حافظ محمد ادریس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ تحریر و تقریر کے فنون میں بھی زبردست دسترس عطا فرمائی ہے، اور حافظ صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ ان خداداد صلاحیتوں سے استفادہ کے لیے اپنے محدود وقت کو نہایت تدبر سے منظم و مربوط انداز میں استعمال میں لاتے اور ایک ایک لمحے کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شدید نوعیت کی تنظیمی مصروفیات کے باوجود تحریر و تقریر اور اندرون و بیرون ملک سفر کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔ ان کے اپنے بقول وہ پہلی بار 28 سال کی عمر یعنی عین عالم شباب میں اپنے مرشد سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حکم پر 1974ء کے اوائل میں کینیا گئے اور مسلسل بارہ برس تک وہاں اسلامک فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے تحریکی ساتھیوں کی تنظیم و تربیت کے فرائض ادا کرتے رہے۔ پھر وہاں سے واپس پاکستان آکر بھی اندرون و بیرون ملک کے سفر جاری رہے اور ’’میں کہاں کہاں نہ پہنچا تری دید کی لگن میں‘‘ کے مصداق انہوں نے اسلامی تحریک کا پیغام پھیلانے کے لیے دنیا کا کونہ کونہ چھان مارا۔ بقول شاعر ’’سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں‘‘ ۔۔۔ حافظ صاحب کے ان تمام اسفار کی روداد تو مرتب نہیں ہوسکی البتہ جو سفر تحریری اور کتابی صورت میں مرتب ہوسکے ان کی چوتھی روداد ’’بلالی دنیا میں شمع اسلام‘‘ کے نام سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔
’’بلالی دنیا میں شمع اسلام‘‘ کے پیش لفظ میں وہ اپنے پہلے تین سفر ناموں کے بارے میں خود رقم طراز ہیں:
’’میری بعض سفری رودادیں مختلف اوقات میں چند مضامین کی صورت میں اخبارات و رسائل میں تو چھپیں، مگر انہیں کسی کتابی صورت میں نہ ڈھالا جاسکا۔ البتہ سب سے پہلا سفر نامہ 1998ء میں ’’حضرت بلالؓ کے دیس میں‘‘ (سفرنامہ افریقہ) کے نام سے چھپا۔ اس میں افریقہ کے تین ممالک کینیا، یوگنڈا اور ساؤتھ افریقہ کے اسفار کی روداد شامل کی گئی تھی، حالانکہ گزشتہ سالوں میں افریقہ کے چند ممالک کے سوا کم و بیش سبھی ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا، حتیٰ کہ بعض وہ خطے جو فرانسیسی استعمار میں رہے، جیسے ماریشس، مڈغاسکر، جیبوتی وغیرہ بھی جانا ہوا۔ بالخصوص جزیرۂ سیشلز (Seychelles) جہاں بہت کم پاکستانی کبھی گئے ہوں گے، وہاں بھی جانے اور قیام کرنے کا موقع ملا، مگر کبھی ڈائری میں اس انداز میں روزنامچہ نہ لکھ پایا کہ اسے مرتب کیا جا سکے۔
دوسرا سفرنامہ 2000ء میں ’’نگری نگری پھرا مسافر‘‘ (سفرنامہ عرب و غرب) کے نام سے چھپا۔ اس میں عرب ممالک میں سے سعودی عرب، کویت، عرب امارات اور قطر کے بعض اسفار کا تذکرہ ہے، جب کہ مغربی ممالک میں سے صرف ناروے کا سفر شاملِ اشاعت ہوسکا۔ اس عرصے میں امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے بیشتر ممالک کے سفر ہوچکے تھے۔ ان کا معاملہ بھی یہی رہا کہ کچھ یادیں تو محفوظ ہیں، مگر ڈائری میں تحریری صورت نہ بن سکی۔ اس سفرنامے میں جن احباب کا ذکر ہے وہ جب بھی ملیں تو ضرور اس کا حوالہ دیتے ہیں۔
تیسرا سفرنامہ ’’دیارِ غیر میں اپنوں کے درمیان‘‘ (سفرنامہ برطانیہ) ہے، جو دسمبر 2012ء میں پہلی بار چھپا۔‘‘
زیرنظر سفرنامہ حافظ صاحب کے 31 اگست سے 23 ستمبر 2015ء تک کے جنوبی افریقہ کے تقریباً تین ہفتے کے دورے کی روداد ہے۔ یہ دورہ اسلامی سرکل جنوبی افریقہ کی دعوت پر تبلیغی و دعوتی مقاصد کے تحت کیا گیا۔ ان کے میزبان اسلامی سرکل جنوبی افریقہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل حافظ ندیم احمد کی، دورے سے متعلق تاثرات اور افادیت کے بارے میں ایک تحریر ’’یادگار سفر کی حسین یادیں‘‘ کے عنوان سے پروفیسر محمد صدیق ظفر حجازی صاحب کے ’’تقدیم‘‘ اور حافظ ادریس صاحب کے ’’پیش لفظ‘‘ کے درمیان شاملِ کتاب کی گئی ہے۔
مصنف نے کتاب میں علاقے اور شخصیات کے متعلق بھاری بھرکم معلومات اور اعداد و شمار جمع کرکے اسے بوجھل بنانے کے بجائے ہلکے پھلکے انداز میں اپنے سفر اور مصروفیات کا احوال بیان کیا ہے، جس سے افریقی ممالک جنہیں حافظ محمد ادریس نے ’’بلالی دنیا‘‘ کا نام دے کر اوائلِ اسلام سے اس خطے کا ناتا جوڑا اور اس کے تاریخی اسلامی تشخص کو نمایاں کیا ہے، میں دورِ حاضر میں اسلامی تحریک کے کام، طریقِ کار اور رفتارِ کار کے ساتھ ساتھ کارکنان و قائدین سے تعارف کا موقع بھی ملتا ہے۔ حافظ صاحب کی تحریر میں روانی، سلاست اور شستگی پائی جاتی ہے اور قاری کتاب کے مطالعے کے دوران خود کو مصنف کے ساتھ محوِ سفر محسوس کرتا ہے۔ حافظ صاحب اپنی گفتگو اور تحریر میں بھی دعوت و تبلیغ کے مقاصد کو کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے اور اپنے سامعین اور قارئین کو اسلامی آداب سکھاتے، دائمی زندگی کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی تلقین کرتے اور توجہ طلب پہلوؤں پر احسن پیرائے میں متوجہ کرتے چلے جاتے ہیں، اور جہاں کہیں کوئی خوبی انہیں نظر آتی ہے اس کے تذکرے اور حوصلہ افزائی میں بھی بخل سے کام نہیں لیتے۔
کتاب عمدہ کاغذ پر مضبوط جلد کے ساتھ شائع کی گئی ہے، سرورق چہار رنگی ہے جس کے پس منظر میں افریقی ممالک کا نقشہ شائع کیا گیا ہے، جس کے اوپر بارہ دری اور کتاب یا شاید ’’الکتاب‘‘ کو اجاگر کرکے اسلامی ثقافت کی عکاسی کی گئی ہے۔ افریقی دنیا میں اسلامی تحریک اور وہاں مقیم پاکستانی باشندوں کے حالات سے دلچسپی رکھنے والے احباب کو اس سفرنامہ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔