مرمت

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہمیں تمام عمر اپنی دیکھ بھال اور مرمت کرنی پڑتی ہے۔ وقت کتنا ہی گزر جائے۔۔۔ ماحول، دوستیاں، تعلیم، حالات، ٹینشن، بیماری، واقعات، حادثات نہ صرف یہ کہ ہماری شخصیت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ بلڈنگ کی طرح ہمارا پلستر بھی اتار دیتے ہیں اور ہماری شخصیت کا ستیاناس کردیتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ گھر کی ذرا سی بدنمائی ہمیں بے چین کردیتی ہے لیکن اپنی شخصیت پر نگاہ نہیں جاتی۔ نہ ہمارے پاس وقت ہے کہ غوروفکر کریں، نہ جذبہ کہ اپنی مرمت کریں۔ مرمت سے یاد آیا، گزشتہ دنوں سارا دن سڑکوں پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا، دور دراز علاقوں میں عزیز رشتہ داروں کے پاس جانا تھا۔ راستے کی جو حالت تھی، سڑکوں اور لوگوں کا جو حال تھا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ ٹریفک بے ہنگم، بے ترتیب۔۔۔ اوورلوڈ گاڑیاں، جگہ جگہ بندھے جانور، سڑکوں کے دونوں طرف جانوروں کے لیے بنائی جانے والی جگہ میں ان کے چارے کی دکانیں، ساتھ ساتھ گھروں اور دکانوں کے آگے تجاوزات، حد سے بڑھے ہوئے جنگلے، اس پہ رش سونے پر سہاگا۔ کٹی پھٹی، اجڑی، پانی اور کچرے سے بھری اکھڑی ہوئی سڑکیں اور ان پر رواں ٹریفک جو صرف گاڑیوں کی لائٹوں پر مبنی تھا۔ یقین جانیے ایک اچھے خاصے نارمل بندے کی روح فنا ہوجائے۔ ٹریفک کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں۔ موٹرسائیکلوں کی تعداد اور موٹرسائیکل پر بیٹھنے والوں کی تعداد، جو دو سے بڑھ کر چھ ہوگئی ہے، بلا روک ٹوک کسی بھی جانب سے کسی بھی اسپیڈ سے چلی آئیں، اور اوپر سے کچرے اور تعمیراتی مواد کے جابجا ڈھیر مزید رکاوٹ! ہم الحمدللہ مسلمان ہیں، راستے سے کانٹا ہٹانے پر صدقے کے انعام سے نوازا جائے گا، تو ساتھیو آج ہمارا کیا حال ہوگیا ہے! ان حالات سے زیادہ ہماری شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اس لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح، اپنی مرمت کرتے ہوئے تمام قسم کی رکاوٹوں اور تکلیفوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے انفرادی طور پر اپنا حق ادا نہ کیا اور معاشرے کے سدھار میں حصہ نہ لیا، جذبۂ انسانیت اور خیرسگالی سے حکومت کے ساتھ تعاون نہ کیا، ان سڑکوں کو فوری مرمت کرکے، گندے پانی کی نکاسی کے نظام کو درست کرکے، خود منظم اور باشعور ہوکر دوسروں کی مشکلات کو دور کرنے میں اپنا دینی، اخلاقی، انسانی فریضہ انجام نہیں دیا تو گویا ہم خود برائیوں کو جنم دے کر معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنے۔ یہ انسانیت کا شیوہ نہیں۔ اپنا شہر، اپنا ملک، اپنا علاقہ، اپنی راہیں ہموار کرنے میں اپنی انا کو قربان کرڈالیں کہ پانی حد سے گزر چکا ہے۔ وقت کا، انسانی جانوں کا، اچھے رویوں کا نقصان کرکے انسان کبھی سکونِ دل حاصل نہیں کرسکتا۔ محبت تو قربانی مانگتی ہے اپنی محنت کی، مال کی، وقت کی، بلکہ ضرورت پڑنے پر جان کی بھی۔ تو پھر سوچیے کہ ان سڑکوں اور گزرگاہوں پر کانٹے اور روڑے تو بہت معمولی چیزیں ہیں، خودساختہ رکاوٹوں کے پہاڑ کون ہٹائے گا؟ ذرا سوچیے۔۔۔ ترقی صرف ٹیکنالوجی، تاحدِ نظر گاڑیوں، پلوں، بلڈنگوں، ہوٹلوں کا نام نہیں، بلکہ ان تمام اشیاء کے ہوتے ہوئے منظم اور ہمدردانہ مستقل رویّے کا نام ہے۔ منظم، شائستہ اور مہذب زندگی کا نام ہے۔ ایک دوسرے کے لیے آرام اور سکھ پہنچانے کا نام ہے۔۔۔ نہ کہ تکلیف پہنچانے کا۔ احساس جگائیے، انسانیت اپنائیے، قربانی کے صحیح مفہوم کو سمجھیے، ایک دوسرے کے لیے جان دینے والے بنیے۔۔۔ نہ کہ بے ربطی، بگاڑ، منفی اور متضاد رویوں سے اپنی اور دوسروں کی زندگی کو وبال بنائیں۔ یاد رکھیے زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ اپنی مثبت سوچ اور عمل سے اسے امر بنا لیجیے۔ اللہ کی مدد کے ساتھ قربانی کے اس جذبے کو اپناکر اپنی شخصیت کی مرمت کر ڈالیے اور اپنی راہوں کو خود ہموار کرنے کا بیڑا اٹھایئے۔ کیا ہم نہیں چاہتے کہ مالکِ دوجہاں ہمارا بیڑا پار لگا دے؟
لطیف النساء/ ناظم آباد کراچی
عالمی شیطانی کھیل
گزشتہ دنوں سابق بھارتی آرمی جنرل پاکستانی چینل پر آن لائن فرمانے لگے کہ ’’کشمیر میں ایک بیماری ہے جسے جماعت اسلامی کہتے ہیں‘‘۔ اس بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کشمیر میں اب تک لاکھوں بے گناہوں کو شہید کردیا گیا۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے ہاتھوں جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کو پھانسی دے کر شہید کیا گیا۔ کراچی میں ہی را کے ایجنٹوں نے جمعیت اور جماعت اسلامی کے سیکڑوں کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ اور اغوا و تشدد کے بعد شہید کردیا اور اس کے باوجود بیماری جماعت اسلامی کو قرار دیا جارہا ہے۔ حالانکہ بھارت کا مکروہ و گھناؤنا چہرہ اب ان واقعات اور پاکستان میں کھلی اور بے جا مداخلت کے بعد دنیا کے سامنے پوری طرح بے نقاب ہوچکا ہے لیکن دنیا میں امن کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا۔ پاکستان میں کل بھوشن سمیت ’را‘ کے کئی ایجنٹ پکڑے گئے جنہوں نے دہشت گردی کا اعتراف بھی کیا۔ کراچی میں پکڑے جانے والے دہشت گردوں نے را سے فنڈنگ اور اسلحہ ملنے کا اعتراف کیا۔ کراچی میں ہونے والے کئی واقعات اور بڑی اور اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا اعتراف کیا گیا۔ لیکن مجال ہے کہ ڈھکے چھپے انداز میں ہی سہی، جماعت اسلامی اور جمعیت کے افراد کو مارے جانے کا اعتراف کیا گیا ہو۔ ایسا ہوتا بھی کیوں؟ امن کے نام نہاد عالمی ٹھیکیداروں کی اصل جنگ ہی ازل سے اسلام اور اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کرنے والوں سے ہے، اس لیے ساری دنیا میں کہیں میر جعفروں اور کہیں بھارت جیسے اسلام دشمنوں کے ہاتھوں اسلام پسندوں کی تحریکوں کو دبانا اور انھیں ختم کرنا ان ٹھیکیداروں کا ایجنڈا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارتی مکاروں کو اُن کے مکرو فریب کے باوجود سر پر چڑھاکر رکھنا اور اُن کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردی کے لگائے جانے والے ہر الزام پر آنکھیں بند رکھنا عالمی شیطانی کھیل کا حصہ ہے۔ بھارت کے جنگ کے دعوے اور اس کی بڑھکیں دیگر اسلام دشمن طاقتوں کی بے جا حمایت کا نتیجہ ہے تاکہ پاکستان کو سرحدوں اور اندرونی دہشت گری میں پھنسا کر دباؤ میں رکھا جائے۔ بے شک دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے لیکن بھارت اس پوزیشن میں نہیں کہ پاکستان سے تنہا مقابلہ کرسکے۔ کشمیر میں پاکستان زندہ باد کے گونجتے نعرے اور مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کی لاشیں چھوڑ کر بھاگنا اس کا واضح ثبوت ہے۔ تمام عالم اسلام کی نظریں پاکستان پر ہوتی ہیں لہٰذا پاکستانی حکمرانوں کو امتِ مسلمہ کی بھلائی اور اپنے ملک کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی بنانے اور دوٹوک مؤقف دنیا کے سامنے پیش کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ عوام بھی ان حالات کے تناظر میں اپنی آنکھیں کھولیں اور آئندہ ایسے حکمران منتخب کریں جنہیں اسلام اور پاکستان کا مفاد عزیز ہو۔
اے سید/گلشن اقبال زون، کراچی
کرپشن سے بچا جائے
ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے۔۔۔ اقتصادی، سماجی یا انتظامی کوئی شعبہ اس سے نہیں بچا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ کوئی بھی علاج کرلیا جائے، پاکستان کی حالت بدتر سے بدتر ہوتی جارہی ہے! 1990ء کی دہائی میں اخبار میں چھوٹی سی خبر بھی بڑے سے بڑے بیوروکریٹ یا وزیر کے پسینے چھوڑنے کے لیے کافی ہوتی تھی، مگر اب صورت حال اس کے برعکس ہے، روز اخبارات میں ایک نئی خبر چھپتی ہے اور پھر وہ مذاق بن جاتی ہے۔ عمران فاروق کیس میں سب کچھ واضح ہے مگر مصلحت مجرموں کو روز تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ایان علی کرنسی اسمگلنگ میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود کھلے عام گھوم رہی ہے۔ ایک دانشور، تعلیم داں اور محقق انوار احمد زئی اس الزام میں پابندِ سلاسل ہیں کہ انہوں نے آج سے دس برس قبل میرپور خاص بورڈ میں چار افراد کو ضابطے پورے کیے بغیر نوکری دے دی تھی۔ یہ تو تعلیم دانوں کا حال ہے، اور کس کس کی بات کریں! اللہ ہمارے ملک کو کرپشن اور کرپٹ لوگوں سے بچائے۔