8 اگست 2016ء کو سول اسپتال میں ہونے والے خودکش حملے سے متعلق جوڈیشل کمیشن ابھی اپنا کام مکمل نہیں کرپایا تھا کہ ایک اور اندوہناک سانحہ پیش آیا۔ پولیس ٹریننگ کالج کے اندر 24 اور 25 اکتوبر کی درمیانی شب آسان اور منظم انداز میں زیر تربیت پولیس اہلکاروں کے قتل عام نے حکومت اور تحفظ و سلامتی کے تمام اداروں کے دعووں اور سیکورٹی انتظامات کی قلعی کھول دی۔ اس خون آشامی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ حکومت اور ادارے دہشت گردی کے مختلف واقعات پر عموماً کہتے ہیں کہ دہشت گرد آسان ہدف تک پہنچ جاتے ہیں۔۔۔ مگر پولیس کا ایک تربیتی مرکز کیسے آسان ہدف بن گیا؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ پولیس ٹریننگ کالج میں سرے سے سیکورٹی تھی ہی نہیں۔ یہ مرکز سبی روڈ پر شہر سے غالباً 10کلومیٹر پر قومی شاہراہ پر بائیں جانب واقع ہے۔ کچھ ہی فاصلے پر اسی لائن میں تھانہ نیوسریاب کی عمارت قائم ہے۔ کچھ مزید دور فرنٹیئر کور کی چوکی، اسی طرح پولیس اور لیویز کی چوکی قائم ہے۔ گویا یہ شاہراہ اور علاقہ انتہائی حساس ہے جس کے پیش نظر سیکورٹی کا نظام بھی چوکنا ہے۔ ہماری پولیس اور حکومتیں کتنی بیدار ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 105ایکڑ پر محیط اس کالج کے داخلی گیٹ پر تو پولیس اہلکاروں کا پہرہ رہتا ہے مگر اطراف کے کھلے علاقے یکسر نظرانداز تھے۔ اس وسیع رقبے کے حامل کالج کے تین اطراف کی چار دیواری محض تین اور چار فٹ اونچی ہے اور وہ بھی کچی، یعنی گارے کی بنی ہوئی ہے۔ غالباً دس واچ ٹاور بنے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ان میں سے کتنوں پر سپاہی مامور رہتے ہیں! اگر ہوتے تو اتنی آسانی سے محض تین دہشت گردوں کا داخل ہونا کسی بھی لحاظ سے ممکن نہ تھا۔ 24 اکتوبر کی رات دس بجے کے بعد دہشت گرد عقبی حصے سے داخل ہوئے تو ایک واچ ٹاور میں موجود پولیس اہلکار نے انہیں للکارا، فائرنگ ہوئی، اور دہشت گردوں نے اگلے لمحے اہلکار کا کام تمام کردیا اور اسلحہ سمیت بیرکوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پورا کالج گھپ اندھیرے کی لپیٹ میں تھا، یعنی روشنی کا کوئی انتظام تھا ہی نہیں۔ اس طرح ان ظالموں نے نہتے ریکروٹس کو مارنا شروع کردیا۔ یہاں آرمی پبلک اسکول کی مشق دہرائی گئی۔ انہیں روکنا پولیس کے بس میں نہیں تھا۔ چنانچہ کچھ ہی دیر میں فرنٹیئر کور اور آرمی کے دستے پہنچ گئے۔ آرمی کی لائٹ کمانڈو بٹالین کے کمانڈوز داخل ہوئے۔ درمیانی شب کے بعد آپریشن مکمل ہوا۔ ایک دہشت گرد مارا گیا اور دو نے خود کو اڑادیا۔ اس دوران دہشت گرد 60 ریکروٹس کا کام تمام کرچکے تھے۔ آپریشن کے دوران پاک فوج کے کیپٹن سمیت دو اہلکار بھی شہید ہوگئے، جبکہ پاک فوج اور ایف سی کے جوانوں سمیت120سے زائد ریکروٹس زخمی ہوئے جن کو مختلف اسپتالوں میں طبی امداد کے لیے بروقت پہنچایا گیا۔ بلاشبہ اس دوران اسپتالوں اور شہر کے مختلف علاقوں میں منظم سیکورٹی دیکھنے کو ملی تاکہ کوئی اور ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ آپریشن کے ذریعے دوسو سے زائد ریکروٹس کو بحفاظت باہر نکالا گیا۔
دہشت گردوں نے بیرکوں کو بھی خاکستر کردیا تھا۔ یہ آگ یا تو دھماکوں سے بھڑکی تھی یا پھر آتش گیر مادے کا استعمال کیا گیا تھا۔ تین دہشت گرد جو خودکش جیکٹیں باندھ کر آئے تھے ان کے ساتھ اتنی گولیاں تھیں کہ اگر بروقت آپریشن نہ ہوتا تو وہ سینکڑوں ریکروٹس کو مار دیتے۔ اہم سوال یہی ہے کہ تین افراد سینکڑوں گولیاں لے کر اور اتنی بھاری جیکٹیں پہنے ایک حساس چار دیواری میں داخل ہوئے کیسے؟ وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ شہر کے اندر سیکورٹی سخت تھی اسی لیے دہشت گرد شہر کے باہر آسان ہدف تک پہنچ گئے۔ سیکورٹی کے ادارے بخوبی جانتے ہیں کہ دہشت گرد یونہی شہروں اور آبادیوں میں چل نہیں پڑتے، بلکہ وہ اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کے لیے کئی کئی دن، ہفتوں، حتیٰ کہ مہینوں ہوم ورک کرتے ہیں۔ جس جگہ حملہ مقصود ہوتا ہے اس کا بہت قریب اور گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تب جاکر مشن کے لیے اپنے کارندے روانہ کرتے ہیں۔ یہ کارندے دہشت گرد تنظیموں کا اثاثہ ہوتے ہیں، اسی لیے ان کا استعمال ٹھیک ٹھیک ہدف پر کیا جاتا ہے تاکہ ریاست کا زیادہ سے زیادہ نقصان ہو، جس طرح سول اسپتال اور اب پولیس کالج میں ہوا۔ اس کالج کی سیکورٹی کو پولیس کی جانب سے اہمیت ہی نہیں دی گئی ہے۔ حالانکہ 2006ء میں اسی کالج کی فائرنگ رینج میں بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جس کے دھماکوں سے کئی ریکروٹس جاں بحق اور بڑی تعداد میں زخمی ہوگئے تھے۔ نیز کئی دیگر حملے بھی ہوچکے ہیں۔ 6 ستمبر2016ء کو کالج ہذا میں ریکروٹس پاسنگ آؤٹ کی تقریب میں آئی جی پولیس احسن محبوب نے اپنے سپاس نامے میں وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری سے چار دیواری کے لیے فنڈز کی درخواست بھی کی تھی جو وزیراعلیٰ نے منظور کرلی تھی، جس میں تاخیر ہوئی اور نتیجتاً قوم کو یہ خون آشامی دیکھنی پڑی۔ اس روز866 ریکروٹس پاس آؤٹ ہوئے تھے جس کے بعد ان کو انسداد دہشت گردی کی ایک اور خصوصی تربیت دی گئی۔ مابعد ان سے محرم الحرام کی ڈیوٹیاں بھی لی گئیں، جس کے بعد ان کو فارغ کردیا گیا۔ جب گھر پہنچے تو سب کو دوبارہ ٹریننگ کالج پہنچنے کی سختی سے ہدایت کردی گئی۔ یہاں تک کہا گیا کہ اگر کوئی سپاہی تین دن کے اندر حاضر نہ ہوا تو نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ چنانچہ 18 اکتوبر تک ریکروٹس واپس کالج پہنچ گئے تھے۔ جب بعض اہلکاروں نے پوچھا کہ انہیں کیوں طلب کیا گیا؟ تو حکام کی جانب سے جواب دیا گیا کہ کوئی کام نہیں ہے بس آجاؤ،کھاؤ پیو اور موج مستی کرو۔ یعنی اتنے دن سے ریکروٹس فضول دن رات گزار رہے تھے، اور یہ دن دیکھنا پڑا۔ واقعہ کے روز تھریٹ الرٹ بھی جاری ہوا تھا۔ تاہم صوبائی حکومت کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ کیڈٹس کو پاک فوج سے انسداد دہشت گردی کا کورس کرانے کے لیے بلایا گیا تھا۔25 اکتوبر کو وزیراعظم میاں نوازشریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی اور ایم آئی کوئٹہ پہنچ گئے۔ اعلیٰ سطح کا اجلاس گورنر ہاؤس میں ہوا۔ اسی طرح کا ایک اجلاس سول اسپتال کے قتل عام کے بعد
(باقی صفحہ 41پر)
اسی گورنر ہاؤس میں ہوا تھا اور یہی شخصیات اس اجلاس میں بھی شریک تھیں۔ 26اکتوبر کو اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی، ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کوئٹہ آئے۔ اس سے قبل عمران خان بھی پہلے روز پہنچ گئے تھے۔ سراج الحق بھی آئے۔ 30 اکتوبر کو پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کوئٹہ آئے اور اسپتال میں زخمی ریکروٹس کی عیادت کی، میڈیا سے گفتگو کی۔ بلاول بھٹو کا کو ئٹہ کا یہ پہلا دورہ تھا۔26 اکتوبر کو صوبائی اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پی ٹی سی حملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کمیشن کے پاس وسیع اختیارات ہوں گے، کمیشن میں تمام متعلقہ اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے اور یہ ذمہ داروں کا تعین کرے گا۔ اس اجلاس میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کے واقعات کے تدارک کے لیے نئی حکمت عملی بنانے کا فیصلہ ہوا۔ نیز یہ فیصلہ کیا گیا کہ پولیس کی استعداد میں اضافے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے اور فوج کے زیراہتمام پولیس افسران کے لیے ریفریشر کورسز کروایا جائے گا۔
اس واقعے پر بلوچستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف نے صوبائی حکومت کو نااہل اور ذمہ دار قرار دیا۔ اسی طرح کا مؤقف تقریباً تمام جماعتوں کا تھا۔ شہر کوئٹہ میں تاجروں کی تنظیم نے سوگ میں کاروبار بند رکھا جس کی مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی حمایت کی تھی۔ اس سانحے میں شہید ہونے والے کیڈٹس میں سے 18کا تعلق تربت، 15کا پنجگور، 8کا قلعہ عبداللہ، 3 کا تعلق زیارت، دو دو کا تعلق گوادر، ڈیرہ بگٹی، ہرنائی اور کوئٹہ سے تھا۔ باقی کیڈٹس پشین، سبی، خضدار، مستونگ اور لورالائی کے رہائشی تھے۔ داعش نے اگلے روز ہی تین دہشت گردوں کی تصاویر جاری کردیں۔ گویا مردم کشی کی ذمہ داری قبول کرلی۔ بقول آئی جی ایف سی، ان افراد کو افغانستان سے ہدایات دی جارہی تھیں۔
بہرحال یہ پولیس، حکومت اور اداروں کی کوتاہی تھی جنہوں نے دہشت گردوں کو اتنا آسان ہدف فراہم کیا۔ یہ کہنا کہ دہشت گردوں کو ماردیا گیا، چنداں قابلِ فخر بات نہیں۔ کیونکہ یہ دہشت گرد مرنے اور مارنے کے لیے ہی آئے تھے، جس میں وہ کامیاب ہوگئے۔ الغرض پولیس ٹریننگ کالج کی سیکورٹی میں انتہا درجے کی غفلت کا ہر سطح پر نوٹس لیا جائے اور ذمہ داروں سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔