جماعت اسلامی کا شمار ملک کی اُن چیدہ اورگنی چنی جماعتوں میں ہوتا ہے جو نہ صرف ملک گیر نیٹ ورک رکھتی ہیں بلکہ جنہیں ملک کی قدیم ترین جماعتیں ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ مسلم لیگ اور جمعیت علماء اسلام کے بعد جماعت اسلامی ملک کی تیسری قابلِ ذکر جماعت ہے جو قیام پاکستان سے پہلے قائم ہوگئی تھی اور تمام تر سردوگرم حالات کا مقابلہ کرنے کے باوجود اب تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ جماعت اسلامی تبلیغی جماعت کے بعد شاید ملک کی دوسری بڑی مذہبی جماعت ہے جس کی سیاسی، دعوتی، مذہبی، تربیتی اور خدمتِ خلق کی سرگرمیاں سال کے بارہ مہینے جاری رہتی ہیں۔ جماعت اسلامی کا قیام اور اٹھان، نیز اس کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ یہ مروجہ معنوں میں محض ایک سیاسی یا مذہبی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ ایک تحریک کا نام ہے جس کے بانی اور قائد سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت اور فکر نے برصغیر پاک وہند کے علاوہ پوری اسلامی دنیا، حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ تک کو متاثر کیا ہے۔ جماعت اسلامی کی سب سے بڑی خصوصیت زندگی کے کسی مخصوص شعبے اور گوشے کے بجائے تمام شعبہ جات میں خدمات کی انجام دہی ہے۔ سیاست اور مذہب کو یکجا کرنے کا جو عملی تجربہ جماعت اسلامی نے کیا ہے اس کی مثال ملک کی شاید ہی کوئی دوسری جماعت پیش کرسکتی ہے۔ اسی طرح تعلیم و تربیت، قرآن فہمی، خدمتِ خلق، علم وتحقیق، ادب، رفاہِ عامہ سے لے کر نوجوانوں، طلبہ وطالبات، سرکاری ملازمین، اساتذہ، ڈاکٹروں، تاجروں، مزدوروں، صحافیوں، علماء کرام، خواتین، بچوں حتیٰ کہ قیدیوں اور زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد میں جماعت اسلامی نے اپنی فکری دعوت پھیلائی ہے۔ جماعت اسلامی کو جہاں ایک ملک گیر جماعت ہونے کا شرف حاصل ہے وہاں بین الاقوامی ادارے متعدد مرتبہ جماعت اسلامی کو ملک کی سب سے منظم اور جمہوری جماعت قرار دے چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کا تنظیمی ڈھانچہ چونکہ ایک واضح دستور پر استوار ہے اور یہ شاید پاکستان میں کسی بھی جماعت کا واحد دستور ہے جس پر نہ صرف سو فیصد عمل درآمد ہوتا ہے بلکہ یہ اس دستور اور جماعت کے واضح نصب العین، پروگرام اور طریقہ کار کا اثر ہے کہ جماعت اسلامی اپنی75 سالہ تاریخ میں آج تک ٹوٹ پھوٹ اور دھڑے بندی جیسی سیاسی غلاظتوں سے پاک ہے۔ برصغیر کے روایتی موروثی سیاسی کلچر کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت کے اس لعنت سے پاک ہونے کا نتیجہ ہے کہ ملک کی پڑھی لکھی غریب آبادی کے ساتھ ساتھ لوئر مڈل کلاس کی ایک غالب اکثریت نہ صرف جماعت سے وابستہ ہے بلکہ اس کا واضح اظہار جماعت کی مرکزی قیادت سے لے کر نچلی سطح تک کی قیادت میں واضح طورپر دیکھا جاسکتاہے۔ جماعت کے بانی امیر مولانا مودودیؒ سے لے کر دو عشروں تک امیر رہنے والے بھاری بھرکم مذہبی و سیاسی شخصیت کے حامل قاضی حسین احمدؒ تک اور میاں طفیل محمدؒ سے لے کر سید منورحسن تک جماعت کے جتنے بھی مرکزی امیر گزرے ہیں اُن کا آپس میں کوئی خونیں یا موروثی رشتہ نہیں رہا ہے بلکہ ان کا انتخاب خالصتاً میرٹ اور معیار کے مطابق ہوتا رہا ہے۔ اس ضمن میں جماعت کے انتخابی اور دستوری نظام کوکریڈٹ نہ دینا زیادتی ہوگی جس کی بنیاد پر جماعت کا پورا انتخابی ڈھانچہ فعال کردار ادا کررہا ہے، اور اس نظام کی فعالیت اور شفافیت کا اعتراف متعدد مرتبہ کئی ملکی اور غیرملکی ادارے بھی کرچکے ہیں۔ وطنِ عزیز کو زندگی کے مختلف شعبوں میں تربیت یافتہ ہنرمند نوجوان بڑی تعداد میں دینے کے علاوہ جماعت نے ملکی سطح پر جمہوریت کی بحالی اور استحکام کے لیے جوگراں قدر خدمات انجام دی ہیں پوری دنیا اسے عزت وتوقیر کی نظر سے دیکھتی ہے۔ جماعت اسلامی نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مؤثر اور جارحانہ انداز میں عالم اسلام کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کو ہمیشہ ایک چیلنج اور مشن کے طور پر اپنے سامنے رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کی سب سے بڑی خوبی اپنے کارکنان کی ہمہ جہت تربیت اور انہیں معاشرے کے مفید اور کارآمد شہری بنانا ہے۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی نے جہاد کے میدانوں سے لے کر پارلیمان کے ایوانوں تک اسلام کی سربلندی و بالادستی اور شریعت کے نفاذ کی جو جنگ لڑی ہے اس کی نظیر شاید ہی کوئی دوسری جماعت پیش کرسکے۔ کراچی جیسے میگا سٹی کی بلدیہ عظمیٰ کی نظامتِ اعلیٰ اور میئرشپ سے لے کر چترال، دیربالا، دیر پائین اور بونیر جیسے اضلاع کی نظامتِ اعلیٰ اور دو بار صوبائی وزارتوں میں رہنے کے علاوہ بلدیاتی اداروں، صوبائی وقومی اسمبلیوں اور سینیٹ میں نمائندگی کے باوجود آج تک جماعت اسلامی کے کسی بھی منتخب نمائندے پر کرپشن کا کوئی معمولی، حتیٰ کہ کوئی جھوٹا الزام بھی نہیں لگایا جا سکا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے تصورات کی روشنی میں حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے ملکی سطح پر تاریخ ساز جدوجہد کے علاوہ امتِ مسلمہ کا درد ہمیشہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ محسوس کیا ہے۔ فلسطین، بوسنیا، عراق، شام، برما، فلپائن، افغانستان، مقبوضہ کشمیر، بھارت، چیچنیا، صومالیہ اور سوڈان میں جب غیر اسلامی طاقتوں نے ان ممالک کے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا تو جماعت اسلامی نے ہمیشہ آگے بڑھ کر ان پر ڈھائے جانے والے ظلم وتشددکے خلاف توانا آواز اٹھائی ہے۔
جماعت اسلامی نے وطنِ عزیز میں سیاست اور سیاسی جدوجہد کو ادارہ جاتی حیثیت دینے میں دیگر جماعتوں کے لیے ہمیشہ رول ماڈل کا کردار ادا کیا ہے۔ جماعت اسلامی کو ملکی سیاست میں اب تک زیادہ تر پذیرائی خیبر پختون خوا میں ملتی رہی ہے جس کی وجہ سے خیبر پختون خوا کو انتخابی سیاست میں جماعت اسلامی کا ایک مؤثر بیس کیمپ سمجھا جاتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں پہلے متحدہ مجلس عمل اور اب پی ٹی آئی کے ساتھ شراکتِ اقتدار کے کامیاب تجربات کے بعد جماعت اسلامی کی قیادت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اگر وہ وفاق اور دیگر صوبوں میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے انہیں پہلے خیبرپختون خوا کا سیاسی قلعہ فتح کرنا ہوگا اور یہاں ایک مثالی فلاحی حکومت کی داغ بیل ڈال کر ہی وہ باقی صوبوں اور مرکز میں کسی بڑی تبدیلی اور اپنی حکومت یا فلاحی اسلامی ریاست کے اپنے نصب العین اور خواب کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ اسی احساس کے تحت جماعت اسلامی خیبر پختون خوا نے 2018ء کے عام انتخابات کو ہدف بناتے ہوئے ابھی سے تیاریاں شروع کردی ہیں اور ان ہی تیاریوں کے سلسلے میں جماعت اسلامی نے 22 اور 23 اکتوبر کو مسلم ایجوکیشنل کمپلیکس اضاخیل ضلع نوشہرہ میں ایک بڑا دو روزہ اجتماع عام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں صوبے کے طول وعرض سے تقریباً ایک لاکھ افراد جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس اجتماع کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ یہ اجتماع پندرہ سوکنال کے وسیع وعریض رقبے پر منعقد کیا جائے گا جس میں یوتھ ایکسپو کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ اس ایکسپو میں پاکستان کے نامور کرکٹ اسٹار شاہد آفریدی اور یونس خان کے علاوہ اسکواش کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی جان شیر خان خصوصی طور پر شرکت کریں گے۔ اس اجتماع میں مختلف مقابلوں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے جس کے شرکاء کو بیس لاکھ روپے کے نقد انعامات دیئے جائیں گے۔ مشتاق احمد خان نے کہاکہ اجتماع میں نوجوانوں کے حوالے سے الگ اعلامیہ جاری کیا جائے گا جس میں چار نکات شامل ہوں گے جن میں تعلیم، روزگار، کھیل کے میدان، اور جرائم ومنشیات سے پاک پُرامن ماحول کی فراہمی شامل ہے۔ اجتماع میں خواتین کے لیے الگ پنڈال کا بندوبست کیا گیا ہے جس میں خواتین کی تعلیم و ترقی اور حقوق کے حصول کے لیے بھی الگ سے ایک پروگرام دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اجتماع عام کے پہلے دن دو سیشن ہوں گے، پہلا سیشن گیارہ بجے سے ڈیڑھ بجے تک ہوگا، جبکہ دوسرا سیشن عصر کی نماز سے عشاء کی نماز تک ہوگا، جس سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور دیگر مرکزی وصوبائی قائدین کے علاوہ امیر صوبہ خصوصی طور پر خطاب کریں گے۔ دوسرے دن پہلاسیشن نمازِ فجر سے صبح سات بجے تک جاری رہے گا، جس کے بعد دوسرا سیشن صبح نو بجے شروع ہوگا جو دوپہر ڈیڑھ بجے اختتام پذیر ہوگا۔ اختتامی سیشن سے جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق خصوصی خطاب فرمائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس تاریخی اجتماع میں ترکی کے صدر اور ترک اسلامی تحریک کے قائد رجب طیب اردوان کو خصوصی دعوت دی گئی ہے، اگر وہ اس اجتماع میں شریک ہوئے تو وہ آخری سیشن کے مہمانِ خصوصی ہوں گے۔ اجتماعِ عام میں شرکت کے لیے وزیراعلیٰ پرویز خٹک، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکرصوبائی اسمبلی، خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی، سینیٹرز اور صوبے کے تمام ضلعی و تحصیل ناظمین کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ مشتاق احمد خان نے کہا کہ وہ قبائل کے علاوہ صوبے کے تاجروں، وکلا، صحافیوں، مزدوروں، کسانوں، طلبہ، اساتذہ اور تمام مکاتب فکر سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں، ہم قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی چمکتا دمکتا، پُرامن اور ترقی یافتہ خیبر پختون خوا چاہتی ہے۔ ہم یہاں پر دستیاب قدرتی وسائل کا حقیقی استعمال چاہتے ہیں اور ان وسائل سے تعلیم وصحت اور عوام کو دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے مکمل پروگرام اور روڈمیپ دیں گے۔ یہ اجتماع عام 2018ء کے انتخابات کو انقلابی بنانے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔ ہم اس اجتماع کے ذریعے صوبائی حقوق کے لیے طاقتور آواز اٹھائیں گے۔ سی پیک منصوبے میں خیبر پختون خوا کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی صوبائی حقوق کی اصل ترجمان پارٹی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی پاکستانی چھت کے بغیر نہ ہو۔ ایسا پاکستان ہو جہاں پر گلی کوچے صاف ستھرے ہوں، جہاں کا نظامِ حکومت کرپشن کی غلاظتوں سے پاک ہو، جہاں گڈگورننس اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ ٹرانسپیرنسی کا چلن ہو۔ دراصل ریاست ماں کی گود کی طرح ہوتی ہے، اسی لیے جدید ترین اسلامی فلاحی ریاست ہمارا حتمی ہدف اور منزل ہے۔ مشتاق احمد خان نے کہا کہ کرپٹ اشرافیہ نے ستّر سال سے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ہم اس کرپٹ مافیا سے نجات پانے اور نئی لیڈرشپ کو متعارف کراکے ایک فلاحی اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اجتماع عام کے پلیٹ فارم سے صوبے کے حقوق کے لیے پُرزور آواز اٹھائیں گے اور صوبائی حقوق پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ این ایف سی ایوارڈ کے عدم اجراء، بجلی کے خالص منافع، صوبے کے پانی کے استعمال اور تیل اور گیس کی رائلٹی، مردم شماری، حتیٰ کہ ہر معاملے میں وفاق خیبر پختون خوا کے عوام کا گلا دبا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اجتماع جمہوری روایات کو پروان چڑھائے گا اور جمہوری نظام کی مضبوطی کا ضامن ہوگا۔ یہ اجتماعِ عام پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگا جس کے مثبت اثرات ملک اور عوام کی ترقی اور کرپٹ اشرافیہ سے نجات اور ایک بابرکت اسلامی انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔