمل کرے، کیونکہ نظریہ ایک ایسی امانت ہے جس پر انسان کی پوری زندگی اور پورے دنیاوی مفادات کو قربان کرنا چاہیے۔
(فی ظلال القرآن۔ جلد چہارم۔ تفسیر سورۂ النحل)