متقی انسان کی خوبیوں میں نماز اور راہِ خدا میں انفاق بھی شامل ہے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:
’’اس کتاب میں ہدایت ہے متقیوں کے لیے، وہ لوگ جو غیب پر ایمان رکھتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (البقرہ:3-2)
اللہ تعالیٰ سے تعلق کا بہترین اظہار نماز کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کا اپنے رب سے رشتہ جڑ گیا ہے۔ وہ اسے ملجا و ماویٰ اور سب کچھ سمجھتا ہے۔ اس نے اپنا سر اُس کے سامنے جھکادیا ہے۔ اب اس کا سر کسی اور کے سامنے جھک نہیں سکتا۔ یہ کیفیت تہجد کی نمازوں میں اپنی معراج کو پہنچ جاتی ہے۔ متقیوں کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ وہ نمازِ تہجد کا اہتمام کرتے ہیں۔ سورۂ ذاریات میں متقیوں کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:
’’بے شک تقویٰ والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ وہ اس سے پہلے (دنیا کی زندگی میں) نیکوکار تھے، راتوں کو کم سوتے تھے اور صبح کے وقت اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگتے تھے۔ ان کے مالوں میں سائل اور محروم دونوں کا حق تھا۔‘‘ (الذاریات:19-15)
مطلب یہ کہ ان کی راتیں غفلت اور بے خبری یا عیش و طرب کی راتیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ ان کے لیے تنہائی اور یک سوئی کے ساتھ اللہ کو یاد کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ دنیا تو اپنی نرم و گرم خواب گاہوں میں میٹھی نیند سوتی ہے، لیکن ان کی نیند خدا کے خوف اور خشیت سے اڑ جاتی ہے۔ وہ اپنے بستروں سے اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے مناجات اور سرگوشی کرنے اور اُس کے سامنے رکوع و سجدہ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ انہیں اپنی اس شب بیداری اور عبادت پر کوئی ناز نہیں ہوتا۔ جب سپیدۂ صبح نمودار ہوتا ہے اور قبولیتِ دعا کا وقت آتا ہے تو ان کے ہاتھ استغفار کے لیے اٹھ جاتے ہیں اور وہ اپنے مالک و مولیٰ سے اپنی کوتاہیوں کی معافی چاہتے ہیں۔ یہی بات ایک دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:
’’جو اپنی راتیں اپنے رب کے سامنے سجدہ اور قیام کرتے ہوئے گزارتے ہیں، اور جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! عذابِ جہنم کو ہم سے دور فرما دے۔ بے شک اس کا عذاب تو چپک جانے والا ہے۔‘‘(الفرقان:65-64)
تقویٰ سے راہِ خدا میں انفاق آسان ہوجاتا ہے۔ آدمی ان تمام مدات میں بہ خوشی اپنا مال خرچ کرنے لگتا ہے، جن میں خرچ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ مال کی محبت انفاق کی راہ میں طرح طرح کی ذہنی و نفسیاتی رکاوٹیں کھڑی کردیتی ہے۔ تقویٰ سے ان سب پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے اور آدمی تنگی و فراخی ہر حال میں انفاق کے جوہر کو باقی رکھتا ہے اور مال کی محبت میں اللہ کے دین کے تقاضوں کو فراموش نہیں کرتا۔ ارشاد ہے:
’’دوڑو مغفرت کی طرف جو تمہارے رب کی طرف سے ہے، اور جنت کی طرف جس کی وسعت آسمانوں اور زمین جیسی ہے، جو اُن متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے، جو خرچ کرتے ہیں خوش حالی میں بھی اور تنگی میں بھی، جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ اللہ نیکوکاروں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (آل عمران 134-133:)
جو شخص اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرے اور بندوں کے حقوق نہ پہچانے اُس کا مال ناپاک ہوجاتا ہے، اور ناپاک مال میں جینے والا صاحبِ تقویٰ نہیں ہوسکتا۔ تقویٰ کا مقامِ بلند مال کے تزکیہ کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے اور انسان اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں کا مستحق ہوتا ہے:
’’جہنم سے وہ شخص دور رکھا جائے گا جو بڑے تقویٰ والا ہے، جو اپنا مال اس غرض سے دیتا ہے کہ پاک ہوجائے۔ اس پر کسی کا احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ اسے دینا ہو۔ وہ تو صرف اپنے رب اعلیٰ کی رضا جوئی چاہتا ہے اور وہ ضرور اس سے خوش ہوگا۔‘‘ (الّیل:21-17)
حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ سے نماز اور روزہ کی طرح انفاق میں بھی جان آجاتی ہے، خلوص پیدا ہوجاتا ہے اور وہ ریاکاری اور فریب سے پاک ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی عمل کی مقبولیت کی یہ سب سے پہلی شرط ہے۔