’’مستری ہوشیار باش‘‘

پہلے ایک لطیفہ۔ ہمارے ممدوح جناب شیخ رشید نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ایک سوال پر کہا ’’میں نے فوج کو کہہ دیا ہے، مستری ہوشیار باش‘‘۔ فوج میں ایک شعبہ انجینئرنگ کا بھی ہوتا ہے، اس میں مستری بھی ہوتے ہوں گے۔ لیکن شیخ صاحب ان مستریوں کو کیوں ہوشیار کررہے ہیں؟ شیخ رشید بہت ستھری اردو بولتے ہیں، ان کی گرفت کرنا مناسب نہیں ہے۔ تاہم ان کے اس جملے سے ہمیں بہت کچھ یاد آگیا۔
ہمارے لڑکپن میں اخبارات میں ایک اشتہار ضرور آتا تھا ’’مشتری ہوشیار باش‘‘۔ ہمارے محلے میں آپا مشتری رہتی تھیں اور ہم حیران ہوتے تھے کہ اخبارات کے ذریعے انھیں کیوں ہوشیار کیا جاتا ہے! پھر یہ بھی پتا چلا کہ مشتری آسمان کا ستارہ ہے۔ لیکن مشتری نے الجھن میں ڈالے رکھا۔ شیخ رشید نے اسے مستری کہہ کر بات ہی آسان کردی۔ لیکن ایک اہلِ علم کا کہنا ہے کہ ’’مشتری‘‘ عربی کا لفظ ہے اور خریدار، مول لینے والے کو کہتے ہیں۔ ایک شعر ہے:
مشتری حسن کے کہتے ہیں تمھارے ہاتھوں
آج نیلام ہے یوسف کے خریداروں کا
بیع و شرا تو سنا ہی ہوگا۔ بیچنا اور خریدنا۔ بیع نامہ سے بھی سبھی واقف ہیں اور اسی سے ’’بیعت‘‘ بھی ہے، یعنی کسی کے ہاتھ پر اپنے آپ کو بیچ دینا۔ یہ بیعت حکمرانوں کے ہاتھوں پر بھی ہوتی ہے اور مرشد کے ہاتھ پر بھی۔ شیخ رشید کو مشتری کے بجائے مستری یاد رہا۔
کہیں بیرونِ ملک سے محترم عمران الحق کا پیغام موصول ہوا ہے کہ ’’آپ نے ’دوران میں‘ کا استعمال کیا ہے۔ اس سے پہلے ہم ہمیشہ ’دوران‘ ہی استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ اگر ’دوران میں‘ درست ہے تو کنفرم (توثیق یا تصدیق) کردیجیے‘‘۔
بھائی عمران الحق، ہم بھی ایک عرصے تک ’دوران‘ کو ’میں‘ سے بے نیاز سمجھتے رہے۔ پھر کسی پڑھے لکھے نے ٹوک دیا کہ ’دوران‘ کے ساتھ ’میں‘ آنا ضروری ہے۔ وجہ پوچھے بغیر تسلیم کرلیا۔ کہیں کسی ماہرِ لسانیات کی کتاب میں پڑھا تھا کہ ’’اب تو لوگوں نے ’دوران‘ کے بعد ’میں‘ لکھنا ہی چھوڑ دیا‘‘۔ ہم یہ معاملہ بھی ماہرینِ لسانیات پر چھوڑ دیتے ہیں، سند کی تلاش جاری رہے گی۔ البتہ ایک بات ذہن میں آئی ہے کہ فارسی میں کہتے ہیں ’’درایں اثنا‘‘۔ اور اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے ’’اس اثنا میں‘‘۔ ’اثنا‘ اور ’دوران‘ ہم معنی ہیں۔
عبدالمتین منیری بھٹکل والے کے مطابق مشکور کا شکر گزار کے معنی میں استعمال مولانا ماہرالقادری درست قرار دیتے ہیں۔ اب اس حوالے کے بعد ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، لیکن لغات کے مطابق اہلِ علم ان معنوں میں استعمال نہیں کرتے۔ عبدالمتین منیری خود بھی اہلِ علم ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ’’اہلِ زبان کے یہاں (ہاں) شاکر کے استعمال کی چند مثالیں پیش کریں۔ اب فوری طور پر نوراللغات سے ایک مثال پیش ہے ’’شاکر کو شکّر، موذی کو ٹکّر‘‘۔
پروفیسر غازی علم الدین صاحب میرپور آزاد کشمیر کے علاقے افضل پور میں گورنمنٹ ڈگری کالج کے پرنسپل ہیں۔ اردو مادری زبان نہیں لیکن جن کو اہلِ زبان ہونے کا دعویٰ ہے ان کے مقابلے میں غازی صاحب کی اردو سے محبت اور زبان کی تصحیح سے دلچسپی دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ وہ نام ہی کے غازی نہیں بلکہ علم کے محاذ پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ ان کا تذکرہ ان کالموں میں پہلے بھی کیا جا چکا ہے۔ اب انھوں نے قارئین کی دلچسپی کے لیے کچھ مواد بھیجا ہے۔
خاور اعجاز ایک بڑے ادیب اور کالم نگار ہیں۔ وہ اپنے ایک کالم ’’رشتہ اعتبار ٹوٹ گیا‘‘ میں لکھتے ہیں ’’یہ فریضہ تو ادب کے ثقہ بند ناقدین انجام دیتے ہیں‘‘۔ لیجیے صاحب، ہم تو ابھی تک ’سکہ بند‘ کے معنی میں الجھے ہوئے تھے کہ یہ کیسے ہوتے ہیں کہ خاور اعجاز نے نئی ترکیب ’’ثقہ بند‘‘ اچھال دی۔
غازی علم الدین کی ایک اور تلاش دیکھیے۔ ڈاکٹر فرحت عباس شعر و ادب کا بڑا حوالہ ہیں۔ وہ اپنے مضمون ’’آج کا اردو ادب اور ادیب‘‘ میں لکھتے ہیں ’’سوال یہ ہے کہ ادب کے معیار کو پرکھنے کے لیے کسوٹی کا معیار کون مقرر کرے گا‘‘۔ ہوسکتا ہے انھیں کسوٹی کا مطلب ہی معلوم نہ ہو، ورنہ پرکھنے کے ساتھ کسوٹی اور اس کے معیار کی بات نہ کرتے۔ لیکن اس جملے کو کہاں رکھا جائے۔۔۔ معیار کو پرکھنے کے لیے معیار۔۔۔!
ناتا کو ’ناطہ‘ لکھنا تو عام غلطی ہے۔ یہ ہندی کا لفظ ہے، اس میں ’ط‘ کہاں سے آگئی! لیکن بڑے ادیب اور ’’ثقہ بند‘‘ کالم نگار ’ناتا‘ کو ’ناطہ‘ لکھتے رہے تو یہ بھی مشکور کی طرح غلط العام کی فہرست میں ڈال دیا جائے گا۔ ان دو ادیبوں میں سے ایک کا یہ بامعنی جملہ بھی دیکھتے چلیں ’’الغرض مقصد تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ۔۔۔‘‘ ہوسکتا ہے فرحت عباس مقصد پر زور ڈالنے کے لیے اس کو دوبارہ استعمال کر گئے ہوں۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ ڈاکٹر فرحت عباس کا یہ جملہ بھی توجہ طلب ہے کہ ’’ڈاکٹر سید عبداللہ نے ادب اور انسانی زندگی کے تعلق پر انتہائی خوبصورت، آسان اور مدلل طور پر بات کی ہے‘‘۔ یقین نہیں آتا کہ ڈاکٹر عبداللہ نے یہ جملہ کہا یا لکھا ہو۔ مدلل کے بعد ’’طور پر‘‘ کی ضرورت نہیں۔ ’’مدلل بات کی ہے‘‘ سے مطلب واضح ہوجاتا ہے۔
ہم تو ایک بڑے کالم نگار اور ایک چینل کے معروف میزبان سلیم صافی کے کالم کا ذکر کرنے چلے تھے لیکن غازی علم الدین نے بھلا دیا۔ سلیم صافی کی زبان پشتو ہے لیکن غلط لکھنے کے لیے یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں انھوں نے اپنے کالم میں پٹھانوں کے لطیفے درج کیے ہیں۔ اس میں لکھتے ہیں کہ ایک بھائی کے سینے پر ’’ٹڈی دل‘‘ بیٹھ گیا اور دوسرے نے ٹڈی دل کو مارنے کے لیے بھائی پر گولی چلا دی۔ ہم سوچتے ہی رہ گئے کہ کتنا بڑا سینہ ہوگا جس پر پورا دَل کا دَل جا بیٹھا۔ سلیم صافی کو ٹڈی اور دَل کا فرق معلوم نہیں ہو گا، لیکن ان کے مضامین شائع کرنے والے تو تصحیح کرسکتے تھے یا وہ بھی صافی ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ کئی لکھنے والے ایسے ہیں جن کا مضمون پڑھا نہیں جاتا بلکہ جیسا آتا ہے ویسا ہی شائع کردیا جاتا ہے۔ سلیم صافی کا پٹھان ہونا کوئی عذر نہیں، کیونکہ پٹھانوں میں بڑے بڑے ادیب اور شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ احمد فراز بھی پٹھان تھے اور قتیل شفائی ہزارے کے۔ قاضی حسین احمد بھی پٹھان تھے لیکن ان کو نئی نسل سے شکایت تھی کہ اردو نہیں آتی۔ وہ خود عربی اور فارسی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ممکن ہو تو سلیم صافی کسی سے ’دَل‘ کا مطلب پوچھ لیں۔ اللہ بچائے، ٹڈی دل جہاں حملہ آور ہوتا ہے چند منٹ میں پوری فصلیں صاف کردیتا ہے اور سلیم صافی ایک ٹڈی کو دل بتا رہے ہیں۔
چلتے چلتے ایک تلفظ کی طرف توجہ۔ ’’عنصر‘‘ میں ’ع‘ اور ’ص‘ دونوں پر پیش ہے یعنی عُن۔صُر۔ لیکن عام طور پر لوگ اسے عَنصر (بالفتح) پڑھتے اور بولتے ہیں۔ نام بھی رکھ لیا جاتا ہے۔ عُنصُر کا تلفظ مشکل سمجھ کر آسان بنا لیا گیا ہے، لیکن بہرحال یہ عُن۔صُر ہی ہے۔