(رپورٹ (عالمگیر آفریدی

جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے امیر مشتاق احمد خان نے سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ) پر جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے زیراہتمام المرکز الاسلامی پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں خیبر پختون خوا کے حقوق کے تحفظ کے لیے تمام سیاسی جماعتیں ایک صف میں کھڑی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو بھی ساتھ ملائیں گے اور قانون و آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے متحدہ جدو جہد جاری رکھیں گے۔ ہماری کسی کے ساتھ کوئی جنگ نہیں۔ سی پیک کے حوالے سے پاک فوج کی سنجیدگی اور خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ مشتاق احمد خان نے کہا کہ سی پیک کے لیے ’’تقدیر بدلنے‘‘ اور ’’تاریخی منصوبہ‘‘ کے جو الفاظ ادا کیے جاتے ہیں وہ ادبی اصطلاحات نہیں بلکہ حقیقت ہیں، اور قیام پاکستان سے لے کر اب تک بننے والے مجموعی بجٹ سے تین گنا زیادہ رقم کے منصوبے اس میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج خیبر پختون خوا اسمبلی کے اندر اور باہر کی16سیاسی جماعتوں کی قیادت کا اس امر پر اتفاق بہت خوش آئند ہے کہ ہم سی پیک اور چینی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم کسی قسم کی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر صوبائی حقوق کے حصول کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہمارے مؤقف میں ’’میں نہ مانوں‘‘ کی کوئی بات موجود نہیں۔ ہم ترقی میں اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ ہم کسی قسم کے تنازعے میں پڑنا چاہتے ہیں اور نہ تنازع پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم صرف وزیراعظم کی28 مئی2016ء کو اے پی سی میں کی گئی تقریر پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد چاہتے ہیں۔ ہم وہ نقشے اور منصوبے چاہتے ہیں جن کے اعلانات اور یقین دہانی وزیراعظم پوری قوم کے سامنے کرچکے ہیں۔ انھوں نے کانفرنس میں شرکت کرنے پر تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ دعوت کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے رہنما شریک نہیں ہوئے۔ ہم تمام جماعتوں کی کوشش یہ ہوگی کہ صوبائی حقوق کی جدوجہد میں ان کو بھی شامل کریں۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی مشاورت کا یہ سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ ہر سیاسی جماعت جب چاہے اسی طرح کی اے پی سی طلب کرے، ہم سب اس میں شرکت کریں گے اور صوبائی حقوق کے لیے ایک ساتھ جدوجہد کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت بھی سی پیک پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ایک اور اے پی سی بلائی جائے جس میں 28 مئی 2016ء کی وزیراعظم کی تقریر پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور منصوبے کی تمام تفصیلات وضاحت کے ساتھ تمام سیاسی قوتوں کے سامنے رکھنے کا مطالبہ کیا جائے۔ مشتاق احمد خان نے کہا کہ اگر وزیراعظم کی تقریر پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو اس سے سی پیک کی اصل روح کو نقصان پہنچے گا، اس لیے یہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے وعدوں اور منصوبوں پر عمل درآمد کرکے دکھائے۔ انھوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کا فی الفور اعلان کیا جائے اور صوبے کو بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ مشتاق احمد خان نے کہا کہ مردم شماری آئینی تقاضا ہے، اسے پورا کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مردم شماری کے بغیر کوئی منصوبہ شروع اور مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح گیس اور پیٹرولیم کی رائلٹی بھی صوبہ خیبر پختون خوا کا آئینی حق ہے۔ جماعت اسلامی صوبائی حقوق کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر جدوجہد جاری رکھے گی۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری پاکستان کے لیے تقدیر بدلنے والا ایک جامع منصوبہ ہے، جس سے پاکستان کے تمام حصوں کی طرح خیبر پختون خوا میں بھی اقتصادی ترقی ہوگی اور خوشحالی آئے گی۔ اس جامع ترقیاتی منصوبے سے خیبر پختون خوا میں بھی صنعتی ترقی، مواصلات، بجلی اور روزگارکا انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ خیبر پختون خوا جغرافیائی طور پر اس منصوبے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کی جغرافیائی ہیئت، معدنیات، انسانی اور قدرتی وسائل اس عظیم منصوبے کو کامیابی سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور مفید تر بنانے کے لیے موزوں تر ہیں۔
سی پیک کے مغربی روٹ کے حوالے سے خیبر پختون خوا کی تمام سیاسی جماعتوں، صوبائی حکومت، وزرا اور ارکانِ صوبائی اسمبلی اور تمام پارلیمانی رہنماؤں کی وفاقی وزرا سے ملاقاتیں ہوئیں۔ وزیراعظم کی صدارت میں کل جماعتی کانفرنسیں ہوئیں۔ حکومت نے سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر مشترکہ اجلاسوں میں جو مؤقف اپنایا تھا، بدقسمتی سے اسے عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ لیکن عملی طور پر کوئی بھی نقشہ اور خاکہ موجود نہیں ہے۔ صوبائی اسمبلی نے اس سلسلے میں مباحث اور قراردادوں کی صورت میں مرکزی حکومت کو اس جانب متوجہ کیا ہے۔ اس حوالے سے کئی آل پارٹیز کانفرنسیں ہوچکی ہیں۔ خیبر پختون خوا کی حکومت، صوبائی اسمبلی، تمام سیاسی جماعتیں اور غیر سیاسی و غیر سرکاری ادارے سی پیک کے حوالے سے ایک صف میں ہیں۔ پاکستان کی ترقی کے اس عظیم منصوبے کو تاریخی خوش قسمتی سمجھتے ہوئے اس سے استفادہ کیا جائے۔ تمام چھوٹے صوبوں کو ان کا حق دیا جائے، اور اگر مرکزی حکومت اس میں خیبر پختون خوا کو جائز حصہ نہیں دیتی تو اس کے لیے متفقہ طور پر تمام آئینی، سیاسی، قانونی اور اخلاقی راستے اختیار کریں گے اور اس سنہری موقع کو کسی طور پر ضائع نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی اسے سیاست کی بھینٹ چڑھنے دیں گے۔
آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اب تک مرکزی حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے ابہام مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ پہلے سے موجود شبہات ختم ہونے کے بجائے مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اسی مناسبت سے خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں جن میں اسمبلی کے اندر اور باہر کی سب جماعتیں شامل ہیں، متفقہ طور پر مطالبہ کرتی ہیں کہ چین پاکستان (CPEC) میں خیبر پختون خوا کے حسبِ ذیل منصوبے شامل کیے جائیں اور ان منصوبوں کے لیے فنڈ مختص کرنے اور آغاز کے لیے وقت مقرر کیا جائے۔
(الف)۔ مواصلات
1۔ 28 مئی 2016ء کو وزیراعظم میاں نوازشریف نے پہلی اے پی سی میں تمام سیاسی جماعتوں اور قومی قیادت کے سامنے اعلان کیا تھا کہ سب سے پہلے سی پیک کے مغربی روٹ پر تمام لازمی اقدامات کے ساتھ کام شروع کیا جائے گا، وزیراعظم کے اس اعلان پر مِن و عن عمل درآمد کیا جائے۔
2۔ ڈیرہ اسماعیل خان تا پشاور انڈس ہائی وے کو بطور CPEC اختیار کرکے فوری طور پرچھ رویہ (Six-Lane) کیا جائے۔
4۔ سی پیک میں شامل تمام منصوبوں ریلوے لائنوں، تیل و گیس، فائبر آپٹک کیبل کے آغاز کے لیے ٹائم لائن دی جائے، مزید برآں خیبر پختون خوا میں سی پیک سے متعلقہ تجارتی زون، معاشی زون اور صنعتی زون کے قیام کے لیے خیبر پختون خوا حکومت کی مشاورت سے منصوبے شروع کیے جائیں۔
5۔ مغربی روٹ پر ریلوے لائن اور اس کے ساتھ ہائی پاور ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے اور موجودہ ڈسٹری بیوشن لائن کو فور ی طور اپ گریڈ کیا جائے اور اس کے لیے ٹائم لائن دی جائے۔
6۔ چکدرہ، کالام اور خوازہ خیلہ بشام ایکسپریس وے کی تعمیر اور تکمیل کو پہلی ترجیح میں رکھا جائے۔
7۔ پاکستان کو وسط ایشیا سے منسلک کرنے کے لیے چکدرہ، چترال، شندور اور گلگت ایکسپریس وے آسان ترین ذریعہ ہے، یہ پاک بھارت علاقائی اسٹرے ٹیجک صورت حال کی وجہ سے کسی بھی ہنگامی صورت حال میں متبادل سی پیک ثابت ہوگا، بنابریں اس کو سی پیک کے Multiple Passages کا حصہ بنایا جائے۔
8۔ پشاور تا ڈیرہ اسماعیل خان مجوزہ چھ رویہ (Six-Lane) موٹر وے کو تین مقامات پر فاٹا سے رابطہ سڑکوں کے ذریعے منسلک کیا جائے اور باجوڑ تا جنڈولہ موٹر وے جو پورے فاٹا کو لنک کرے اور خیبر پختون خوا سے بھی فاٹا کو ملائے، اس کو سی پیک کا حصہ بنایا جائے۔
9۔ پشاور کو اورنج لائن کی طرز پر سی پیک مغربی روٹ سے منسلک کیا جائے۔
10۔ ریلوے لائن بشمول پشاور طورخم ریلوے لائن کو سی پیک کے معیار کی ریلوے لائن بنایا جائے۔
(ب)۔ توانائی
1۔ خیبر پختون خوا پن بجلی کے حوالے سے ہر طرح کے وسائل سے مالامال ہے۔کوئلہ اور دیگر ذرائع کے بجائے تمام تر توجہ اسی پر مرکوز کی جائے۔
2۔ خیبر پختون خوا میں سی پیک منصوبے میں 10,000میگاواٹ بجلی بنانے کی غرض سے پن بجلی کے منصوبوں کے لیے پانچ ارب ڈالر مختص کیے جائیں۔
3۔ خیبر پختون خوا میں پن بجلی کے تمام زیر تعمیر منصوبوں کو سی پیک کا حصہ قرار دے کر ان کی تکمیل کو پہلی ترجیح میں رکھا جائے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری پرجماعت اسلامی کی کل جماعتی کانفرنس کے موقع پر کنٹرول لائن پر پاک فوج کے جوانوں کی شہادت، پی پی پی رہنما جہانگیر بدر کے وفات، گڈانی کے شہداء اور مزار شاہ نورانی کے شہداء کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔ واضح رہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر جماعت اسلامی کی آل پارٹیز کانفرنس میں صوبے کی تمام بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ کل جماعتی کانفرنس کی صدارت امیر جماعت اسلامی خیبر پختون خوا مشتاق احمد خان نے کی، جب کہ کنوینر سینئرصوبائی وزیر بلدیات عنایت اللہ خان تھے۔ جماعت اسلامی کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ، صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید اور صوبائی وزیر زکوٰۃ و عشر حاجی حبیب الرحمان بھی اے پی سی میں موجو د تھے۔ جن جماعتوں اور ان کے قائدین نے وفود کے ہمراہ اے پی سی میں شرکت کی ان میں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین، جمعیت علماء اسلام (ف) کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی صدر سید ظاہر علی شاہ، قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدر و سینئر وزیر سکندر شیرپاؤ، تحریک انصاف کے رہنماء و صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان، سینئر وزیر صحت شہرام خان ترکئی، مسلم لیگ(ق) کے صوبائی صدر انتخاب چمکنی، عوامی نیشنل پارٹی (ولی) کے سیکرٹری جنرل فرید خان طوفان، اسلامی تحریک کے علامہ رمضان توقیر، جمعیت علماء اسلام (س)کے صوبائی امیر مولانا یوسف شاہ، جمعیت علماء پاکستان کے فیاض خان، اولسی تحریک کے ڈاکٹر سید عالم محسود، اہلِ سنت والجماعت کے مولانا عطا محمد دیشانی، جمعیت اہلِ حدیث کے مولانا فضل الرحمان مدنی، راہِ حق پارٹی کے مولانا عبیداللہ ایڈووکیٹ اور مزدور کسان پارٹی کے افضل خاموش شامل تھے۔
nn