احمد حاطب صدیقی
اخلاقی اعتبار سے ارذل مگر مادّی لحاظ سے ارفع مقام کی حامل عالمی طاقتوں نے اِس وقت اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف متعدد معاندانہ محاذ بیک وقت کھول رکھے ہیں۔ ایک طرف دُنیا کے تمام مسلمانوں کو سیاسی، معاشی اور عسکری جارحیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو دوسری طرف ان پر فکری، نظری، تمدنی اور ثقافتی یلغار بھی کی جارہی ہے۔ بہت منظم انداز میں، محسوس اور غیر محسوس دونوں طریقوں سے اورطے شدہ منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے عقاید اور ایمانیات کی بنیادیں کھودنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کبھی قرآن کو پھانسی دینے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ کبھی مسلمانوں کی وحدت، اخوت اورعقیدت کے مرجع، ملجا اور ماویٰ جناب رسولِ کریم علیہ الصلوٰۃ و تسلیم کے گستاخانہ مضحک خاکے شایع کیے جاتے ہیں۔کبھی ’سیاسی اسلام‘ اور ’صوفی اسلام‘ کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے اور کبھی اسلام کے مسلمہ، متفق علیہ اور غیر مبدل احکام کو تاویلات اور تعبیرات کے الجھاوے دے کر اور فلسفیانہ تشکیک کانشانہ بنا کر انہیں بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکنے کی سعی کی جاتی ہے۔ساتھ ہی ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کے اعلانیہ اور مخفی لائحہ عمل کے طور پر قرآن و سنت کے منشا کے بالعکس نئے نئے بیانیے سامنے لائے جارہے ہیں اور اسلامی فکر کو’مشرف بہ مغرب‘ کرکے گویا انہیں کلی طور پر فرنگی تخیلات کے تابع بنانے کی ’ذمہ داری‘پوری کی جارہی ہے۔اسی ضمن میں ، صدیوں کی گرد میں دبے ہوئے کچھ گڑے مُردے اُکھاڑکر چند پُرانے فتنے، نئے تناظر میں اُبھارے جا رہے ہیں۔
انہی فتنوں میں سے ایک ’فتنہ انکارِ حدیث‘ اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر پیدا ہونے والا ’فتنہ انکارِ سنت‘ بھی ہے۔یہ فتنہ جب بھی اُٹھا بیرونی فلسفوں ہی کے زیر اثر اُٹھا۔ابتدا میں یہ فتنہ عجمی اور یونانی فلسفوں کے مطابق اسلام کی من مانی تعبیر کی غرض سے گھڑا گیا اور عصرِ موجود میں اسلام کو مغربی فلسفوں سے ہم آہنگ کرنے کی سعی نامشکور کے طور پربرپاکیا گیا ہے۔ دونوں ادوار کے فتنہ پردازوں کے مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ’حدیث و سنت‘ ہی ثابت ہوئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ارشادات اور آپؐ کے اُسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر ہی امت مسلمہ وہ مضبوط اور مستحکم قرآنی معاشرہ وجود میں لاتی ہے جو ’اسلامی معاشرہ‘ کہلاتا ہے۔لہٰذا اسلام کے عقاید اور اُصولوں کو اُلجھا دینے اور اُن کی من مانی تعبیر کرنے کے لیے ضروری ٹھیر اکہ ’حدیث‘ کو مشکوک قرار دیا جائے اور ’سنت‘ کو حجت یا حرفِ آخر ماننے سے انکار کر دیا جائے، تاکہ اطاعت و اتباعِ رسولؐ کے مضبوط حصار سے آزاد ہو کر قرآن کی جدید اور من پسند تعبیر کی جاسکے۔
وطن عزیز پاکستان میں ’تحریکِ انکارِ حدیث و سنت‘ کے سب سے معروف داعی غلام احمد پرویز (۱۹۰۳ء ۔۱۹۸۵ء) تھے۔ قیامِ پاکستان سے قبل پرویز صاحب کے عقاید اور نظریات وہی تھے جو پوری امت مسلمہ کے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ’’تہذیبِ مغرب کے معرکۃ الآراء کارناموں‘‘ سے متاثر ہو کر قرآن اور اسلام کی ویسی ہی تشریح و تعبیر کرنے لگے جو مغرب کو مطلوب اور مغرب کا مقصود ہیں۔ ان میں یہ تبدیلی کیسے آئی اور کیوں آئی؟ یہ جاننے اور جانچنے کے لیے پرویز صاحب کی فکر کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینا ناگزیر ہے۔
یہ ناگزیر کام ممتاز محقق جناب شکیل عثمانی نے کیا ہے۔ ’’جناب غلام احمد پرویز کی فکر کا علمی جائزہ‘‘ کے عنوان سے شایع ہونے والی اپنی تازہ تالیف میں شکیل عثمانی صاحب نے جنابِ پرویز کا علمی و تحقیقی محاکمہ کرنے والے مختلف علما اور دانش وروں کی تحریروں کا انتخاب کرکے انہیں یکجا کر دیا ہے۔ اس سے قبل یہ تحریریں مختلف رسائل و جرائد اور کتب میں بکھری ہوئی تھیں۔ ان مضامین کے یکجا ہو جانے سے ’فکرِ پرویز‘ کا مجموعی اور مفصل خاکہ قاری کے سامنے آ جاتا ہے اورصورتِ حال بیّن اور واضح ہو جاتی ہے۔ اس کتاب کی تالیف کی ضرورت کا خیال انہیں کیسے آیا؟ اس کا اندازہ اُن کے دیباچے کی چند سطروں سے ہوتا ہے۔ جناب شکیل عثمانی اپنے دیباچے میں پرویز صاحب کے مخصوص اندازِ فکر کا تعارُف کرانے کے بعد لکھتے ہیں:
’’اگرچہ اہلِ علم نے اس نقطۂ نظر پر بھرپور تنقید کی جس کے نتیجے میں پرویز صاحب کا حلقۂ فکر انتہائی محدود رہا ، لیکن ماضی قریب میں حکمرانوں اور عدلیہ کا ایک طبقہ نہ صرف اس فکر سے متاثر ہوا بلکہ اس نے اس کی سرپرستی بھی کی اور اب بھی بعض متجدد دانش وروں کے ہاں اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے، بنا بریں جنابِ پرویز کی فکر کے علمی جائزے کی ضرورت ہے‘‘۔(ص۷)
اس کتاب میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی،مولانا قمر احمد عثمانی، مولانا ماہرالقادری،پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر محمد دین قاسمی، پروفیسر وارث میر، جناب خورشید احمد ندیم اور خود جناب شکیل عثمانی کے مضامین شامل ہیں۔
کتاب کے مطالعے سے نہ صرف تحریکِ انکارِ سنت کی پوری تاریخ سے آگاہی ہوتی ہے، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں یہ تحریک کبھی قبولیتِ عام حاصل کر سکی نہ پنپ سکی۔ہر دور میں یہ فتنہ اپنی موت آپ ہی مرا۔بقول مولانا مودودی:
’’عام مسلمانوں کے ذہنی سانچے میں یہ غیر معقول بات کبھی ٹھیک نہ بیٹھ سکی کہ آدمی رسولؐ کی رسالت پر ایمان بھی لائے اور پھر اس کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن سے اُتار بھی پھینکے۔ ایک سیدھا سادا مسلمان جس کے دماغ میں ٹیڑھ نہ ہو، عملاً نافرمانی کا مرتکب تو ہو سکتا ہے، لیکن یہ عقیدہ کبھی اختیار نہیں کر سکتا کہ جس رسولؐ پر وہ ایمان لایا ہے اس کی اطاعت کاوہ سرے سے پابند ہی نہیں ہے۔یہ سب سے بڑی بنیادی چیز تھی جس نے آخر کار منکرین سنت کی جڑ کاٹ کر رکھ دی‘‘۔ (ص:۱۷)
اس کتاب میں منکرینِ حدیث و سنت کی اِس بنیادی فکر کا مسکت دلائل کے ساتھ مکمل محاصرہ کیا گیا ہے کہ’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے قرآن کے سوا کوئی چیز بھی امت کو قابل اعتماد ذرائع سے نہیں ملی ہے‘۔ مولانا قمراحمد عثمانی لکھتے ہیں:
’’یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم یقینی کیوں ہے؟کیا وہ اس لیے یقینی ہے کہ وہ امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے وقت سے آج تک تواتر کے ساتھ اسی طرح متوارث چلا آرہا ہے۔اگر یہ بات ہے تو امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے وقت سے آج تک تواتر کے ساتھ سنت کا ایک حصہ بھی اسی طرح متوارث چلا آرہا ہے۔تو اگر قرآن اس اعتبار سے یقینی ہے تو سنت کا وہ حصہ یقینی کیوں نہیں ہے؟مثلاً نمازوں کے اوقات، یہ بات کہ نماز پنج وقتہ ہے۔یہ بات کہ فلاں فلاں نماز کی اتنی اتنی رکعتیں ہیں۔زکوٰۃ کا نصاب، یہ بات کہ فلاں فلاں چیزوں پر زکوٰۃ واجب ہے۔اسی طرح عبادت کی دوسری سیکڑوں چیزیں۔تو اگر تواتر کی وجہ سے قرآن دین کی اساس ہے اس سے ثابت شدہ اُمور ناقابل تغیر و تبدل ہیں تو عمل متواتر سے ثابت شدہ اُمورِ سنت دین کی اساس کیوں نہیں ہیں اور وہ کس دلیل سے قابل تغیر و تبدل ہیں؟‘‘ (ص:۴۹)
مولانا ماہرالقادری نے اپنے مضمون میں پرویز صاحب کی فکر کے تشکیلی مراحل کی گویا ایک تاریخ بیان کرتے ہوئے ان کے بدلے ہوئے افکار کا محاکمہ کیا ہے۔ اس ضمن میں مولانا نے ایک دلچسپ واقعہ بھی تحریر فرمایا ہے:
’’پرویز صاحب کے ابتدائی مضامین میں دینی جھلک پائی جاتی تھی۔ اور ان میں جمہور امت کے دینی عقائد کی مخالفت نہیں کی جاتی تھی۔ توقع تھی کہ ان کا قلم مستقبل میں دین و اخلاق کی اور بڑھ چڑھ کر خدمت انجام دے گا۔ ان مضامین کے سبب مسلمان پرویز صاحب سے حسن ظن رکھتے تھے۔اسی حسن ظن نے انھیں دہلی سیکریٹریٹ کی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے کا موقع عطا کیا۔ کچھ دنوں تک وہ اس خدمت کو انجام دیتے رہے، مگر اسی زمانے میں اُن کے مضامین کا رنگ بدلنے لگا‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ تحریر کے ساتھ پرویز صاحب جمعہ کے خطبہ میں بھی اپنے بدلے ہوئے خیالات کو پیش کرنے لگے۔شروع شروع میں یہ باتیں استعاروں اور کنایوں میں بیان کی گئیں، پھر استعارات و کنایات کے پردے بھی اُٹھنے لگے، سیکریٹریٹ کے لکھے پڑھے لوگ سوچتے ہی رہے کہ اس فتنہ کو کس مصلحت اور حکمت کے ساتھ بند کیا جائے، مگر موسیٰ نام کے ایک چپراسی نے جرأت کرکے مداخلت کی اور پرویز صاحب کو سختی کے ساتھ ٹوکا، بس اس دن کے بعد پھر دہلی سیکریٹریٹ کی مسجد میں پرویز صاحب خطبہ نہ دے سکے اور ایک غیرت مند چپراسی کی جرأت نے اس فتنہ کا سدباب کر دیا‘‘۔ (ص: ۶۴ تا ۶۵)
یوں تو قرآن کی اطاعت کا دعویٰ کرنا اور ساتھ ہی قرآن کے حکم سے فرض ہونے والی اطاعتِ رسولؐ سے آزادی کا اعلان بھی کردینا خود ایک تضاد ہے، جس کے متعلق مولانا مودودی نے کیا خوب لکھا ہے کہ ’’خود قرآن ہی کی رُو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی اطاعت و پیروی ہم پر فرض ہے اور اس سے آزاد ہو کر جوشخص قرآن کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے وہ در اصل قرآن کا پیرو بھی نہیں ہے‘‘۔ (ص: ۱۶۔۱۷) مگر ڈاکٹر محمد دین قاسمی نے ’’تضاداتِ فکرِ پرویز‘‘ کے عنوان سے جناب غلام احمد پرویز کی تحریروں کے حوالے دے کر اُن کی فکر کے پندرہ تضادات اپنے مضمون میں یکجا کر دیے ہیں۔بقول اُن کے:
’’ہمارے ’مفکر قرآن‘ اور ’مفسر فرقان‘ جناب چودھری غلام احمد پرویز صاحب نے قلم تھامنے کے وقت سے لے کر، مرتے دم تک، اس قدر تناقضات و تضادات پیش کیے ہیں کہ :
سفینہ چاہیے اِس بحر بیکراں کے لیے‘‘ (ص:۸۳)
ان پندرہ تناقضات اور تضادات کی تفضیل و تقابل پیش کرکے وہ لکھتے ہیں:
’’تضاداتِ پرویز کی یہ دس پندرہ مثالیں، ان بیسیوں بلکہ سیکڑوں مثالوں میں سے چند ایک ہیں جنھیں مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے‘‘۔ (ص:۱۳۱)
’’پرویز صاحب اور کفر کافتویٰ‘‘ کے عنوان سے شامل کیا جانے والا مضمون مولانا امین احسن اصلاحی نے پرویز صاحب اور اُن کے حمایتیوں کی اس خواہش کے جواب میں لکھا ہے کہ وہ اُس فتوے پر اظہارِ خیال کریں جس میں کم و بیش ایک ہزار علماء نے پرویز صاحب کے کفر پر اجماع کرلیا ہے۔ان علماء میں مسلمانوں کے ہر مسلکِ فقہی و کلامی کے علماء شامل تھے۔پرویز صاحب اور اُن کے حمایتیوں کے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی سنت کے ایک حجت شرعی ہونے سے منکر ہونے‘‘ کا ذکر کرکے مولانا اصلاحی لکھتے ہیں:
’’میں صاف کہتا ہوں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی رسالت کا دوسرے لفظوں میں انکار ہے۔ قادیانی حضرات نے ختم رسالت کا انکار کرکے رسالت کا انکار کیا، آپ حضرات نے سنت کا انکار کرکے۔ راستے دونوں کے بظاہر دو ہیں، لیکن منزل ایک ہی ہے‘‘۔ (ص:۱۵۱)
پرویز صاحب سے کوئی ذاتی پرخاش نہ ہونے، اُن سے دوستانہ مراسم رہ چکے ہونے ، اُن سے ہمدردی رکھنے اور اُن کے دل و دماغ کے بدل جانے کی دُعاکرنے کے بعد مولانا رقم طراز ہیں:
’’لیکن ان کے بارے میں ان ہمدردانہ جذبات کے باوجود میں یہ امرِواقعی بھی واضح کیے دیتا ہوں کہ میں نے جب جب ان کی کوئی تحریر پڑھی ہے تو میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ گو بظاہر وہ صرف حدیث کے منکر ہیں، لیکن حقیقت میں وہ رسالت کے منکر ہیں۔ جو شخص سنت کا منکر ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا رسالت پر ایمان کیا معنی رکھتا ہے؟‘‘ (ص:۱۵۱)
’’آخر میں ہم یہ بات بھی واضح کیے دیتے ہیں کہ پاک و ہند کے جن علماء کے اس فتوے پر دستخط ثبت نہیں ہیں، ان کو اس فتوے سے الگ خیال کرنا محض ایک مغالطہ ہے‘‘۔ (ص:۱۵۳)۔۔۔۔۔۔ ’’میرے جیسے لوگوں کے لیے یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ فتویٰ لکھنا یا اس پر دستخط کرنا میں نے اپنے منصب سے ہمیشہ ایک اونچی چیز سمجھا ہے لیکن یہ بات کہنے میں مجھے ذرا حجاب نہیں کہ پرویز صاحب کے خیالات و عقائد کو میں نے ہمیشہ کفر و ضلالت سمجھا ہے‘‘۔(ص:۱۵۴)
جناب خورشید احمد ندیم نے لسانیات کے تناظر میں فکر پرویز کا جائزہ لیا ہے ۔جب کہ وارث میر کے مضمون ’’مقتدر ’’باس‘‘ اور غرض مند خوشامدی‘‘ میں جناب غلام احمد پرویز کی سیاسی مفاد پرستی کا اور ایوب خان کی کاسہ لیسی کرنے کا ذکرہے۔ جناب شکیل عثمانی کا مضمون ’’پرویز صاحب اور طلوعِ اسلام کا سیاسی کردار‘‘ بھی پرویز صاحب کی بے بصیرتی اور اُن کے فکری تضادات کے شواہد پیش کرتا ہے۔
جناب شکیل عثمانی کی نظرِ انتخاب نے فکر پرویز کی پھیلائی ہوئی گمراہیوں کو مبرہن کرنے کے لیے جن مضامین کا انتخاب کیا ہے اس پر وہ داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ انہوں نے اس کتاب کی تدوین و تالیف پر خاصی محنت کی ہے۔ موزوں ترین مضامین کا انتخاب کیا ہے۔ ماضی کے حوالے ڈھونڈے ہیں اور نئے قارئین کی تفہیم کے لیے حواشی تحریر کیے ہیں۔ہماری دعا ہے کہ ان کایہ کارِ خیربارگاہِ ایزدی سے سندِ مقبولیت حاصل کرے اور تحفظِ منصبِ رسالت کی سعی پر وہ بہترین اجرو ثواب کے مستحق ٹھیریں۔ آمین!
کتاب ’نشریات‘ لاہور نے شایع کی ہے۔ قیمت کہیں درج نہیں جس سے خوش گمانی پیدا ہوتی ہے کہ یہ کتاب قدر دانوں کو ہدیتاً پیش کی جائے گی۔ کتابت کی اغلاط کی بھرمار ہے، جو تحقیق کی کتابوں میں ہو تو ذوقِ مطالعہ پر شاق گزرتی ہے۔ کتاب کے آغاز میں ایک ’صحت نامہ‘ چسپاں کیا گیا ہے تاہم بعض اغلاط کا ذکر اس میں بھی ہونے سے رہ گیا ہے۔ مثلاً کمپوزر صاحب نے (ص: ۱۸ پر) سرسید احمد خان کو ۱۸۱۷ء سے ۱۹۸۹ء تک ۱۷۲؍ برس کی عمرِ طویل بخش دی ہے۔۔۔’دُعا قبول ہو یارب کہ عمرِ خضر دراز‘۔