محمود عالم صدیقی

محمود عالم صدیقی
کتاب
:
ملاقاتیں کیا کیا
مصنف و مؤلف
:
الطاف حسن قریشی
صفحات
:
504 قیمت1490 روپے
ناشر
:
فرخ سہیل گوئندی
جمہوری پبلی کیشنز، ایوانِ تجارت روڈ، لاہور
ٹیلی فون
:
+92-42-36314140
ای میل
:
info@jumhooripublications.com
اشاعت دوم
:
اپریل 2016ء
پاکستان کے معاشرے میں جہاں اعلیٰ اسلامی اور اخلاقی اقدار مسلسل انحطاط پذیر ہیں وہاں زیادہ تر صحافی عام لوگوں کی طرح مصلحتِ کے اَسیر نظر آتے ہیں، حق بات کہنے والے اور کڑوا سچ سننے والے ادیب و صحافی اور حکمراں خال خال نظر آتے ہیں۔ قریشی برادران ان میں سے ہیں جو نصف صدی سے زیادہ عرصے سے صحافتی ادب کی آبیاری اپنے خون پسینے سے کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی میں قید و بند کی صعوبتیں اور اپنے رسائل وجرائد پر پابندیاں اور قدغنیں بھی برداشت کی ہیں۔
اردو ڈائجسٹ کے قریشی برادران جناب اعجاز حسن قریشی، جناب الطاف حسن قریشی نے تحریک اسلامی کے معروف صحافی، ’’کوثر‘‘ اور ’’تسنیم‘‘ کے مدیر جناب نصر اللہ خاں عزیز کے صاحبزادے اور اسلامی جمعیت طلبہ کے پہلے منتخب ناظم اعلیٰ جناب ظفر اللہ خاں کی ہمراہی میں اعلیٰ صحافتی اقدار کے ساتھ جو صاف ستھرا علمی، ادبی اور سیاسی سفر1960ء میں شروع کیا تھا اس کا اسلوب پاکستانی صحافت اور رسائل اور جرائد کی تاریخ میں ایک اچھوتے اور خوبصورت ادبی معیار کا حامل تھا جو عام تفریحی ڈائجسٹوں کے مقابلے میں حق کی آواز بلند کرنے، سچ لکھنے اور معاشرتی برائیوں کا جائزہ اور بڑے لوگوں کے افکار و اعمال کا تجزیہ کرتا رہا ہے اور اچھائیوں اور برائیوں کو بے نقاب اور تاریخی حقائق کو طشت ازبام کرتا آیا ہے۔ الطاف حسن قریشی کی زبان اور قلم نے بڑے اور عظیم لوگوں سے گفتگو کرکے ان کے مافی الضمیر کو باہر لانے اور ان کی شخصیت کی شعوری اور لاشعوری کیفیات، احساسات اور افکار کو قرطاس پر اپنے ادبی اسلوب کے ساتھ منتقل کرکے قارئین اور قوم کے سامنے رکھ دیا۔ وہ ایک مختلف صحافی، ادیب اور شاعر ہیں۔ اپنے خواب کی تعبیر کی جستجو میں انہوں نے اپنے خرچے پر پاکستان اور دنیا میں گھوم پھر کر قومی اور عالم اسلام کی قدآور شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور کئی کئی نشستوں میں مختلف جگہوں پر کیں۔ اور موثر اور اہم شخصیتوں کے انٹرویو لیے جو اردو ڈائجسٹ میں شائع کرتے رہے۔ ملک و قوم سے محبت کرنے والے، اپنے رہنماؤں کے بارے میں سچ اور ان کے کردار و افکار جاننے کے لیے الطاف حسن قریشی کے شذرات اور انٹرویو کا انتظار کرتے تھے۔ یہ انٹرویو برسوں اردو ڈائجسٹ میں چھپتے رہے۔
جب 1960ء میں اردو ڈائجسٹ کا اجرا ہوا تھا وہ آمریت کا دور تھا اور صحافت پر کڑی پابندیاں تھیں۔ ایوب خان کے دور میں حکومت کے خلاف لکھنا سرکار کے قہر کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ الطاف حسن قریشی نے اپنی بات کہنے کا ایک نیا صحافتی اسلوب ایجاد کیا، انہوں نے ممتاز قومی اور بین الاقوامی شخصیات کے انٹرویو کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا، یعنی اپنے ذہنِ رسا کی باتیں اور سوالات بہ زبانِ دیگر کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن جنوری 2016ء اور دوسرا ایڈیشن اپریل 2016ء میں جمہوری پبلی کیشنز کے زیراہتمام فرخ سہیل گوئندی نے نسبتاً بہتر انداز اور گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا۔
الطاف حسن قریشی کی ملاقاتوں پر مبنی یہ تیسری کتاب ہے جو ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس سے قبل 1963ء میں ’’ملاقاتیں‘‘ منظرِعام پر آئی جس میں دو ابتدائی برسوں کے 16 ملاقاتی خاکے شامل تھے۔ 1968ء میں جب ایوب خان کے خلاف احتجاجی تحریک اٹھی تو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ نے جنوری 1969ء میں ’’مقابل ہے آئینہ‘‘ کے عنوان سے اہل وطن کی رہنمائی اور ان میں روح پھونکنے کے لیے پانچ اہم شخصیتوں کے انٹرویو شائع کیے جن میں جسٹس حمود الرحمن، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مسٹر زیڈ اے بھٹو، ایئر مارشل اصغر خان اور ڈھاکا ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب محبوب مرشد شامل تھے۔ الطاف حسن قریشی نے دو سو کے لگ بھگ مشاہیر سے انٹرویو لیے۔
’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ میں 23 نمایاں شخصیتوں کا انتخاب کیا گیا جن کے انٹرویو 1961ء سے 1977ء تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان پر نظرثانی کرتے وقت اُن کو یہ احساس ہوا کہ انٹرویو دینے والی شخصیات اور تاریخ نے بہت لمبا سفر طے کرلیا ہے۔ تاریخی تسلسل قائم رکھنے کے لیے مختلف مقامات پر حواشی لکھے گئے ہیں۔ الطاف حسن قریشی نے اپنے مشاہدات، تجربات اور ذاتی تعلقات سے ایسے واقعات کا سراغ لگایا جو ابھی تک ہماری تاریخ کا حصہ نہیں بنے تھے یا جنہیں عام آنکھ نہیں دیکھ سکی تھی۔ اس کاوش سے یہ انٹرویوز غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں۔ ان 23شخصیتوں میں سے 21 دارِفانی سے کوچ کرچکی ہیں جبکہ ایئر مارشل اصغر خان اور ایس ایم ظفر بقیدِ حیات ہیں۔ اس کتاب میں ان دو کے علاوہ جن معروف شخصیات کے قلمی خاکے شامل ہیں ان میں جسٹس ایس اے رحمان، سید مودودیؒ ، زیڈ اے بھٹو، شیخ مجیب الرحمن، جنرل محمد ضیاء الحق، شاہ فیصل، سلیمان ڈیمرل، خان قلات، جسٹس کارنیلیئس، ڈاکٹر سید عبداللہ، اے کے بروہی، مولانا غلام رسول مہر، ڈاکٹر خدیجہ فیروز الدین، مولوی تمیز الدین خاں، پروفیسر حمید احمد خاں، ڈاکٹر عبدالرحمن بارکر، چودھری محمد علی، حکیم محمد سعید، جسٹس حمود الرحمن، مولانا ظفر احمد انصاری اور قدرت اللہ شہاب شامل ہیں۔
کتاب کی جلد کی پشت پر جناب الطاف حسن قریشی کا تعارف کراتے ہوئے۔ معروف صحافی، دانشور اور ناشر جناب فرخ سہیل گوئندی لکھتے ہیں ’’الطاف حسن قریشی گزشتہ پانچ دہائیوں سے میدانِ صحافت میں منفرد اور فعال کردار ادا کررہے ہیں جن کی تحریروں کا سحر قاری کو اپنے اندر جذب کرلیتا اور حسنِ معانی کا اک چمن کھِلا دیتا ہے۔ انہوں نے انٹرویو نگاری کا ایک ایسا دلنشیں اسلوب متعارف کیا ہے جس کا ثانی کوئی نہیں۔ وہ اب تک دو سو سے زائد نامور ملکی اور غیرملکی شخصیات سے ملاقاتیں کرچکے ہیں
(باقی صفحہ 41پر)
مجلہ
:
ششماہی تحقیقی مجلہ ’’جہات الاسلام‘‘ لاہور
(شمارہ 17)(جولائی دسمبر 2015ء)
مدیرۂ اعلیٰ
:
ڈاکٹر طاہرہ بشارت
مدیر
:
ڈاکٹر محمد عبداللہ
صفحات
:
400 قیمت 300 روپے سالانہ
بیرون ملک 30 ڈالر سالانہ
ناشر
:
پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ بشارت، ڈین کلیۂ علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور
پتا برائے خط کتابت
:
ڈاکٹر محمد عبداللہ، مدیر جہات الاسلام
کلیہ علوم اسلامیہ (قائداعظم کیمپس)
پنجاب یونیورسٹی لاہور 54590
ای میل
:
jihat_al_islam@yahoo.com
ششماہی جہات الاسلام کے سترہویں شمارے کے مقالات درج ذیل ہیں:
اردو مقالات: 1۔ ’’جدید تفسیری ادب: محرکات و رجحانات‘‘ (منتخب تفاسیر کا اختصاصی مطالعہ) محمد فاروق حیدر۔2۔ ’’اردو ادب کی ایک اہم سائنسی تفسیر‘‘ عاصم نعیم3۔ ’’حدیث مرسل کی حجیت’’ (فقہا کی آراء کا تقابلی جائزہ) محمد امجد/ سعیدالرحمن۔ 4۔ ’’احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں قبائلِ یمن کے فضائل کا تعارفی مطالعہ‘‘ حافظ محمد سرفراز غنی/ مطلوب احمد رانا۔ 5۔ ’’عربوں کی نسب شناسی‘‘ مدثر حمید۔ 6۔ ’’قصۂ غرانیق: عہدِ وسطیٰ کی مسلم فکر کا تنقیدی مطالعہ‘‘ غلام شمس الرحمن/ محمد شاہد ڈوگر۔ 7۔ ’’مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی میں مخطوطاتِ سیرت‘‘ محمد یاسین مظہر صدیقی۔ 8۔ ’’جرم تھراپی کی شرعی حیثیت‘‘ حافظ عبدالباسط خان/ حافظ محمد یونس۔ 9۔ ’’جہیز کی شرعی حیثیت‘‘ سیدہ سعدیہ۔ 10۔ ’’دورِ جدید میں جینیٹک فنگر پرنٹ کی بنیاد پر اسلامی جنائیات کی بحث‘‘ الطاف حسین لنگڑیال/ محمد مسلم۔ ’’تخلیقِ زر، جزوی مالیت کی بینکاری اور اسلامی بینکاری پر اس کے اثرات ’’سلمان احمد خان/ محمد سعد صدیقی۔ 12۔ ’’عہدِ بنی عباس میں مسلم، غیر مسلم تعلقات‘‘ (ایک تجزیہ) محمد ریاض محمود۔ 13۔ ’’تصوف اور فنِ خطاطی‘‘ محمد اقبال بھٹہ۔ 14۔ ’’ہندو پران: تعارف و تجزیہ‘‘ حافظ زاہد لطیف/ محمد عبداللہ۔
عربی مقالات: 15۔ ’’اھم شروح الشاطیۃ‘‘ فیاض الحسن جمیل الازھری/ افتخار احمد خان۔ 16۔ ’’فکرۃ الموت فی الشعرالعربی‘‘ کفایۃ اللہ ہمدانی۔ 17۔’’ملامبین الفرنکی محلی و آثارہ العلمیۃ‘‘ حافظ عبدالمجید/ منظور احمد۔
تبصرۂ کتاب: 18۔ ’’مقالاتِ سیرت‘‘ [ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی کے سیرت پر لکھے گئے مقالات کا مجموعہ] حافظ عبدالغفار۔ 19۔ ’’فضلاء دیوبند کی فقہی خدمات‘‘۔ بلال احمد وانی۔
انگریزی میں مقالات درج ذیل ہیں:
1.The Status Of Qira’at Shazzah: Beyond Textual Corruption. By Muhammad Feroz-ud-din Shah Khagga.
2. Inclusion of Assets As Capital In Modarabah Contract in Perspective of Classical Muslim Jurists. By Muhammad Junaid Sharif/ Muhammad Ijaz.
3. Basic Principles for Implementation of Islamic Punishments. By Muhammad Irfan/ Muhammad Akram Virk.
ڈاکٹر طاہرہ بشارت تحریر فرماتی ہیں:
’’جہات الاسلام کا مسلسل سترہواں شمارہ (جولائی۔ دسمبر 2015ء) حاضر خدمت ہے۔ شمارے میں حسبِ روایت اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں مقالات پیش کیے گئے ہیں۔ لکھنے والوں میں وطنِِ عزیز کے نامور دانشور بھی شامل ہیں اور بیرونِ ممالک کے اہلِ قلم بھی۔ ایک کثیر تعداد میں مشمولہ مضامین کا انتخاب ماہرینِ فن کی آراء کے جائزے کے بعد کیا گیا ہے۔ اردو کے چودہ، اور عربی اور انگریزی کے تین تین مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ حسب روایت مجلہ میں نئی کتب کا تعارف و تبصرہ بھی شامل ہے۔
قومی و عالمی سطح پر جو حالات تغیر پذیر ہیں اور معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، لامحالہ طور پر ان کے اثرات جامعات پر بھی پڑتے ہیں اور اہلِ علم و دانشور بھی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ دورِ جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا اور پیش آمدہ مسائل کا حل ڈھونڈنا بھی اہلِ علم و تحقیق کی ذمہ داری ہے۔ جامعات میں ہونے والی تحقیقات اور شائع ہونے والے رسائل و جرائد میں ان کی جھلک ناگزیر ہے۔
تفسیر القرآن کے حوالے سے تین مقالات شامل ہیں۔ محمد فاروق حیدر نے جدید تفسیری رجحانات پر قلم اٹھایا ہے اور اس ضمن میں تین عربی اور چار اردو تفاسیر کو بطور نمائندہ تفسیر کے بحث کی ہے۔ عاصم نعیم نے اپنے مقالے میں اردو ادب کے سائنسی رجحان کی تفسیر پر بحث کی ہے، جب کہ غلام شمس الرحمن نے ایک تفسیری روایت ’واقعہ غرانیق‘ بعض مفسرین کی آراء پر تنقیدی بحث کی ہے۔
علمِ حدیث میں ایک مقالہ حدیثِ مرسل کی حجیت پر فقہاء اور اصولین کی آراء پر مشتمل ہے۔ جب کہ دوسرا مقالہ یمن کی فضیلت کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر مبنی ہے۔ اسی طرح ’عربوں کی نسب شناسی‘ پر مبنی مقالہ اگرچہ براہِ راست حدیثِ نبوی پر تو نہیں ہے لیکن عربوں کی روایات، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض فرامین اور صحابہ کرام کے آثار کا عمدہ انداز میں احاطہ کیے ہوئے ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر براہِ راست مضمون اگرچہ نہیں لیکن ہندوستان کے معروف سیرت نگار محمد یاسین مظہر صدیقی نے مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ) کے مخطوطات کا نہ صرف تعارف کرایا ہے بلکہ مخطوطات کی اہمیت پر بھی بحث کی ہے جس سے کئی نئے پہلو قارئین کے سامنے آگئے ہیں۔
جدید فقہی، عائلی، طبی، معاشی اور سماجی پہلوؤں پر پانچ انتہائی وقیع مقالات زیرنظر شمارے میں شامل ہیں، جن میں سیدہ سعدیہ نے ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشرتی رسم جہیز پر شرعی نقطہ نظر سے مفصل بحث کی ہے اور اس کے اثرات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ جدید طبی نقطہ نظر سے جرم تھراپی اور جینیٹک فنگر پرنٹ پر سائنسی اور شرعی لحاظ سے بحث کی ہے۔ ریاض محمود نے اسلامی تاریخ کے نہایت اہم پہلو عہدِ بنی عباس میں مسلم و غیر مسلم تعلقات پر قلم اٹھاکر عصرِ حاضر میں مکالمہ بین المذاہب کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اسی طرح تہذیبِ اسلامی کے ایک روشن پہلو تصوف و خانقاہی نظام میں فنِ خطاطی کے فروغ پر قلم اٹھاکر اہلِ علم کی توجہ اس مخفی پہلو پر مبذول کروائی ہے۔ مطالعہ مذاہب میں ہندومت کی مقدس کتب میں سے پُران کا تعارف اور مضامین کا جائزہ لے کر ان میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں موجود پیش گوئیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
عربی زبان میں تین مقالات شامل ہیں، جن میں سے ایک امام شاطبی کی اہم کتاب الشاطبیہ کی شروح پر بحث کی گئی ہے۔ دوسرے مقالے میں عربی شاعری میں تصورِ موت اور اس کے مختلف پیرایوں پر بحث کی گئی ہے، جب کہ تیسرے مقالے میں لکھنؤ کے فرنگی محل کے مشہور علماء میں ملامبین کی حیات اور علمی خدمات کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ جب کہ انگریزی زبان میں تین مقالات شامل ہیں۔ پہلے مقالے میں قرأت شاذہ پر مستشرقین کے اعتراضات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ دوسرے مقالے میں جدید بینکاری نظام میں مضاربہ کی شرعی حیثیت پر اظہارِ خیال ہے، جب کہ تیسرے مقالے میں اسلامی حدود کے نفاذ کے ضمن میں معاشرتی و عملی حالات پر بحث کی گئی ہے۔
قارئین کرام شمارے کے مندرجات و مقالات کے بارے میں پہلے بھی اپنی آراء سے ہمیں باخبر رکھتے رہے ہیں، امید ہے کہ آئندہ بھی اپنی قیمتی آراء و تجاویز سے مطلع کریں گے۔ مجلہ کی بہتری کے لیے یہ آراء ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔ میں مدیر مجلہ ڈاکٹر محمد عبداللہ کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی تدریسی و تعلیمی مصروفیات سے وقت نکال کر مجلہ کو عملی شکل دے کر قارئین کے سامنے پیش کیا۔ دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کی رسائی عطا فرمائے‘‘۔
مجلہ سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوا ہے۔ قیمت کے لحاظ سے اسے مفت ہی سمجھنا چاہیے۔