(ایف سی اہلکاروں پر فاٰئرنگ (اخوند زادہ جلال نور زئی

دس محرم الحرام کا دن کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں امن اور سکون سے گزرا۔ دہشت گردی کے خطرات اگرچہ منڈلا رہے تھے مگر جامع حفاظتی انتظامات کی وجہ سے دہشت گرد اپنے مذموم منصوبے کامیاب نہ کرسکے، حالانکہ محرم کے دوران دہشت گردی کی اطلاعات تھیں۔ بلاشبہ صوبائی حکومت، فرنٹیئر کور اور پولیس نے امن کے قیام کی خاطر ہر ممکن بندوبست کررکھا تھا جس کے لیے سیکورٹی ادارے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ دہشت گردکوئٹہ میں موجود تھے جنہوں نے 4 اکتوبر کو کرانی روڈ پر خواتین کو نشانہ بنایاتھا۔ سول اسپتال خودکش حملہ اسی منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ ان عناصر کو محرم کے دوران تو موقع نہ ملا البتہ14اکتوبر کو کوئٹہ میں فرنٹیئر کور کے اہلکاروں پر وار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ اہلکار سبزل روڈ پر پیدل گشت پر تھے۔ یہ شہر کا نواحی اور خروٹ آباد اسپنی روڈ سے متصل علاقہ ہے۔ ملزمان موٹر سائیکل پر تھے، جب اہلکار قریب پہنچے تو انہوں نے اہلکاروں پر کاری وار کیا، یعنی گولیاں سروں میں ماری گئیں۔ نتیجتاً تین سپاہی عبداللطیف، محمد عارف اور فیض اللہ شہید ہوگئے۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کا نیٹ ورک توڑ دیا جاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد نیا نیٹ ورک فعال ہوجاتا ہے۔ گویا پولیس، ایف سی اور سیکورٹی کے دیگر اداروں اور ان عناصر کے درمیان کشمکش جاری ہے۔
آپریشن ضربِ عضب کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا نیٹ ورک افغانستان منتقل ہوچکا ہے، جہاں سے دہشت گردوں کو خصوصی ہدف کے ساتھ پاکستان بھیجا جاتا ہے۔ ضربِ عضب کے بعد دہشت گردی سے وابستہ عناصر بلوچستان بھی منتقل ہوگئے تھے لیکن ان کے پاس باقاعدہ کمین گاہیں اور ٹھکانے نہ تھے۔ یہ منتشر صورت میں مختلف علاقوں میں ہم خیال لوگوں کے گھروں میں مقیم ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کے خلاف پے درپے کارروائیاں ہوئیں۔ کئی دہشت گردوں کو مارا گیا، کچھ حراست میں لے لیے گئے۔ ان کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو افغانستان فرار ہوگئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اب یہ ڈور افغانستان سے ہلائی جارہی ہے۔
سبزل روڈ پر ایف سی اہلکاروں پر حملے کی ذمہ داری کالعدم لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کرلی ہے۔ لشکر جھنگوی پاکستان، تحریک طالبان پاکستان سے منسلک تنظیم ہے اور اب اس کے تانے بانے داعش نامی گروہ سے جڑ گئے ہیں جو افغانستان میں محدود پیمانے پر وجود رکھتا ہے ۔ افغانستان غیر مستحکم ملک ہے۔ وہاں کی حکومت امریکی تعاون کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ یہ عناصر رفتہ رفتہ جڑیں مضبوط کررہے ہیں۔ امارتِ اسلامیہ (تحریک طالبان افغانستان) ان کے خلاف ہے اور کئی بار اس گروہ کے خلاف کارروائی بھی کرچکی ہے۔ چونکہ امارتِ اسلامیہ ایک متحارب تنظیم ہے جس کو بادی النظر میں امریکہ اور افغان حکومت بھی حزبِ اختلاف تسلیم کرچکی ہے، ان سے مذاکرات کے دور بھی چلے ہیں اور امارتِ اسلامیہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنے ملک افغانستان میں ایک خودمختار اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کررہی ہے اور اس کی مسلح تحریک دراصل ملک سے امریکی انخلاء کے لیے ہے۔ خود مولوی ہبۃ اللہ اخوندزادہ اپنی تنظیم کو ہدایت کرچکے ہیں کہ وہ عوام کے ساتھ عدل اور انصاف کا معاملہ کرے اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت یقینی بنائے۔ انہوں نے یہاں تک ہدایت دی ہے کہ دینی اور عصری علوم کے اداروں کو نہ صرف فعال کیا جائے اور ترقی دی جائے بلکہ ان کی حفاظت بھی کی جائے۔ اسی طرح سڑکوں، پلوں، طبی مراکز کی تعمیر اور حفاظت کی کوشش کی جائے۔ انہوں نے پینے کے پانی کے منصوبوں، تجارت اور زراعت کی ترقی پر توجہ کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ امارتِ اسلامیہ ایک مثالی حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکے۔ اسی مقصد کے لیے امارتِ اسلامیہ کا سیاسی دفتر قائم کیا جاچکا ہے تاکہ دنیا کے ساتھ تعلقات اور روابط قائم ہوں۔ امارتِ اسلامیہ کئی بار عالمی برادری سے اپیل کرچکی ہے کہ وہ ان کی جائز جدوجہد کی حمایت کرے اور ان کے ساتھ مکالمہ کرے تاکہ دنیا کا امارتِ اسلامیہ سے متعلق قائم غلط تاثر دور ہو۔ لب لباب یہ ہے کہ امارتِ اسلامیہ کوئی بیرونی ایجنڈا نہیں رکھتی اور غیر ملکی افواج کے اپنے ملک سے انخلاء کے لیے جہاد میں مصروفِ عمل ہے۔ اس کے برعکس داعش نامی گروہ تخریب پر عمل پیرا ہے۔ عاشورہ کے دن کابل میں ماتمی جلوس پر خودکش حملوں جیسے واقعات ان کے مقاصد میں شامل ہیں۔ جبکہ امارتِ اسلامیہ نسلی، لسانی، مسلکی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہے اور اس نوعیت کے واقعات کی تردید اور مذمت کرچکی ہے۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ امارتِ اسلامیہ کی حقیقت کو تسلیم کرے۔ اور خطے میں امن کا خواب اسی صورت میں شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے جب افغانستان سے غیر ملکی افواج چل نکل جائیں، امارتِ اسلامیہ کے ساتھ مذاکرات ہوں تاکہ وہ قومی و سیاسی دھارے میں شامل ہوکر سیاسی جماعت کے طور پر کام کرے۔ حزبِ اسلامی اور افغان حکومت کے درمیان معاہدہ ہوچکا ہے۔ اگر طالبان بھی سیاسی عمل میں شریک ہوں تو بہت جلد افغانستان میں امن کا سورج طلوع ہوگا۔ ایسی صورت میں تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی اور داعش جیسی تنظیموں کی افغانستان میں گنجائش نہیں رہے گی بلکہ افغان سرزمین ان عناصر کے لیے ’’نوگو ایریا ‘‘بن جائے گی۔ پاکستان کی حکومت اور اداروں کو بھی تب ان دہشت گردوں سے نجات ملے گی، جب افغانستان میں ایک آزاد اور قومی حکومت کی تشکیل ہوگی۔ لشکر جھنگوی اور ٹی ٹی پی پر افغانستان کا در بند ہوگا تو پاکستان میں ان کے لیے کارروائیاں کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ کوئٹہ اور بلوچستان میں مذہب کا جامہ پہنے دہشت گرد کوئی ٹھکانے نہیں رکھتے۔ دہشت گرد منصوبہ بناکر آتے ہیں، سبزل روڈ پر ایف سی اہلکاروں کی شہادت اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔