لاطینی اصطلاح radix (بنیادوں یا جڑوں) سے ماخوذ انگریزی کا لفظ ’ریڈیکل‘ کیمبرج ڈکشنری میں یوں واضح کیا گیا ہے ’’اس بات پر یقین رکھنا اور اس کا برملا اظہار کرنا کہ عظیم معاشرتی، سماجی، اور سیاسی تبدیلی (اصلاحات) آنی چاہیے‘‘۔ اردو میں سمجھا جائے، تو ’مصلح‘ یا ’انقلاب‘ہی مناسب ترجمہ یا متبادل کہا جاسکتا ہے۔ یوں اسلام فطری طور پر مصلح اور انقلابی ہے، مگر مغرب یہ ضرورت محسوس کررہا ہے کہ ’ریڈیکل اسلام‘ کی اصطلاح میں ہدف بالکل واضح ہوکر سامنے آجائے۔ پُرفریب اصطلاحات ’انتہا پسند اسلام‘، ’بنیاد پرست اسلام‘، ’دہشت گرد اسلام‘، ’قدامت پرست اسلام‘ کے غلاف اب ہٹادیے گئے۔ اب مغرب کے مقتدر دانشور مجموعی طورپر’ریڈیکل اسلام‘ کی اصطلاح استعمال کررہے ہیں۔ یہاں اصطلاح کے تعارف اور استعمال کا ذکر حال کی افسوسناک خبرکے سبب سے آیا ہے۔ خبر کی طرف جانے سے پہلے ایک کتاب کے تعارف سے چند مندرجات نقل کرتے ہیں۔۔۔ مضمون کا مدعا آسان ہوجائے گا۔
’’میں نے دو وجوہات کے سبب یہ کتاب لکھی۔ پہلی وجہ یہ واضح کرنا ہے کہ جو جنگ ہمارے (مغرب) خلاف لڑی جارہی ہے، اس میں دشمن کی شناخت واضح نہیں۔۔۔ کیونکہ ہماری انتظامیہ نے ہمیں دشمن کے صاف شفاف تعارف کی تشریح یا وضاحت سے روک دیا ہے۔ دراصل ہمارے دشمن ’ریڈیکل اسلام پسند‘ ہیں۔ یہ تنہا نہیں، ان کے ملکوں اور گروہوں سے تعلقات ہیں، جو اگرچہ مذہبی جنونی نہیں مگر مغرب سے نفرت میں ایک ہیں۔ بالخصوص یہ نفرت امریکہ اور اسرائیل سے ہے۔ ان کے اتحادی ملکوں میں چین، شمالی کوریا، وینزویلا، اور روس ہوسکتے ہیں۔ کتاب لکھنے کی دوسری وجہ ’ریڈیکل اسلام‘ پر عالمی جنگ میں فتح کی حکمت عملی بیان کرنا ہے۔
میں ایک کامیاب امریکی فوجی افسر رہا ہوں۔ ’ریڈیکل اسلام‘ سے جنگ میں مَیں عملاً اور سفارتی سطح پرکئی محاذ دیکھ چکا ہوں۔ افغانستان، عراق، اور افریقا کے جنگلات سے امریکہ کی انٹیلی جنس اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ تک گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا ہوں۔ میں ’ماہرین‘ کے مقابلے میں دشمنوں کو زیادہ پہچانتا ہوں، اور میں بے حد خوفزدہ ہوں۔ ہم شکست کھا سکتے ہیں۔ درحقیقت ہم شکست کھا رہے ہیں۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما اصرار کرتے ہیں کہ جنگ کامیاب جارہی ہے، اور جو پروفیشنل درست رائے دے رہے ہیں انہیں سینسر کیا جارہا ہے۔ میں فرسٹ ہینڈ سچائی جانتا ہوں۔ 2015ء میں مجھے ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کی ڈائریکٹرشپ سے صرف اس لیے ہٹادیا گیا کہ میں نے کانگرشنل کمیٹی میں کہا تھا کہ ہم آج اتنے محفوظ نہیں جتنے چند سال پہلے تھے۔ جو بھی جنگ کے بارے میں سچ بولنا چاہتا ہے اُسے سینسر اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ 2015ء کی گرمیوں میں درجنوں فوجیماہرین نے اس بات پر احتجاج کیا تھا کہ سینٹرل کمانڈ میں ان کے سینئرمشرق وسطیٰ کی جنگ کے واقعات مسخ کررہے ہیں اور حقائق چھپا رہے ہیں۔ یہ سب اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ میرے نزدیک (ریڈیکل اسلام سے) جنگ میں کامیابی کا انحصار ہدف ریاست کے شہریوں سے دستیاب تعاون اور معلومات پر ہے۔ ہدف ریاست کے مقامی افراد ہی فتح میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ میں نے 2004ء میں عراقی محاذ پر جنگی چالیں بدلیں (شیعہ سنی کی مقامی تقسیم)، اور افغانستان میں 2010ء کے بعد پالیسی تبدیل کی، دونوں نے کام دکھایا۔ تاہم ہم نے ہر بار اپنے دشمن کو پہچاننے سے گریز کیا۔ آئیے اب سامنا کریں۔ ہم اس وقت شکست کھارہے ہیں، میں ایک بہت بڑی جنگ کی بات کررہا ہوں، جو صرف شام، عراق، اور افغانستان تک محدود نہیں ہے۔ ہم اس وقت ایک ایسی عالمی جنگ لڑرہے ہیں، جہاں دشمن بدی کی ایک بہت بڑی تحریک کی صورت میں مدمقابل ہے، جس کا نظریہ ’ریڈیکل اسلام‘ ہے۔ ہم اگر ایک بار انہیں سمجھ لیں تو انہیں شکست دے سکیں گے۔ اس میں نسلیں لگ سکتی ہیں۔‘‘
(The Field of Fight: How We Can Win the Global War Against Radical Islam and Its Allies by By Lieutenant General ( Ret.) Michael T. Flynn)
خبر یہ ہے کہ مذکورہ بالا مندرجات کے خالق مسٹر مائیکل فلین امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کا خاص حصہ بن چکے ہیں۔ انہیں نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشیر برائے سلامتی امور مقرر کردیا گیا ہے۔ ٹرمپ کی جیت کی طرح مائیکل فلین کی تقرری نے بھی مغرب کی لبرل اقلیت کو بھونچکا کردیا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کے کالم نگار رچرڈ وولف نے فلین کی بطور سلامتی مشیر تقرری تباہ کن قرار دے دی۔ وولف لکھتا ہے: ’’فلین ایک سازشی نظریہ ساز ہے، ایک اسلاموفوب ہے۔ وہ کہتا پھرتا ہے کہ امریکہ ریڈیکل اسلام پسندوں سے حالتِ جنگ میں ہے۔ وہ کہتا پھرتا ہے کہ مسلمانوں کا خوف معقول رویہ ہے۔ فلین اپنے باس ٹرمپ کی طرح روس میں موجودہ حکومت سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ فلین کا انتخاب بتارہا ہے کہ ٹرمپ نے جس طرح انتخابی مہم چلائی، اسی طرح حکومت چلانے کا ارادہ ہے۔ ایک مذہبی جنگ کو بھڑکانا ہے، جو ناقابلِ فتح ہے‘‘۔
حال میں ہی مائیکل فلین کا یہ بیان ’’اسلام ایک کینسر ہے، جسے مسلمانوں کے جسموں سے نکالنا ہوگا‘‘۔
غالباً نئے مشیر سلامتی امور امریکہ کا اتنا تعارف کفایت کرے گا۔ مائیکل فلین کا انتخاب دراصل صفات و نظریات کا ہی نتیجہ ہے۔ اگر مائیکل فلین ’ریڈیکل اسلام‘ سے عالمی جنگ کا جنون نہ ظاہر کرتا، اگر فلین تباہ کن جنگجویانہ ارادوں کا حامل نہ ہوتا، اگر مسلمانوں کے سر پر منڈلاتا ایٹم بم نہ ہوتا، تو ہرگز امریکہ کی قومی سلامتی کا مشیر مقرر نہ ہوتا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واشنگٹن کے اصل اور مستقل حاکم امریکہ کو مکمل طور پر اسلام سے جنگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں۔ جنگ سازی عالم صہیون کا پرانا فن ہے۔ رومن ایمپائر سے صلیبی جنگوں تک، اور دوسری عالمی جنگ سے دہشت گردی کی جنگ تک، صہیونی ایجنڈے نے جنگوں سے جِلا پائی ہے۔
آج لبرل مغرب کی موت کا سامان ہورہا ہے، تاکہ مشرق وسطیٰ میں اسلامی تہذیب سے جنگ کا سامان ہوسکے۔ لبرل ڈیموکریٹک اقدار کے حامل حکمران یا حکومتیں صہیونی جنگ میں شامل نہیں ہوسکتیں۔ اس کے لیے نسل پرست، جاہل، قوم پرست، متعصب، اور اسلام سے مخاصمت رکھنے والا مقتدر گروہ چاہیے، جو بش انتظامیہ کے بعد اب ٹرمپ انتظامیہ کی صورت میں نمایاں ہوچکا ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی کا مشیر مائیکل فلین بھی ایک چہرہ ہے، جو اسلام کو مٹا دینا چاہتا ہے۔
حقیقت مگر وہی ہے جس کا اعتراف مائیکل فلین علی الاعلان کرچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب اسلام سے شکست کھا رہا ہے۔ مغرب کا اسلام سے خوف کا رویہ معقول ہے۔ اور جہاد کو مقامی سازشوں کے بغیر ناکام بنانا ممکن نہیں۔
nn