کربلا اور غیر مسلم شعراء

’’بوستانِ عقیدت‘‘ حضرتِ نور احمد میرٹھی کی ضخیم تحقیقی کتاب ہے۔ سات سو صفحات پر محیط یہ کتاب مرحوم کی برسوں کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط رقم طراز ہیں:
’’نور احمد میرٹھی نے اپنی مرتبہ کتاب میں دورِ قدیم سے دورِ جدید تک اکثر ہندو شعرا کے مرثیوں کو جگہ دی ہے۔ کئی برسوں کی مستقل محنت کے بعد یہ کتاب تیار ہوئی ہے جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت و محبت کو فروغ دینے میں ممد و معاون ثابت ہوگی‘‘۔
ڈاکٹر ہلال نقوی فلیپ پر لکھتے ہیں:
’’انہوں نے یہ کتاب لکھ کر کہ رثائی ادب اس خطے میں بسنے والوں کی مشترکہ تہذیب کا مظہر ہے، رثائیات کے تخلیقی سرمائے کو تعصبات کی کسی دلدل میں نہیں دھکیلا بلکہ وہ اسے آفاقی اقدار کی بلندیوں تک لے کر آئے ہیں‘‘۔
’’بوستانِ عقیدت‘‘ میں حضرتِ نور احمد میرٹھی رقم طراز ہیں:
’’کربلا کا واقعہ زمانی اعتبار سے ساتویں صدی کی آٹھویں دہائی کا ہے اور زمینی اعتبار سے عرب کے ایک مقام کربلا سے متعلق ہے۔ اس معرکۂ حق و صداقت کے بعد پوری انسانی تاریخ متاثر ہوئی اور تمام اقوام نے اس سے حوصلہ اور رہنمائی حاصل کی۔ عالمی تاریخ کا یہ منفرد واقعہ خیر و شر کے تصادم کے حوالے سے ہی یادگار نہیں بلکہ حضرت امام حسینؓ نے قربانی و ایثار سے جو نقوش ابھارے اس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسی وجہ سے حضرت امام حسینؓ دنیا کے کروڑوں انسانوں کے لیے حریت و آزادی کی ایک ایسی علامت ہیں جن سے بلالحاظِ مذہب و ملت ہر انسان محبت کرتا ہے اور دل سے خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔‘‘
برصغیر میں شاید ہی کوئی ایسا اہلِ قلم ہو جس نے اس واقعہ کا تذکرہ اپنے افکار میں نہ کیا ہو۔ تمام نامور غیرمسلم اہلِ قلم نے بھی اس کا اظہار نہایت عقیدت سے کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
حکم تر لوک ناتھ اعظمؔ جلال آبادی
اے کربلا ہے تیری زمین رشکِ کیمیا
تانبے کو خاک سے ہم زر بنائیں گے
اعظمؔ تُو اپنے شوق کو بے فائدہ نہ جان
فردوس میں یہ شعر تیرا گھر بنائیں گے
گرسرن لال ادیبؔ لکھنوی کا شمار اپنے وقت کے قابلِ ذکر شعرا میں ہوتا ہے، آپ کی یادگار کئی کتب ہیں جن میں حمد، نعت، سلام، منقبت پر مشتمل کتاب ’’نذرانۂ عقیدت‘‘ ان کے بھتیجے دھرمیندر ناتھ نے 1984ء میں شائع کرائی۔ سلام کے چند اشعار دیکھیے:
لوحِ جہاں پہ نقش ہے عظمت حسینؓ کی
حق کو شرف ملا ہے بدولت حسینؓ کی
ہوئی ہے تازہ دل میں رسولِؐ خدا کی یاد
کہتے تھے لوگ دیکھ کے صورت حسینؓ کی
تھا اعتقاد میرے بزرگوں کو بھی ادیبؔ
میراث میں ملی ہے محبت حسینؓ کی
بھارت کے صفِ اوّل کے معروف وکیل، صحافی، دانشور، ادیب، شاعر رگھبیر سرن دواکر المعروف راہیؔ امروہوی کے بارے میں تذکرہ نگار عظم امروہوی کہتے ہیں:
’’جہاں تک راہیؔ کی مرثیہ نگاری کا سوال ہے اس کی عمر زیادہ نہیں ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال ہی اس طرف توجہ دی ہے، لیکن وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ عقیدت رکھتے ہیں اور واقعہ کربلا سے بھی متاثر ہیں۔
موقوف کچھ نہیں ہے انیسؔ و دبیرؔ پر
راہیؔ بھی کہہ رہا ہے ترا مرثیہ حسینؓ
میں حق پرست مبصر ہوں اس لیے شبیر!
تمہیں ہی فاتحِ عالم قرار دیتا ہوں
کاش پھر پیغام حق لے کر یہاں آئیں حسینؓ
زندگی کو اک نیا پیغام دے جائیں حسینؓ
سنت درشن جی مہاراج درشنؔ نے اردو، فارسی، ہندی، پنجابی اور انگریزی میں شاعری کی ہے۔ انگریزی منظومات کے دو مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کئی عالمی دورے کیے اور خدا شناسی، خودشناسی اور امنِ عالم کے مختلف پہلوؤں پر افکار پیش کیے۔ ان کے خطبات کا ترجمہ دنیا کی تقریباً چالیس زبانوں میں ہوچکا ہے۔ انہوں نے واقعہ کربلا کو مثالی قرار دیا۔ اپنی نظم ’’فاتح کربلا‘‘ میں کہتے ہیں:
حسینؓ درد کو، دل کو ، دعا کو کہتے ہیں
حسینؓ اصل میں دینِ خدا کو کہتے ہیں
حسینؓ حوصلۂ انقلاب دیتا ہے
حسینؓ شمع نہیں آفتاب دیتا ہے
حسینؓ لشکرِ باطل کا غم نہیں کرتا
حسینؓ عزم ہے ماتھے کو خم نہیں کرتا
حسینؓ سلسلۂ جاوداں ہے رحمت کا
حسینؓ نقطۂ معراج ہے رسالت کا
حسینؓ جذبۂ آزادئ ہر آدم ہے
حسینؓ حریتِ زندگی کا پرچم ہے
حسینؓ صبحِ جہاں تاب کی علامت ہے
حسینؓ ہی کو بھلا دیں یہ کیا قیامت ہے
بروزِ حشر نشاطِ دوام بخشے گا
حسینؓ درشنِؔ تشنہ کو جام بخشے گا
کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ اردو ادب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ وہ نہایت سادہ، آسان اور عام فہم زبان استعمال کرتے ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام ’’طلوعِ سحر‘‘ شائع ہوچکا ہے۔ آپ کا یہ نعتیہ شعر بہت مشور ہے:
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
حضرت امام حسینؓ کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں:
بڑھائی دینِ محمدؐ کی آبرو تُو نے
جہاں میں ہو کے دکھایا ہے سرخرو تُو نے
(باقی صفحہ 41پر)
چھڑک کے خون شہیدوں کا لالہ و گل پر
عطا کیے ہیں زمانے کو رنگ و بو تُو نے
زندہ اسلام کو کیا تُو نے
حق و باطل دکھایا تُو نے
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا سکھا دیا تُو نے
سروجنی نائیڈو کو معروف شاعرہ اور قوم پرست رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے۔ برصغیر کی سیاست میں بھی متحرک رہیں۔ 1925ء میں کانگریس کی صدر منتخب ہوئیں۔ ان کی شاعری کلیات کی شکل میں انگلستان سے شائع ہوچکی ہے۔ ان کی نظم ’’شبِ شہادتِ عظمیٰ‘‘ کا ترجمہ مولانا صفی لکھنوی نے کیا ہے:
برہنہ پا، سیاہ پوش، چشم سفید، اشکبار تیری
مصیبتوں پہ آہ، روتی ہے خلق زا ر زار
ہائے حسینؒ بے وطن، وائے حسینؓبے کفن
پیارے ولیِ حق نما، تیرے مُحب با صفا
جس کی نہیں کوئی مثال، گاڑ گیا وہ اک نشان
جد سے وراثتاً ملی، دولتِ دینِ بے زوال
’’بوستانِ عقیدت‘‘ سے چند پھول اورپیش خدمت ہیں:
ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحرؔ
ہندو بھی ہوں شبیرؓ کا شیدائی بھی
(رام پرکاش ساحرؔ )
لاالٰہ کی سطوتِ شوکت کے حامل زندہ باد
قائدِ اربابِ حق جانِ قیادت زندہ باد
(رانا بھگوان داس)
حضرت نور احمد میرٹھی علیہ الرحمہ نے دیگر تحقیقی کاموں کے علاوہ غیر مسلم ادیبوں، شاعروں کی ’’حمدیہ شاعری‘‘ اور ’’نعتیہ شاعری‘‘ پر جو قابلِ ذکر کام کیا ہے وہ عیاں ہے۔ حمدیہ شاعری پر آپ کی تحقیقی کتاب ’’گلبانگِ وحدت‘‘، نعتیہ شاعری پر تحقیقی کتاب ’’بہرزمان بہر زباں،، (ہزار صفحات)، اور رثائی شاعری پر ’’بوستانِ عقیدت‘‘ یادگار ہیں۔ وہ اس تحقیق کو مزید آگے بڑھانے میں کوشاں تھے کہ اچانک برین ہیمرج ہوجانے کی وجہ سے 17 جون 2012ء کو ہم سے رخصت ہوگئے۔ آپ کے پسماندگان میں صرف آپ کی اہلیہ محترمہ فرزانہ نور صاحبہ ہیں جو گھریلو خاتون ہیں اور آپ کی چھوڑی ہوئی یادگار کتب کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ نور صاحب کی رحلت کے بعد کتابوں کی ترسیل کا سلسلہ موقوف ہوچکا ہے۔ اب کوئی صاحبِ دل اس جانب توجہ دے اور محترمہ فرزانہ نور صاحبہ سے براہِ راست ادارۂ فکرِ نو سیکٹر 35/B گلی نمبر 11، مکان نمبر 78 کورنگی کراچی رابطہ کرکے ان تحقیقی کتب کو دیمک کی نذر ہونے سے بچالے۔راقم نے جامعہ کراچی کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی ہے کہ اس تحقیقی کام کو اپ ڈیٹ کرنے کا اہتمام کیا جائے، ایک طالبہ فوزیہ رحیم اس ضمن میں ایم فل کا مقالہ ’’نور احمد میرٹھی۔۔۔ فن اور شخصیت‘‘ پر کام کررہی تھیں، اب علم نہیں کہ اس کا کیا ہوا۔ قارئین بھی مندرجہ بالا ایڈریس سے یہ کتب حاصل کرسکتے ہیں۔