’’سیاست کی نظر‘‘

ہمارے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار نے گزشتہ اتوار کو پریس کانفرنس کے دوران میں پہلے تو کہا کہ میں ذمے وار ہوں، پھر خود ہی یہ کہہ کر تصحیح کردی کہ اردو ٹھیک کررہا ہوں، میں ذمے دار ہوں۔ پھر پوری تقریر میں، کبھی ذمے واری کا مظاہرہ کیا اور کبھی ذمے داری کا۔ ہم نے گنا تو انھوں نے 17 مرتبہ ذمے وار کہا اور 15 مرتبہ ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔ لیکن منگل کو اپنی پریس کانفرنس میں وہ ذمے داری کا مظاہرہ نہ کرسکے۔ اسی طرح اگر جناب چودھری نثار غلَطْ کو غلْط بروزن فکر کہنا چھوڑ دیں تو اور اچھا ہو۔ ایسا ذمے دار شخص اگر غلَط کو صحیح نہ کہے تو اچھا نہیں لگتا۔
31 اکتوبر کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے اپنے کارناموں کی تشہیر کے لیے کئی اخبارات میں آدھے آدھے صفحے کے اشتہارات شائع کروائے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ محکمہ اطلاعات کے ’’بزرجمہروں‘‘ کی ٹیم نے تیار کیے ہوں گے۔ اس محکمے کی کارکردگی کا ذکر ہم پہلے بھی کرچکے ہیں۔ مذکورہ اشتہار کا جملہ ملاحظہ کیجیے: ’’حکومتِ پاکستان معصوم شہریوں کے جان و مال کو انتشار کی سیاست کی ’’نظر‘‘ نہیں ہونے دے گی‘‘۔ جملے میں ’نظر‘ کا استعمال بے نظیر ہے۔ محکمہ اطلاعات میں بیٹھے ہوئے اعلیٰ افسران کو ’نظر‘ اور ’نذر‘ کا فرق نہیں معلوم۔ نظر کا مطلب تو سبھی جانتے ہیں: دیکھنا، غور کرنا، امید رکھنا، اعتراض، نگاہ، آنکھ کی روشنی، تعلق یا نسبت وغیرہ۔ نظر لگنا اور نظر اتارنا سمیت اس کے کئی معنی ہیں۔ لیکن ’’سیاست کی نظر‘‘ کا کوئی تعلق نہیں۔ یہاں پر ’نذر‘ ہونا چاہیے جیسے اخبارات میں عموماً نذرِ آتش کرنا نظر سے گزرتا ہے۔ مرزا غالب کا ایک مصرع ہے ’’حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی‘‘۔ ’نظر‘ اور ’نذر‘ کا تلفظ بھی مختلف ہے۔ نظر میں پہلے دونوں حروف بالفتح ہیں، کرم کے وزن پر۔ نذر کا مطلب ہے عہد پورا کرنا، منت، چڑھاوا، حوالے کرنا۔ نذر ماننا، نذر گزارنا مستعمل ہے۔ نظر اتاری جاتی ہے اور نذر چڑھائی جاتی ہے۔ نظر پر اودھ کے حکمران واجد علی شاہ اختر کا مصرع یاد آیا ’’وہ تو نظر نظر سے پلاتے چلے گئے‘‘۔ مذکورہ اشتہار کے اس جملے میں ایک اور خامی ہے ’’شہریوں کے جان و مال کو‘‘۔ یہاں ’کے‘ کی جگہ ’کی‘ ہونا چاہیے، چنانچہ اسی اشتہار میں ایک اور جملہ ہے ’’عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے۔۔۔‘‘ کاپی رائٹر یہ طے نہیں کرپایا کہ ’جان‘ سے پہلے ’کے‘ لگایا جائے یا ’کی‘۔ الجھن اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک ہی جملے میں مونث (جان) اور مذکر (مال) دونوں ہوں۔
31 اکتوبر ہی کو حکومتِ سندھ کا نصف صفحے کا اشتہار شائع ہوا ہے جس میں دیوالی کے موقع پر پیپلزپارٹی نے اندھیروں کے خلاف روشنیوں کا جشن مناتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’’اپنے مادر وطن کو روشن کرسکتے ہیں‘‘۔ ماں خواہ کیسی ہی ج ری ہو لیکن رہے گی مؤنث۔ چنانچہ ’اپنی مادرِ وطن‘ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہاں وطن کی نسبت سے ’اپنے‘ کردیا گیا ہے۔ خیر، یہ تو حکومتِ سندھ کا تیار کردہ اشتہار ہے، اس پر کیا بات کی جائے۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ آوے کا آوا ٹیڑھا ہے۔ ہمارے کئی صحافی بھائی جانتے ہی نہیں ہوں گے کہ ’آوا‘ کیا ہوتا ہے اور ’ٹیڑھا‘ کیسے ہوجاتا ہے۔ لیکن سندھ اور بالخصوص کراچی میں اندھیروں کے خلاف روشنیوں کا جشن جس دھوم دھام سے منایا جارہا ہے اس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔
لاہور سے ہمارے نادیدہ کرم فرما جناب افتخار مجاز نے ہمارے پسندیدہ کالم نگار وسعت اللہ خان کا ایک اخبار میں 29 اکتوبر کو شائع ہونے والے کالم کا جملہ بھیجا ہے ’’علم کے تالے کی کنجی سوال کی چابی سے کھلتی ہے‘‘۔ یہ جملہ بلاتبصرہ نذرِ قارئین ہے۔ افتخار مجاز ہی نے لفظ ’پنگا‘ پر اعتراض کیا ہے کہ یہ غیر ادبی ہے، اس کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ ممکن ہے یہ غیر ادبی ہو لیکن اب تو اردو میں آگیا ہے، اردو لغت میں موجود ہے۔ وارث سرہندی کی ’علمی اردو لغت‘ کے مطابق ’پنگا‘ ہندی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے تنکا، لکڑی، انگلی۔ اس کے علاوہ خرابی، دقت اور مصیبت کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ اردو میں انھی معنوں میں مستعمل ہے۔ زبان میں ایک لفظ کا اضافہ ہوا ہے تو پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے۔ ’’پنگا کیوں لیا تھا‘‘ کا لطیفہ تو بہت مشہور ہے، اس کا اطلاق کچھ سیاستدانوں پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ افتخار مجاز کا خیال ہے یہ پنگا غیر اخلاقی تاثر دیتا ہے۔ ہندی ہی میں اسی املا کے ساتھ ایک اور پنگا ہے لیکن اس میں پہلا حرف (پ) بالکسر ہے یعنی پِنگا۔ جس کے پاؤں ٹیڑھے ہوں اسے پِنگا کہتے ہیں۔ غالباً اردو اور پنجابی میں اس کو بانڈا کہتے ہیں۔ لغت کے مطابق ٹیڑھی ٹانگوں والا۔ پنجابی کی ایک دلچسپ مثال یاد آگئی۔ ’’بینگی لتاں تے پولس مقابلے‘‘۔ یعنی ٹیڑھی ٹانگوں کے باوجود پولیس سے مقابلے کا شوق۔ پنجابی میں بینگی کا تلفظ وینگی کرتے ہیں۔ ہندی میں بانڈا کا مطلب بے دُم کا سانپ اور کوزہ پشت بھی ہے۔
امریکہ سے ہمارے ممدوح کمال ابدالی نے وضاحت کی ہے کہ ’’یہ قول کہ عربی میں فتا کوئی لفظ نہیں، میرا نہیں ہے، کسی اور دوست نے یہ رائے دی ہوگی۔ میں قول کے لفظ (لافتا الاعلی) کو اب تک فتیٰ لکھا ہوا دیکھتا آیا تھا اور اس کے معنی جوان لڑکا سنتا آرہا تھا۔ یہی معنی زیادہ قرین قیاس لگتے ہیں۔ کالم میں میبرا ذکر کرنے پر میں ’’مشکور‘‘ ہوں‘‘۔ کمال ابدالی صاحب یہ قول نہیں بلکہ علیؓ کی شان میں ایک شعر کا مصرع ہے۔ اس حوالے سے ’’جوان لڑکا‘‘ بعید از قیاس ہے، گو کہ ایک معنی یہ بھی ہے لیکن علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت سے یہاں دلیر، بہادر، شجاع مناسب ہے۔ عربی زبان پر آپ کی دستگاہ قابلِ تحسین ہے اور اس میں مزید مہارت حاصل کریں کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے۔ لیکن ’’مشکور‘‘ بھی تو عربی کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب عربی لغت میں دیکھ لیجیے۔ اس کا استعمال الٹے معنوں میں ہورہا ہے۔ مشکور کا مطلب ہے جس کا شکریہ ادا کیا جائے، اور شکریہ ادا کرنے والا شاکر ہوگا۔ مشکور صفت اس شخص کی ہوگی جس نے احسان کیا ہے، نہ کہ اس شخص کی جس پر احسان کیا گیا ہے۔ مشکور اسم صفت ہے اور اس کا ایک مطلب پسندیدہ بھی ہے۔ اردو میں غلط طور پر ممنون، شکر گزار اور احسان مند کے معنوں میں آگیا ہے۔ کمال ابدالی لکھ رہے ہیں کہ وہ مشکور ہیں۔
کچھ نام ایسے ہیں جو عموماً غلط لکھے جارہے ہیں۔ ہم نے ایک برخوردار سے نام پوچھا تو انھوں نے اپنا نام طحہٰ بتایا۔ تسلی کے لیے اس کے ہجے بھی پوچھ لیے تو حسبِ توقع ’ط‘ اور ’ح‘ کے ساتھ بتائے۔ ان کو تو سمجھا دیا کہ اس نام میں حائے حطی (حلوے والی ح) نہیں آتی بلکہ یہ ہائے ہوز ’ھ‘ کے ساتھ طہٰ ہے۔ لیکن سنڈے میگزین میں کسی لکھنے والے کا نام یہی طحہٰ چھپا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ پسر انور یہی کہے کہ پہلے اپنی اصلاح تو کرلیں۔ ایک روزنامے میں ایک خاتون صحافی یاسمین طٰہٰ کے ساتھ یہی تماشا ہوتا تھا کہ کبھی تو یہ طٰہٰ ہوجاتا تھا اور کبھی طحہٰ۔ قرآن کریم میں سورہ طہٰ ہے، اس کو دیکھ لیا جاتا۔ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی صفاتی نام ہے جس کو طاہا بھی لکھا جاتا ہے جیسے اقبال کی ایک نعت میں ہے ’’وہی یٰسیں، وہی طاہا‘‘۔
گزشتہ دنوں بعض اخبارات میں ایک خلیجی ریاست کے حکمران کا نام ’’آل تھانی‘‘ پڑھا۔ ہمارے صحافی بھائی یہ کیوں بھلا بیٹھے ہیں کہ انگریزی میں ’ث‘ کے لیے TH استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ بے سوچے سمجھے ’ثانی‘، ’تھانی‘ ہوجاتا ہے۔ پرانی بات ہے، میٹرک کے نتائج آئے تو ان میں ایک لڑکے اوتھمان کا نام دیکھ کر حیرت ہوئی۔ خبریں عموماً انگریزی میں آتی تھیں۔ بے چارہ عثمان اوتھمان ہوگیا۔ اچھا بھلا نام ’رضا‘ انگریزی کے طفیل ’ردا‘ ہوجاتا ہے۔