جہانگیر بدر

جہانگیر بدر بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ یہ جہانِ فانی کسی کی قیام گاہ نہیں ہے۔ مسافر اپنی منزل پر پہنچ کر گاڑی سے اتر جاتے ہیں، مگر گاڑی کبھی رکتی نہیں۔ 13نومبر بروز اتوار میں پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت علی الصبح نماز فجر کے بعد سرگودھا، خوشاب اور جوہرآباد میں مختلف اجتماعات اور کانفرنسوں میں شرکت کے لیے روانہ ہوا۔ پروفیسر راؤ جلیل احمد اور عزیزم حافظ طلحہ ہمراہ تھے۔ بڑا دلچسپ سفر تھا۔ پروگراموں میں تقسیم انعامات سے لے کر خواتین کے اجتماع اور مولانا ضیاء اللہ مرحوم (سابق امیر ضلع خوشاب) کے تعزیتی ریفرنس اور مختلف سیاسی و دینی جماعتوں کے مقامی رہنماؤں سے ملاقات تک ایک عجیب تنوع تھا۔ دن بھر کے پروگراموں اور مسلسل سفر نے خاصا تھکا دیا تھا۔ رات تاخیر سے گھر پہنچے۔ صبح فجر کی نماز کے بعد پھر کچھ دیر آرام کرنے کے لیے بستر پر دراز ہوگیا تو اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، شاد باغ سے جناب محمد اسلام صاحب کا فون تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ابھی ابھی ٹیلی وژن پر خبر نشر ہوئی ہے کہ آپ کے پرانے ہمجولی جناب جہانگیر بدر اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایک تاریخ آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ جہانگیر بدر ایک فرد نہیں، ایک انجمن تھا۔
جہانگیر بدر سے بہت پرانی یاد اللہ تھی۔ جب میں لاہور جمعیت کا ناظم بنا تو جہانگیر بدر ہیلی کالج جامعہ پنجاب میں ایم کام کے طالب علم تھے۔ ان سے پہلی ملاقات بارک اللہ خاں مرحوم نے کروائی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ ہمارے خالص لاہوریے دوست ہیں۔ جمعیت کے رفیق تو نہیں، البتہ جب بھی ہم ان کو پکاریں، یہ ہمیشہ لبیک کہتے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد کئی مرتبہ مرحوم سے جامعہ پنجاب، ہیلی کالج اور انارکلی میں ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ بہت بے تکلف تھے اور رکھ رکھاؤ کے قائل نہیں تھے۔ عموماً لوگ جامعہ پنجاب اسٹوڈنٹس یونین کے صدارتی انتخابات کے حوالے سے انھیں میرا مدمقابل سمجھ کر یہی تصور کرتے ہیں کہ ہمارے درمیان ہمیشہ کے لیے مخاصمت تھی۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ بلاشبہ الیکشن کے دنوں میں خاصی تلخی اور تناؤ پیدا ہوا تھا، مگر یہ محض ایک عارضی مرحلہ تھا۔ آج میں جہانگیر بدر مرحوم کے بارے میں اپنی یادیں تازہ کرتا ہوں تو ایک بہت قابلِ قدر شخصیت سامنے آتی ہے۔ جب میں مرحوم کے جنازے کے لیے جامعہ پنجاب پہنچا تو بہت بڑا ہجوم تھا۔ مجھے یاد آیا کہ ان فضاؤں میں جہانگیر بدر زندہ باد کے نعرے لگتے تھے۔ آج ہر شخص کی زبان پر یہی الفاظ تھے ’’الوداع جہانگیر بدر الوداع، تم ہمیشہ یاد رہو گے‘‘۔ ہر سیاسی و دینی جماعت کے کارکنان و قائدین جنازے میں شریک تھے۔
جہانگیر بدر اندرونِ شہر لاہور میں ایک نچلے متوسط طبقے کے آرائیں خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں حاجی بدرالدین اکبری دروازے کے اندر دودھ، دہی کی دکان کیا کرتے تھے۔ جہانگیر بدر نے اپنا بچپن خالص لاہوری ماحول میں گزارا۔ ان کے لب و لہجے میں آخر تک لاہور کی شناخت پوری شان و شوکت کے ساتھ موجزن رہی۔ وہ حرف ’’ر‘‘ کو ’’ڑ‘‘ ہی بولا کرتے تھے۔ بے تکلف دوستوں کے ساتھ ہمیشہ گھل مل جاتے۔ اپنا حال پوری طرح اُن کو بتاتے اور اُن کے حال احوال سے مکمل آگہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ میرے ایک بزرگ دوست اور مشہور شاعر جناب عبدالرحمن بزمی مرحوم بھی لاہور سے خوب واقف تھے۔ وہ کوثر نیازی مرحوم کے ہم زلف اور جماعت اسلامی کے معروف رہنما عبدالحمید کھوکھر مرحوم کے بہنوئی تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ نیروبی میں گزارا۔ اسلامک فاؤنڈیشن نیروبی کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے۔ مولانا مودودیؒ کا پورا لٹریچر پڑھ رکھا تھا اور ادبی ذوق اعلیٰ پائے کا تھا۔ میرے نیروبی جانے سے ایک آدھ سال پہلے وہ لندن چلے گئے تھے۔ ان سے نیروبی، لندن اور لاہور میں کئی ملاقاتیں اور طویل نشستیں رہیں۔ پہلی ملاقات میں انھوں نے مجھ سے بہت سے سوالات پوچھے۔
بزمی مرحوم کا ایک سوال یہ تھا کہ جہانگیر بدر نے آپ کے مقابلے پر یونیورسٹی میں الیکشن لڑا تھا، اُن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: وہ بہت اچھا انسان اور مخلص سیاسی ورکر ہے۔ دورِ طالب علمی میں شروع میں ہم سے اچھا دوستانہ تعلق رہا۔ بعد میں انتخابی طلبہ سیاست میں حریف بن گئے، مگر باہمی احترام اور تعلق کبھی نہ ٹوٹا۔ دورِ طالب علمی کے بعد بھی ہمارے آپس میں بہت اچھے روابط اور ایک دوسرے کے بارے میں خیر خواہانہ جذبات کبھی ماند نہیں پڑے۔ فرمانے لگے کہ آپ کی یہ باتیں سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے۔ لندن میں جہانگیر بدر مجھ سے ملے تھے اور میں نے آپ کے بارے میں اُن سے ایسے ہی سوال کیے تھے۔ انھوں نے میرے سوال کے جواب میں اس سے بھی زیادہ اچھے الفاظ میں آپ کا تذکرہ کیا، جیسے آپ نے اُن کا ذکرِ خیر کیا ہے۔ میں نے بزمی صاحب سے پوچھا کہ جہانگیر بدر صاحب سے ان کی واقفیت کیسے ہوئی؟ تو فرمانے لگے کہ میرے سسرال والے بھی جہانگیر بدر کے خاندان کی طرح اندرون لاہور میں مقیم تھے۔ میری خوش دامن مرحومہ اور جہانگیر بدر کی والدہ آپس میں بہت قریبی سہیلیاں تھیں۔ میری خوشدامن صاحبہ اور میری اہلیہ دونوں بتاتی تھیں کہ جہانگیر بدر کی والدہ انتہائی نیک، عبادت گزار، خوش اخلاق اور مہمان نواز خاتون تھیں۔ جب جہانگیر بدر نے آپ کے بارے میں تعریفی کلمات کہے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ جماعت کے لوگوں کے متعلق سیاسی مخالفین بھی مثبت رائے رکھتے ہیں۔
جہانگیر بدر مجھ سے ایک سال بڑے تھے، مگر دیکھنے میں ہمیشہ وہ مجھ سے چھوٹے لگتے تھے۔ ان کی پیدائش 25 اکتوبر 1944ء کی ہے، جبکہ میری تاریخ پیدائش 17 اکتوبر 1945ء ہے۔ میں کبھی کبھار انھیں بھائی جان کہتا تو وہ بھی تعجب سے میری طرف دیکھتے اور مجلس میں موجود ہر شخص بھی مذاق سمجھتا۔ جہانگیر بدر آخر دم تک چاق و چوبند اور مستعد رہے۔ وہ ایک ایسے مہم جو تھے، جس نے بچپن سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اسلامیہ کالج سے ایف اے کیا اور پھر ہیلی کالج میں بی کام میں داخلہ لے لیا۔ یہاں 1968-69ء میں ہیلی کالج اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ میں نے بطور ناظم لاہور انھیں اس موقع پر خاص طور پر مبارک باد پیش کی اور جمعیت کے دفتر سعید منزل انارکلی میں انھیں چائے پر مدعو کیا۔ ان کے ساتھ ملک محمد اعظم بھی یونین میں نائب صدر یا سیکرٹری جنرل تھے، جو ہمارے بہت اچھے کارکن تھے۔ ان کی پوری کابینہ ہمارے دفتر میں آئی اور جمعیت کے سب ساتھیوں نے انھیں مبارک باد دی۔ بعد میں ہمارے مخالف کیسے بنے، یہ دلچسپ کہانی ہے۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے جب صدر ایوب خان سے الگ ہوکر اپنی آزاد سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو مزدور، کسان کے علاوہ نوجوان، بالخصوص طلبہ کی بڑی تعداد ان کی طرف مائل ہوئی۔ اس عرصے میں جناب جہانگیر بدر صاحب کو بھی بھٹو صاحب کی شخصیت نے بے پناہ متاثر کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کے اسٹوڈنٹس ونگ میں فعال کردار ادا کرنے لگے۔ اسی عرصے میں جامعہ پنجاب کی یونین جو چند سالوں سے معطل تھی، بحال ہوگئی۔ جامعہ پنجاب انتظامیہ کی طرف سے یونین کے الیکشن جنوری 1970ء میں منعقد کرنے کا اعلان ہوا۔ جمعیت کی طرف سے راقم کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا۔ مقابلے پر کئی امیدوار تھے، ان میں جہانگیر بدر کے علاوہ میرے راوئین دوست شاہد محمود ندیم جو بعد میں پی ٹی وی کے ڈائریکٹر بنے، خواجہ محمد سلیم جو بہت اچھے مقرر اور شعبہ معاشیات کے طالب علم تھے، امتیاز عالم جو انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے، بھی صدارتی امیدوار تھے۔ یہ سب امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں کام کررہے تھے۔ ان سب کو پیپلز پارٹی کی قیادت نے جہانگیر بدر مرحوم کے حق میں دستبردار ہونے پر آمادہ کرلیا۔
یوں عملاً جامعہ پنجاب کا یہ پہلا انتخاب تھا، جو جمعیت اور اینٹی جمعیت دھڑوں کے درمیان ون ٹو ون مقابلے کی صورت اختیار کر گیا۔ اس انتخاب میں جہانگیر بدر صاحب بہت مضبوط امیدوار تھے۔ انھیں ہیلی کالج سے بھاری اکثریت ملی، جبکہ باقی تقریباً تمام قابلِ ذکر شعبوں، لا کالج اور اورینٹل کالج میں جمعیت کا پلڑا بھاری رہا۔ جہانگیر بدر کم و بیش دو ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے، جبکہ جمعیت کو 2100 سے کچھ زائد ووٹ ملے۔ یوں سخت مقابلے کے بعد یہ انتخاب جمعیت نے جیت لیا۔ اگلے سال پھر جہانگیر بدر صدارتی انتخاب میں کھڑے ہوئے، مگر اس بار بہت بڑے مارجن سے ہمارے امیدوار حفیظ خان صاحب کے مقابلے پر انتخاب ہار گئے۔ بعد کے ادوار میں آپس میں مسلسل رابطے رہے، مگر میں کینیا چلا گیا اور جہانگیر بدر پیپلز پارٹی میں قیادت کی منزلیں طے کرتے کرتے پارٹی کے صوبائی صدر، پھر جنرل سیکرٹری، ایم این اے، سینیٹر اور مرکزی وزیر کے عہدوں پر فائز ہوئے۔
میں بیرون ملک سے واپس آیا تو جہانگیر بدر پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر تھے۔ اس عرصے میں وہ جناب قاضی حسین احمد صاحب سے ملنے کے لیے منصورہ تشریف لاتے تو مجھے فون کردیتے کہ آپ بھی اس ملاقات میں شریک رہیں۔ یہ ملاقاتیں بڑی دلچسپ اور سیاسی امور کے بارے میں تبادلہ خیالات پر مشتمل ہوتی تھیں۔ پھر مجھے بھی جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کا امیر بنا دیا گیا۔ اس موقع پر جہانگیر بدر صاحب نے خصوصی طور پر مبارک باد بھیجی تو میں نے عرض کیا کہ جہانگیر بھائی آپ کا شکریہ۔ آپ جانتے ہیں کہ جماعت میں کسی پر کوئی ذمہ داری آن پڑے تو لوگ حلف اٹھاتے ہوئے روتے ہیں، اس لیے ہمارے ہاں ایسے مواقع پر مبارک باد کے بجائے احباب اظہارِ ہمدردی اور دعائیں کرتے ہیں کہ یہ بوجھ اٹھانے کا حق ادا کیا جاسکے۔ اس پر انھوں نے قہقہہ لگایا اور اپنے لاہوری انداز میں کہا ’’حافظ صاحب اسی وجہ سے جماعت اسلامی سیاسی میدان میں آگے نہیں بڑھ رہی کہ آپ لوگوں میں قیادت کا شوق، جذبہ اور ambition مفقود ہوتا ہے‘‘۔ میں نے کہا: یہ آپ کی رائے ہے مگر ہمارے آگے نہ بڑھنے کی وجوہات دیگر ہیں۔
جہانگیر بدر سے جب بھی ملاقات ہوتی، ایک دوسرے کے خاندانی حالات اور بچوں کے بارے میں تبادلۂ خیالات ہوتا۔ حسنِ اتفاق ہے کہ مرحوم کے بھی دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور میرے بھی دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ بچوں کے بارے میں پوچھتے کہ کون کیا کررہا ہے۔ میں انھیں یہی کہتا کہ ہم سب سید مودودی کی کتابیں ہی پڑھ رہے ہیں، اس پر وہ قہقہہ لگاتے اور کہتے کہ خدا کے لیے دین کے ساتھ دنیا کا بھی کچھ خیال کرو۔ میں بے تکلفی میں کہتا کہ ایک حصہ آپ نے سنبھال لیا ہے، دوسرا حصہ ہمارے پاس رہنے دو۔ آخر ہمارا اس بات پر اتفاق ہوتا کہ اللہ نے دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی کی دعا سکھائی ہے تو دونوں کی فکر یکساں ہونی چاہیے۔ یہ بے تکلفانہ باتیں اب کہاں ہوں گی۔ جہانگیر بدر مرحوم نے اقبال ٹاؤن میں اپنی رہائش بنائی، جو منصورہ سے بہت قریب تھی۔ ان کے ہاں خوشی اور غم میں جانے کا اتفاق ہوتا رہتا تھا اور وہ تو اکثر مواقع پر منصورہ آتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی تعزیت کے موقع پر میں ان کے اقبال ٹاؤن والے گھر گیا تو پیپلز پارٹی کے جتنے لوگ وہاں موجود تھے، ان سب کو ایسے الفاظ میں میرا تعارف کروایا کہ جس سے محبت و اپنائیت کا گہرا احساس ہوا۔
جہانگیر بدر حقیقی معنوں میں اپنی پارٹی کے جیالے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے ان کو بے پناہ عقیدت تھی اور پھر بے نظیر بھٹو کے ساتھ تو انھوں نے سیاسی میدان میں بطور سیکرٹری جنرل اور وفاقی وزیر بہت قریب رہ کر کام کیا۔ جہانگیر بدر نے بے نظیر بھٹو پر اپنی کتاب بھی لکھی، جس میں مرحومہ کی عقیدت اور محبت میں ڈوب کر انھوں نے خونِ جگر سینۂ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے جہانگیر بدر صاحب کے گردے متاثر ہوگئے تھے اور قلبی مرض بھی لاحق تھا۔ اس عرصے میں انھوں نے اپنی رہائش بھی علی ٹاؤن میں منتقل کرلی۔ اب ٹیلی فون پر تو رابطہ رہتا تھا، مگر افسوس کہ آخری دنوں میں ملاقات نہ ہوسکی۔ میں نے جب بھی ان کا حال معلوم کرنے کے لیے فون کیا تو انھوں نے بڑے اطمینان کے ساتھ کہا: آپ دعا کیجیے، میں ان شاء اللہ ٹھیک ہوجاؤں گا۔ اگر کبھی ٹیلی فون اٹینڈ نہ کرپاتے تو مس کال دیکھ کر فوراً رابطہ کرتے اور شکریہ ادا کرتے کہ میں ان کا حال معلوم کرنے کے لیے فون کرتا ہوں۔ میں نے ایک دن عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں آپ سے ملاقات کروں، پھر اس خیال سے حاضری نہیں دیتا کہ آپ ڈائیلسز کی وجہ سے معلوم نہیں کس کیفیت میں ہوں گے۔ وہ یہی کہتے کہ اصل چیز تو دعا ہے، جو بندے کے حق میں نفع بخش ہوتی ہے، میں آپ کی دعاؤں کا محتاج ہوں۔
جہانگیر بدر کا بہت وسیع حلقۂ تعارف تھا، دورِ طالب علمی سے لے کر آخر دم تک وہ سرگرمِ عمل رہے۔ زندگی کے آخری دو سال ان کی نقل و حرکت محدود ہوگئی تھی۔ اپنی وزارت کے دوران انھوں نے اپنے حلقے میں جو کام کروائے، لوگ اب تک ان کو یاد کرتے ہیں۔ ان کے جنازے کے موقع پر کچھ احباب نے بالخصوص تذکرہ کیا کہ اندرون شہر سوئی گیس پہنچانے کا مطالبہ جب بھی کیا گیا حکمرانوں نے یہی کہا کہ تنگ گلیوں کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے، مگر جہانگیر بدر کی کاوشوں سے یہ اہم عوامی مسئلہ حل ہوا تو اندرون شہر کے لوگوں نے چین کا سانس لیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ اندرون شہر کے ہرمحلے تک گیس پہنچی ہے یا بعض خاص علاقے ہی اس سے مستفید ہوئے ہیں، البتہ مجھے یہ بات ان کی وفات کے بعد ہی ان کے جنازے کے موقع پر لوگوں کی زبانی سننے کو ملی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی انسانی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے۔
nn