پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری مخاصمت نے بندگلی میں جانے کے باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جو نیا پینترا بدلا ہے اس پر پوری قوم نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری لڑائی دراصل عمران خان اور شریف برادران کے درمیان سیاسی اور احتجاجی محاذ آرائی سے زیادہ انا اور انانیت کی جنگ کا روپ دھار چکی ہے۔ پچھلے چند دنوں سے میڈیا قوم اور پوری دنیا کو پاکستان اور بالخصوص وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کی جو تصویر دکھا رہا تھا اس پر سوائے افسوس اور ماتم کے اورکیا کِیا جاسکتا تھا! اس ساری صورت حال کے دوران قوم جس ہیجانی کیفیت سے گزری اور خاص کر خیبر پختون خوا کی حکومت نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی سربراہی میں وفاقی حکومت کے خلاف جو محاذ بنایا اور وفاق کے خلاف احتجاج کی خود جس طرح قیادت کی اُس سے ہمارے ہاں سیاست کی ناپختگی اور سیاست کو اپنے ذاتی اور پارٹی مفادات کی بھینٹ چڑھائے جانے کے منفی رویوں کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ میاں نوازشریف اور اُن کے اہلِ خانہ کے طرزِ سیاست اور ان کی مبینہ کرپشن اور پانامہ پیپرز سمیت مختلف فورمز سے ان پر لگائے جانے والے کرپشن کے میگا الزامات کی حقیقت اور اس حوالے سے ثبوتوں کی دستیابی اور عدم دستیابی سمیت احتساب کی بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں من حیث القوم دیکھنا چاہیے کہ آیا کسی بھی جائز اور مبنی برحقیقت مطالبے کو منوانے کا یہ کون سا طریقہ ہے جس نے پوری دنیا میں ہمیں رسوائی سے دوچار کیا ہے۔
2 نومبر کے احتجاج اور اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پی ٹی آئی کی قیادت نے خیبر پختون خوا کو جہاں ان کی اپنی حکومت ہے، مقتل بناکر صوبے اور وفاق کے درمیان صوبائی حقوق کی جنگ کے بجائے محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے جن غلط اور منفی سیاسی روایات کو جنم دیا ہے اس سے شاید ہی کوئی پاکستانی خوش ہوگا۔ 30 اکتوبر اور یکم نومبر کو موٹروے پر وزیراعلیٰ کی قیادت میں مظاہرین نے جو کردار ادا کیا وہ ایک منتخب حکومت اور اس کے منتخب وزیراعلیٰ کے شایانِ شان ہرگز نہیں تھا۔ سیاست میں احتجاج اور خاص کر اپوزیشن کی حکومتی کارکردگی پر تنقید، اور اصلاحِ احوال کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لانا جمہوریت اور سیاست کا حصہ ہی نہیں بلکہ حسن ہے، لیکن حالیہ احتجاج کے دوران اس حسن کو جس بھونڈے انداز سے ماند کرنے کی کوشش کی گئی وہ باعثِ ندامت ہی نہیں قابلِ گرفت بھی ہے۔
2 نومبر کو پی ٹی آئی کے دھرنے کی منسوخی اور دھرنے کے بجائے اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے کے عمران خان کے اعلان سے بظاہر تو تمام محبِ وطن پاکستانیوں اور 2 نومبر کو متوقع گڑبڑ کے خدشات کے تناظر میں مقتدر اداروں سمیت ہر کسی نے سکھ کا سانس لیا ہوگا، لیکن دوسری جانب خان صاحب سے پوچھاجانا چاہیے کہ پوری قوم یک آواز ہوکر اُن سے اسلام آباد بند کرنے کے اعلان کو واپس لینے کی جو درخواستیں کررہی تھی اور وہ جس طرح ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر سرپٹ دوڑ رہے تھے اُن کی اس کیفیت اور دھرنے کی منسوخی کے اچانک اعلان اور دھرنے کے بجائے2 نومبر کو پریڈ گراؤنڈ میں یوم تشکر منانے کے فیصلے سے خود عمران خان اور ان کے بہی خواہوں نے کیا فائدہ حاصل کیا ہے! پُرامن احتجاج جمہوریت کا حسن اور لازمی حصہ ہے۔ حکومت کی کمزوریوں اور خامیوں کی نشان دہی کرنا اپوزیشن کے اہم فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے، لیکن یہ سب کچھ عوام کو اذیت اور پریشانی میں مبتلا کرنے کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام آباد کو بند کرنے کے عمران خان کے اعلان سے پوری قوم پچھلے کئی دنوں سے ذہنی کوفت میں مبتلا تھی۔ اب جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک واضح لائن کھینچ کر حکومت اوراپوزیشن کو عوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے کے احکامات دے دیے ہیں تو اس سے یہ نتیجہ اخد کرنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ ہم اب آہستہ آہستہ ایک بالغ نظر اور ذمہ دار قوم بنتے جارہے ہیں۔ دھرنے کی منسوخی کے عمران خان کے دانش مندانہ فیصلے سے اُن عناصر کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی ہوگی جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری محاذ آرائی میں شدت کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے متمنی تھے۔ اسی طرح جو لوگ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے وزیراعظم نوازشریف اور اُن کی حکومت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے کے الزامات عائد کررہے تھے اب سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکومت کے اس واضح مؤقف اور اعلان کے بعد کہ پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے گا حکومت اسے بلاچوں و چرا اور من وعن تسلیم کرے گی، یہ ان کے منہ پرطمانچہ ہے۔ ان حلقوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ 1990ء کی دہائی نہیں ہے، اب پاکستانی سیاست کے پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے اور پچھلی دو حکومتوں کی پُرامن منتقلی اور نئی حکومتوں کو پُرامن جمہوری انداز میں انتقالِ اقتدار کے بعد ہمارے سیاستدان تمام تر کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود اس قدر آزمودہ اور تجربہ کار ہوچکے ہیں کہ وہ آئندہ کسی بھی مس ایڈونچر کا ساتھ نہیں دیں گے۔
خیبر پختون خوا کی حکومت نے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کے احتجاج میں بطور صوبائی حکومت جو کردار ادا کیا ہے اور اس احتجاج کو بعض حلقوں نے ایک صوبائی یونٹ کی جانب سے وفاق کے خلاف احتجاج کا رنگ دینے کی جو کوشش کی ہے اسے بھی ہماری کمزور سیاسی روایات اور صوبوں اور مرکز کے درمیان پائے جانے والے رویوں اور غلط فہمیوں کے تناظر میں مستحکم جمہوری روایات کے
(باقی صفحہ 41پر)
لیے نیک شگون ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی لڑائیاں صوبوں اور وفاق کے درمیان جنگ میں یوں تبدیل ہونے کا کلچر پروان چڑھنے لگا تو کسی صوبائی اور وفاقی حکومت کے بجائے وفاقِ پاکستان، حتیٰ کہ ریاست پاکستان کو نقصان پہنچنے کے احتمال کو رد کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کی لڑائیوں اور احتجاج کو ان جماعتوں تک ہی محدود رکھا جائے تو یہ سیاست اورجمہوریت کے ساتھ ساتھ وفاق اور ریاست کے لیے بھی بہتر ہوگا۔ پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج میں وزیراعلیٰ نے صوبے کی ساری سرکاری مشینری کو اپنے لیڈر کی خواہش کی بھینٹ چڑھانے میں جوکردار ادا کیا ہے اسے کسی بھی لحاظ سے مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک لاکھ کہیں کہ انہوں نے اس احتجاج میں حکومتی اختیارات اور وسائل استعمال نہیں کیے ہیں لیکن برسرِزمین حقیقت یہی ہے کہ اس احتجاج کے دوران انہوں نے اپنے صوبائی وزرا کے ساتھ مل کر اسلام آباد کی جانب جو مارچ کیا وہ ایک وزیراعلیٰ اور ایک صوبائی حکومت کے شایانِ شان ہرگز نہیں تھا۔ لہٰذا توقع کی جانی چاہیے کہ ہماری سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتیں ملک وقوم اورجمہوریت کے وسیع تر مفاد میں آئندہ ایسی کوئی صورت حال پیدا کرنے سے گریز کریں گی جس کے نتیجے میں صوبائی یونٹوں اور وفاق کے درمیان محاذ آرائی اور کھلی جنگ کا تاثر ابھر کر سامنے آئے۔