(اقبال کی نظریاتء مملجت (سید اسعد گیلانی

اقبالؒ نے اپنی ملّت کو ایک مقصدِ زندگی کی طرف دعوت دی ہے۔ ان کی شاعری محض تفریح طبع یا اظہارِ فن کا ذریعہ نہیں ہے اور نہ ہی اعلیٰ تر شعری روایات میں کسی بیش بہا اضافے کے جذبے نے انہیں شعر گوئی کی طرف مائل کیا ہے۔ شعر گوئی ان کے لیے اپنی دعوت کو مؤثر ترین انداز میں پیش کرنے کا خوبصورت پیرہن ہے۔ درحقیقت اقبالؒ اس دور میں تجدید و احیاءِ دین کی جدوجہد کی سنہری زنجیر کی ایک کڑی ہیں۔ ان کی دعوت یہ ہے کہ دینِ اسلام کو ازسرنو نظامِ زندگی کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ انہیں اس کام کے لیے بازوئے حیدر کی تلاش ہے، فقرِ بوذر کی ضرورت ہے اور ایک ایسے مردِ مومن کی جستجو ہے جو اس عظیم کام کا بیڑا اٹھائے۔ وہ اپنی ملّت کو جگانے کے لیے حدی خوانی کا کام کرتے ہیں اور ساتھ ہی امید رکھتے ہیں کہ یہ ملّت ایک ایسا رہنما ضرور پیدا کرے گی جو اسے اپنے ساتھ لے کر دین کو اس دورِ حاضر میں برپا کرنے کی منزلِ وحید کی طرف پیش قدمی کرے گا۔
اقبالؒ دینِ اسلام کو ایک نظام حیات سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام انسانی زندگی کا ایک مکمل ضابطہ ہے جسے نافذ کرنے کے لیے ایک آزاد معاشرے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ایک علیحدہ خطۂ زمین کی ضرورت ہے، اس کے لیے ایک نظریاتی اقتدارِ اعلیٰ اور ایک ہیئتِ حاکمہ کی ضرورت ہے۔ ان چاروں عناصر کے حصول سے ہی اقبالؒ کی یہ آرزو پوری ہوسکتی ہے کہ اس کا مطلوبہ نظام کسی خطے میں جاری اور نافذ ہو۔
اقبالؒ کا نظریاتی نظام اسلام ہے۔ اس کی مثالی ہیئتِ حاکمہ خلافتِ راشدہ ہے۔ اس کے آئیڈیل ہیرو خلفائے راشدین ہیں۔ اور وہ ایک ایسے خطۂ زمین کی تلاش میں ہے جہاں خلافتِ راشدہ کی طرز پر ایک ایسا روحانی اور سیاسی نظام جاری ہوسکے جسے چلانے والے ہاتھ بازوئے حیدر کی مانند اور جس کی خدمت کرنے والے ’’مخدوم حاکم‘‘ عمر فاروقؓ کی طرح ہوں۔ وہ اپنی تخیلی نظریاتی مملکت میں ’’خادم حاکم‘‘ کا تصور رکھتا ہے، جس کے اہلِ بیت چکی چلا کر اپنا آٹا پیستے اور ساتھ ساتھ تلاوتِ قرآنِ پاک کرتے ہیں، اور جو حاجت مندوں کی فریاد بلند ہونے سے پہلے خود اپنے کندھوں پر اُن کی ضروریات لاد کر اُن کے گھروں تک پہنچاتے ہیں۔ اقبالؒ اپنے تصورات میں یہی خوش آئند خواب دیکھتا ہے، اس لیے کہ اقبالؒ کے ہاں روح اور مادے کی تقسیم موجود نہیں ہے، بلکہ ان دونوں کے امتزاج سے اسلام کا روح پرور اور عدلِ اجتماعی پر مبنی نظام وجود میں آتا ہے۔
اقبالؒ نے کہا:
’’اسلام وحدتِ انسانی کو روح اور مادے کے دو الگ الگ شعبوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ اسلام میں خدا اورکائنات، روح اور مادہ، مذہب اور سیاست میں ناخن اور گوشت کا سا باہمی تعلق ہے۔
اقبالؒ قوم پرستی پر مبنی ریاستوں کا مخالف ہے۔ وہ قومیت پرستی کے تصور میں خدا کے مقابلے میں ایک جانب دار اور بے رحم الوہیت اور فتنہ و فساد کا منطر دیکھتا ہے۔ چنانچہ قوم پرستانہ تہذیب کے بارے میں اس کی پیشن گوئی یہ ہے کہ ؂
تمھاری تہذیب، اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
اس لیے اقبالؒ کی نظریاتی قومیت اخلاقی نصب العین اور اصولی مؤقف رکھتی ہے۔ وہ نسل، زبان، خطے، رنگ یا قبیلے میں قومیت تلاش نہیں کرتا، نظریے کے اندر اصولِ اجتماعیت تلاش کرتا ہے اور چونکہ پوری بنی نوع انسان کے پاس ایک نظریاتی نصب العین جو اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے صرف اسلام ہی ہے، اس لیے وہ اسلام کے بین الاقوامی کردار کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرکے اسے اسلام کے اخلاقی نصب العین کی طرف دعوت دیتا ہے:
’’اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو ذہنِ انسانی کو نسل و وطن کی قیود سے آزاد کرسکتی ہے، جس کا یہ عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور جسے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیر خود اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔‘‘
آگے چل کر انہوں نے کہا:
’’اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نصب العین سے الگ نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کیا تو دوسرے کا ترک بھی لازم آئے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحہ کے لیے بھی کسی ایسے نظامِ سیاست پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہوگا جو کسی ایسے وطن یا قومی اصول پرہو جو اسلام کے اصولِ اتحاد کی نفی پر مبنی ہو۔‘‘
اسلام کو ایک منفرد قوت، ایک ممتاز تہذیب اور کامل نظام حیات بتانے کے بعد وہ اسلام کی آماجگاہ مملکت کی نشاندہی کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:
’’ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جن کی نسل، زبان، مذہب، سب کچھ ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ان کے اعمال و افعال میں وہ احساس پیدا ہی نہیں ہوسکتا جو ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں موجود رہتا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں کوئی بھی واحد الجنس قوم موجود نہیں ہے۔ پس یہ امر کسی طرح بھی نامناسب نہیں کہ مختلف ملّتوں کے وجود کا خیال کیے بغیر ہم ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان قائم کریں‘‘۔
وہ اسلام کو ایک تصورِ حیات کی حیثیت سے تمام انسانیت کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے اسلام کے نظریے کے پاس اپنے افعال کو بروئے کار لانے کے لیے خطۂ زمین اور مملکت موجود نہیں ہے جس کی ضرورت کا اقبالؒ کو شدت سے احساس ہے۔ یہ احساس انہیں اُس وقت بھی تھا جب ابھی کسی جماعت نے علامہ کے اس تصور کو اپنے سیاسی نصب العین کے طور پر اپنایا بھی نہیں تھا، بلکہ مسلم لیگ نے تو علامہ کا تصورِ مملکت ان کی وفات کے بعد ہی سیاسی طور پر اپنایا۔ البتہ اسلام کی مرکزیت اور اجراء کے لیے علامہ اقبالؒ کے ذہن میں ایک پختہ احساس بہت پہلے سے موجود تھا۔ انہوں نے 1930ء میں اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں کہا:
’’ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے، اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بہ حیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقہ میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے‘‘۔
آگے چل کر تو انہوں نے اس علاقے تک کی واضح نشاندہی کردی جو ان کے خیال میں اس دورِ جدید میں اسلام کے نظریاتی نظام کی مرکزیت قائم کرنے اور اس کا تجربہ کرنے کے لیے موزوں ترین علاقہ تھا:
’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے، خواہ یہ ریاست سلطنتِ برطانیہ کے اندر حکومتِ خوداختیاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی‘‘۔
ایسی ایک ریاست کے تصور سے ہندوستان میں آباد ہندو وحشت زدگی کا شکار ہوسکتے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے اسلامی ریاست کا حقیقی رخ تاریخ کے کسی دور میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے صرف مسلمان حکومتیں دیکھی تھیں جن کے مبالغہ آمیز بھیانک کارنامے بیان کرکے وہ خود ہی دہشت زدہ ہوتے رہتے تھے۔ چنانچہ اقبالؒ نے ہندوؤں کے ان خدشات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہندوؤں کے دل میں اس قسم کا کوئی خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ آزاد اسلامی ریاستوں کے قیام سے ایک طرح کی مذہبی حکومت قائم ہوجائے گی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کوئی کلیسائی نظام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ریاست ہے اور ریاستِ اسلامی کا انحصار ایک اخلاقی نصب العین پر ہے‘‘۔
اقبالؒ اپنے مطالعہ کی بناء پر یہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کی بقا کا راز اسلامی نصب العین میں ہی پوشیدہ ہے۔ اگر مسلمان اسلامی نصب العین کے لیے جدوجہد سے دست بردار ہوگئے تو وہ تاریخی قوتوں کے ریلے میں بہہ جائیں گے اور ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوجانے سے انہیں کوئی چیز بھی نہیں بچا سکے گی۔
انہوں نے اپنے خطبے میں کہا:
’’ایک سبق جو میں نے تاریخِ اسلام سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ صرف اسلام ہی تھا جس نے آڑے وقتوں میں مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا، نہ کہ مسلمان۔ اگر آج آپ اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جما دیں اور اس کے زندگی بخش تخیل سے متاثر ہوں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں ازسرنو جمع ہوجائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت سے محفوظ ہوجائے گا‘‘۔
اقبالؒ کے نزدیک مملکت کا وجود اس لیے بھی لازمی تھا کہ فرد کی اصلاح کا مؤثر ترین ذریعہ مملکت ہی ہوسکتی ہے، اور معاشرے کی اصلاح کے لیے جو تدابیر بھی پیش نظر ہوں اُن میں مملکت کے کردار کو کسی صورت بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے یہ کہ اسلام اپنے وجود کے اندر ہی ریاست اور اجتماعیت کا تصور رکھتا ہے، وہ اپنے بے شمار احکام ریاستی اور اجتماعی زندگی سے متعلق رکھتا ہے۔ اگر کسی خطۂ زمین میں مسلمان آبادی کو ریاستی سطح پر اختیارات حاصل نہ ہوں تو ان کا دین اپنے کامل ظہور سے محروم اور اپنی تمام برکات کے منکشف کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔
انسانی معاشرہ محض ایک ایسی اکائی نہیں ہے جیسے سکّے کا ایک رخ ہوتا ہے۔ معاشرے کے بے شمار اجتماعی حقوق و فرائض ہوتے ہیں تعلیمی، معاشرتی، سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی۔ ان میں اگر ہم آہنگی اور توافق نہ ہو تو سارا معاشرہ انتشار کا شکار ہوجاتا ہے، اور اگر اس کے مختلف ادارے مختلف نظریات کی آماجگاہ، بلکہ تجربہ گاہ بنے ہوئے ہیں تو پھر اس معاشرے کا انتشار خانہ جنگی اور خانہ ویرانی تک پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ ایک ایسا نظام مملکت موجود ہو جو معاشرے کے سارے پہلوؤں پر حاوی ہو۔ اور اسلام کے سوا یہ خوبی کسی نظام میں بھی نہیں ہے۔ اسلام جس قدر زندگی کے مختلف گوشوں میں جلوہ گر ہوتا ہے اسی قدر اس کی ہم آہنگی، یک رنگی، نیز گوناگوں بوقلمونی انسانی زندگی کو برکات و حسنات سے معمور کردیتی ہے۔
اسلام فرد کو حق پرست، حق گو، حق شعار اور حقیقت پسند بناتا ہے۔ وہ اس میں جرأتِ ایمانی، کشمکشِ حیات میں توکل و اعتماد کی دولت سے بہرہ ور اور خودداری و خودآگاہی سے مالامال کردیتا ہے۔ اسلام فرد کو جہادِ زندگانی میں مجاہدانہ اور دیانت دارانہ کردار ادا کرنے کا گر سکھاتا ہے۔ اسلام فرد کو اللہ کے راستے میں نثار کرنے کی قوت اور توانائی عطا کرتا ہے۔ وہ زندگی جو جہاد اور قوت سے عبارت ہے وہ مملکت سازی اور مملکت رانی کے لیے نہایت درجہ موزوں ہوتی ہے۔ اسی لیے اسلام اپنے داخلی تقاضوں کو بروئے کار لانے کے لیے اور عام مسلمان اپنی افتادِ طبع کے اعتبار سے ایک آزاد مملکت کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس لیے مملکت کے بغیر اسلام صرف علم کا نام ہے، اور اپنی نظریاتی مملکت کے بغیر مسلمان بھی صرف ایک لاشہ بے گوروکفن کا نام ہی ہے۔گویا اسلام اور مسلمان اپنی آزاد مملکت کے ذریعے ہی اپنے اندرونی جوہر کی نمو دکھا سکتے ہیں۔
اقبالؒ کے نزدیک اسلام کو اپنی مکمل جلوہ آرائی کے لیے آزاد مملکت کی اشد ضرورت ہے۔ اور مسلمان کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ کامل دینِ اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرے۔ ظاہر ہے کہ نفاذِ اسلام ایک آزاد مملکت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جب ایک ایسی مملکت وجود میں آجائے تو پھر اسے قائم رکھنا اور نظریاتی سطح پر فلاحِ انسانیت کے لیے اس مملکت کو استعمال کرنا مسلمان کا فرض ہے۔ اگر ایسی مملکت وجود نہ رکھتی ہو اور مسلمان مملکتِ غیر یعنی باطل نظام میں رہتا ہو تو پھر جہادِ زندگانی کے ذریعے اس مملکت کو وجود میں لانے کے لیے مسلسل اور پیہم جدوجہد کرنا اس کی زندگی کا مستقل مشن ہے۔ جس طرح پانی کے بغیر مچھلی کا تصور ممکن نہیں ہے اسی طرح اسلامی مملکت کی شہریت کے سوا کسی باطل مملکت کی شہریت کا تصور بھی اسلامی ضمیر کے لیے خوشگوار نہیں ہے۔ غرض مسلمان کا جہادِ زندگانی ہمیشہ جاری رہتا ہے یا دوام مملکتِ اسلامی کے لیے یا قیام مملکتِ اسلامی کے لیے۔ اس کے سوا دیگر سارے مقاصد اس عظیم مقصد کے تابع ہیں۔
مومن کے اس کردار کے دونوں رخ اقبالؒ نے بیان کیے ہیں۔ جب مملکتِ اسلامی موجود ہو اور مومن اس کا شہری ہو تو مومن کا کردار ریشم کی مانند، اور جب باطل کا نظام غالب ہو اور اس سے جہادِ زندگانی جاری ہو تو مومن کا کردار فولاد کی مانند ہوتا ہے۔ اسی طرح کبھی وہ شبنم کی ٹھنڈک اور کبھی وہ طوفان کی دھمک ہوتا ہے۔
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
پھر فرمایا:
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
اقبالؒ جس مملکت کا خواب دیکھتا ہے وہ مساواتِ انسانی کا مثالی نمونہ ہے۔
’’اسلام اب بھی ایک ایسی دنیا پیدا کرسکتا ہے، جہاں انسان کا معاشرتی درجہ اس کی ذات، رنگ اور اس کے کمائے ہوئے منافع کی مقدار سے معین نہ ہوتا ہو، بلکہ اس زندگی کے مطابق قائم کیا جاتا ہو جسے وہ بسر کرتا ہے۔ جہاں غربا مال داروں پر ٹیکس عائد کرتے ہوں، جہاں انسانی سوسائٹی معدوں کی مساوات پر قائم نہ ہو بلکہ روحوں کی مساوات پر ہو۔ جہاں ایک عام فرد ایک صدرِ مملکت کی لڑکی سے بھی شادی کرسکتا ہو۔ جہاں نجی ملکیت ایک ٹرسٹ کی حیثیت رکھتی ہو، اور جہاں سرمایہ جمع کرنے کی اس طرح اجازت نہ دی جائے کہ وہ اصلی دولت پیدا کرنے والے پر غلبہ حاصل کرلے۔‘‘
یہ اقبال کی آئیڈیل اسلامی اسٹیٹ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک اسٹیٹ وجود میں لانے کے لیے ایک قومیت کا وجود بھی دورِ حاضر میں لازم شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس پہلو پربحث کرتے ہوئے علامہ نے اسی خطبے میں فرمایا:
’’اسلام کی حقیقت ہمارے لیے یہی نہیں کہ وہ ایک مذہب ہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر ہے۔ اسلام میں قومیت کا مفہوم خصوصیت کے ساتھ چھپا ہوا ہے اور ہماری قومی زندگی کا تصور اُس وقت تک ہمارے ذہن میں نہیں آسکتا جب تک کہ ہم اصولِ اسلام سے پوری طرح باخبر نہ ہوں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو نسبت انگلستان کو انگریزوں سے اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہی اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے۔ جہاں اسلامی اصول یا ہماری مقدس روایات کی رسّی ہمارے ہاتھ سے چھوٹی اور ہماری جماعت کا شیرازہ بکھرا‘‘۔
پھر اس نظریاتی اور اصولی مملکت کے علم بردار کا نقشہ ان الفاظ میں پیش کیا:
’’جماعت اسلامی کا زندہ رکن بننے کے لیے انسان کو مذہب اسلام پر بلا شرط ایمان لانے کے علاوہ اسلامی تہذیب کے رنگ میں اپنے تئیں پوری طرح سے رنگنا چاہیے۔ صبغۃ اللہ کے اس پیمانے میں رنگنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان دو رنگی چھوڑ کر یک رنگ ہوجائیں‘‘۔
علامہ اقبالؒ مملکت کے بغیر اسلام کا تصور بھی ادھورا سمجھتے ہیں۔ فرمایا:
’’سیاسیات کی جڑ انسان کی روحانی زندگی میں ہوتی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ اسلام ذاتی رائے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک سوسائٹی ہے، اور سیاسیات میں میری دل چسپی بھی اسی وجہ سے ہے۔ میری یورپ کی وطنیت کی مخالفت بھی اس بنا پر ہے کہ اس کے اندر مادیت پرستی کے بیج ہیں جو میرے نزدیک انسانیت کے لیے ایک عظیم خطرہ ہے‘‘۔
علامہؔ کے نزدیک اسلام میں سیاست کی اساس اخلاقیات پر ہے اور وحی و الہام کی ہدایات اس کے لیے رہنمائی کا مقام رکھتی ہیں۔ اسلام کا سیاسی نظام عالمگیر اصولوں پر مبنی ہے، اور پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کا پروگرام اپنے پاس رکھتا ہے۔ اپنے خطبۂ صدارت میں انہوں نے مسلم زعما کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اسلام کے پیش نظر ایک ایسا عالمگیر نظامِ سیاست ہے جس کی اساس وحی اور تنزیل پر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چونکہ ہمارے فقہا کو عرصہ دراز سے عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رہا، اس لیے وہ عہدِ جدید کی داعیات سے بالکل بیگانہ ہیں‘‘۔
اسلامی مملکت کے بارے میں اقبالؒ کا تصور یہ ہے کہ وہ اپنے مزاج اور افتادِ طبع کے لحاظ سے بین الانسانی اور بین الاقوامی ہے۔ اس میں رنگ و نسل اور علاقہ و جغرافیہ کی محدودیتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
’’عالم اسلامی کا ظہور ہوگا تو آزاد اور خودمختار وحدتوں کی ایک ایسی کثرت میں جن کی نسلی رقابتوں کو ایک مشترک روحانی نصب العین نے توافق و تطابق سے بدل دیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ شاید ہم مسلمانوں کو بتدریج سمجھا رہی ہے کہ اسلام نہ تو وطنیت ہے، نہ شہنشاہیت، بلکہ ایک انجمنِ اقوام ہے جس نے ہمارے خود پیدا کردہ حدود اور نسلی امتیازات کو تسلیم بھی کیا ہے تو محض سہولتِ تعارف کے لیے۔‘‘
اسلامی مملکت نظریۂ وطنیت کی مرہونِ منت نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے وجود کی تقویت کے لیے وطنیت، نسلیت یا لسانیت کا سہارا لیتی ہے۔ وہ نظریاتی اور اصولی مملکت ہے اور اس کی حب الوطنی ایک نظریاتی فعل، ایک طبعی جذبہ اور ایک شعوری عمل ہے۔ اس میں اندھی عصبیت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ علامہ نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’حُب الوطنی بالکل ایک طبعی صفت ہے جس کو انسان کی اخلاقی زندگی سے مخدوف نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اصل اہمیت ایمان، تہذیب اور روایات کو حاصل ہے۔ یہی اقدار اس قابل ہیں کہ انسان ان کے لیے زندہ رہے اور انہی کے لیے مرے۔ نہ کہ زمین کے اس ٹکڑے کے لیے جس سے اس کی روح کو کچھ عارضی سا ربط پیدا ہوگیا ہے‘‘۔
علامہ اقبالؒ کے سامنے اسلامی ریاست کی نوعیت اور خصوصیات کی بھی پوری تصویر موجود تھی۔ انہیں اس امر میں ذرا بھی الجھاؤ نہیں تھا کہ اسلامی مملکت کس نوعیت کی ہوگی۔ وہ یورپ کی ایجاد کردہ کسی طرزِ حکمرانی سے بھی مرعوب نہ تھے اور نہ قومیت سازی کے جدید تصورات نے ان پر کسی درجے میں اثر کیا تھا۔ ان کا تصور اسلامی ریاست کے بارے میں نہایت درجہ صاف اور واضح تھا۔
انہوں نے اپنی وفات سے صرف چار ماہ پہلے ایک پیغام دیتے ہوئے فرمایا:
’’جب تک اس نام نہاد جمہوریت، اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کو مٹایا نہ جائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللہ کے اصول کا قائل نہ ہوجائے گا، اور جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے امتیازات محو نہ ہوجائیں گے اُس وقت تک انسان اِس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکیں گے، اور نہ اخوت و حریت و مساوات کے عظیم الفاظ شرمندۂ معنی ہوں گے‘‘۔
(باقی صفحہ 41پر)
ایک موقع پر انہوں نے اسلامی مملکت کے فرائض کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا:
’’حکومت کا تو سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اخلاق کی حفاظت کرے۔ لیکن آج کل کی حکومتیں تو صرف لوگوں کے سیاسی خیالات و رجحانات کی نگرانی اور احتساب کا کام ہی کرتی ہیں‘‘۔
دورِ جدید میں اسلام کی کارفرمائی کے حوالے سے مملکت کی جستجو اور تعین کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی مطلوبہ اسلامی ریاست کا محلِ وقوع بھی بیان کیا:
’’ہندوستان اور روس کے درمیان ایک اور اسلامی ریاست کے قیام سے بالشووم، مادہ پرستی، دہریت اور لادینی کے خطرات اگر وسط ایشیا سے نہ مٹے تو کم از کم ہندوستان کی سرحدوں سے اور زیادہ دور ہوجائیں گے‘‘۔
اس طرح علامہ اقبالؒ نے اپنی تصوراتی مملکت کا محلِ وقوع بیان کرکے اس امر کی نشان دہی کردی کہ ان کے خیالوں میں عالم اسلام کے مسائل کا حل بھی یہی تھا کہ دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت ابھرے جو نظریاتی ہو اور اسلام کا عالمی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو۔ دوسری طرف ہندوستان کے فرقہ وارانہ مسئلے کا حل بھی یہی تھا کہ مسلمانوں کو ہندوستان کے اُن علاقوں میں خودمختاری دی جائے، جن علاقوں میں ان کی افرادی اکثریت تھی، تاکہ وہ اپنی زندگیاں اپنے عقیدے اور نظریے کے مطابق ڈھال سکیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؒ پر یہ بات بہت اچھی طرح واضح تھی کہ اسلام ایک نظامِ مملکت ہے اور ایک مملکت کے وجود کے بغیر اسلام کا عملی تصور ادھورا رہ جاتا ہے۔