عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ

عدالتِ عظمیٰ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سمیت پانچ متفرق آئینی درخواستوں کی ابتدائی سماعت کرتے ہوئے پاناما دستاویزات کے تنازع پر عدالتی تحقیقاتی کمیشن بنانے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کے دائرہ کار اور قواعد وضوابط حکومت اور حزب اختلاف سے تحریری طور پر طلب کرلیے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے مقدمے کی سماعت سے پہلے فریقین کے وکلا کو ہدایات دیں کہ پہلے وہ اپنے اپنے رہنماؤں سے مشورہ کرکے بتائیں کہ ان کو عدالتی فیصلہ قبول ہوگا۔ اس مقصد کے لیے عدالتِ عظمی نے دو گھنٹے کا وقفہ بھی دیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے سے ایک خطرناک اور پیچیدہ سیاسی بحران کچھ دنوں کے لیے ٹل گیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد حکومت اور حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف جو سیاست کی بند گلی میں پھنستی ہوئی نظر آرہی تھیں انہیں محفوظ راستہ تلاش کرنے کا موقع مل گیاہے۔ اس فیصلے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی نے نسبتاً معقول اور ذمہ دارانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کو کسی فریق کی فتح اور شکست سے تعبیر نہ کیا جائے۔ عدالتِ عظمیٰ کے ابتدائی اقدام کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ عوامی اضطراب کا خاتمہ ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی پاکستان کی سیاست، ریاست اور طرز حکمرانی کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ پاکستان میں اس سے قبل سیاست نظریات ، خیالات اور منشور پر کی جاتی تھی لیکن اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے رہنما اپنے ذاتی اور مالیاتی معاملات میں ایماندار ہیں یا بدعنوان۔ پہلے یہ دیکھا جاتا تھا کہ سیاست اور حکمرانی سے تعلق رکھنے والا مفاد پرست ہے یا اصول پسند ،اب یہ موضوع بھی پس منظر میں چلا گیا ہے اور کرپشن ، بدعنوانی ، اختیارات کا ناجائز استعمال، رشوت خوری، کمیشن سیاست و حکومت کی شناخت بن گئے ہیں۔ احتساب کا مطالبہ پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے، لیکن اب یہ مسئلہ قومی زندگی کا بنیادی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس پس منظر میں عالمی سطح پر پاناما دستاویزات کا انکشاف ہوا، جس میں مختلف ملکوں کے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے نام تھے۔ پاناما دستاویزات کی اشاعت نے عالمی سطح پر ہلچل پیدا کی، آئس لینڈ اور برطانیہ کے وزرائے اعظم کو مستعفی ہونا پڑا، ان دستاویزات میں تقریباً ڈھائی سو پاکستانیوں کے نام بھی شامل تھے، جن میں وزیراعظم کے اہل خانہ کے نام نے پاکستانی سیاست میں بھی ارتعاش پیدا کردیا۔ پاناما دستاویزات کی اشاعت کے ’’محرکات‘‘ کے بارے میں کئی تجزیے سامنے آئے، لیکن اس سے قطع نظر حکومت کے طاقتور مناصب پر فائز افرا دکا فرض ہے کہ وہ اس بات کی فکر کریں کہ مخلوقِ خدا کے سامنے ان کا دامن صاف رہے۔ پاناما دستاویزات کی اشاعت کا دباؤ وزیراعظم میاں نواز شریف پر اتنا تھا کہ انہیں تین بار قوم کے سامنے خطاب کرنا پڑا، انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنے کا اعلان بھی کیا، لیکن حکومت کی ٹال مٹول کی پالیسی کی وجہ سے پاناما دستاویزات کے حوالے سے تحقیقاتی عمل کا آغاز نہیں ہوسکا۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ حکومت نے حزب اختلاف کے اور حزب اختلاف نے حکومت کے تیار کردہ قواعد و ضوابط یعنی ٹرمز آف ریفرنس (TOR) مسترد کردیے۔ محسوس ایسا ہورہا تھا کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں یہ نہیں چاہتی کہ ملکی دولت غیرقانونی طور پر منتقل ہونے والے اسکینڈل کے حقائق سامنے آئیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کے اہل خانہ کے نام کی وجہ سے یہ مسئلہ سیاسی تنازع کا موضوع بن چکا تھا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں مزید ڈھائی سو پاکستانیوں کے نام بھی شامل تھے۔ پاکستان میں بدعنوان طبقات اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ انہیں طاقتور عناصر کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو دستاویزی بنانے سے روکا جارہا ہے۔ ہمارے حکمراں طبقات کی اخلاقی پستی کس جگہ پہنچ چکی ہے اس کی علامت پاکستان میں این آر او جیسے قانون کی منظوری ہے۔ اس قانون کے لیے امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے ثالثی کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کی جڑ تھا۔ حکومت نے طاقت کے استعمال کے ذریعے حالات کو خطرات کے دہانے پر پہنچادیا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے نے سیاسی بحران کو عارضی طور پر ٹال دیا ہے۔ عدالتی تحقیقاتی کمیشن صرف پاناما دستاویزات کے حوالے سے اپنے نتائج قوم کے سامنے پیش کرے گا۔ اگر اس کمیشن نے بدعنوانی کے خلاف غیرجانبدارانہ تحقیق و تفتیش کی بنیادیں رکھ دیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں بدعنوان عناصر کو لگام ڈالے جانے کی ابتدا ہوجائے گی ۔