(تبصرۂ کتب (ملک نواز احمد اعوان

مجلہz
:
ششماہی امتزاج کراچی (شمارہ اول)
مدیر اعلیٰ
:
پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین احمد (شاداب احسانی)
مدیران
:
پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ فرمان، پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس، ڈاکٹر رؤف پاریکھ
صفحات
:
276 قیمت 300 روپے فی شمارہ
بیرون ملک 10 امریکی ڈالر بہ شمول ڈاک خرچ
ناشر
:
شعبۂ اردو، جامعہ کراچی
بڑی خوشی کی بات ہے کہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے بھی شعبہ جاتی مجلہ شائع ہونا شروع ہوا ہے۔ زیرنظر شمارۂ اول ہے۔ اس پر تعجب کیا جاتا تھا کہ اتنی بڑی اور اہم یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے کوئی مجلہ شائع نہیں ہوتا۔ مدیر اعلیٰ ڈاکٹر شاداب احسانی تحریر فرماتے ہیں:
’’ہندوستان ایک ایسی سرزمین ہے کہ جہاں اقتدار پر گرفت رکھنے کے لیے زبانوں کو بے دریغ استعمال کیا گیا۔ سنسکرت اقتدار کی زبان، فارسی اقتدار کی زبان، ریختہ یعنی گری پڑی عوام کی زبان۔ اس احوال کا تاریخی تناظر ہندوستان میں آریاؤں کی آمد کے بعد سے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ چھٹی صدی قبل مسیح میں گوتم بدھ کی اصلاحِ مذہب کی تحریک نے بولیوں کو آزادی بخشی۔ اس آزادی نے مرکزی زبان کی ضرورت کو لاکھڑا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو پاک و ہند کے ہر علاقے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود نطر آتی ہے۔ 1862ء کا گستاؤلی بان کا سروے واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ پورے ہندوستان میں سب سے زیادہ اردو بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ ڈاکٹر گستاؤلی بان کی اس تحقیق کا ترجمہ 1912ء میں سید علی بلگرامی نے ’’تمدنِ ہند‘‘ کے نام سے کیا۔ اس سلسلے میں لالہ سری رام کے تذکرے ’’خم خانۂ جاوید‘‘ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ زبان طبقات پیدا کرتی ہے اور طبقات کو ختم بھی کرتی ہے۔ اٹھارہویں صدی میں انگریزوں کو ایسی کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ انہوں نے انگلینڈ میں انگریزی کو لاطینی کا متبادل بنایا، جب کہ Newton کی کتاب Principia Mathematica لاطینی میں شائع ہوئی تھی، اور رائل سوسائٹی آف لندن کا سائنس میگزین بھی لاطینی میں لندن سے نکل رہا تھا۔ ڈھاکا میں قائداعظم کا یہ کہنا کہ ’’پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی‘‘ نہایت دانش کی بات تھی۔ اسے اگر ہم صحافیانہ یا سیاستدانہ حوالے سے دیکھیں تو گمراہ ہوں گے۔ مسئلہ یہ تھا کہ اسی ڈھاکا میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا اور 1906ء کے اس اجلاس کی کلیدی زبان اردو تھی۔ 1877ء میں بلوچستان کی سرکاری زبان اردو تھی۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو آج بلوچستان اور بھی پسماندہ ہوتا۔ خیرپور میں 1903ء میں اردو سرکاری زبان تھی۔ پاکستان کی عوامی تحریک بھی اردو میں چلی تھی۔ بنگال سے باہر بنگالی نظر نہ آتی تھی بلکہ بنگال میں تاحال اردو جاننے والے میسر ہیں، تو قائداعظم کے فرمان کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ وہ حقیقی جمہوریت لانا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کا تو مطلب ہی عوام ہے۔ جہاں جمہوریت کی زبان ہی نہیں ہوگی وہاں جمہور کے کیا معنی ہوں گے؟ اگر انگلینڈ میں لاطینی ہوتی تو وہاں کیا جمہوریت کا کامیاب تجربہ ہوتا؟ اگر انگریزی نہ ہوتی تو کیا وزیراعظم برطانیہ کا بچہ کسی خاکروب کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکتا تھا؟ بانئ پاکستان تو اشرافیہ کی زبان اس طرح جانتے تھے کہ ہندوستان میں اُن کے مدمقابل کوئی نہ تھا۔ اس کے باوجود ان کی دیانت داری کا یہ تقاضا تھا کہ وہ اس طبقاتی نظام کو ختم کریں اور حقیقی جمہوریت کے لیے اردو زبان کو بنیاد بنائیں۔ جناب جسٹس جواد ایس خواجہ کا تاریخی فیصلہ بھی حقیقی جمہوریت کے سلسلے کی ہی کڑی ہے۔ ترقی پسندوں سے بھی بنیادی غلطی یہی ہوئی کہ وہ طبقات ختم کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے طبقات پیدا کرنے والی زبان یعنی انگریزی کو بنیاد بنایا۔ اردو رسم الخط کے مباحث کا معاملہ اپنی جگہ، اس وقت دنیا بھر میں اردو بولنے اور جاننے والوں کی تعداد کروڑوں کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے۔ کسی بھی زبان کی ساخت مصادر سے جڑی ہوتی ہے اور اردو زبان کے 99 فیصد مصادر مقامی ہیں۔ ’’بخشنا‘‘ جیسے مصادر جعلی مصادر کہلاتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر دیکھیں تو انگریزی سے پہلے فارسی تقریباً 600 برس اس خطے کی زبان رہی۔ روزگار سے لے کر زندگی کا ہر قرینہ فارسی کے رہین منت سمجھا جاتا تھا۔ پچھلے 50 برسوں میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ فارسی میں شدبد رکھنے والا ڈھونڈے نہیں ملتا۔ انگریزی کے بہی خواہوں کو سمجھنا چاہیے کہ آنے والے کل میں انگریزی کا مستقبل بھی فارسی سے مختلف نظر نہیں آتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انگریزی نہیں سیکھنی چاہیے۔ ہر زبان ایک جہان رکھتی ہے۔
1952ء میں جامعہ کراچی کے قیام کے ساتھ ہی شعبۂ اردو کا قیام عمل میں آیا۔ شعبے کے پہلے صدر باباے اردو مولوی عبدالحق تھے۔ باباے اردو کی دونوں حیثیتیں مستحکم تھیں، یعنی تدریس اور تحقیق۔ اکیسویں صدی کے اوائل سے بوجوہ جامعات میں تدریسی اہمیت کے بجائے تحقیقی غلغلے کا احوال ہم سب کے سامنے ہے۔ جامعات کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتی ہیں اور مستقبل تدریس سے جڑا ہوتا ہے۔ کیسے کیسے اکابر ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکے ہیں۔ یہ سارے اکابر تدریسی اہمیت سے اکابر بنے تھے اور ساتھ ہی ساتھ تحقیق کا اعلیٰ شعور رکھتے تھے۔ اورینٹل کالج لاہور کے اساتذہ ہوں یا علیگڑھ کے، پنجاب یونیورسٹی کا شعبۂ اردو ہو یا شعبۂ اردو جامعہ کراچی۔۔۔ کیسے کیسے علماء اور فضلاء زمین کی پوشاک ہوگئے۔ تدریس کے زوال کا ایک سبب تو بیان ہو ہی چکا ہے۔ دوسرا سبب علما کی ذاتی تشہیر کا معاملہ ہے۔ قدماء کی روایت یہ تھی کہ وہ اپنے طالب علموں کے مستقبل میں اپنی ذات کو دیکھتے تھے، اور آج صورت حال یہ ہے کہ بیشتر لوگ اپنی ذات کے اسیر ہیں۔ انجمنِ ستائشِ باہمی کا دور دورہ ہے۔ اس صورت حال میں پاکستانی جامعات کے اساتذہ بالخصوص اردو کے اساتذہ کو نہ صرف ذاتی ایجنڈے پر عمل کرنے کے بجائے طالب علموں کے مستقبل کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اردو کے طالب علم کس طرح زبان و ادب کے ذریعے اکیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو تلازمہ بنا سکتے ہیں۔ بہرحال فکرِ فردا نہ کروں محوِ غمِ دوش رہوں کے مصداق ہم اساتذہ کو مکالمے کی کوئی راہ نکالنی چاہیے۔
اب رہا سوال ’’امتزاج‘‘ کا۔ شعبۂ اردو سے کیسی کیسی نامور ہستیاں وابستہ رہی ہیں، ان میں سے کچھ تاحال شعبۂ اردو سے شاکی بھی ہیں۔ انہی کے عرصۂ ملازمت کے دوران اردو کو بی۔ کام کے نصاب سے نکالا گیا۔ ذاتی تشہیر میں مبتلا یہ اصحاب ذرا سی کوشش سے شعبے کو مثالی شعبہ بنا سکتے تھے، لیکن کیا کیا جائے کہ ذات کے خول سے باہر نہ آسکے۔ تحقیقی جرنل اور شعبۂ اردو کی ویب گاہ، اردو کی بی۔کام کے نصاب میں شمولیت کا اعزاز مجھ جیسے طفلِ مکتب کے حصے میں آیا۔ اس خود ستائشی کا میں متحمل نہیں ہوسکتا اگر میرے ساتھ ڈاکٹر رؤف پاریکھ، پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس اور پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ فرمان کی قوت نہ ہوتی۔ شب و روز ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے ساتھ گمان اپنی ذات کا نہ ہوتا تو یقیناًان گراں قدر اقدامات کی تکمیل تو کجا، آغاز بھی ممکن نہ ہوتا۔ اس سلسلے میں تحقیقی مجلے کی قومی مجلسِ مشاورت اور بین الاقوامی مجلسِ مشاورت کا شکر گزار ہوں کہ دونوں مجالس کے شرکاء نے میری درخواست کو شرفِ قبولیت بخشا‘‘۔
اس شمارے میں درج ذیل مقالات شامل کیے گئے ہیں:
’’مہرِ نیم روز اور دستنبو کے اردو تراجم‘‘ ڈاکٹر علی کاوسی نژاد۔ ’’اردو تنقید: ماضی، حال اور مستقبل‘‘ ذکیہ رانی۔ ’’فسادات کے پس منظر میں لکھے گئے اردو افسانے: خاندانی مسائل کی پیشکش‘‘ کنیز فاطمہ۔ ’’قیصر تمکین کا تنقیدی شعور‘‘ سمیرا ملک۔ ’’خطِ نستعلیق کے بہترین خطاط‘‘ محمد اصغر سیال۔ ’’علامہ راشد الخیری بحیثیت مضمون نگار‘‘ ڈاکٹر داؤد عثمانی۔ ’’تحریکِ پاکستان اور شعراء کا حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ڈاکٹر محمد طاہر قریشی۔ ’’جدید حسیّت اور عزیز حامد مدنی کا تنقیدی شعور‘‘ فہیم شناس کاظمی۔ ’’حکیم سید محمود احمد برکاتی: حیات و خدمات‘‘ علیزہ صدیقی۔ ’’پاکستان کا قومی ترانہ: تشکیلی اور عروضی تجزیہ‘‘ آفتاب مضطر۔
اس شمارے کے مقالہ نگار درج ذیل ہیں:
آفتاب مضطر، پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ کراچی۔ ڈاکٹر داؤد عثمانی، استاد شعبۂ اردو، گورنمنٹ کالج، بلدیہ کراچی۔ ذکیہ رانی، لیکچرر وفاقی اردو یونیورسٹی، کراچی۔ سمیرا ملک، طالبہ شعبۂ اردو، جامعہ کراچی۔ علیزہ صدیقی، معاون استاد شعبۂ اردو، جامعہ کراچی۔ ڈاکٹر علی کاوسی نژاد، مہمان استاد، تہران یونیورسٹی، ایران۔ فہیم شناس کاظمی، استاد شعبہ اردو، ایس ایم کالج، کراچی۔ کنیز فاطمہ، استاد جناح یونیورسٹی برائے خواتین، کراچی۔ محمد اصغر سیال، ماہر مضمون، گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول، ملتان۔ ڈاکٹر محمد طاہر قریشی، استاد شعبہ اردو، ڈی جے کالج، کراچی
یہ پہلا شمارہ ہے، امید ہے مستقبل کا ایک اعلیٰ مجلہ علم و ادب اور تنقید و تحقیق کا ثابت ہو گا۔
مجلہ سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوا ہے۔ شعبہ اردو جامعہ کراچی کی ویب گاہ www.urdu.edu.pk ۔ برقی ڈاک imtezaajurdu@gmail.comسے رابطہ فرمائیں۔
nn