وفاقی حکومت اور صوبہ پنجاب نے ’’یومِ اقبال‘‘ کی تعطیل کا خاتمہ کردیا ہے۔ وفاق اور صوبہ پنجاب کی پیروی خیبر پختون خوا نے بھی کی، البتہ سندھ اور بلوچستان نے تعلیمی اداروں کی تعطیل کے ذریعے ’’یوم اقبال‘‘کو کسی نہ کسی طرح زندہ رکھا ہے۔ یومِ اقبال کی تعطیل کا خاتمہ ایک برس قبل ہوگیا تھا، لیکن اِس برس ایک خبر کی اشاعت کی وجہ سے ابہام پیدا ہوگیا تھا کہ ’’یومِ اقبال‘‘ کی تعطیل بحال ہوجائے گی، لیکن وفاقی حکومت نے اپنے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ ’’یومِ اقبال‘‘ کی تعطیل کے خاتمے کا ’’اعزاز‘‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو حاصل ہوا ہے جسے اقبال و قائداعظم کی ’’وارث‘‘ پاکستان کی خالق جماعت ہونے کا دعویٰ ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کے عقیدت مند انھیں ’’قائداعظم ثانی‘‘ کا لقب بھی دے چکے ہیں اور انھوں نے بھی بڑے فخر سے یہ تاج پہنا ہے۔ کیا پاکستان کی خالق جماعت کے ذریعے ’’یومِ اقبال‘‘ کی تعطیل کے خاتمے کا فیصلہ حیرت انگیز ہے۔۔۔؟ کیا حکمراں جماعت کے نمائندوں کی طرف سے یہ دعویٰ وزن رکھتا ہے کہ پاکستان میں چھٹیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔۔۔؟ قومی ایام پر تعطیل محض چھٹیاں گزارنے اور تفریح کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اس کے ذریعے ہر قوم اپنے عقائد اور تصورات کے ساتھ اپنی وابستگی کو زندہ اور مستحکم کرتی ہے۔ پاکستان کسی سرزمین اور خطے کا نام نہیں ہے۔ پاکستان کا قیام ایک نظریے اور فکر کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ پاکستان کے قیام کو عہدِ حاضر کا معجزہ کہا جاتا ہے۔ یہ معجزہ اس لیے ہے کہ نوآبادیاتی دور کے بعد مغربی طاقتوں نے ’’وطنی قومیت‘‘ کو ریاست و حکومت کی بنیاد قرار دیا، لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے اعلان کیا کہ وہ وطنی قومیت کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ ملت اور امت کے تصور پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وہ تصور تھا جس کی تشریح کرتے ہوئے بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھاکہ پاکستان اُس دن وجود میں آگیا تھا جس دن پہلے شخص نے ہندوستان میں اسلام قبول کیا تھا۔ اس تصور کو سب سے زیادہ زوردار طریقے سے پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
امتِ مسلمہ سیکولر اور مسیحی یورپ کی عالمی سامراجی شہنشاہی کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی، ایک ایسی بدترین صورت حال تھی کہ مسلم نوجوان مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبتا ہوا الحادِ مغرب کا شکار ہورہا تھا۔ ایسے ماحول میں اقبال کی طاقتور آواز گونجی اور مسلمانوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا، اپنے دین و ملّت پر اعتماد پیدا کیا، خطبۂ الٰہ آباد کے ذریعے مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت کے قیام کے لیے ایک خطہ کا تصور پیش کیا جو قیام پاکستان کی بنیاد بنا۔ قیام پاکستان کے بعد انگریزوں کی چاکری کرنے والا طبقہ اوّل دن سے قیام پاکستان کے تقاضوں سے روگردانی کرنے کی شعوری کوشش کررہا ہے۔ لیکن قائداعظم کے خطابات اور اقبال کے افکار اس طبقے کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ نائن الیون کے بعد سے یہ کشمکش نہ صرف تیز ہوگئی ہے بلکہ اسلام کے بنیادی عقائد پر حملے شروع ہوگئے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور عالمی طاقتیں پاکستان میں انتخابات اور حکومت سازی کے عمل میں پوری طرح شریک ہیں۔ سیاسی، اقتصادی اور تزویراتی اہداف سے بڑھ کر پاکستان کے عوام کی ذہنی تبدیلی سب سے بڑا ہدف ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اقتدار کی ہوس میں اسلام، پاکستان، عالمِ اسلام اور امتِ مسلم کے دشمنوں کی آلۂ کار بن گئی ہیں۔ این آر او اور وکی لیکس سے اس منصوبے کے کچھ حصے بے نقاب ہوگئے ہیں۔ انھی معاہدوں کا ایک مظہر یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہی یہ عجیب و غریب اعلان کیا کہ انھیں قوم نے بھارت سے دوستی کے لیے منتخب کیا ہے۔ وہ یکطرفہ طور پر نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں چلے گئے، حالانکہ سب کو یہ معلوم ہے کہ پاکستان کے لیے امریکہ کا ایجنڈا یہ ہے کہ وہ بھارت کو اس خطے کا پولیس مین تسلیم کرکے تابعداری اختیارکرلے۔ جنوبی ایشیا میں امن کا قیام اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری اس خطے کے باشندوں سمیت خود پاکستان اور مسلمانوں کی ضرورت ہے، لیکن غلامی کی ذلت اور اپنے عقائد سے دست برداری سے امن قائم نہیں ہوسکتا۔ چونکہ ہماری سیاسی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ حکمرانی اور اقتدار کی ضمانت امریکہ سے حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ امریکہ کو خوش کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ یہی بات پاکستان کے سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویزمشرف نے کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اگر وہ امریکہ کی منت سماجت کرتے تو مزید اقتدار میں رہ سکتے تھے، اس طرح انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کو برسراقتدار لانے کا فیصلہ امریکہ نے کیا ہے۔ امریکہ تو مسلسل ’’ڈومور‘‘ کہہ رہا ہے۔ امریکہ جنرل (ر) پرویزمشرف سے راضی نہیں ہوا، وہ سیاسی قیادت سے بھی راضی نہیں ہوگا۔ البتہ ہم اگر بہ حیثیت قوم و ملک اپنے نظریے اور عقیدے کے بارے میں مصالحت کریں گے تو کمزور سے کمزور ہوں گے۔ صدام حسین اور قذافی سیکولر قوم پرست حکمران تھے لیکن وہ اپنا تحفظ نہیں کرسکے۔ مسلمانوں کے تحفظ کی بنیاد اسلام ہے۔ برصغیر میں مسلمان 14 سو سال سے موجود ہیں۔ تیسرے خلیفۂ راشد امیرالمومنین حضرت عثمان غنیؓ کے زمانے میں اس خطے کے ساحلِ مکران پر مسلمانوں کا پہلا رابطہ ہوا، سندھ میں مسلمانوں کی پہلی حکومت قائم ہوئی، اُس کے بعد سے مسلمان آج تک اس خطے میں موجود ہیں اور اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے وجود کی بنیاد اسلام ہے، جس کے خاتمے کا حکم امریکہ کی طرف سے آگیا ہے۔ ’’یومِ اقبال‘‘ کی تعطیل کے خاتمے کا مطلب قوم کو اقبال کے افکار سے لاتعلق بنانا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام اس بارے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہا ہے اور اپنی تاریخ اور تہذیبی مظاہر سے لاعلمی پیدا کررہا ہے۔ اگر ہمارے حکمراں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ’’سیکولر‘‘ بن کر اپنے مفادات کا تحفظ کرلیں گے تو وہ جتنی جلد اس غلط فہمی سے نکل آئیں تو بہتر ہے۔ لیکن وہ قوم کی یکجہتی اور اتحاد کو پارہ پارہ کردیں گے۔ ہم سب کو اسی ملک پاکستان میں رہنا ہے۔ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی اسی جگہ رہنا ہے۔ بیرونِ ملک دولت رکھنے والی اشرافیہ چاہے وہ سرمایہ دار ہو، جاگیردار ہو، بیورو کریٹ اور جرنیلوں کی اولاد ہو، وہ تو ملک چھوڑ کر جاسکتی ہے، لیکن غریب مسلمان پاکستانیوں کے لیے پاکستان بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نظریۂ پاکستان کو بھی محفوظ رکھا جائے، لیکن ہمارے حکمراں اس رابطے کو امریکی خوشنودی کے لیے توڑنا چاہتے ہیں۔