ترکی عالم اسلام کی ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور اغیار کی اس پر نظر ہے۔ حال ہی میں وہ ایک بہت بڑے بحران سے سرخرو ہوکر نکلا ہے اور عوام کی قوت سے فوج کی بغاوت کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ عالم اسلام میں ایک جمہوری ملک میں پہلی بار ہوا ہے کہ عوام نے فوجی بغاوت پر قابو پالیا ہے۔
ماضی میں ترکی ایک سپر پاور رہا ہے اور یورپ کی صلیبی قوتوں کو شکست دے چکا ہے، اس شکست کو یورپ آج تک فراموش نہیں کرسکا۔ نائن الیون کو امریکی صدر بش کے دل کی بات زبان پر آگئی اور صلاح الدین ایوبی کا لگایا ہوا زخم ہرا ہوگیا۔ یقیناً ترکی عالم اسلام کا کوئی رول ماڈل نہیں ہے اور نہ وہ خلافتِ راشدہ کے مثل ہے۔ اسلام کی طرف لوٹنے میں اسے کئی مراحل طے کرنے پڑے ہیں۔
عربوں نے فلسطین کے حوالے سے اس کے سینے میں بڑے گہرے گھاؤ لگائے ہیں، اور جب جنرل ایلن بی بیت المقدس میں داخل ہورہا تھا اور اس شہر کی چابی اس کے حوالے کی جارہی تھی تو اس برطانوی فوج کے ہمراہ عرب فوجی بھی کھڑے نظر آئے اور برطانوی ہند کے فوجی بھی۔ یہ بڑے گہرے زخم تھے جن کو کمال اتاترک فراموش نہیں کرسکا اور اس نے عالم اسلام سے تعلق توڑ لیا۔ اس نے عربی زبان ہی کو ترک کردیا، اذان عربی زبان کے بجائے ترکی میں دی جانے لگی۔ اس ترکی کو واپس اسلام کی طرف لوٹنے میں 30 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے اور اب اردوان کی پارٹی دھیرے دھیرے قوانین کو اسلامی بنا رہی ہے۔
گزشتہ جولائی کی فوجی بغاوت ایک طاقتور مغرب کی سازش تھی جس میں مغرب نے اتاترک کے بعض چھپے ہوئے فوجی افسروں کو استعمال کیا اور اس کے لیے فتح اللہ گولن کے پیروکار کام آئے۔ لیکن اردوان کی جرأتِ رندانہ اور اس کی پارٹی نے حیرت انگیز وفاداری کا ثبوت دیا۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے اور فوجی بغاوت پر قابو پالیا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ترکی میں اردوان اور اس کے ساتھی تختۂ دار پر کھڑے نظر آتے۔
اس بغاوت پر پاکستان کے نام نہاد بائیں بازوکے دانشوروں اور سیکولر کالم نگاروں کو بڑی تکلیف ہوئی کہ سینکڑوں نہیں ہزاروں افسروں اور سرکاری ملازموں کو حکومت نے کان پکڑ کر باہر پھینک دیا۔ اخبارات اور ٹی وی چینل بند کردیے تو ان کے پیٹ میں جمہوریت اور آزادی کے مروڑ اٹھنا شروع ہوگئے۔ لیکن ترکی کی قیادت ان سب سے بے نیاز ہوکر اپنی منزل کی جانب بڑھتی گئی، اور ہدف واضح تھا کہ اقتدار کو غیرجمہوری قوتوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ تمام تجزیوں کے برعکس اردوان اپنی پالیسی پر فاتحانہ آگے بڑھتے رہے۔
یقیناً ترکی کی خارجہ پالیسی کے بعض پہلو ہمیں اچھے نہیں لگتے، خاص طور پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات۔ لیکن وہ بہت احتیاط سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سے نیم جمہوری ملکوں کو بڑا حوصلہ ملا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک مثال ہے۔ لیکن یہاں اس طرح کی لیڈر شپ نہیں ہے، بلکہ ایک گروہ تو عرصے سے فوجی انگلی کی طرف نگاہ جمائے ہوئے ہے اور اسے خوش آمدید کہنے کو تیار بیٹھا ہے۔
اس حوالے سے ترکی کی تاریخی مزاحمت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس مضمون میں ترکی کے ترانے کے خالق کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ یہ ترانہ کمال اتا ترک کے دورِ حکومت میں لکھا گیا، اور اس میں وطن اور اسلام سے محبت کا جذبہ موجزن نظر آتا ہے۔ اس کی دھن علی رفعت نے 1921ء میں تیار کی، اس کے بعد 1930ء میں شیخ ذکی، اور اونگور نے تیار کی اور اب تک اسی دھن میں یہ ترانہ بجایا جارہا ہے۔
زبان کی چاشنی اور حسنِ بیان کے علاوہ جوش و جذبات کے لحاظ سے دنیا میں کم ترانے ہوں گے جو ترکی کے قومی ترانے کا مقابلہ کرسکیں۔ اس ترانے کو ترکی میں استقلال مارشی یعنی ’’قومی ترانہ آزادی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ترانہ محمد عاکف نے اُس وقت لکھا جب ترک اناطولیہ میں مصطفی کمال کی قیادت میں آزادی کی جنگ لڑرہے تھے۔ ترکی کی وزارت تعلیم نے ترانوں کا مقابلہ کرایا تھا، اور سب سے اچھے ترانے کا انتخاب 23 دسمبر 1920ء کو کیا گیا تھا۔ اس مقابلے میں 724 شاعروں نے حصہ لیا تھا۔ منتخب ترانے کے شاعر اور دھن بنانے والے کے لیے پانچ پانچ سو لیرے انعام تھا۔
وزیر تعلیم حمداللہ جو خود بھی ایک شعلہ بیان مقرر تھے، کو معلوم ہوا کہ محمد عاکف اس مقابلے میں حصہ نہیں لے رہے۔ انہوں نے بڑی کوشش سے ان کو قومی ترانہ لکھنے پر آمادہ کیا۔ اس ترانے کو حمداللہ نے مجلس کبیر علی میں خود پڑھ کر سنایا۔ اس کو سن کر مجلس پر رقت طاری ہوگئی اور سب نے ایک آواز ہوکر کہا ’’اب کوئی دوسرا ترانہ نہ سنایا جائے، یہ کافی ہے۔ اس ترانے کو مجلس نے قبول کرلیا۔ ارکان مجلس نے کھڑے ہوکر یہ ترانہ سنا اور شاعر کو انعام دینے کا اعلان کیا، لیکن محمد عاکف نے اسے لینے سے انکار کردیا، حالانکہ اس وقت ان کو اس کی بہت ضرورت تھی۔ عاکف ملک بدر تھے، بعد میں مصر سے واپس لوٹ آئے۔ وہ بستر مرگ پر تھے، ان کے دوست گفتگو کررہے تھے، وہ دوستوں کی گفتگو سن کر اٹھ بیٹھے اور بولے: ’’کتنے ولولہ انگیز اور پُرخلوص دن تھے۔
یہ اُس دور کی یادگار ہے جب ہر شخص اچھے دنوں کی آمد کی توقع رکھتا تھا اور اس دن کے لیے مصائب برداشت کررہا تھا۔ اب ایسی نظم دوبارہ نہیں لکھی جاسکتی، میں خود اب ایسی نظم دوبارہ نہیں لکھ سکتا، اسے دوبارہ لکھنے کے لیے اسی دور میں رہنا، بسنا اور انہی تجربوں سے اور آزمائشوں سے گزرنا ہوگا‘‘۔ اس سلسلے میں عاکف نے اتنا اور اضافہ کیا:
’’اللہ اب اس ملت کے لیے پھر ترانۂ آزادی نہ لکھوائے، اس مملکت اور اس کی آزادی کو خطرے میں نہ ڈالے کہ وہ پھر ایک ترانۂ آزادی لکھوانے پر مجبور ہو۔‘‘
یہ ترانہ قیام جمہوریہ سے پہلے لکھا گیا تھا۔ ترک جذبۂ جہاد سے سرشار تھے۔ لیکن 1928ء میں جب ترکی کو ایک سیکولر ریاست قرار دیا گیا تو لادینی نظام کے حامی عناصر نے ترانے پر اعتراض کیا اور اس کو بدلنا چاہا، کیونکہ اس میں اسلامی جذبے کو اپیل کی گئی تھی۔ لیکن ترانے کی غیرمعمولی مقبولیت اور ترکوں کی دینی حمیت کی وجہ سے سیکولر عناصر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے اور محمد عاکف کا لکھا ہوا ترانہ ترکی کا قومی ترانہ بن گیا۔ محمدعاکف نے یہ ترانہ تکیہ تاج الدین درویش میں لکھا تھا جہاں جنگ آزادی کے زمانے میں اُن کا ایک کمرے میں قیام تھا۔ تاج الدین پانچویں صدی کے ولی تھی۔ اب یہ جگہ یونیورسٹی میں شامل ہوگئی ہے اور اس کے ان کمروں کو جہاں یہ ترانہ لکھا گیا تھا، قومی ترانے کے شاعر کی یادگار میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس میں ایک عجائب گھر بھی موجود ہے جس میں محمد عاکف سے متعلق اشیاء رکھی گئی ہیں۔
محمدعاکف 1873ء کو ترکی کے شہر استنبول کے محلہ ساری گورل میں پیدا ہوئے۔ اسی علاقہ میں جامع مسجد محمد فاتح واقع ہے۔ یہ محلہ استبول کا سب سے زیادہ مذہبی علاقہ تھا۔ محمد عاکف کے والد طاہر آفندی اپنے عہد کے ممتاز عالم دین تھے۔ محمد عاکف نے عربی اور فارسی اپنے والد سے سیکھی۔ انہوں نے حیوانیات کے کالج میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ حیوانیات کے مدرسے میں ملازمت کی جو کچھ عرصہ بعد چھوڑ دی، اور استنبول یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات میں پروفیسر ہوگئے، بعد ازاں وہ ترکی ادب کے استاد بن گئے۔ ترکی جدوجہدِ آزادی کے دوران انہوں نے فرانسیسی زبان بھی سیکھ لی۔ بعد میں ایک ہفت روزہ ’’صراط مستقیم‘‘ اور ’’سبیل الرشاد‘‘ نکالا۔ اس میں محمد عبدہ اور فرید وجدی کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ محمد عاکف جیسا کہ گزشتہ سطور میں لکھا گیا، شاعر بھی تھے۔ انہوں نے کئی نظمیں لکھیں، کتابیں بھی لکھیں۔ علامہ اقبال 1931ء میں مصر گئے تو عاکف قاہرہ ہی میں تھے، لیکن ان دونوں کی آپس میں ملاقات نہ ہوسکی۔ عاکف، اقبال کے مداح تھے، انہوں نے علامہ کا فارسی کلام پڑھا ہوا تھا اور علامہ کے دو شعروں کا ترکی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ 27 دسمبر 1936ء کو محمد عاکف کا انتقال ہوا۔ وہ 6 ماہ قبل بیماری کی حالت میں ترکی لوٹ آئے تھے۔ ان کی زندگی میں جتنی شہرت اقبال کو حاصل تھی، وہ انہیں حاصل نہ تھی۔
اسی وجہ سے انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ ’’حیاتِ جاوداں یہ ہے کہ مرنے والے کو اچھے نام سے یاد کیا جائے، لیکن میں نے خاموش زندگی گزار دی، بھلا مجھے کون جانے گا!‘‘ لیکن عاکف کے تذکرہ نگار کہتے ہیں کہ عاکف کا یہ خیال غلط تھا، ان کا جب انتقال ہوا تو لاکھوں افراد ان کے جنازے میں شریک تھے، خصوصاً طلبہ کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا۔ موسم سرما کی برف باری کے باوجود اپنے محبوب شاعر کے جنازے میں بابزید سے باب ورعہ تک جوشہر کی فصیل کے قریب ایک طویل فاصلہ ہے، اپنے کاندھوں پر لے گئے۔ سڑک کے دونوں طرف ہزاروں لوگ کھڑے تھے۔
علامہ اقبال کی طرح محمد عاکف کی زندگی کا بیشتر حصہ اسلام اور مسلم فلسفہ کے مطالعے پر صرف ہوا۔ انہیں ترکی، عربی، فارسی، فرانسیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور ان سب کا مطالعہ کیا تھا۔ ان کی شاعری کمال کی تھی۔ درہ دانیال کے شہیدوں کے بارے میں ان کا تذکرہ اس طرح تھا:
’’وہ سر جو رکوع کی حالت کے سوا دنیا میں کبھی نہ جھکے، اب پیشانی پر گولی کھا کر زمین پر لمبے پڑے سورہے ہیں۔ یارب ایک ہلال (ترکی کا جھنڈا )کی خاطر کتنے آفتاب ڈوب گئے۔‘‘
بلبل کو مخاطب کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
’’اے بلبل! یہ قیامت خیزفریاد کس لیے، تجھے کس چیز کا غم ہے! تُو سبز زمردین تخت پر بیٹھا ہے۔ اگر دنیا کا ہر ملک تہہ و بالا ہوجائے تو بھی تیرا ملک اور آشیانہ پامال نہیں ہوسکتا۔ تُو آج ایک سرسبز وادی میں ہے تو کل کسی گل رنگ گلشن میں۔ تیرا گھر بار سلامت رہے۔ تیرا دل شاد رہے اور تیری دنیا آباد رہے۔ جب تیرا یہ حال ہے تو تیرا دل کیوں درد و غم سے پریشان ہے، کیوں تیرے ننھے سینے میں ایک سمندر موجزن ہے۔‘‘
اس کے بعد عاکف بروصہ کی تباہی کا ذکر کرتا ہے اورکہتا ہے: ’’حرم اسلام میں نامحرم گھوم رہے ہیں، اس لیے ماتم میرا حق ہے۔ اے بلبل خاموش! تجھے ماتم کرنے کا حق نہیں۔‘‘
اب ترکی کے قومی ترانے کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
-1 ڈر کیسا! یہ شفق رنگ فضاؤں میں تیرنے، چمکنے اور لہرانے والا سرخ پرچم اُس وقت تک لہراتا رہے گا جب تک ہمارے وطن کے سب سے آخری خاندان کا چراغِ حیات گل نہ ہوجائے کہ یہ ہماری ملت کی قسمت کا تارا ہے جو روشن ہے اور روشن رہے گا، یہ ہمارا اور صرف ہمارا ہے۔
-2 اے پیارے ہلال تیرے قربان جاؤں، تیرے چہرے پر رنج و غم کیسا! غصے اور جلال کی یہ شدت کیسی! تُو ہماری بہادر قوم کو دیکھ کر ایک بار مسکرا دے، ورنہ ہم نے جو خون بہایا ہے وہ ہلال کی شکل اختیار نہ کرسکے گا۔ استقلال اور آزادی خدائے برحق کو پوجنے والی اس ملت کا حق ہے۔
-3 ہم ازل سے آزاد ہیں اور آزاد رہیں گے، وہ کون پاگل ہے جو ہمیں زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کرے گا! ہم گرجتے گونجتے سیلاب کی طرح ہیں اور ہر بند کو توڑ کر نکل جاتے ہیں، ہم پہاڑوں کو چیر کر فصائے بسیط کی وسعتوں میں پھیلنا چاہتے ہیں۔
-4 اگر ہمارے مغربی افق پر فولاد کی دیوار کھڑی کردی گئی لیکن ہمارا ایمان سے بھرا سینہ ہماری سرحد ہے، اے میری قوم ڈر نہیں، یہ خونخوار جانور جسے تہذیب کہا جاتا ہے ہمارے ایمان کا گلا نہیں گھونٹ سکتے۔
-5 اے برادرانِ قوم خبردار، یہ بزدل آگے نہ بڑھنے پائیں، اپنے سینوں کو سپر بنالو اور بے شرموں کے حملوں کو روک دو۔ اللہ نے جس دن کا وعدہ کیا ہے وہ طلوع ہوکر رہے گا، اورکون جانتا ہے کہ وہ کل ہی طلوع ہوجائے، یا کل سے بھی پہلے۔
-6 اس خاک پر یہ سمجھ کر قدم نہ رکھو کہ یہ زمین ہے، اس خاک کے نیچے تو ہزاروں بے کفن دفن ہیں، تم شیروں کی اولاد ہو، دیکھو وہ مجروح نہ ہوں اور وطن کی اس جنت کو ہم سے کوئی چھین نہ لے۔
-7 کون ہے جو اس جنت پر قربان نہ ہوجائے گا، جس کے چپے چپے پر شہدا بکھرے پڑے ہیں۔ اے خدا تُو مجھے، میرے محبوب کو اور ہر چیز کو لے لے، لیکن مجھ کو جب تک زندہ ہوں اس وطن سے جدا نہ کر۔
-8 اے اللہ ہم اپنی روح کی گہرائیوں سے تیری بارگاہ میں التجا کرتے ہیں کہ ہماری عبادت گاہوں تک نامحرموں کی رسائی نہ ہو اور یہ اذانیں جو تیرے دین کی شہادت (گواہی) دیتی ہیں تاابد ہمارے وطن کے طول و عرض میں گونجتی رہیں۔
-9 اُس وقت جب وطن آزاد ہوجائے، اگر میں مر بھی گیا تو میری روح ہزاروں سجدے کرے گی اور میرے جسم کا زخم مندمل ہوجائے گا اور میرا سر عرش سے بھی بلند ہوجائے گا۔
-10 شفق رنگ فضاؤں میں لہرانے والے ہلال، تُو اسی طرح لہراتا رہے اور ہمارا بہایا ہوا خون ہلال کی شکل اختیار کرے۔ اے ہلال تُو ابد تک اسی طرح لہراتا رہے اور میری قوم سرنگوں نہ ہو۔ آزاد رہنے والے ہلال، آزادی تیرا اور خدائے برحق کو پوجنے والی ملت کا حق ہے۔ (استفادہ ’’ترکی اور ترک‘‘)۔