’’مسجد قرطبہ‘‘

ہم مسجد کے صحن میں کھڑے تھے، اب یہ ’نارنگیوں کا باغیچہ‘ کہلاتا ہے۔گھاس کے تین قطعوں میں زیادہ تر نارنگیوں کے درخت تھے اور چند ایک کھجور کے۔ پرانے وقتوں کی یادگار، زیتون کا ایک عمر رسیدہ درخت بھی باقی تھا۔ درمیانی باغیچے میں ایک تالاب، جس کے چاروں کونوں سے پانی ٹونٹیوں کے ذریعے تالاب میں جمع ہورہا تھا۔ وسط میں فوارہ، صحن کے تین اطراف میں برآمدہ۔ صحن کی طرف کھلنے والے مسجد کے بیشتر دروازے مستقل طور پر بند تھے۔ چند دروازوں میں تو دیوار چن دی گئی تھی۔ مشرقی کونے پر واقع دفتر سے فی کس 400 پی سیتے (تقریباً ایک سو روپے) کے حساب سے ٹکٹ خریدا اور مسجد کے بارے میں معلوماتی کتابچہ لے کر ہم اندر داخل ہوئے۔ یہاں خنکی زیادہ تھی، ماحول نیم تاریک اور نم آلودہ۔ ایک عجیب سی باس (Smell) کا احساس ہوا۔ چھت خاصی اونچی تھی۔ چند ہی قدم آگے بڑھائے تو ستونوں اور محرابوں کا ایک جنگل اچانک سامنے آگیا۔ ایک سلسلہ جو دور تک چلا گیا تھا، جیسے لامتناہی ہو۔ یہ ایک ٹھٹکا دینے والا منظر تھا۔
میرے قدم رک گئے۔ یہ منظر مجھ جیسے (حقیقت پسند) شخص کو بھی مرعوب و مبہوت کردینے والا تھا۔ اس نے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ مسجد کے جلال و شکوہ سے ہیبت اور رعب کا احساس ہورہا تھا۔ اس میں خوف کا عنصر نہ تھا، بلکہ یہ اس تعجب پر مبنی تھا جو کسی نئی، انتہائی انوکھی، منفرد، نادر و نایاب اور یگانہ بے مثال شے کو دیکھ کر انسان پر طاری ہوتا ہے اور انسان سوچتا ہے کہ کیا روئے زمین پر اور اس کائنات میں یہ کچھ بھی موجود ہے!
چند لمحوں کے بعد ہم آگے بڑھے۔ ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اگرچہ یہاں مسجد کی روایتی روشن فضا ناپید تھی اور نیم روشن، نیم تاریک ماحول میں ایک الجھن سی، ایک گھٹن سی محسوس ہورہی تھی، تاہم قطار اندر قطار ستونوں اور ان کے اوپر سلسلہ در سلسلہ محرابوں کا دل کش نظارہ دامنِ دل کھینچ رہا تھا۔ اوّلین تاثر میں جلال و شکوہ غالب تھا، اب آہستہ آہستہ جمال و زیبائی کا کرشمہ ظاہر ہونے لگا تھا۔ ذہن بے اختیار اقبال کے اشعار کی طرف منتقل ہوگیا:
تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تُو بھی جلیل و جمیل
تیری بنا پائیدار، تیرے ستون بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
اس قدر کامل مشابہت! مسجد اور اس کے بنانے والوں کے ساتھ ساتھ اقبال کی شاعری اور فن کی عظمت کا احساس تازہ ہوگیا۔
ستونوں کے درمیان سے آگے بڑھتے ہوئے معلوم ہورہا تھا جیسے ہم کھجوروں کے کسی مسقف باغ میں گھوم رہے ہیں۔ ہمارا رخ، الحکم ثانی کے توسیع کردہ حصے میں واقع محراب کی طرف تھا۔ سر گھما کر دائیں دیکھتے، کبھی بائیں۔۔۔ کبھی اونچی محرابی چھتوں پر نظر ڈالتے۔ بعض حصوں کی چھتیں منقش لکڑی کی تھیں۔ خنکی اور ایک ناگوار باس کا احساس بدستور دامن گیر رہا۔ ستونوں کے اوپر چھت تک محراب در محراب کا سلسلہ، صناعی اور فنِ تعمیر کا ایک انوکھا مظاہرہ تھا۔ ستون انتہائی ٹھوس اور قیمتی پتھر کے تھے اور مسجد کے مسقف حصوں میں ان کی رنگت جدا جدا تھی۔ محرابوں کے نمونے بھی مختلف تھے۔ وسط میں پہنچے تو کلیسائے کبیر نے راستہ روکا۔ خیر، ہم اس سے پہلو بچاتے ہوئے آگے بڑھے، پھر وہی باغ نخیل کا منظر۔ قطار اندر قطار ستون اور نعلی محرابیں۔ مسجد کی اصل اور مرکزی محراب بھی نظر آنے لگی، مگر وہ ابھی کچھ فاصلے پر تھی۔ ماحول کے سحر نے ہمارے قدم روک لیے۔ ایک حصے کو دیکھتے، کبھی دوسرے حصے کی طرف نظر دوڑاتے، اس کے ساتھ ساتھ ہر حصے کی منقش چھت پر بھی نظر ڈالتے۔ بعض گنبدوں کے اندر بنی ہوئی محرابوں اور ان کے اطراف میں نقاشی و خطاطی اور پچی کاری کا کام اس باریک بینی و مہارت سے کیا گیا تھا کہ ایک ناظر کے لیے مبہوت ہوئے بغیر چارہ نہ تھا۔
(’’پوشیدہ تری خاک میں‘‘۔۔۔ مصنف: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)