جمہوری نظام اور صالح قیادت
’’مولانا! ہمارے عوام خود اسلام کے راستے سے بہت دور چلے گئے ہیں، انہیں اسلام سے جذباتی لگاؤ تو ہوسکتا ہے، مگر غالباً ذہنی اور اخلاقی تربیت کے فقدان سے ان میں وہ جوہر نظر نہیں آتا جو اسلامی لیڈرشپ کو جنم دے سکے۔ ایسے میں جمہوری نظام قائم کرنے سے صالح قیادت کیسے بروئے کار آسکے گی؟‘‘
مولانا نے ایک بلند پایہ مفکر کے انداز میں فرمایا:
’’ان دونوں کی حالت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ عوام کی اخلاقی حالت ضرور بگڑی ہوئی ہے اور ان میں جہالت بہت عام ہے، لیکن ان کی قدریں (values) نہیں بدلیں۔ کسی بڑے سے بڑے بدکردار آدمی سے آپ بات کریں، تو تھوڑی دیر بعد محسوس ہوجائے گا کہ اس کی قدریں ابھی وہی ہیں جو ایک مسلمان کی ہونی چاہئیں۔ اپنی بدکرداریوں کے بارے میں اسے یہ تسلیم کرنے میں بھی تامل نہیں ہوگا کہ وہ جو کچھ کررہا ہے، برا کررہا ہے۔ برائی کو بھلائی کہنے والے لوگ عوام کے اندر آپ کو مشکل ہی سے ملیں گے۔
اس کے برعکس مغرب زدہ طبقے کی قدریں تبدیل ہوگئی ہیں۔ ان کا فلسفۂ زندگی بدل گیا ہے۔ اسلام جن چیزوں کو برا کہتا ہے، وہ انہیں اچھا سمجھتے ہیں۔ اور اسلام جن چیزوں کو نیکیوں سے تعبیر کرتا ہے، ان کی کوئی وقعت ان کی نگاہ میں نہیں۔ اسلامی روایات سے وہ منحرف ہوچکے ہیں، بلکہ ان کے اندر ان روایات کے لیے کوئی احترام نہیں پایا جاتا۔ ہماری یونیورسٹیوں میں جو پروفیسر تعلیم دے رہے ہیں، ان میں سے اکثر اس خیال کے حامی ہیں کہ تاریخِ انسانی میں مسلمانوں نے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ ایسے استاد بھی ہماری درسگاہوں میں موجود ہیں جو فرائڈ کے نظریات کے مطابق انبیائے کرام اور ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی تصریح فرماتے ہیں۔ اونچے سرکاری مناصب پر ایسے لوگ رکھے جاتے ہیں جو شراب اور سود کو حلال ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے اور رقص و سرود کو اسلامی تہذیب و ثقافت قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے عقائد اور عوام کے عقائد کے درمیان کوئی مماثلت نہیں۔ اگر اقتدار اسلامی ذہنیت رکھنے والوں کے ہاتھ میں ہو، تو عامۃ المسلمین صرف چند برسوں میں یکسر تبدیل کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ ان کے رگ و ریشے میں اسلامی تصورات اور اقدار موجود ہیں جنہیں ابھارکر عملی شکل دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
[’’ملاقاتیں کیا کیا!‘‘ الطاف حسن قریشی/ صفحہ 86]