(بے بسی بے کسی اور محرمیوں کی دنیا (نذیر الحسن

غم خوشی ۔۔۔دکھ اور سکھ۔۔۔ شاید زندگی اِسی سے عبارت ہے۔ اس زندگی میں خوشیاں بھی ملتی ہیں اور دکھ بھی، اور بعض دکھ ایسے جان لیوا ہوتے ہیں کہ زندگی پانی کی مانند بے رنگ ہوجاتی ہے۔ زندگی کا سارا لطف جاتا رہتا ہے اور زندگی بے کیف ہوجاتی ہے۔ زندگی کی حقیقت اگر انسان پر واضح نہ ہو تو وہ خوشیاں ملنے پر اکڑنے لگتا ہے اور غم ملنے پر اِسے روگ بنا لیتا ہے، مگر جو یہ سمجھتے ہوں کہ دکھ اور سکھ سب آزمائش ہے اور یہ کہ رات کے بعد ایک روشن صبح ضرور طلوع ہونا ہے تو ایسے لوگ ضرور سرخرو ہوتے ہیں۔
دکھ اور غم کے حوالے سے ہمارے یہاں عمومی رویہ یہ ہے کہ غم اور پریشانیوں کو ہم روگ بنا لیتے ہیں، پھر عمل اور جدوجہد کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور انسان اپنے دکھ اور پریشانیوں ہی میں لطف لینے لگتا ہے، اس کے پاس صرف سرد آہیں اور محرومیوں کا تذکرہ ہی رہ جاتا ہے۔
55 سالہ ظہیر احمد خان غوری اُن لوگوں میں نہیں جو اپنی محرومیوں کا ذکر کرکے ہمدردیاں سمیٹیں اور اپنے غم کا ماتم کریں، بلکہ اُن باہمت لوگوں میں شامل ہیں جو اپنے عزم و ہمت سے اپنے لیے ایک نئی دنیا کا پیکر تراشتے ہیں، حیات کے صحرا سے اپنے لیے قطرہ قطرہ زندگی کشید کرتے ہیں اور زندگی کو شکر گزاری کے جذبے سے دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بات بے معنی ہوتی ہے کہ ان کے پاس کیا نہیں ہے، بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس کیا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں ہر شخص اپنی اپنی محرومیوں کا رونا رو رہا ہے۔ اچھا مکان، اچھی گاڑی، معاشرے میں بلند مقام اور زندگی کی دیگر آسائشیں چاہتا ہے۔ یوں تو ظہیر احمد پر میری نگاہ کئی بار پڑ چکی تھی، اسے دیکھتے ہی پوری توجہ اس کی جانب مبذول ہو جاتی۔۔۔ ایک بے جان جسم جو چنگ چی رکشے کی سیٹ پر مضبوط بیلٹ سے باندھ دیا گیا تھا۔ وہ اکثر مجھے گلشن چورنگی پر نظر آتا۔ گلشن چورنگی سے عائشہ منزل تک مسافروں کو لے کر جانا اور آنا اُس کا روز کا معمول تھا۔ ایک دن گلشن چورنگی کے پل کے نیچے وہ مجھے مل گیا، اس کی گاڑی گرم ہورہی تھی، اپنی گاڑی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جب وہ گلشن کے اسٹاپ پر رکا تو مجھے اس سے بات چیت کرنے اور اس کا حال جاننے کا موقع مل گیا تھا۔ روزانہ آتے جاتے ہم ایک دوسرے کے چہرے سے آشنا تھے۔
’’السلام علیکم‘‘۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے اُسے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام‘‘۔۔۔اس کے جواب میں بھی ایک مانوسیت تھی جیسے وہ بھی مجھ سے شناسا ہو۔
’’کیا حال ہیں، ٹھیک ہیں؟‘‘
’’ہاں۔۔۔اللہ کا شکر ہے۔‘‘
’’مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے‘‘۔
’’کیا بات کریں گے آپ؟‘‘
’’بس ایسے ہی۔۔۔کچھ آپ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں، آپ کا انٹرویو لینا چاہتا ہوں، ایک رسالے میں شایع کروں گا‘‘۔
’’اچھا۔۔۔ لیں انٹرویو‘‘۔
جس شخص کو روز میں دور سے دیکھتا تھا اور اسے محض ایک معذور شخص سمجھ کر نظرانداز کردیتا تھا آج اسے قریب سے دیکھا تو محسوس ہوا کہ وہ صرف معذور ہی نہیں بلکہ بے بسی، بے کسی، بے کلی، ناآسودگی اور محرومیوں کی ایک دنیا آباد کیے بیٹھا ہے، ایک ایسی دنیا جس میں زندگی کی آسائشیں تو دور کی بات، بنیادی ضروریات تک میسر نہیں، حتیٰ کہ نہ وہ سیر ہوکر کھا اور پی سکتا ہے اور نہ ہی رفع حاجت کی ضرورت اپنی مرضی سے پوری کرسکتا ہے۔
’’کیا ہوا آپ کو؟‘‘ میں نے اس سے پہلا سوال کیا تو اس نے بتایا کہ جب وہ تین سال کا تھا تو اسے پولیو ہوا۔ ظہیر احمد نے اپنی کہانی شروع کی تو میں اس کے اور قریب آگیا۔ اسی اثناء میں خشک میوے کا ٹھیلا لگانے والا پٹھان اس کے قریب آیا تو اس نے ایک کاجو کھانے کی فرمائش کی، جس پر پٹھان نے ایک کاجو لاکر اس کے منہ میں رکھ دیا۔
’’میرا پورا دھڑ مفلوج ہے‘‘۔ ظہیر احمد نے اپنی کہانی کا آغاز کیا، میں گوش بر آواز تھا۔
’’میرے والد نے میرے علاج کے لیے بہت دوڑ دھوپ کی، یہاں تک کہ میرے وزن کے برابر انہوں نے پیسہ خرچ کیا، مگر میرا علاج نہیں ہوسکا۔ میرے نہ پاؤں کام کرتے ہیں اور نہ ہاتھ۔ میں صرف گردن موڑ سکتا ہوں اور میری صرف زبان چلتی ہے‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ مسکرایا اور کہا کہ ’’میرے چار بچے ہیں جو میرے نہیں میرے بھائی کے ہیں۔ میری اہلیہ ہے جو بیمار ہے۔ پچھلے 5 سال سے میں چنگ چی چلارہا ہوں، میری رہائش سعود آباد ملیر میں ہے۔ صبح پونے سات بجے گھر سے نکلتا ہوں اور رات دس بجے گھر پہنچتا ہوں۔‘‘
’’آپ گاڑی پر بیٹھتے کیسے ہیں؟‘‘ میں نے اس کی گفتگو کے دوران سوال کیا۔
’’ایک شخص مجھے گاڑی پر بٹھادیتا ہے۔‘‘
’’گاڑی چلانے کے دوران رفع حاجت کی ضرورت پیش آتی ہے تو کیا کرتے ہیں؟‘‘ میں نے تجسس سے پھر سوال کیا۔
’’بھائی بات یہ ہے کہ میں واش روم ہی نہیں جاتا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ مجھے کون واش روم لے کر جائے گا؟ اس ڈر سے میں کچھ کھاتا نہیں۔ آدھی روٹی صبح اور آدھی روٹی رات میں کھاتا ہوں۔ دودو تین تین دن بعد واش روم جاتا ہوں، جس کی وجہ سے مجھے بواسیر کی بھی شکایت ہوگئی ہے۔ گاڑی چلانے کے دوران تو واش روم بالکل ہی نہیں جاسکتا، ہاں اگر بہت زیادہ پیشاب لگے تو کہیں کنارے جاکر بوتل میں اپنی حاجت پوری کرلیتا ہوں۔ اسی لیے میں پانی بھی نہیں پیتا۔ دن بھرمیں میں دو سے تین گلاس پانی پیتا ہوں۔ میں رات کو لیٹ جاؤں تو خود سے اٹھ نہیں سکتا۔ دنیا خوبصورت ضرور ہے مگر شاید پیسے والوں کے لیے، اُن کے لیے جن کے پاس وسائل ہیں۔ دیکھو میری گاڑی ٹھنڈی ہوئی‘‘۔ اس نے دورانِ گفتگو مجھے اپنی گاڑی چیک کرنے کا کہا۔ بات دراصل یہ تھی کہ آج اس کی گاڑی صبح سے ہی پریشان کررہی تھی اور وہ اپنی گاڑی کو ٹھنڈی کرنے کے لیے تھوڑی دیر رکا تھا۔ میں نے گاڑی کے انجن پر اپنی انگلی کو رکھا اور بتایا کہ نہیں ابھی گرم ہے۔ جس پر وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا:
’’میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں، کئی مرتبہ مجھے بس والوں نے ٹکر ماری، ایک مرتبہ تو میرا بازو ہی دب گیا، میں گاڑی سے لٹک گیا، بعد میں اس واقعے کے بعد میرا جو ایک بازو اٹھتا تھا وہ بھی اٹھنا بند ہوگیا، اب صرف میری کلائیاں مڑتی ہیں اور انگلیوں سے ہی میں بریک، کلچ اور گیئر لگاتا ہوں۔کئی مرتبہ ٹریفک پولیس والوں نے بھی روکا کہ چنگ چی چلانے پر پابندی ہے، مگر میں نے کہا کہ اب تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟ جس پر ٹریفک پولیس والے خود سوچ میں پڑگئے۔ یار بات یہ ہے کہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے ناں۔۔۔ ایک اور بات میں تمہیں بتاؤں، واش روم نہ جانے کی وجہ سے جو تکلیف مجھے ہوتی ہے اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ پورے دن تکلیف میں رہتا ہوں، پسینے کی وجہ سے کپڑے جسم سے چپک جاتے ہیں جنہیں میں ہٹا نہیں سکتا، اور یہ کپڑے جسم سے چپک چپک کر زخم بنادیتے ہیں، اور ان زخموں سے پھر کپڑے چپک جاتے ہیں۔ ایک دکھ وہ ہوتا ہے جس میں بندہ آنسوؤں سے روتا ہے، اور ایک دکھ وہ ہوتا ہے جس میں دل سے روتا ہے۔۔۔ بس سمجھو کہ میرا دل بھی روتا رہتا ہے۔ چھوڑو یار کیا کروگے میری کہانی سن کے اور چھاپ کے؟‘‘ اپنی اتنی بپتا سنانے کے بعد نہ جانے اسے اچانک کیا خیال آیا۔
’’تم جیسا ایک اور تھا، اس نے مجھے رمضان میں ٹی وی پر بلایا، اپنی ریٹنگ کے چکر میں مجھے مصیبت میں ڈال گیا۔‘‘
میں نے تفصیل پوچھی توکہنے لگا ’’رمضان کے مہینے میں ایک پروگرام میں ایک اینکر نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ کے لیے تاحیات کرائے کے مکان اور علاج کا بندوبست کروں گا۔ مگر اس نے مجھے کچھ نہیں دیا۔ میرے گھر والے اور میری ماں یہ سمجھتی ہے کہ میں نے اس ٹی وی والے سے پیسے لے لیے ہیں اور میں انہیں بتا نہیں رہا۔ اب خدا ہی جانتا ہے کہ مجھے کتنے پیسے ملے ہیں۔ اس شخص نے مجھ سے میری ماں کو ناراض کردیا۔‘‘
ایک لمحے کو وہ رکا اور چنگ چی کے ہینڈل پر سر جھکا کر اپنی آنکھیں مسلنے لگا۔ میں دل مسوس کر رہ گیا۔ وہ کوئی بچہ یا میرا ہم عمر نہیں تھا۔۔۔ ہوتا تو شاید میں اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر دلاسہ دیتا، سر پر ہاتھ پھیرتا، گلے لگاتا، یا جپھی دیتا۔ 55 سالہ ادھیڑ عمر غمزدہ ظہیر کو تسلی دینے کے لیے میں نے اس سے کہا کہ ابھی میں اس اینکر سے بات کرتا ہوں۔ اور پھر جب میں نے اس اینکر کو فون ملایا تو دوسری جانب سے آواز آئی ’’سوری رانگ نمبر‘‘
’’ہاتھ لگاکر بتاؤ انجن ٹھنڈا ہوا‘‘ اس نے مجھے ایک بار پھر اپنی گاڑی کی حرارت چیک کرنے کا کہا۔ میں نے انجن پر انگلی رکھ کر بتایا کہ اب گاڑی کچھ ٹھنڈی ہے۔ جس پر اس نے کہا ’’اچھا اب میں نکلتا ہوں‘‘۔ پھر وہ اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔
اس کے جانے کے بعد میں بھی اپنے آفس کے لیے پلٹا ان سوچوں کے ساتھ کہ زندگی میں کیسے کیسے دکھ ہیں اور معاشرے میں کتنی بے حسی ہے۔ سوچتا رہا کہ جو شخص محض اس لیے کچھ نہ کھاتا ہو کہ کہیں رفع حاجت کی ضرورت نہ پڑجائے اس کی زندگی کیسی ہوگی!کبھی برسات کے بھیگے موسم میں بنتے پکوڑوں کی خوشبو اُس کی ناک تک بھی آتی ہوگی، شدید حبس اور لُو کے ماحول میں اس کا گلا بھی خشک ہوتا ہوگا اور جی بھر کر ٹھنڈا پانی اور مشروب پینے کا اس کا دل بھی چاہتا ہوگا؟ لاچاری کی ایک ایسی کیفیت جس میں اسے خود توجہ کی ضرورت ہے، وہ اپنی اور اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہا ہے۔ ظہیر احمد کی کہانی لکھتے وقت میری پیٹھ پر خارش ہورہی ہے اور میں اپنے بائیں ہاتھ سے کھجا بھی رہا ہوں۔ یہ خارش تو ظہیر کو بھی کبھی ہوتی ہوگی؟ میں سوچتا رہا ظہیر میں اور مجھ میں کیا فرق ہے؟ مجھ میں اور ظہیر ہی میں نہیں بلکہ ظہیر اور پاکستان کے 20کروڑ عوام میں کیا فرق ہے؟ کیا کوئی مجھ پر یہ فرق واضح کرسکتا ہے؟ ظہیر احمد سے اس نمبر پر رابطہ کیا جا سکتاہے: 0345-2183517