(پانامہ لیکس ڈان لیکس اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا (سید تاثیر مصطفی

سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس پر دائر درخواستوں کی سماعت شروع ہوچکی۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت اس مسئلے پر کمیشن بنانے کا عندیہ دے چکی۔ ڈان لیکس کی تحقیقات کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بھی بن چکی۔۔۔ لیکن بحران ہے کہ ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہر طلوع ہوتے دن اور ڈوبتی ہوئی شب کے ساتھ بحران کی نئی سے نئی پرتیں کھل رہی ہیں، نئی سے نئی پیچیدگیاں سامنے آرہی ہیں، پھانسنے کے نت نئے انداز اور فرار کے نئے نئے حربے سامنے آرہے ہیں۔ عدالتوں کے اندر بھی زور لگ رہا ہے اور عدالتوں کے باہر بھی پنجہ آزمائی جاری ہے، لیکن ملکی سیاست کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آرہا۔ بادی النظر میں لگتا ہے کہ نہ صرف بحران ٹلا نہیں بلکہ اس کے ٹلنے کے امکانات بھی کم ہوتے جارہے ہیں کہ شاید ہر سطح پر خلوص کی کمی ہے۔ مفادات اور سطحی مقاصد چھائے ہوئے ہیں۔ حکومت اعتراف کے لیے تیار نہیں اور اپوزیشن اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ دونوں کسی کو رعایت دینے کے لیے تیار ہیں نہ اس کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ اس موقع پر سب سے خطرناک بات یہ نظر آرہی ہے کہ ادارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ہیں۔ قومی سطح کا یہ بحران سب سے زیادہ نقصان دہ ہے کہ ادارے پہلے آمنے سامنے اور پھر متصادم ہوجائیں۔ جب ادارے ایک دوسرے سے تعاون کے بجائے باہم دست و گریباں ہوں، جب کوئی اتھارٹی انہیں اپنی اپنی حدود میں نہ رکھ سکے تو انارکی اپنی بدترین شکل میں سامنے آجاتی ہیں۔
اس وقت بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ کوئی اس بات پر غور نہیں کررہا کہ ہم آخرکار کس انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ کسی نے اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا ہے اور نہ اس کے لیے ہوم ورک کیا ہے کہ کسی بڑے بحران کے سامنے آنے پر کیا کرنا ہے اور کس طرح معاملات کو معمول پر لانا ہے۔ مثلاً یہ کہ اگر پانامہ لیکس اور ڈان لیکس پر حکومت سزاوار قرار پاتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ اگر وہ اِن دونوں میں پچاس پچاس فیصد نمبر لیتی ہے یعنی ایک میں قصوروار اور دوسرے میں بری الذمہ ہوجاتی ہے تو ملکی نظام کیسے چلے گا؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر حکومت ان دونوں معاملات میں قصوروار قرار نہیں پاتی تو اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل اور لائحہ عمل کیا ہوگا، معاملات کیسے آگے بڑھیں گے اور حکومت کس طرح اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرپائے گی۔
حکومت کو تو شاید معاملات کا اندازہ ہے، اسی لیے وہ ذہنی طور پر تیار ہورہی ہے۔ اگرچہ حکومت اور اس کے انتظامی اور فکری سربراہ نوازشریف آخری حد تک مزاحمت کرنے کی شہرت رکھتے ہیں، لیکن ان کے تازہ اقدامات سے لگتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر خود کو برے حالات یا ناقابلِ قبول حالات کے لیے تیار کررہے ہیں۔ ان کا تازہ ترین اقدام اس جانب واضح اشارہ ہے۔ وزیراعظم نے اچانک ملک بھر میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 50 فیصد کم کرنے کا جو اعلان کیا ہے یہ بلاوجہ نہیں ہے۔ پانامہ لیکس اور ڈان لیکس جیسے ہنگامی معاملات کی موجودگی میں وزیراعظم کا وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کو طلب کرکے لوڈشیڈنگ پر بریفنگ لینا اور یک لخت نصف لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کرنا اور سیکرٹری پانی و بجلی کو اس کی ذمہ داری سونپنا دراصل وزیراعظم کی اس سوچ کا غماز ہے کہ وہ ذہنی طور پر وسط مدتی یا قبل از وقت انتخابات کے لیے ذہن تیار کرچکے ہیں۔ پنجاب میں ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ کی بھرتی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم نے بلوچستان، خیبر پختون خوا اور پنجاب میں عوامی جلسوں سے خطاب کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے وہ بھی بلاوجہ نہیں۔ ان جلسوں میں وزیراعظم کی تقاریر ایک انتخابی جنگجو اور متحارب سیاستدان کی تقاریر ہیں۔ وہ مخالفین پر سخت تنقید کررہے ہیں۔ گویا یہ انتخابات کی تیاریاں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم سندھ میں کوئی جلسہ نہیں کررہے۔ گویا وہ مستقبل میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کو شریکِ اقتدار رکھنا چاہتے ہیں، اس لیے ان سے محاذ آرائی نہیں کررہے۔ ان کے سب سے زیادہ جلسے خیبر پختون خوا میں ہورہے ہیں۔ وہ تحریک انصاف کو اگلے انتخابات میں خیبر پختون خوا سے فارغ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں ان کے لیے دردِ سر نہ بنے۔ خیال یہ ہے کہ حکومت مرکز اور پنجاب میں آنے والے چند روز میں روزگار کے بڑے مواقع پیدا کرے گی جو عملاً انتخابات کی تیاری ہے۔ ادھر عمران خان کا احتجاج چھوڑ کر سپریم کورٹ میں آنا بھی خاصا اہمیت کا حامل ہے۔ شاید انہیں بھی قبل از وقت انتخابات کے اشارے ملے ہیں، ورنہ وہ شاید احتجاج کا آپشن نہ چھوڑتے۔
دوسری جانب پانامہ لیکس اور ڈان لیکس کے معاملات بے یقینی اور عدم اعتماد کا شکار ہیں، اور ان میں ادارے آمنے سامنے آتے نظر آرہے ہیں۔ ڈان لیکس پر حکومت نے جسٹس (ر) عامر رضا خان کی سربراہی میں جو کمیٹی قائم کی ہے اس پر تحریک انصاف کے حلقے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ یقیناًجسٹس عامر رضا ایک نیک نام سابق جج ہیں لیکن انہیں شریف فیملی کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ وہ سابق سیکریٹری انور زاہد اور سابق سیکریٹری خارجہ اکرم ذکی کے عزیز ہیں اور دونوں کا مسلم لیگ (ن) اور شریف فیملی سے تعلق واضح ہے۔ جسٹس (ر) عامر رضا کا نام نگراں وزیراعظم کے طور پر بھی آیا تھا اور شاید یہ نام مسلم لیگ (ن) ہی کی جانب سے آیا تھا، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس کمیٹی کے ارکان میں محتسبِ اعلیٰ پنجاب نجم سعید، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز اور ڈائریکٹر ایف آئی اے عثمان انور کو شامل کیا گیا ہے۔ تینوں مرکزی اور پنجاب حکومت کے ملازمین ہیں، اس لیے ان سے کسی بے لاگ فیصلے کی توقع مشکل ہے۔ کمیٹی میں اگرچہ آئی بی، ایم آئی اور آئی ایس آئی کا ایک ایک رکن بھی شامل ہوگا، لیکن ایک تو اس کمیٹی کا توازن سویلین ارکان کی جانب ہے جن کو عوامی اکثریت حاصل ہے، اور فوج جسے اس خبر کی اشاعت پر اعترا ض ہے اس کی نمائندگی توازن میں نہیں۔ دوسرے ان ارکان کے ناموں کو شہباز شریف اور چودھری نثار نے ایک ملاقات میں فائنل کیا ہے، جبکہ شہبازشریف اس کیس میں ایک بڑا کردار ہیں۔ اس طرح یہ کمیٹی ابتدا ہی میں اعتراضات کی زد میں آگئی ہے۔
پانامہ لیکس کی سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوجانے کے باوجود یہ پنڈورا باکس ابھی بند نہیں ہوا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے چار مطالبات پر زور دے رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر ان کے یہ چار مطالبات نہ مانے گئے تو وہ 27 دسمبر کو لانگ مارچ کا اعلان کریں گے۔ ان میں سرفہرست مطالبہ پانامہ بل کی منظوری ہے۔ وہ چودھری اعتراز احسن کے ٹی او آرز منظور کرنے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل بھی اس معاملے پر تحفظات اور اختلاف کا شکار ہیں اور سپریم کورٹ کے دائرۂ اختیار پر نہ صرف وہ تحفظات رکھتے ہیں بلکہ پاکستان بار کونسل نے پانامہ لیکس میں فریق بننے کا عندیہ بھی دیا ہے تاکہ سپریم کورٹ کے دائرۂ اختیار کا سوال عدالت میں اٹھایا جاسکے۔ سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی بھی کہہ چکے ہیں کہ عدالت پانامہ لیکس پر ٹی او آرز بنانے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اس سلسلے میں وطن پارٹی کے صدر بیرسٹر ظفر اللہ نے بھی سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت کرسکتی ہے اور نہ ٹی او آرز بنانے کی مجاز ہے۔ تاہم یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ بیرسٹر ظفر اللہ وزیراعظم کے مشیر نہیں ہیں بلکہ لاہور کے ایک وکیل ہیں لیکن بہت سے اخبارات اور چینلز نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ وہی بیرسٹر ظفر اللہ ہیں جو وزیراعظم کے مشیر ہیں، کئی پروگرام کرڈالے اور بہت سے صفحے سیاہ کردیے۔ اس سے پاکستانی میڈیا کی معلومات اور علمیت کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت حال میں صرف حکومت اور اپوزیشن ہی سامنے نہیں، کیونکہ نہ صرف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور پاکستان عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد کی پانامہ لیکس کے حوالے سے درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں، بلکہ پیپلزپارٹی اور وکلا کی تنظیمیں بھی سامنے آکھڑی ہوئی ہیں جو سپریم کورٹ کے اختیار کو چیلنج کررہی ہیں۔
یہی صورت حال ڈان لیکس کی ہے۔ اس معاملے پر فوج کو حکومت سے شکایات ہیں کہ ایک حساس اور پلانٹڈ خبر کو لیک کرکے شائع کروایا گیا۔ حکومت اس پر وزیراطلاعات پرویز رشید کو فارغ بھی کرچکی ہے، لیکن جب پرویز رشید وزارت سے علیحدگی کے بعد پہلی بار سینیٹ میں آئے تو ارکان نے تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا۔ یاد رہے کہ سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت نہیں ہے، یہاں چیئرمین سینیٹ نے بھی نہ صرف ان کے لیے تعریفی جملے کہے بلکہ یہ بھی کہا کہ اگر اس معاملے کی تحقیقات ہونی ہیں تو یہ تحقیقات پارلیمنٹ کی کمیٹی کرے۔ اس طرح سینیٹ نے یا کم از کم اس کے سربراہ نے بھی ایک مختلف رائے کا اظہار کیا اور پارلیمنٹ کے اختیار اور بالادستی کی بات کی ہے۔ اگرچہ وزیر داخلہ چودھری نثار نے چیئرمین سینیٹ کے اس مؤقف کو تسلیم نہیں کیا۔ لیکن یہ ادارے کی رائے ضرور ہے۔
اس صورت حال میں جب بحران کا حل نظر نہیں آرہا، اداروں کا ایک دوسرے کے سامنے آکھڑا ہونا، یا اس کا عندیہ دینا خاصا تشویش ناک ہے۔ شاید اسی لیے سپریم کورٹ پانامہ کیس پر اپنے اعلان کے باوجود تاحال کمیشن نہیں بناسکی بلکہ یہ عندیہ دے رہی ہے کہ وہ دیکھے گی کہ کمیشن بنایا جائے یا نہ بنایا جائے۔ ذمہ دار حلقے اس صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ کاش ہماری حکومت، سیاسی جماعتیں اور ادارے بھی اس سنگینی کا نوٹس لیں، کہ افراد آنے جانے ہوتے ہیں، صرف ادارے ہی معاملات کو آگے کی جانب بڑھا سکتے ہیں۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی ساکھ بہتر اور حیثیت متنازع نہ ہونے پائے۔
nn