ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب یمن کے سابق صدر عبد ربہٗ منصور ہادی کا وقت پورا ہوچکا ہے اور ان کی حامی طاقتیں امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سارے یمن پر ان کا اقتدار بحال کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔ گو سعودی عرب سمیت دس ریاستیں 16ماہ سے حوثیوں کے ٹھکانوں پر مہلک ترین اسلحہ مثلاً کلسٹربم سے حملے کرتی رہی ہیں اور باغیوں کے زیرانتظام علاقوں کے اقتصادی ڈھانچے کو تباہ کرچکی ہیں، اور جنوبی یمن بشمول عدن کو بازیاب کرالیا ہے، لیکن اس کے باوجود صنعا پر قبضہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ادھر حوثیوں نے نجران، طائف اور دیگر علاقوں پر حملے جاری رکھے ہیں، یہاں تک کہ 28 اکتوبر کو کیتوشا راکٹ داغا جو مکہ مکرمہ سے کچھ فاصلے پر گرا۔ اس سے مسلم ریاستوں میں بجا طور پر تشویش پیدا ہوگئی کہ اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے تو شہری آبادی کے ساتھ مکہ، مدینہ بھی ان حملوں کی زد میں آسکتے ہیں۔
جب کبھی مسلم ریاستوں میں جنگ و جدل کی آگ بھڑکتی ہے تو دیگر مسلم ریاستوں کی کوشش ہوتی ہے کہ متحاربین میں صلح صفائی کرادی جائے جیسے ایران عراق جنگ میں حکومتِ پاکستان فریق نہیں بنی تھی بلکہ دونوں ہمسایہ مسلم ممالک میں جنگ بندی کرانے کی کوشش کی تھی جسے ایران کے روحانی پیشوا امام خمینی نے طیش میں آکر مسترد کردیا تھا، لیکن امریکی قزاقوں کے ہاتھوں ہواپیما ایران کے مسافر طیارے کے گرائے جانے پر انہیں مجبوراً بقول خود ’’زہر کا پیالہ پینا پڑا‘‘، اسی طرح جب پاکستان نے یمن کی جنگ میں ملوث ہونے سے انکار کردیا تو متحدہ عرب امارات کے وزیرمملکت برائے امور خارجہ نے پاکستان کو مزا چکھانے کی دھمکی دی تھی۔ لیجیے مینڈکی کو بھی زکام ہوگیا۔ حوثیوں پر بس نہیں چلا تو پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی اور اپنی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے بھارت کے ہتھیارے وزیراعظم نریندر مودی کو بلالیا، اور جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں اسی سے دبئی میں قائم مندر کا افتتاح کرایا۔ اس رسم کا منظر دیکھ کر ہمیں ایام جاہلیت کے خانۂ کعبہ میں بت جانے کی یاد تازہ ہوگئی۔ خلیجی تلواڑے شاید یہ بھول گئے کہ پاکستان نہ صرف ایٹمی طاقت ہے بلکہ اسلام کا قلعہ ہے جس سے نریندر مودی بھی دہائی مانگتا ہے۔
قصہ کوتاہ اگست میں امریکی وزیر خارجہ نے یمن کے لیے جو امن منصوبہ پیش کیا اُس کی رو سے حوثیوں کو یمن کی مستقبل کی حکومت میں شمولیت کی دعوت کے ساتھ یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ وہ تشدد سے باز آجائیں۔ اس پر سعودی عرب تو خاموش رہا لیکن خلیجی ریاستوں نے لبیک کہا۔
بعد ازاں اقوام متحدہ کے ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد نے عبد ربہٗ منصور ہادی کو جان کیری کی تجویز پر مبنی امن منصوبہ پیش کیا تو انہوں نے 29 اکتوبر کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اس میں باغیوں کو بغاوت کا انعام دیا گیا ہے جو جنگ و جدل میں شدت کا موجب بنے گا۔ گو اس منصوبے کے متن کا سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا گیا تاہم اطلاعات مظہر ہیں کہ اس میں حوثیوں کوصنعاء اور دوسرے شہروں سے قبضہ خالی کرکے اپنے بھاری ہتھیار تیسرے فریق کے حوالے کرنے کو کہا گیا ہے۔ دریں اثناء منصور ہادی کو نائب صدر کا تقرر کرکے اسے اپنے اختیارات منتقل کرنا ہوں گے، اور وہ (نائب صدر) وزیراعظم کا تقرر کرے گا جو یمن کی حکومت تشکیل دے گا جس میں شمالی اور جنوبی یمن کے نمائندوں کی تعداد برابر ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو سعودی عرب سے بڑی مایوسی ہوئی کہ وہ ڈیڑھ سال تک جنگ و جدل کرنے کے بعد بمشکل عدن کو بازیاب کرا سکا، تاہم وہاں امن و استحکام قائم کرنے میں ناکام رہا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کے نزدیک یمن کے جائز صدر عبد ربہٗ منصور ہادی اور ان کے بیشتر وزرا اپنے اعلان کردہ دارالحکومت عدن میں موجود نہیں ہیں بلکہ ریاض میں مقیم ہیں۔ عبد ربہٗ اور ان کی حکومت کے ارکان عدن سے فرار ہوکر ریاض میں پناہ گزین ہیں تو ان کی حیثیت حکمران کی نہیں بلکہ پناہ گزین کی ہوکر رہ گئی ہے۔ ایسی صورت میں اگر اقوام متحدہ کے ایلچی برائے امن اسماعیل ولد شیخ احمد نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے 26 اکتوبر کو حوثی باغیوں کو امن منصوبہ پیش کیا جس کی رو سے پہلے باغیوں کو اپنا بھاری اسلحہ کسی تیسرے فریق کے حوالے کرنا ہوگا، اس کے بعد یمن میں نائب صدر کا تقرر کیا جائے گا جسے صدر عبدربہٗ اپنے اختیارات منتقل کردیں گے، اور وہ یمن کا وزیراعظم مقرر کرے گا جو وزارت بنائے گا، اس حکومت میں شمالی اور جنوبی یمن کی مساوی نمائندگی ہوگی۔(AFP بحوالہ ڈان 30 اکتوبر2016ء)
اس امن منصوبے کا سرکاری طور پر اعلان نہیں ہوا تاہم اطلاعات مظہر ہیں کہ اسے عبدربہٗ منصورہادی کو پیش کیا گیا تھا جنہوں نے 29 اکتوبر بروز ہفتہ اس منصوبے کو یہ کہہ کر مسترد کردیاکہ یہ تو باغیوں کو انعام دینے کے مترادف ہے اور اس سے جنگ میں شدت پیدا ہوگی۔ (AFP بحوالہ ڈان 30 اکتوبر 2016ء)
ہمیں تو یہ گیدڑ بھبکی معلوم ہوتی ہے، اگر موصوف میں اتنی طاقت ہوتی تو صنعا اور عدن سے سر پر پاؤں رکھ کر فرار کیوں ہوتے؟ ان کی حیثیت سعودی عرب میں پناہ گزین کی سی ہے۔ یہ اپنی لڑائی خود نہیں بلکہ غیرممالک سے لڑوانا چاہتے ہیں جبکہ امریکہ اور متحدہ عرب امارات انہیں صدارت سے دستبردار ہونے پر مجبور کررہے ہیں اور ان کی جگہ کسی غیر جانب دار جانشین کی تلاش میں ہیں تاکہ اس ملک میں مزید خون خرابہ نہ ہو۔
اب تک اس جنگ میں سات سے آٹھ ہزار افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں، ان میں نصف سے زیادہ عام شہری ہیں جن میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے، کیونکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ (HRW) کے مطابق اس جنگ میں حملہ آوروں نے اسکولوں، اسپتالوں، پانی کے ذخائر، بجلی گھروں، کھیتوں، مویشیوں کے باڑوں، زرعی آلات کو تاک تاک کر نشانہ بنایا، جبکہ 8 اکتوبر کو صنعا میں جنازے پر بمباری کرکے 140 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
ادھر بین الاقوامی برادری نے امریکہ اور برطانیہ کو اس المیے کا ذمہ دار قرار دیا کہ آخرکیوں ان طاقتوں نے آبنائے باب المندب پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو حوثی باغیوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دی! یمن میں جنگ معرضِ تعطل کا شکار ہوگئی اور وہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا تو امریکی استعمار سارے یمن پر اپنا تسلط قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا اور ناچار اسے حوثی باغیوں سے سمجھوتا کرنا پڑا۔
جب کٹھ پتلی نچانے والے کے ہاتھ سے ڈوری ہی چھوٹ گئی تو بے جان کٹھ پتلیاں تو خود سے نہیں ناچ سکتیں۔ اب جبکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور خلیجی ریاستیں امریکہ کی پشت پناہی کے بغیر یمن کی جنگ نہیں جاری رکھ سکیں تو انہیں مجبوراً حوثیوں سے صلح کرنی پڑے گی۔ سعودی عرب کی خاموشی اس بات کی غمازی کررہی ہے کہ وہ اس لاحاصل جنگ سے تھک گیا ہے جس سے اس کی معیشت کو سخت دھچکا لگا اور ہاتھ کچھ نہ آیا۔ یہ جنگ نوجوان شہزادہ، نائب ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان کی مہم جو طبیعت کی وجہ سے ہوئی کیونکہ ان کا ملک عراق اور شام کی جنگ میں ایران کی مداخلت روکنے میں ملوث تھا۔ اس طرح سعودی مملکت کو دو محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں گراوٹ سے سلطنت کو کثیر خسارہ ہورہا ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی مملکت کو بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے 6 ارب ڈالر قرض لینا پڑا اور حکومت کے اخراجات میں کٹوتی کے لیے اپنے شہریوں کو مفت بجلی، گیس، پانی اور ٹیلی فون کی سہولیات ختم کرکے ان پر محصول (TARIFF) لگانا پڑا جس سے شہری، حکومت سے ناراض ہوگئے۔ غیرسرکاری ذرائع کے مطابق سعودی عرب میں بیروزگاری کی شرح 35 فیصد تک پہنچ گئی، ترقیاتی اور تعمیری منصوبوں پر عملدرآمد رک گیا جس کی وجہ سے تعمیراتی کمپنیوں نے مزدوروں اور انجینئروں کی چھانٹی شروع کردی۔ اس کی شکار بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور فلپائن کی تارکین وطن افرادی قوت نہ صرف بیروزگار ہوگئی بلکہ جو مکہ، دمام اور دوسرے شہروں میں یرغمال بن کر رہ گئی۔ ان کی اجرت تو مہینوں سے ادا نہیں کی گئی، اس پر ستم یہ کہ ان کے آجروں نے ان کے پاسپورٹ تک ضبط کرلیے۔ اس سے ان ممالک میں سعودی عرب کے خلاف منفی جذبات نے جنم لیا۔
یمن کی حالت تو ناگفتہ بہ ہے۔ حوثی باغیوں اور عبدربہٗ ٹولے نے یمن کے مرکزی بینک کو خوب خوب لوٹا، یہاں تک کہ 2014ء میں اس کا سرمایہ چار ارب ڈالر تھا جو اب 1.3 ارب ڈالر رہ گیا ہے(AFP ڈان 2016ء)۔ خلیج میں اومان واحد ملک ہے جو سلامت روی اور صلح جوئی کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس کے وزیر خارجہ علوی بن یوسف نے عرب ریاستوں (سعودی عرب، امارات، کویت، بحرین) کو یمن کی تباہی کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اصل مجرم تو امریکہ ہے جس نے اپنا (1) اسلحہ فروخت کرنے، (2) باب المندب کو اپنے تصرف میں رکھنے، اور (3) ایران کو اپنی باڑھ پر رکھنے کے لیے سعودی عرب اور امارات کو یمن میں خانہ جنگی میں ملوث کیا، لیکن جب ایران نے بڑی طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور مغربی ممالک کے سرمایہ داروں کے لیے اپنی منڈی کے چاروں دروازے کھول دیئے تو امریکہ نے ایران اور سعودی عرب کی رقابت میں کھلاڑی کے بجائے تماش بین کی حیثیت اختیار کرلی اور خلیجی ریاستوں کو حوثیوں سے صلح کرنے پر مجبور کردیا۔ اب جنگ جاری نہیں رہ سکتی۔
لیکن یمن میں جو تباہ کاری ہوئی ہے اس کا تاوان امریکہ، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو اس جنگ زدہ ملک کی تعمیرنو کی صورت میں ادا کرنا ہوگا۔ اگر خلیجی ریاستیں ہنگامی بنیاد پر اس کا بنیادی ڈھانچہ بحال کردیتی ہیں، تباہ شدہ مکانات، کارخانوں، بجلی گھروں، مواصلاتی تنصیبات اور سڑکوں کی تعمیرنو کردیتی ہیں، مآرب کے آثارِ قدیمہ کی اصلی حیثیت بحال کردیتی ہیں اور اسکولوں، مدارس، مساجد کی ازسرنو تعمیر کردیتی ہیں، یمن میں جدید زرعی معیشت بروئے کار لاسکتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یمن کے حوثی باشندے جنگ کی تلخی فراموش کرکے مسلم امہ اور عرب برادری (اصل میں دونوں ایک ہیں) میں شیر و شکر نہ ہوجائیں۔
nn