(پاناما تحقیقات بوجھ عدلیہ پر (سلمان عابد

تحریک انصاف کا 2 نومبر کا دھرنا اور پانامہ لیکس کا معاملہ اب سیاسی میدان سے نکل کر عدالتی کورٹ میں داخل ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کمیشن کے قیام پر تمام فریقین سے تحریری یقین دہانی حاصل کی تھی کہ فریقین تحقیقاتی کمیشن کے فیصلے کو من و عن تسلیم کریں گے۔ اصولی طور پر تو یہ معاملہ سیاسی فریقین کے درمیان اتفاقِ رائے سے ہی حل ہونا چاہیے تھا، لیکن حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان بداعتمادی کی فضا اور سنگین الزام تراشیوں پر مبنی سیاست میں یہ ممکن نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب پانامہ لیکس کی تحقیقات کا معاملہ عدلیہ کے کندھے پر آگیا ہے۔ اب پانامہ لیکس کی تحقیقات کے معاملے میں سب سیاسی فریقین اور قوم کی نظریں عدلیہ پر لگی ہوں گی اور دیکھا جائے گا کہ عدلیہ کس حد تک انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کے فیصلے پر 2 نومبر کا دھرنا یا لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ واپس لے کر عقلمندی کا ثبوت دیا ہے، کیونکہ عدالت کی طرف سے پانامہ لیکس کے مسئلے پر دھرنے کا جواز ختم ہوگیا تھا۔ عدلیہ کی جانب سے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے بعد اب جب کہ عدالت نے عملاً تلاشی یا تحقیقات کا عمل اپنے ہاتھوں میں لے لیا تو ایک سطح پر عمران خان کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا ہے۔
اچھی بات یہ ہوئی کہ عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ یہ معاملہ حساس بھی ہے اور اس کی بڑی اہمیت بھی ہے، اور بادی النظر میں یہ معاملہ عوامی ہے، اس لیے اس اہم مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں اگرچہ عدالتی کمیشنوں کی تاریخ کوئی بہت اچھی نہیں۔ کمیشن تو یہاں بن جاتے ہیں، لیکن اول تو ان کے فیصلے ہی سامنے نہیں آتے یا اس میں اس حد تک تاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیں کہ انصاف کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے میں نہ صرف تاخیری حربے اختیار نہ کیے جائیں بلکہ لوگوں کو انصاف ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے۔ اس لحاظ سے یقیناًہماری عدلیہ پانامہ لیکس کے معاملے میں ایک بڑی امتحان گاہ میں داخل ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ نے فریقین سے فوری طور پر عدالتی کمیشن کے قیام کے لیے ضوابطِ کار یا ٹرم آف ریفرنس پر ان کی تجاویز طلب کرلی ہیں۔ اگرچہ اس سے قبل حکومت اور حزب اختلاف نے اپنی اپنی سطح پر ٹرم آف ریفرنس تیار کیے تھے، لیکن دونوں جانب سے ایک دوسرے کے نکات پر اتفاقِ رائے نہ ہونے سے یہ معاملہ تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ فریقین جو ضوابطِ کار یا تجاویز دیں گے کیا ان پر اتفاق ہوسکے گا، کیونکہ اصولی طور پر تو یہ اتفاقِ رائے حکومت اور حزبِ اختلاف میں ہی ہونا چاہیے۔ لیکن اب عدلیہ نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ اگر فریقین میں اتفاقِ رائے نہ ہوا تو عدالتی کمیشن کے ضوابطِ کار خود عدلیہ طے کرے گی۔ عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے میں ریاستی اداروں نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر نے اپنا قانونی کام نہ کرکے خود بحران کو پیدا کیا ہے، بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ ان اداروں کی سنجیدگی بھی کہیں نظر نہیں آئی۔ اصل میں یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ جب حکومت کے ساتھ ساتھ ریاستی ادارے انصاف کی طرف اپنے قدم نہ بڑھائیں اور خود اس میں رکاوٹیں پیدا کریں تو سیاسی تعطل کے ساتھ ساتھ قانونی اور انصاف کے نظام میں بھی تعطل پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح معاملہ محض تعطل کا ہی شکار نہیں ہوتا بلکہ یہ فریقین سمیت قوم میں بھی انصاف کے حوالے سے اداروں کیساکھ کو متاثر کرتا ہے۔
اگرچہ وقتی طور پر تو یہ بحران ٹل گیا ہے، لیکن دیانت داری سے یہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ پچھلے سات ماہ سے پانامہ لیکس کے معاملے میں جو کھیل حکومت نے کھیلا وہی بحران کا سبب بھی بنا تھا۔ اگر ابتدا ہی میں حکومت یا وزیراعظم کھلے دل سے پانامہ لیکس کے معاملے میں عدالتی کمیشن اور ٹرم آف ریفرنس پر حزبِ اختلاف کو اعتماد میں لے کر اتفاقِ رائے سامنے لے آتے تو یہ بحران پیدا ہی نہ ہوتا۔ بنیادی طور پر حکومت نے جان بوجھ کر پانامہ لیکس کے معاملے میں تاخیری حربے یا ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کیے رکھی، جس نے تحریک انصاف سمیت حزبِ اختلاف کو حکومت کا گھیراؤ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اگر تحریک انصاف سمیت حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتیں پانامہ لیکس کے معاملے پر حکومت پر دباؤ نہ ڈالتیں تو یہ معاملہ عدلیہ کے کورٹ میں کبھی بھی داخل نہ ہوتا۔ اب دونوں فریقین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ٹرم آف ریفرنس یا ضوابطِ کار پر خود اتفاق کریں یا عدلیہ کو یہ موقع دیں کہ وہ خود سے فیصلہ کرے۔ حکومت اور حزب اختلاف تحقیقاتی کمیشن کے ٹرم آف ریفرنس پر اتفاق نہیں کرسکی تھی۔اگر عدلیہ اپنی طرف سے فیصلہ کرتی ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ خود فریقین کو کس حد تک قبول ہوگا؟ اگرچہ عدالتی کمیشن بننے کا معاملہ سامنے آگیا ہے، لیکن فوری طور پر یہ سمجھنا کہ اس سے جو بحران ہے وہ فوری طور پر ختم ہوگیا ہے، درست نہیں ہوگا۔ کیونکہ اول تو بحران کوئی ایک تو ہے نہیں، کئی نوعیت کے بحران ہیں۔ ہماری قومی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہ بحرانوں سے گھری ہوئی ہے۔ اگرچہ بحرانوں کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے، لیکن اصل مسئلہ بحرانوں سے نمٹنا ہوتا ہے، مگر اس عمل میں ہمارا سیاسی ریکارڈ بہتر نہیں۔ اس لیے حکومتِ وقت کو خاص طور پر یہ سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ ٹلا ضرور ہے، ختم نہیں ہوا۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے اور معاملات کو پسِ پشت ڈالنے کی روش ترک کردے۔ اسی طرح حزبِ اختلاف کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی غیرضروری کی سیاسی محاذ آرائی سے گریز کرکے اپنی توجہ ایشوز کی سیاست پر دے۔
حکومت سمجھتی ہے کہ اس کے سیاسی مخالفین مختلف ایشوز کو بہانہ بناکر اصل میں اس کا سیاسی محاصرہ کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت کے بقول مسئلہ ایشوز نہیں بلکہ حکومت کو گرانا ہے۔ اگر بالفرض یہ حکومتی الزام مان لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ خود حکومت مختلف مسائل کیوں پیدا کرتی ہے؟ اگر حکومت ہر مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے اور اس سے متعلق جو بھی مناسب اقدامات ممکن ہوسکتے ہیں، کرے تو حکومتی مخالفین کو کمزور کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ عمومی طور پر مخالفین حکومتی کمزوریوں کو ہی بنیاد بناکر حکومت کے لیے بحران پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے اگر مسئلہ حکومتی مخالفین میں ہے تو خود حکومت بھی ان مسائل سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔
اگر حکومت پانامہ لیکس کے مسئلے پر ابتدا ہی سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی اور تحقیقاتی کمیشن پر اتفاق کرتی، یا اپوزیشن جماعتوں نے جو ٹی او آرز پیش کیے تھے ان پر کوئی سمجھوتا ہوجاتا تو آج بحران کی کیفیت یہ نہ ہوتی جو اس وقت ہم سیاسی منظرنامے میں دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح حکمران جماعت کا المیہ یہ بھی ہے کہ وہ سیاسی حکمت عملی کے بجائے انتظامی طاقت کی بنیاد پر مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بلاوجہ اشتعال پھیلاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما چودھری اعتزاز احسن کے بقول حکومت میں جو ڈبل جی گینگ وار ہے وہی حکومت کے لیے بحران پیدا کرنے کا اصل سبب ہے۔ بظاہر حکومت کی حکمت عملی سے ایسا لگتا ہے کہ وہ حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے مخالف عمران خان کی سیاست میں بھی سخت ردعمل کی سیاست بالادست نظر آتی ہے۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود بھی اپنی جذباتی سیاست کی بنا پر اپنے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ عمران خان کو اسلام آباد میں ضرور دھرنا دینا چاہیے تھا، لیکن ان کی جانب سے لاک ڈاؤن کا اعلان سمجھ سے بالاتر تھا، اس نکتے نے بلاوجہ حکومت اور دیگر فریقین کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا کہ عمران خان طاقت کے زور پر شہر کو بند کروانا چاہتے ہیں، جو دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔
حکومت اور اس کے اتحادیوں کی یہ بات درست ہے کہ معاملات کو سیاسی بنیادوں پر بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے، اور لڑائی کو پارلیمنٹ اور قانونی محاذ پر ہی لڑا جانا چاہیے، سڑکوں کی سیاست مسئلے کا حل نہیں۔ اصل میں یہ سیاسی تضاد ہے۔ جو بھی حکومت ہوتی ہے وہ سڑکوں کی سیاست کے خلاف ہوتی ہے، لیکن جب یہی حکومت خود حزب اختلاف کا حصہ ہوتی ہے تو اس کی سیاست کی بنیاد بھی سڑکوں کی سیاست ہی ہوتی ہے۔ نوازشریف اور ان کی جماعت بھی ماضی میں حکومتوں کے خلاف سڑکوں کی سیاست میں پیش پیش ہوکر وہی کچھ کرتی تھی جو آج حکومتی مخالفین کررہے ہیں۔ اگر ہماری سیاست میں حکومت اور حزب اختلاف مل کر اپنے معاملات سیاسی و قانونی فریم ورک میں حل کرسکیں تو پھر بحران ہی کیوں پیدا ہو! ہماری حکمرانی سمیت سیاسی نظام مسائل کے حل کے بجائے مسائل پیدا کرنے میں حصہ دار بنا ہوا ہے۔ ایک مسئلہ سیاسی، انتظامی اور قانونی اداروں کا ہے۔ اگر واقعی یہاں ادارے خودمختار ہوتے اور آزادانہ بنیادوں پر خود فیصلے کرسکتے تو وہ مسائل کے حل کی کنجی کی حیثیت رکھتے۔ لیکن سیاسی مداخلت کی وجہ سے حکمرانوں نے اداروں کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور کیا ہے۔ اصل میں احتجاجی سیاست کا خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب سیاسی فریقین تدبر اور فہم و فراست کے ساتھ سیاسی عمل کو آگے بڑھائیں۔ بعض لوگ سارا غصہ عمران خان پر نکالتے ہیں لیکن جو دیگر سیاسی فریق ہیں، جو اپنے آپ کو زیادہ جمہوری سیاست دان کہلواتے ہیں وہ بھی کوئی ایسا رول ماڈل نہیں بن سکے کہ ان کی سیاست پر فخر کیا جاسکے۔ اس لیے مسئلہ یہ نہیں کہ عمران خان احتجاجی سیاست کیوں کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اگر وہ یہ سیاست نہ کریں تو کیا کریں؟ کسی کو تو آگے بڑھ کر اس مجرمانہ سیاست کے خلاف آواز اٹھانی ہے، اور بدقسمتی سے ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں نظام کو تبدیل کرنے کی باتیں تو بہت کرتی ہیں، لیکن عملی طور پر ان کی اپنی سیاست بھی یا روایتی طرز کی سیاست سے جڑی ہوئی ہے۔
حکومت کا تضاد یہ بھی ہے کہ ایک طرف وہ عمران خان پر الزام لگاتی ہے کہ وہ حکومت کا سیاسی محاصرہ کرکے اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف حکومت اور اس کے حامی کبھی دبے لفظوں میں اورکبھی کھلے لفظوں میں یہ دہائی دیتے ہیں کہ عمران خان کو حکومت کے خلاف سیاسی چڑھائی میں پسِ پردہ قوتوں کی حمایت حاصل ہے، جیسے 2014ء میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کا دھرنا اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے دیا گیا تھا۔ انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ کی خبر پر پیدا ہونے والا بحران بھی حکومت کے گلے میں پھنساہوا ہے۔ اگرچہ حکومت نے بحران سے بچنے کے لیے وزیر اطلاعات پرویز رشید کی قربانی تو دے دی ہے، لیکن اگر حکومت سمجھتی ہے کہ بحران ٹل گیا ہے، تو یہ درست نہیں۔ بدقسمتی سے اس مسئلے پر خود وزیراعظم کی اپنی بیٹی مریم نوازکا بھی نام لیا جارہا ہے، لیکن جیسے جیسے تحقیقات کا عمل آگے بڑھے گا، حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ اس خبر کو افشا کرنے والا جو بھی ہے اس کا تعلق حکومتی صفوں سے ہے اور اس نے ایک خاص مقصد کے تحت فوج کے بارے میں عالمی برادری میں منفی تاثر دینے اور فوج پر داخلی سیاست میں دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن فوج کی جانب سے جو سخت ردعمل آیا وہ یقیناًحکومت کی توقعات کے برعکس ہے۔ اس خبر نے ایک بار پھر حکومت اور فوج کے درمیان بداعتمادی پیدا کی ہے، یہ بحران آسانی سے حل نہیں ہوسکے گا۔ اگرچہ ابھی حکومت کو بڑا بحران تحریک انصاف یا عمران خان سے ہے، لیکن مسئلہ یہیں تک محدود نہیں۔ پیپلز پارٹی کے بقول اگر اگلے چند دنوں تک حکومت نے اس کے چار مطالبات تسلیم نہ کیے تو وہ بھی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرسکتی ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اور حکومت کے درمیان مفاہمت کا جو پسِ پردہ کھیل موجود ہے اس میں ٹی او آرز کے مسئلے پر عمران خان کیسے جال میں پھنس سکیں گے، وہ بھی اہم نکتہ ہے۔ اس لیے اگر حکومت کا خیال ہے کہ وہ محض کسی مفاہمتی عمل سے مسئلہ حل کرلے گی، تو یہ ممکن نہیں۔ خود پانامہ لیکس کا مسئلہ حکومت کے لیے بڑا دردِ سر بن گیا اور اس سے جان چھڑانا وزیراعظم نوازشریف کے لیے ممکن نہیں۔ یقیناًعدلیہ سے بھی پانامہ لیکس کے مسئلے پر بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں اور عملی طور پر عدلیہ پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرے، اور اگر عدلیہ ماضی کی طرح نظریۂ ضرورت کے تحت آگے بڑھے گی تو عدلیہ کی ساکھ بھی متاثر ہوگی اور دوسری جانب ملک کا جو سیاسی بحران ہے وہ بھی ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائے گا۔ nn