(سندھ میں تبدیلی کا پیغام دے گا(اے۔اے۔سیّد

فرائیڈے اسپیشل: ڈاکٹر صاحب!جماعت اسلامی سندھ، کراچی میں ورکرزکنونشن کرنے جارہی ہے۔ اس کا مقصد اور تفصیلات کیا ہیں؟
معراج الہدیٰ صدیقی: جماعت اسلامی ایک دینی دعوتی جماعت ہے جو جمہوری انداز میں ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہے، لوگوں تک اپنا پیغام لے کر جاتی ہے، ان کے شعور کو بیدار کرتی ہے۔ اور اس شعور میں تبدیلی کے ساتھ سیرت و کردار میں تبدیلی کی کوشش کرتی ہے، دعوت دیتی ہے، منظم کرتی ہے، تربیت کرتی ہے، اس کے بعد اصلاح معاشرہ کے عمل سے گزار کر انقلابِ قیادت تک پہنچتی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے ہی اس بار یہ بات طے کی تھی کہ اجتماع عام کے بجائے صوبوں میں بڑے اجتماعات منعقد کیے جائیں۔ بلوچستان ، خیبر پختون خوا اور پنجاب کے اجتماعات ہوچکے ہیں، سندھ کا اجتماع عام 26 اور 27 نومبر کو کراچی میں منعقد ہونے جارہا ہے۔ سندھ میں اس سے پہلے کبھی صوبائی جماعت کا اتنا بڑا اجتماع کراچی میں منعقد نہیں ہوا۔ یہ اجتماع اس لحاظ سے منفرد بھی ہے۔ اور جو حالات ہیں انہوں نے اجتماع کی اہمیت کو بڑھا دیاہے۔ جہاں بین الاقوامی حالات میں تمام نظریات رکھنے والے اپنے اپنے نظریات کو آگے بڑھارہے ہیں اور جو تبدیلیاں بین الاقوامی سطح پر آرہی ہیں اور جو سیاسی تبدیلیاں پاکستان میں ہورہی ہیں اس کے باوجود عوام کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ عوام کی حالت ساکت ہے۔ جامد ہے۔ وہ بدحالی کا شکار ہیں، مشکلات سے دوچار ہیں، ان کو اپنا مستقبل روشن نظر نہیں آتا، اس لیے کہ جو سیاسی جماعتیں ملک میں موجود ہیں وہ خاندانی اور موروثی سیاسی جماعتیں بن گئی ہیں، جو اقتدار میں آبھی جاتی ہیں تو نہ عوام کے مسائل کے حل کے بارے میں سوچتی ہیں، نہ عوام میں سے ہوتی ہیں۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو عوام میں سے ہے، جو موروثی جماعت نہیں، اور جماعت اسلامی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسے اس ملک میں جب بھی خدمت کا موقع ملا تو اس نے ایسی دیانت دار قیادت دی جس نے یہاں پر حقیقی تبدیلی برپا کی ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے کہ جس کے اندر جماعت اسلامی ایک اجتماع منعقد کرنے جارہی ہے۔ جماعت اسلامی کا یہی پیغام جو اس اجتماع سے پھوٹے گا یہ سندھ اور پاکستان کی سیاست میں عوام کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں انتہائی مددگار ثابت ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: گزشتہ چالیس سال سے پیپلز پارٹی دیہی سندھ کی نمائندگی کر رہی ہے۔ اس صورت حال میں دیہی سندھ کے میں جماعت اسلامی کی سیاسی پیش رفت کے کیا امکانات ہیں؟
معراج الہدیٰ صدیقی: دیہی سندھ پیپلزپارٹی کے پاس رہا اور شہری سندھ ایم کیو ایم کے پاس رہا۔ یہ طویل عرصے سے عوام کی قسمتوں کی مالک بنی ہوئی ہیں، لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ دیہی سندھ کے اندر اگر پیپلزپارٹی موجود ہے تو اس کے ایجنڈے میں کسی جگہ پر عوام کے مسائل کا حل نہیں ہے، لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ ایک طرف لوگ ووٹ دینے کے لیے اس طرح سے آزاد نہیں ہیں۔ دیہی آبادی کا پورا معاشرہ وڈیروں کی جکگرفت میں جکڑا ہوا ہے اور یہ سارے کے سارے وڈیرے پیپلزپارٹی کے ساتھ ہیں۔ جو کبھی پیپلزپارٹی کے مخالف رہے تھے وہ بھی اِس وقت پیپلزپارٹی کے ساتھ ہیں۔ ہمارے یہاں مختلف دائروں میں پارٹیوں پر تو گفتگو ہورہی ہے اور کسی شیر کو اور بلے کو شکار کرنے کی باتیں بھی ہورہی ہیں، لیکن کہیں پر کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم بے روزگاری کو شکار کریں گے۔ ہم مہنگائی کو شکار کریں گئے۔ ہم بدامنی کو شکار کریں گے، ہم جہالت کو شکار کریں گے۔ سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جو 1970ء میں پاکستان کا سب سے پڑھا لکھا صوبہ شمار ہوتا تھا۔ 1970ء میں یہاں خواندگی کی شرح پورے پاکستان میں سب سے زیادہ تھی۔ آج 2016ء میں صورتِ حال یہ ہے کہ شرحِ خواندگی کے معاملے میں پنجاب ہمیں پیچھے چھوڑ چکا ہے، خیبر پختون خوا ہمیں پیچھے چھوڑ رہا ہے، اور جس رفتار سے بلوچستان میں شرح خواندگی بڑھ رہی ہے، شاید بلوچستان بھی ہمیں پیچھے چھوڑ جائے گا۔ سندھ کے ان مسائل کا ذمے دار پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مسئلہ اندر ہی ہے اور وہ قیادت جو سندھ کے اندر بار بار آتی رہی اس نے سندھ میں تبدیلی کی کوئی کوشش نہیں کی۔ آج ضرورت اس کی ہے کہ سندھ میں تبدیلی برپا کی جائے، اور اس اجتماع کے حوالے سے جماعت اسلامی نے یہ پیغام دیا ہے کہ انتم الاعلون ان کنتم مومنین(تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو)۔ حالات کو تبدیل کرنا چاہتے ہو تو اپنے وژن کو، اپنے شعور کو تبدیل کرنا ہوگا، اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا، تب جاکر ایک بڑے پیمانے پر تبدیلی آسکتی ہے۔ اس لیے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سندھ کے اندر کسی بھی شہر میں چلے جائیں، وہاں پر ترقیاتی کاموں کی رفتار سست ہی نہیں بلکہ محسوس ہوتا ہے یہ ترقیاتی کام ہوتے ہی نہیں ہیں۔ سندھ کے وہ بڑے بڑے شہر جو ملکی سیاست کے اندر اپنا مقام رکھتے ہیں، یعنی لاڑکانہ، حیدرآباد یا سندھ کا سب سے بڑا شہر کراچی۔۔۔ یہ بدترین تباہی سے دوچار ہیں۔ یہاں پر گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں، اور اس صورت حال میں سنتے ہیں کہ لاڑکانہ کی تعمیر پر 92 ارب روپے خرچ کردیے گئے ہیں۔ لیکن لاڑکانہ میں تو کسی درجے میں کوئی تعمیر نظر نہیں آتی، محسوس یہ ہوتا ہے کہ کرپشن کی بہت بڑی مقدار سارے ترقیاتی عمل کو نگل چکی ہے اور آئندہ بھی اس میں کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس سیاست کو بدلنے کے لیے پہلے معاشرے کو بدلناہوگا اور معاشرے کے ساتھ حقیقتاً اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا، تب ہی سماج اور سیاست بھی بدلیں گے اور پورا عمل عوام کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: دیہی سندھ میں جماعت اسلامی تاریخی طور پر موجود ہے، لیکن جماعت اسلامی کی سیاسی لحاظ سے بہت زیادہ پیش رفت نہیں ہوپائی ہے۔ اس کو ناپنے کا ایک پیمانہ انتخابات ہوتے ہیں۔وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد سندھ میں کسی کامیابی میں تبدیل نہیں ہوسکی ہے؟
معراج الہدیٰ صدیقی: جماعت اسلامی ایک خاص انداز میں آگے بڑھی ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے اندرون سندھ میں کافی جگہوں سے بہت بڑی تعداد میں ووٹ لیے تھے۔ اُس وقت کی جو شہری آبادیاں تھیں، ان میں جماعت اسلامی کا بہت اچھا اثر تھا۔ اگر 1970ء میں جماعت اسلامی اور جے یو پی میں جو تقسیم ہوگئی تھی وہ نہ ہوتی تو جماعت اسلامی کراچی کی طرح اندرون سندھ بھی ایک بڑا نتیجہ دیتی۔ بعد میں شہری علاقوں نے ایم کیو ایم کی طرف اپنا رخ کیا۔ ایم کیو ایم بننے کے بعد سے اب تک ہم نے یہ دیکھا کہ عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکے۔ اس لیے ایک خلا اپنی جگہ پر موجود ہے۔ یہ خلا اُس وقت تک پُر نہیں ہوسکے گا جب تک حقیقتاً ایک دیانت دار قیادت نہ آئے۔ جماعت اسلامی اس اعتبار سے خوش نصیب ہے کہ اسے اندرون سندھ سمیت جہاں جہاں کام کرنے کا موقع ملا ہے اس نے ایک دیانت دار قیادت عوام کو فراہم کی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: دیہی سندھ میں جماعت اسلامی کو عملی چیلنج کیا ہیں؟ وڈیرہ اور جاگیرداری نظام اس کی وجہ ہے یا کچھ اور؟
معراج الہدیٰ صدیقی: عملی طور پر مشکلات ہیں۔ میرے خیال میں وڈیروں کی جانب سے اتنی زیادہ نہیں ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے جماعت اسلامی کے لیے بہت زیادہ رکاوٹیں نہیں ہیں، لیکن عوام ووٹ دینے کے لیے آزاد نہیں ہیں، اس وجہ سے معاشرے میں دعوتی کام تو ہورہا ہے۔ دوسری طرف ایک دشواری یہ ہے کہ ہمارے سندھ میں ایک عام کلچر ہے کہ نوکریاں فروخت ہورہی ہیں اور نوکریوں کی فروخت کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ جتنی اصل نوکریاں ہوتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ فروخت ہوجاتی ہیں۔ یہ عام رجحان ہے کہ لوگ اپنی زمین بیچ کر، قرضے لے کر سیاسی جماعتوں کے لوگوں سے نوکریاں خریدتے ہیں۔ خود یہ نوکریاں بیچنے والا عمل کچھ سیاسی جماعتوں کے گرد کچھ افراد کو رکھتا ہے۔ کچھ خریدنے والے بھی اور اس سے فائدہ اٹھانے والے بھی ہیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ میرٹ ختم ہوچکا ہے۔ میرٹ کے خاتمے کی وجہ سے اب تعلیمی صورت حال بھی کوئی بہت اچھی نہیں رہی ہے۔ لیکن بڑے دائرے میں ایک عمل ہورہا ہے۔ لوگ یہ تو چاہتے ہیں کہ جس طرح پیپلزپارٹی یا کوئی اور حکومتی جماعت اپنے مفادات لے کر آجاتی ہے۔ میرے خیال میں جماعت اسلامی کو طویل عرصہ ذہنوں کو تبدیل کرنے کا کام زیادہ مؤثر انداز میں کرنا ہوگا۔ ذہنوں کی تبدیلی کے اس مؤثر کام کو اگر ہم تواتر کے ساتھ کرتے رہے تو مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ معاشرے میں تبدیلی برپا ہوکر رہے گی۔
فرائیڈے اسپیشل: سندھ کے منظرنامے کا ایک پہلو یہ ہے کہ سندھ کا پاپولر ووٹ پیپلز پارٹی کو ملتا ہے، اور دیہی سندھ کے لوگوں کے ذہن پر نظریاتی اعتبار سے قوم پرستی کا غلبہ ہے۔ اس غلبہ کو توڑنے کی کیا صورت ممکن ہے؟
معراج الہدیٰ صدیقی: یہ تو ٹھیک ہے کہ سندھ کی سیاست پر پیپلز پارٹی قابض رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے وڈیروں کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر کے زمانے میں پیپلزپارٹی کی طرف ایک عام آدمی بھی راغب ہوتا تھا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد سندھ کی سیاست میں تبدیلی آئی ہے، اب پیپلزپارٹی سو فیصد وڈیروں کی مرہونِ منت ہے، وہ ان وڈیروں کے مفادات کو پورا کرتی ہے۔ عام آدمی اور سیاسی کارکن بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ وڈیروں کے مفادات پورے کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے سارے کبوتر پیپلزپارٹی کی منڈیر پر اترگئے ہیں، زیادہ سے زیادہ وڈیرے پیپلزپارٹی کے ساتھ چل رہے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ جس کو آپ قوم پرستی کہا کرتے تھے وہ قوم پرستی کسی زمانے میں بھی معاشرے پر بہت زیادہ اثرانداز رہی ہے اور اس نے سندھ کے اندر ایک بڑا ووٹ بھی حاصل کیا ہے۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سندھ کے اندر قوم پرستی موجود رہی ہے۔ سندھ کی سیاست عجیب سی سیاست ہے، اس میں کچھ لوگوں نے ایک لسانی کشمکش کو پیدا کیا ہے اور وہ اس لسانی کشمکش کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ہر طرف سے مختلف لوگ جو اس کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں، وہ اوپر کی سطح پر ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے لیکن نیچے کی سطح پر عوام کو تقسیم کرتے ہیں۔ سندھ کا عام آدمی تعلیم کے اندر کوئی ترقی نہیں کرسکا۔ پڑھ لکھ بھی جائے تو نوکری خریدنا پڑتی ہے۔ اندرون سندھ صحت کی سہولتیں کسی درجے میں موجود نہیں ہیں۔ آج بھی ایک عام آدمی بیمار پڑجائے تو اسے اپنا علاج کروانے کے لیے کراچی آنا پڑتا ہے۔ کوئی دوسری چیز بھی ایسی موجود نہیں کہ لوگ اپنا مستقبل محفوظ سمجھیں۔ اس ساری صورت حال میں جہاں بدامنی بھی ہے، بدعنوانی بھی ہے، وہاں بے حیائی کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ ساری چیزیں معاشرے کے اندر ایک نئی تباہی کی بنیاد رکھ رہی ہیں۔ ان چیزوں میں عوام کی یہ صورت حال ہے کہ وہ اس شعور سے بھی محروم ہیں کہ ان کا حق کیا ہے؟ اور حکومتوں کو کرنا دراصل کیا چاہیے؟ اس لیے جماعت اسلامی اسی پیغام کے ساتھ آئی ہے اور ہمارے اجتماع کی تھیم بھی یہی ہے کہ انتم الاعلون ان کتنم مومنین ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ اس کامیابی کے لیے ایک شرط جو لگائی گئی ہے وہ ہماری اپنی ذات کی تبدیلی ہے، ہمارے کردار کی تبدیلی ہے۔ ذات اور کردار کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ اگر اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو حقیقت میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: گزشتہ انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی ایک وفاقی جماعت کے بجائے سندھ کی جماعت بن کر رہ گئی ہے اور آصف زرداری کی سیاست کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ پر قناعت کرلی ہے۔ لیکن بلاول بھٹو کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ اپنے والد سے مختلف انداز میں سوچتے ہیں اور وہ ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو وفاق کی سطح پر لانا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال پر آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
معراج الہدیٰ صدیقی: سیاسی جماعتوں پر بات کی جائے تو ان جماعتوں کا تو اپنا اپنا کوئی مستقبل ہوسکتا ہے، لیکن ’اسٹیٹس کو‘ کی یہی سیاست جاری رہتی ہے اور وہی پارٹیاں رہتی ہیں جو اسٹیٹس کو جاری رکھنے میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں تو سندھ کے عوام میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس تبدیلی کو لانے کے لیے اسٹیٹس کو کی سیاست کو ختم ہونا چاہیے۔ یہاں پر جو سیاست ہو وہ عوام کے مفاد کی سیاست ہو، عوام کی بھلائی کی سیاست ہو، عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کی سیاست ہو۔ پیپلزپارٹی نے سندھ کے اندر بڑا عرصہ گزارا ہے، لیکن اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسٹیٹس کو اس لیے برقرار رہ سکتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کو تبدیل کرنے والا موجود نہیں۔ لیکن دنیا میں کوئی بھی چیز ہمیشہ کے لیے نہیں رہتی سوائے اللہ رب العالمین کے اس نظام کے۔ اس لیے آج مثبت قوتوں کے لیے موقع ہے کہ وہ مثبت کردار کے ساتھ اگر معاشرے میں پیغام دیں، لوگوں کو منظم کریں، لوگوں میں شعور اجاگر کریں تو ایک مثبت تبدیلی کی جانب پیش رفت ہوسکتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: سندھ کی سیاسیات پر سندھی، مہاجر کشمکش کا بھی گہرا اثر ہے۔ اس کشمکش کے منفی اثرات سے نمٹنے اور سندھ کو علاقائی و لسانی عصبیت سے بلند کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟
معراج الہدیٰ صدیقی: جماعت اسلامی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جس کی دیہی سندھ میں بھی تنظیم موجود ہے اور شہری سندھ میں بھی۔ آج پاکستان کے جو اصل مسائل ہیں وہ مسائل زیادہ بڑے پیمانے پر سندھ میں موجود ہیں۔ اتحاد اور یکجہتی کے بغیر کسی بھی طریقے سے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ لسانی کشمکش پیدا کرکے جن قیادتوں کو تیار کیا جاتا ہے، وہ قیادتیں اقتدار کے ایوانوں میں مل کر بیٹھی ہوتی ہیں۔ عوام کو لڑانے والوں کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہوتی، وہ ایک ہی ایجنڈے پر کام کررہے ہوتے ہیں۔ اس ایجنڈے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے مفاد کو پورا کیا جائے۔ عوام اس پورے کھیل اور لڑائی کے اندر کسی بھی مثبت تبدیلی سے محروم رہتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا کراچی آپریشن درست سمت میں جارہا ہے؟ ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ اسے پورے سندھ میں پھیلادیا جائے؟
معراج الہدیٰ صدیقی: نیشنل ایکشن پلان کے تحت گزشتہ ڈھائی تین سال میں بدامنی کے خلاف پورے سندھ میں آپریشن ہوا ہے، لیکن اس آپریشن میں سیاسی قیادت پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ یہ سی پیک کے حوالے سے سندھ کو پُرامن بنانے کا کام ہے۔ اس پورے عمل سے عوام خوش ہیں۔ انہیں اغوا برائے تاوان سے نجات ملی ہے، بہت سارے دوسرے جرائم سے نجات ملی ہے۔ سندھ کی وہ سڑکیں اور راستے جو غیر محفوظ ہوگئے تھے، ہر وقت ایک خطرہ ہوتا تھا، آج وہ راستے محفوظ ہوگئے ہیں۔ یہ اس کے مثبت نتائج ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کو پیچھے دھکیلا گیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: دیہی سندھ پر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی فکر کا گہرا اثر ہے اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری توحید کا سمندر ہے۔ لیکن سندھ کے قوم پرستوں نے شاہ عبداللطیف کو ایک قوم پرست شاعر بناکر رکھ دیا ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟
معراج الہدیٰ صدیقی: سندھ صوفیہ کی سرزمین ہے، صوفیہ اوراولیاء اللہ کا پیغام کسی ایک بستی کے لیے نہیں ہوتا، یہ آفاقی پیغام ہوتا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ علامہ اقبال کے دن کو پورے ملک کی سطح پر منانے سے گریز کیا گیا۔ آج ہمارے حکمران اس نظریاتی وژن سے بالکل محروم نظر آتے ہیں جس وژن کے تحت قوموں کی تعمیر کی جاتی ہے، قوموں کو سمت دی جاتی ہے، قوموں کو زندہ و بیدار کیا جاتا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں انسانیت کی تعمیر کے سارے استعارے موجود ہیں۔ آج شاہ عبداللطیف کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ محبتوں کا یہ پیغام، چاہتوں کا یہ پیغام، اتحاد، اتفاق، یکجہتی اور عام آدمی کو قوت دینے کا یہ پیغام جماعت اسلامی آگے پہنچائے گی۔
فرائیڈے اسپیشل: شاہ عبداللطیف کا کلام اگر اصل مفہوم میں سندھ کے لوگوں تک پہنچے تو سندھ کے نظریاتی، سیاسی منظر نامے میں واضح فرق پڑ سکتا ہے؟
معراج الہدیٰ صدیقی: میں نے کہا کہ آج سندھ ہی نہیں پورے ملک میں نظریاتی سیاست کو بہت پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی سیاسی جماعتوں میں کشمکش نظریاتی کشمکش نہیں ہے، یہ تو مفادات کی کشمکش ہے۔ اس لیے جو لوگ کرپشن کررہے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری کرپشن کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں ہے، لیکن سامنے والے کی کرپشن کو ضرور پکڑ لیا جائے، جس کو جماعت اسلامی پاکستان کے امیر کہتے ہیں کہ ’’میرا چور زندہ باد، تیرا چور مردہ باد‘‘۔ چوری سے مراجعت اور توبہ کا امکان نظر نہیں آتا۔ یہ نظریاتی سیاست کے ختم ہوجانے کے فسادات ہیں جو معاشرے کے اندر برپا ہوتے ہیں۔ آج پورے پاکستان کی طرح سندھ میں بھی نظریاتی کشمکش نہیں ہے۔ نظریاتی طور پر کسی معاشرے میں لوگ جدوجہد کرتے ہیں تو ان کے شعور اجاگر ہوتے ہیں۔ مفادات کی سیاست میں تو لالچ ہی پروان چڑھتی ہے، اور یہ لالچ، طمع اور حرص بالآخر بے ایمانی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ اب یہی بے ایمانی معاشرے میں عام ہوگئی ہے، اس لیے جو لوگ سیاسی جماعتیں تبدیل کررہے ہیں انہیں قطعاً کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ ایک پارٹی میں تھے، اب دوسری پارٹی میں چلے گئے۔ انہیں کوئی مشکل اس لیے نہیں ہوتی کہ دونوں کے کلچر ایک ہیں، اور وہ کلچر یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کیے جائیں۔ اور اس میں عوام کو بھلادیا جاتا ہے۔یہ جماعت اسلامی ہے جس کے بارے میں لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بڑے مال داروں کی پارٹی نہیں ہے۔ مڈل کلاس، لوئر کلاس اور غریب لوگوں کی پارٹی ہے۔ لیکن یہ وہ پارٹی ہے جس کے اندر کرپشن نہیں ہے۔ اس کے جتنے لوگوں کو مواقع ملے ہیں وہ سب کرپشن سے پاک رہے ہیں۔ یہ وہ چیلنجز ہیں کہ جن کی موجودگی میں ہم معاشرے میں عام آدمی کے پاس جارہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ عام آدمی ہمارے ساتھ آئے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک زمانے میں سندھی زبان میں مذہبی لٹریچر کی ترویج و اشاعت کے لیے کئی لوگوں نے کام کیا، ہمارے قارئین کو یہ بتائیے کہ جماعت اسلامی نے مولانا مودودیؒ کی فکر کو اس حوالے سے سندھ میں عام کرنے کے لیے کیا کام کیا؟
معراج الہدیٰ صدیقی: الحمدللہ جماعت اسلامی یہ کام کررہی ہے۔ اور ہمارے یوں تو کئی ادارے ہیں۔۔۔ مہران اکیڈمی ہے، سندھ اسلامک پبلی کیشن ہے، اس کے علاوہ جماعت اسلامی خود بھی لٹریچر چھاپ کر لوگوں تک پہنچاتی ہے۔ لیکن زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیکنالوجی کا جو نیا دور آیا ہے، اس میں جدید ذرائع کے ذریعے اس پیغام کو آگے بڑھایا جائے۔ سندھ میں ایک مثبت چیز اور ہوئی ہے کہ جتنا پڑھا لکھا دائرہ ہے اس میں اردو اجنبی نہیں ہے۔ اردو پڑھنا، اردو بولنا اور اردو لکھنا لوگوں کے لیے ناگوار نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: دیہی سندھ میں لٹریچر کے ذریعے بڑی تبدیلی کے کتنے امکانات موجود ہیں، جبکہ معاشرے کا بڑا طبقہ ناخواندہ ہے؟
معراج الہدیٰ صدیقی: بنیادی طور پر سیرت و کردار کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی کے مواقع کبھی ختم نہیں ہوتے اور یہی انبیاء کا طریقہ کار تھا۔ اگر ہم اس لٹریچر کے ذریعے چھوٹے دائرے میں سیرت و کردار کی وہ تبدیلی کہ جو لوگوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہو، پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ہمارے راستے میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں رہے گی۔ یہی ہمارا اصل ہدف ہے، یہی ہمارا چیلنج ہے کہ سیرت و کردار کی تبدیلی کو برپا کیا جائے۔
فرائیڈے اسپیشل: مولانامودودیؒ نے جماعت اسلامی لٹریچر کی بنیاد پر قائم کی تھی اور یہی اس تحریک کی انفرادیت بھی ہے، لیکن بعض لوگوں کا خیال اور تاثر یہ ہے کہ لٹریچر کی بنیاد پر قائم ہونے والی جماعت میں علم، لٹریچر اور پڑھنے کے حوالے سے کچھ کمی واقع ہوگئی ہے؟ اگر آپ اس خیال سے متفق ہیں تو آپ کے نزدیک اس صورت حال کا سبب کیا ہے اور اس کا سدباب کس طرح ممکن ہے؟
معراج الہدیٰ صدیقی: پورے معاشرے میں مطالعے کا رجحان کم ہوا ہے۔ جس طرح پہلے لوگ پڑھا کرتے تھے آج اس میں کمی آگئی ہے۔ یہ صرف جماعت اسلامی میں نہیں ہوا بلکہ بحیثیتِ مجموعی ہوا ہے۔ پورے معاشرے میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ان کے اثرات جماعت اسلامی پر بھی پڑے ہیں۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ قومیں ترقی کرتی ہیں تو علم سے کرتی ہیں۔ معاشرے کے موجودہ رجحان کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: دیہی سندھ کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
معراج الہدیٰ صدیقی: سندھ کا بڑا مسئلہ تعلیم اور صحت ہے۔ یہ زراعتی صوبہ ہے۔ اس کی زمین بہترین ہے۔ اگر کسانوں کا ہاتھ تھاما جائے، ان کی مدد کی جائے، ٹیکنالوجی دی جائے تو سندھ زراعت کے معاملے میں پاکستان کے بے شمار مسائل حل کرسکتا ہے۔ یہاں کی بے شمار فصلیں ہیں جن کا پوری دنیا میں کوئی جواب نہیں ہے۔ سندھ کا آم پوری دنیا میں مشہور ہے۔ سندھ کا گنا پورے پاکستان میں سب سے بہتر ہوتا ہے۔ امرود ہے، کیلا ہے۔ سندھ کی بہت ساری فصلیں ہیں جو دنیا تک پہنچ ہی نہیں پاتیں، اس لیے کسان اپنے طور پر ہی ساری چیزوں سے لڑتا رہتا ہے۔ سود کی لعنت ہے اور صورت حال یہ ہے کہ حکومتیں کسی بھی درجے میں کسان کے مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نہری نظام آج بھی وہیں تک محدود ہے جہاں تک انگریز بنا کر گیا تھا۔ بہت بڑے پیمانے پر زراعت کے مواقع موجود ہیں لیکن انہیں استعمال نہیں کیا جاتا اور آئندہ کے لیے بھی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی کہ عوام کی زندگی بہتر بنانے کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ چین تو پاکستان سے سی پیک کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ جو ٹیکس جمع ہوتا ہے وہ کہاں جاتا ہے، کوئی بتانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ عوام کے شعور کی بیداری کے بغیر یہ سی پیک ہماری حالت نہیں بدلے گا۔ ہمیں دیانت دار قیادت کی ضرورت ہے۔ لیکن اپنے لوگوں کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے معاشرے میں جو مواقع موجود ہیں ان کو ٹھیک طرح سے سمجھنا بھی ہوگا اور ان منصوبوں پر کام کرنا ہوگا تاکہ عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنایا جاسکے۔
فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی کے کارکن کے لیے کیا پیغام ہے؟
معراج الہدیٰ صدیقی: امیرجماعت اسلامی پاکستان نے 2014ء کے اجتماع میں اپنے کارکنان سے کچھ وعدے لیے تھے۔ ان وعدوں میں ایک بڑی بات یہ تھی کہ جھوٹ نہیں بولیں گے، غیبت نہیں کریں گے، والدین کی خدمت کریں گے، نماز کی پابندی کریں گے اور روزانہ قرآن مجید کا مطالعہ کریں گے، مظلوم کی مدد کریں گے، اس دعوت اور پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں گے اور انہیں جماعت اسلامی سے وابستہ کریں گے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان سے ہمارے یہی مطالبات ہیں کہ معاشرے کے اندر انہیں بہت متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔ معاشرے کے لیے مثال بن کر سامنے آنا ہوگا۔
جماعت اسلامی لوگوں کو یہ بات پہنچانا چاہتی ہے کہ انبیاؑ کی دعوت ہر معاشرے میں تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دیتی ہے، یہ اپنے آپ کو درست کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ جماعت اسلامی یہ سمجھتی ہے کہ انبیا کی اسی دعوت کے ذریعے اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا۔
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدلنے سے مے خانہ نہ بدلے گا
nn