اسامہ تنولی (جیکب آباد)

اس سے بڑی ستم ظریفی اور المیہ کیا ہوگا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی قبلہ اور گڑھ کہلانے والے ضلع لاڑکانہ کے سرکاری اور نجی اسپتال خطرناک اور ہولناک مرض ایڈز کے پھیلاؤ کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں، محکمہ صحت سندھ کے ذمہ داران بھی اس امر کا برملا اعتراف کرچکے ہیں کہ خون کی درست طور پر اسکریننگ نہ ہونے کے باعث شمالی سندھ بالخصوص لاڑکانہ ڈویژن میں ایڈز کے موذی ا ور مہلک مرض میں مبتلا مرد و خواتین اور معصوم بچوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 5 تا 10 ہزار ہوسکتی ہے۔ حکومتِ سندھ نے بجا طور پر گزشتہ دنوں محکمہ تعلیم سندھ کی ناگفتہ بہ صورت حال کی وجہ سے اس محکمے میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے لیکن محکمہ صحت سندھ بھی درحقیقت اس ایمرجنسی کے جلد از جلد نفاذ کا زیادہ متقاضی ہے اور اہلِ سندھ اس نوع کا اعلان سننے کے بڑی شدت سے ایک عرصے سے منتظر ہیں۔ چند روز قبل نئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ سندھ میں سرکاری اسپتالوں کی حالتِ زار انتہائی خراب و خستہ ہوچکی ہے۔ سندھ میں سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی غیر موجودگی اور ان کی بے توجہی ہی کا نتیجہ ہے کہ عوام کی اکثریت غیر اطمینان بخش علاج معالجہ کے پیش نظر ڈاکٹروں کے پرائیویٹ شفاخانوں پر جاکر انہیں بھاری فیس دینے کے بعد علاج کرانے پر مجبور ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں طبی عملہ کی لاپروائی کے باعث جاں بحق ہونے والے مریضوں کی خبریں آئے روز ہی بذریعہ میڈیا سامنے آتی رہتی ہیں لیکن غفلت میں ملوث غیر ذمہ دار ڈاکٹروں کے خلاف کبھی کسی کارروائی کی کوئی اطلاع یا خبر سامنے نہیں آتی ہے۔ کوئی جب کارروائی کرے گا تب ہی کوئی خبر بھی بنے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں بقول عوام ’’ڈاکٹر‘‘ ڈاکو بنے بیٹھے ہیں جو مال بٹورنے کے ساتھ ساتھ جان بھی لے لیتے ہیں۔ سندھ کے دیگر اضلاع کے سرکاری اسپتالوں کا تو ذکر ہی کیا کہ جب پی پی پی کے اپنے سیاسی مرکز لاڑکانہ کے بڑے بڑے اور معروف سرکاری اسپتالوں چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال، سول اسپتال، شیخ زید چلڈرن اسپتال اور شیخ زید وومن اسپتال بجائے مریضوں کی شفایابی کا باعث بننے کے، ان کے لیے واقعی ’’مقتل‘‘ کا روپ اختیار کرچکے ہیں۔ ہر سال شیخ زید چلڈرن اسپتال لاڑکانہ میں سینکڑوں معصوم بچے محض آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ سندھ کے بیشتر سرکاری طبی اداروں میں تعینات ڈاکٹروں کے بجائے ماتحت عملہ ہی مریضوں کا علاج کرتا ہے، کیوں کہ اصل فرائض کے بجائے کوالیفائیڈ ڈاکٹر اپنے ڈیوٹی اوقات میں بھی ذاتی شفاخانوں یا اسپتالوں میں بڑی بڑی فیسیں لے کر علاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ظلم کے خلاف ان سے کوئی بازپرس کرنے والا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ڈاکٹر بے خوف و خطر ہر دو طریقوں سے یعنی سرکاری اسپتالوں سے غیر حاضر رہ کر اور اپنے پرائیویٹ اسپتالوں میں مریضوں سے ٹیسٹ اور فیس کے نام پر لوٹ کھسوٹ کرکے بیمار افراد کا استحصال اور استیصال کرنے میں بڑی بے رحمی سے مصروف ہیں۔ دریں اثنا حال ہی میں لاڑکانہ میں صحت کے حوالے سے ایک بہت بڑا اسکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد سب کو حیران و پریشان کرگیا ہے۔ بذریعہ میڈیا یہ ہولناک اطلاع سامنے آئی ہے کہ چانڈکا اسپتال لاڑکانہ کے نیفرولوجی وارڈ میں موجود ڈائیلاسز کی مشینیں یہاں آنے والے مریضوں میں ایڈز کا موذی مرض پھیلانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ، سبب اور باعث بن گئی ہیں۔ یعنی امراضِ گردہ میں مبتلا جتنے بھی بیمار یہاں اپنے گردوں کی صفائی کی غرض سے آتے رہے ہیں وہ یہاں کے غیر ذمہ دار عملے اور ڈاکٹروں کی نااہلی کی وجہ سے بعد از صفائیِ گردہ اپنے ساتھ ایڈز کا خطرناک مرض بھی لے جاتے رہے ہیں، اور اب یہ تعداد درجنوں یا سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے جو ایڈز کے مہلک مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ اس طرح لاڑکانہ ایڈز کی بیماری میں مبتلا مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے نہ صرف سندھ بلکہ غالباً ملک بھر میں پہلے نمبر پر آچکا ہے۔ ایڈز کی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہونے والے ان ہزاروں مرد و زن اور بچوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ چانڈکا اسپتال کے امراضِ گردہ کے شعبے کے ڈاکٹر اور عملہ ابتدا میں تو اس نوع کی خبروں کی تردید کرتے رہے کہ وہ نہیں بلکہ ایسے مریض جو یہاں ڈائیلاسز کرانے کے لیے آتے ہیں وہ اس کے ذمہ دار ہیں کیوں کہ گردوں کی صفائی کی غرض سے آنے والے بیمار افراد یہاں بغیر ضروری ٹیسٹ کروائے براہِ راست ڈائیلاسز کرانے آجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ایڈز کے کسی بھی مریض کا وائرس ڈائیلاسز مشین میں رہ جاتا ہے جو دوسرے بیمار افراد کو بھی جو ڈائیلاسز کروانے آتے ہیں، لگ جاتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ بڑھتا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ جواز بھی ’’عذر گناہ، بدتر از گناہ‘‘ کے ذیل میں آتا ہے، کیوں کہ پھر بھی اس امر کے براہِ راست ذمہ داران شعبۂ نیفرولوجی کے ڈاکٹر ہی قرار پاتے ہیں جو بغیر ضروری ٹیسٹ کروائے آنے والے مریضوں کا بھی بغیر کسی چھان پھٹک یا اعتراض کے ڈائیلاسز کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ کسی غیر رجسٹرڈ لیبارٹری سے ٹیسٹ کرانے والے بیمار افراد کو بھی ڈائیلاسز کرانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ ماہرینِ طب نے چانڈکا اسپتال کی اپنی لیبارٹری اور اس کے ٹیسٹوں کو بھی غیر معیاری اور مشکوک قرار دے رکھا ہے۔ مذکورہ اطلاعات سامنے آنے کے بعد سندھ کے سینئر وزیر نثار کھوڑو نے بھی چانڈکا اسپتال کا دورہ کیا ہے اور متعلقہ عملہ کی کوتاہی کا برملا اعتراف بھی کیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے بہت زیادہ توجہ اور سختی کی ضرورت ہے۔
(باقی صفحہ 41 پر)
اندرونِ سندھ 5 تا 10 ہزار افراد کے ایڈز جیسے موذی اور لاعلاج مرض میں مبتلا ہونے کی خبر حد درجہ توجہ اور فوری اقدامات کی متقاضی ہے۔ محکمہ تعلیم سندھ کی طرح محکمہ صحت سندھ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کے لیے بھی اس محکمہ میں ایمرجنسی کا فوری نفاذ ناگزیر ہوچکا ہے۔ غیر رجسٹرڈ اور غیر معیاری لیبارٹریز کو بلا کسی تاخیر کے بند کیا جانا چاہیے، نیز سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں کو بھی اپنے ڈیوٹی اوقات میں بڑی سختی کے ساتھ اپنے نجی شفاخانوں میں بیٹھنے سے منع کیا جانا چاہیے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ پُرجوش بھی ہیں اور متحرک بھی۔ انہیں مذکورہ حوالے سے فی الفور سخت ایکشن لینا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اہلِ سندھ یہ فریاد کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ ’’مرجائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟‘‘