حامد ریاض ڈوگر

اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو خوش رکھے کہ وہ اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتے ہیں، اور اگر عملاً ان کے لیے کچھ نہ بھی کرسکیں تب بھی انہیں مایوسی سے بچانے کے لیے نت نئے اعلانات ضرور کرتے رہتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مایوسی گناہ ہے، اور ظاہر ہے بطور حکمران وہ اپنی رعایا کو کسی بھی صورت گناہ میں مبتلا ہوتے نہیں دیکھ سکتے، چنانچہ عوام کو مایوسی یعنی گناہ کی دلدل سے نکالنے کے لیے ہمارے محبوب اور ہر دل عزیز وزیراعظم نے تازہ اعلان یہ فرمایا ہے کہ ملک بھر میں فوری طور پر بجلی کی لوڈشیڈنگ نصف کردی گئی ہے۔ ایوانِ وزیراعظم کے اعلامیہ کے مطابق ’’کچھ شرم ہوتی ہے،کچھ حیا ہوتی ہے‘‘ اور ’’ٹریکٹر ٹرالی‘‘ شہرت رکھنے والے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے پیر کے روز وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی اور انہیں ملک بھر میں جاری بجلی کی لوڈشیڈنگ سے متعلق صورت حال کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس آگاہی کے بعد وزیراعظم نے انہیں ہدایت کی کہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ نصف کردیا جائے اور منگل 8 نومبر سے شہروں میں بجلی کی جبری بندش کا موجودہ دورانیہ آدھا کرکے تین گھنٹے اور دیہات میں چار گھنٹے تک محدود کردیا جائے۔ اس ہدایت کو عملی شکل دینے کی ذمہ داری سیکرٹری پانی و بجلی کو سونپتے ہوئے جناب وزیراعظم نے مزید ہدایت کی کہ بجلی کے واجبات کی کم وصولی والے علاقوں پر لوڈشیڈنگ میں کمی کے اس اعلان کا اطلاق نہیں ہوگا اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی نہ کرنے والے علاقوں میں حسبِ سابق لوڈشیڈنگ جاری رہے گی۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے پاکستانی شہریوں کے لیے وزیراعظم کا یہ اعلان یقیناًمژدۂ جانفزا ہے، مگر دوسری جانب صورت یہ ہے کہ لوگ اعلانات اور وعدے سن کر اور ان کا انجام دیکھ کر کچھ اس صورتِ حال سے دوچار ہوچکے ہیں کہ انہیں کسی بڑی سے بڑی خبر پر بھی یقین نہیں آتا، ورنہ وہ ’’خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘‘ کی کیفیت کا شکار ہوجاتے۔ اب تو لوگ حکمرانوں کے اعلانات ایک کان سے سنتے اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں، کیونکہ انہیں یاد ہے کہ یہی وزیراعظم اور ان کے برادرِ خورد 2013ء کے انتخابات سے قبل جلسوں میں قوم کو اپنی حکومت بننے کے تین ماہ کے اندر لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کی یقین دہانیاں کراتے رہے، مگر اب تین ماہ تو کجا تین سال گزرنے کے بعد بھی نصف لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان جناب وزیراعظم نے فرمایا ہے، اور اس اعلان کے بارے میں بھی عوام کا طرزعمل یہ ہے کہ وہ اسے غالب کے اس شعر سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہیں ؂
ہم کو معلوم ہے وعدوں کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنے اعلانات کو ہمیشہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہی استعمال کرتے رہے ہیں اور عملاً ان کا وتیرہ یہ ہے کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا۔۔۔ ورنہ اگر وہ سنجیدگی سے اپنے اعلانات پر عملدرآمد کی کوشش کرتے تو وطنِ عزیز بہت عرصہ پہلے ایک ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست بن چکا ہوتا اور یہاں کے عوام بہت سے دیگر ممالک سے بہتر معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہورہے ہوتے۔ جہاں تک وزیراعظم کے تازہ ترین اعلان کا تعلق ہے تو عملی صورتِ حال یہ ہے کہ اس اعلان پر عمل کرنا ذرا بھی مشکل نہیں۔ اوّل تو ہمیں آج تک یہی بات سمجھ میں نہیں آئی کہ لوڈشیڈنگ کیوں کی جاتی ہے؟ جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت بھی جس قدر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے وہ ملک کی مجموعی ضرورت یا طلب سے خاصی زیادہ ہے، مگر نامعلوم وجوہ کی بناء پر بجلی کی تمام پیداواری صلاحیتوں سے مکمل طور پر استفادہ نہیں کیا جا رہا۔۔۔ پھر جس وقت جناب وزیراعظم نے لوڈشیڈنگ نصف کرنے کا اعلان کیا ہے اُس وقت خود اُن کے بقول بجلی کے کئی نئے پیداواری یونٹ بھی کام شروع کرچکے ہیں اور موسم سرما کی آمد آمد کے باعث آج کل نہ تو دفاتر اور گھروں میں ائرکنڈیشنر چل رہے ہیں اور نہ ہی پنکھوں کی ضرورت رہی ہے۔۔۔ چنانچہ گھریلو صارفین کی بجلی کی کھپت ازخود بہت کم ہوچکی ہے۔ اس لیے اگر وزیراعظم اپنے اعلان پر عملدرآمد میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو اس کو عملی شکل دینا، حکومتی وعدوں پر قوم کا اعتماد بحال کرنا اور عوام کو بلاوجہ کی ذہنی کوفت اور اذیت سے نجات دلانا زیادہ مشکل نہیں۔۔۔ مگر ہزاروں خواہش ایسی کہ۔۔۔۔۔۔!!!
حکمران تو شاید وعدہ کرنے سے پہلے ہی یہ سوچے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘‘۔۔۔ چنانچہ لوڈشیڈنگ نصف کرنے کے اعلان کے اگلے ہی روز صورتِ حال یہ ہے کہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے اکثر حصوں میں بجلی صبح 9 بجے بند ہوئی اور سارا دن غائب رہنے کے بعد رات کو لوگوں کو اپنی شکل دکھائی۔۔۔ جب کہ ملک کے دیگر حصوں کے بارے میں اخبارات کی اطلاع یہ ہے کہ وزیراعظم کی ہدایات کے برعکس شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ معمول سے دو گھنٹے اور دیہات میں تین سے چار گھنٹے بڑھا دیا گیا۔ اب قوم جناب وزیراعظم کے اعلان کے بارے میں اس کے سوا کیا کہہ سکتی ہے کہ ہم پہ یہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احسان ہوتا۔۔۔!!!
جہاں تک کم وصولی والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ میں کمی کے اس اعلان کا اطلاق نہ کیے جانے کا تعلق ہے، بظاہر یہ استثنا درست معلوم ہوتا ہے کہ جہاں بجلی کی چوری زیادہ ہوتی ہے وہاں بجلی فراہم ہی نہ کی جائے یا کم فراہم کی جائے، مگر حقیقتاً یہ بھی انصاف کے تقاضوں کا خون اور حکومت کی انتظامی مشینری کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ ورنہ سوال یہ ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والے اُن لوگوں کو سزا کیوں دی جائے جو باقاعدگی سے اور پورا بل ادا کرتے ہیں! ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت بجلی چوروں کو پکڑ کر انہیں قانون کے مطابق بجلی چوری کی سزا دے، اور اگر ضروری ہو تو ان کی بجلی بھی منقطع کردی جائے۔ مگر حکومتی مشینری ان
(باقی صفحہ 41پر)
چور عناصر کے سامنے تو بے بس نظر آتی ہے اور ان کے کیے کی سزا پورے علاقے کو سنا دی جاتی ہے۔ ’کرے کوئی بھرے کوئی‘۔۔۔ اور نااہلی کی اس سے زیادہ تکلیف دہ مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ لاہور میں بجلی کی فراہمی کا ذمہ دار ادارہ ’’لیسکو‘‘ ہر ماہ بجلی کے بلوں کی مد میں بارہ ارب روپے اپنے صارفین سے ناجائز اور جبراً وصول کررہا ہے۔ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے خود ڈنکے کی چوٹ پر زائد بلوں کی وصولی کا اعتراف کیا ہے۔ یوں ایک جانب تو بجلی کی عدم دستیابی اور وقت بے وقت لوڈشیڈنگ نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے جب کہ دوسری جانب لیسکو نے چھ لاکھ سے زائد میٹروں کو خراب قرار دے کر ان سے بلاوجہ ناجائز اور زائد وصولیوں کو معمول بنا رکھا ہے، حالانکہ درست میٹر فراہم کرنا صارفین نہیں خود ’’لیسکو‘‘ حکام کی ذمہ داری ہے، مگر وہ اپنی اس کمزوری کو جواز بناکر سزا عوام کو دے رہے ہیں۔ کاش کوئی سرکاری محکموں کے ظلم و ستم سے عوام کو نجات دلانے کے لیے میدانِ عمل میں آسکے۔۔۔!!!