(کیا پانامہ لیکس مقدمے کا فیصلہ 29نومبر سے قبل متوقع ہے! (میاں منیر احمد

جس سیاسی محفل میں چلے جائیں، دو ہی سوال پوچھے جا رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کیوں ناکام ہوا؟ اور پانامہ لیکس مقدمے کا فیصلہ کیا ہوسکتا ہے؟ ان دونوں سوالوں کے اپنے اپنے پس منظر اور پیش منظر ہیں۔ لاک ڈاؤن تو اس لیے ناکام ہوا کہ تحریک انصاف کی قیادت کیمروں کے سامنے فوٹو سیشن تک محدود رہی، اس کے ماتھے پر تو پسینہ تک نہیں آیا، پنجاب جو ہر سیاسی معرکے کا میدان ہوتا ہے تحریک انصاف اس محاذ کو گرم نہیں کرسکی۔ 2 نومبر سے پہلے تحریک انصاف کی قیادت 28 اکتوبر کے احتجاج کی کال دے کر بھی گھروں سے باہر نہیں نکلی۔ یہ اس کی دوسری غلطی بلکہ حماقت تھی۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کی ٹیم نے ثابت کیا کہ وہ تحریک انصاف کے مقابلے میں بہتر سیاسی تجربے کی حامل ہے، اسی لیے بحران سے باہر نکل گئی۔ اگلا محاذ پانامہ لیکس تحقیقات سے متعلق ہے جہاں حکومت نے عدالتی کارروائی کی راہ میں کسی قسم کا جائز قانونی حق بھی استعمال کرنے سے گریز کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ گویا اپنے ہاتھ کاٹ کر عدالت کے سامنے خود کو پیش کردیا ہے۔ کمیشنز انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت کمیشن بنانے کا اختیار صرف وفاقی حکومت کے پاس ہے، لیکن حکومت عدالت میں اس حق سے بھی دست بردار ہوگئی ہے اور عدالت سے کہا ہے کہ خود ہی کمیشن بنائے۔ مسلم لیگ (ن) دراصل پانامہ لیکس کے بوجھ کے ساتھ اگلے انتخابات میں نہیں جانا چاہتی، تحریک انصاف بظاہر تو بہت مطمئن دکھائی دے رہی ہے تاہم پریشان ہے کہ فیصلہ خلاف آگیا تو اس کی سیاست داؤ پر لگ جائے گی۔ یہی معاملہ پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ معاملہ عدالت کے بجائے سڑکوں پر رہے تاکہ اس کی بنیاد پر نوازشریف پر سیاسی حملے کرتی رہے۔
عدالتِ عظمیٰ میں پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے مقدمے کی سماعت جاری ہے، امکان ہے ماہِ رواں کے آخری ہفتے میں اس بارے میں دائر درخواستوں کی سماعت مکمل کرکے عدالت اپنا فیصلہ سنا دے گی۔ عدالت کا فیصلہ کیا ہوگا اس بارے میں کوئی بھی واضح بات اور رائے نہیں دی جاسکتی، تاہم یہ ضرور لکھا جاسکتا ہے کہ فیصلہ حق میں آئے یا مسلم لیگ(ن) کے خلاف، دونوں صورتوں میں قبل از وقت انتخابات ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ فیصلہ حق میں آیا تو نوازشریف بہت مضبوط ہوجائیں گے اور رائے عامہ کے اپنے حق میں پیدا ہونے والے ماحول سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ حکومت خاموشی سے انتخابی مہم شروع کرچکی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں نصف حد تک کمی کا فیصلہ اسی لیے کیا گیا ہے۔ اگر فیصلہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف آیا تو حالات بگڑ بھی سکتے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں اتحاد بناکر اسمبلی اور حکومت کے خلاف بہت بڑی احتجاجی تحریک شروع کرسکتی ہیں۔ تحریک انصاف نے ملکی حالات کے پیش نظر پارٹی انتخابات ملتوی کردیے ہیں ۔ یہ سیاسی پیش رفت کسی بڑے سیاسی طوفان کی اطلاع دے رہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ پانامہ لیکس کیس کا فیصلہ 29 نومبر سے قبل متوقع ہے۔ 29 نومبر کو جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہورہی ہے، ان کے بعد آرمی چیف کے عہدے کے لیے جنرل اشفاق ندیم خان، جنرل قمر باجوہ کے نام لیے جارہے ہیں۔ جنرل اشفاق ندیم خان، پیپلزپارٹی کی رہنما فوزیہ بہرام کے عزیز اور ایک اخبار نویس کے بھائی بتائے جاتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کے عہدے کے لیے ان میں سے، یا کسی اور کے نام قرعہ نکلے گا۔
پانامہ مقدمے اور ملک کے سیاسی حالات کے پیش نظر نومبر نہایت ڈرامائی تبدیلیوں کا مہینہ قرار دیا جارہا ہے۔پانامہ لیکس کیس میں سپریم کورٹ میں جن درخواستوں کی سماعت جاری ہے ان میں شیخ رشید احمد اور عمران خان کی درخواست وزیراعظم نوازشریف کے خلاف ہے۔ ایک درخواست جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے دائر کی ہے جس میں وزیراعظم کو فریق نہیں بنایا گیا بلکہ مجموعی طور پر کرپشن کی تحقیقات کی استدعا کی گئی ہے۔ پانامہ لیکس کے معاملے میں سیاسی میدان میں پیپلزپارٹی بھی ایک فریق ہے، جس نے کمیشن بنانے کی مخالفت کردی ہے اور مطالبہ کررہی ہے کہ اعتزاز احسن بل کی حمایت کی جائے۔ پیپلزپارٹی کا اصل مؤقف وہی ہوگا جو آصف علی زرداری بیان کریں گے۔آصف علی زرداری کا موقف یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کو ہر قیمت پر بچایا جائے۔ سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ پناما بل منظور نہ کرانے کی حکمت عملی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اب جو نئی پیش رفت ہوئی ہے‘ معاملہ عدالت میں چلے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اچانک ایک پیج پر آگئی ہیں اور مسلم لیگ قومی اسمبلی میں اپنا جو بل پیش کرچکی ہے اسے منظور کروالے گی اور پھر جب یہ بل مزید توثیق کے لیے سینیٹ میں آئے گا تو پیپلزپارٹی اس مین اپنی ترامیم شامل کرائے گی قومی اسمبلی کا اجلاس اس مقصد کے لیے 14 نومبر کو بلایا جارہا ہے۔ بلاول بھٹو تو پارٹی پلیٹ فارم پر سیاست سیکھ رہے ہیں اور نیٹ پریکٹس کررہے ہیں۔ پارٹی کی سینئر قیادت ابھی بھی اس بات کی حامی ہے کہ انہیں عوامی جلسوں میں لے جانے سے گریز کیا جائے، البتہ بلاول بھٹو کو نیٹ پریکٹس کے ذریعے پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی گُر سکھائے جارہے ہیں۔
پانامہ لیکس کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ میں زیر سماعت اس مقدمہ سے ہٹ کر ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ حکومت نے ڈان لیکس کی تحقیقات کے لیے جسٹس(ر) عامر رضا خان کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی ہے ‘کمیٹی تحقیقات کرے گی کہ یہ خبر کس کے کندھے پر سوار ہوکر سرل المیڈا کے قلم کے سپرد ہوئی۔ تحقیقاتی کمیٹی میں آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی سے ایک ایک رکن لیا جائے گا، اس کے علاوہ ایف آئی اے ڈائریکٹر عثمان انور اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز اور محتسب پنجاب نجم سعید بھی کمیٹی کے رکن ہوں گے۔ جسٹس (ر) عامر رضا خان اس وقت پنجاب میں ہیلتھ کیئر کمیشن کے چیئرمین ہیں، ان کی ایک عزیزہ شریف میڈیکل سٹی میں پرنسپل ہیں۔ جسٹس (ر) عامر رضا خان کا نام مسلم لیگ(ن) نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے تجویز کیا تھا۔ ان کا نام سامنے آتے ہی تنقید کا ایک طوفان برپا ہوگیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) نے کسی بھی ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایسی کمیٹی قائم کرنے کی مخالفت کردی ہے اور تحریک انصاف نے یہ کمیٹی مسترد کردی ہے۔ بظاہر تو یہ فیصلہ کمیٹی کے سربراہ کی تقرری کے ردعمل میں کیا گیا ہے، لیکن غالب امکان یہی ہے کہ کوئی بھی فریق معاملے کی تحقیقات نہیں چاہتا۔ بہرحال یہ کمیٹی بن چکی ہے جو سرل المیڈا کیس سے جڑے ہوئے سیکرٹری خارجہ اعزازالدین چودھری اور پرویز رشید سمیت ہر شخص سے پوچھ گچھ کرے گی۔ جب تک کمیٹی اپنی رپورٹ نہیں دے دیتی اُس وقت تک یہ مناسب ہوگا کہ اس موضوع پر مزید بات نہ جائے۔ یہ چونکہ قومی سلامتی سے جڑا ہوا معاملہ ہے لہٰذا کمیٹی کو ہی کام کرنے دیا جائے۔
قومی سلامتی سے متعلق ایک اور اہم پیش رفت اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن آفس میں کام کرنے والے ان افراد کی نشان دہی ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہے ہیں، اور ان افراد کو پاکستان چھوڑ دینے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ پاکستان میں کل بھوشن نیٹ ورک کے لیے کام کرنے والے سفارتی اہل کاروں کے بے نقاب ہونے کے بعد بھارتی حکومت نے واپس بلا لیا ہے۔ بھارتی سفارت خانے میں سفارت کاروں کے روپ میں’’را‘‘ اور’’آئی بی‘‘ کے 6 ایجنٹ اسلام آباد میں تعینات تھے۔ ان میں اسٹیشن چیف بلبیرسنگھ، فرسٹ سیکرٹری پریس اینڈ کلچر اور جیابالن سینتھل اسسٹنٹ پرسنل ویلفیئرآفس اور بھارتی’’ را‘‘کے ایجنٹوں میں اسٹیشن چیف راجیش کمار اگنی ہوتری کمرشل قونصلر اور مادھون نندا کمار بطور ویزا اسسٹنٹ تعینات تھے۔ انوراگ سنگھ فرسٹ سیکرٹری کمرشل، امر دیپ سنگھ بھٹی ویزا اتاشی کے طور پر کام کررہے تھے۔ دھرمیندرا اور وجے کمار ورما بھی بھارتی خفیہ ایجنسی’’را‘‘کے ایجنٹ ہیں۔ یہ بھارتی ایجنٹ پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ یہ نیٹ ورک سی پیک اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث تھا۔
nn

اسلام آباد