امیر جماعت اہل سنت

حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری ؒ کا وصال اہلسنت کے لیے سانحہ سے کم نہیں۔ حضرت علامہ مولانا سید شاہ تراب الحق قادری قیام پاکستان سے سال قبل 27 رمضان المبارک 1946 ء کو ہندوستان کی اُس وقت کی ایک ریاست حیدرآباد دکن کے ایک شہر ناندھیڑ کے مضافات میں موضع کلمبر میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند اور سقوطِ حیدرآباد دکن کے بعد 1951ء میں ہندوستان سے ہجرت فرماکر پاکستان تشریف لائے اور کراچی میں قیام فرمایا۔ کچھ عرصہ پی آئی بی کالونی کے قریب لیاقت بستی نامی آبادی میں رہے۔ اس کے بعد کورنگی منتقل ہوگئے۔
ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ دودھ بولی بیرون دروازہ نزد جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ پاکستان آنے کے بعد پی آئی بی کالونی میں قیام کے دوران ’’فیض عام ہائی اسکول‘‘ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے رشتے کے خالو اور سسر پیر طریقت رہبرِ شریعت قاری مصلح الدین صدیقیؒ سے گھر پر کتابیں پڑھیں، پھر ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ میں داخلہ لے لیا جہاں زیادہ تر اسباق قاری صاحبؒ کے پاس پڑھے اور سند صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ امجد علی اعظمیؒ (متوفی 1367ھ) کے صاحبزادے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ ازہریؒ سے حاصل کی، جبکہ اعزازی سند وقارالملت سرمایۂ اہلسنت حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی حنفی علیہ الرحمہ سے حاصل کی جو اُس وقت ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی کی مسندِ افتاء پر فائز تھے۔
آپ کا نکاح 1966ء میں حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقیؒ کی دختر نیک اختر سے ہوا، جس سے اللہ تعالیٰ نے تین فرزند سید شاہ سراج الحق قادری، سید شاہ عبدالحق قادری اور سید شاہ فریدالحق اورچھ بیٹیاں عطا ہوئیں۔
سلسلہ عالیہ قادریہ، برکاتیہ، اشرفیہ، شاذلیہ، منوریہ، معمریہ اور دیگر تمام سلاسل میں آپ کو اپنے پیر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ، اپنے استاد، حضرت علامہ قاری مصلح الدینؒ اور قطب مدینہ شیخ عرب و عجم حضرت علامہ مولانا ضیا الدین مدنیؒ کے صاحبزادے زینت العلماء مولانا فضل الرحمن مدنیؒ سے خلافت و اجازت حاصل تھی۔ ماہنامہ ’’مصلح الدین‘‘ کی اشاعتِ خاص ’’مصلح الدین نمبر‘‘ (اگست2002 ء/ جمادی الآخر1223ھ) کے صفحہ 65 میں ہے کہ قبلہ قاری صاحبؒ نے مورخہ 27 جمادی الثانی 1402ھ بمطابق 22 اپریل 1982ء بروز جمعرات بعد نماز عشاء بمقام میمن مسجد مصلح الدین گارڈن بتقریب خرقہ خلافت سند اجازت اور محفل نعت بروانگی عمرہ حاضری دربارِ مدینہ میں حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری صاحب کو سند خلافت اور اجازتِ بیعت عطا فرمائی۔
1965ء تا 1970ء چھ سال ’’محمدی مسجدی‘‘ کورنگی کراچی میں، اور 1970 ء تا 1982ء بارہ سال ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت فرماتے رہے۔ پھر 1983ء میں آپ کے استاد و سسر قاری مصلح الدینؒ نے اپنے وصال سے دو سال قبل ’’میمن مسجد‘‘ مصلح الدین گارڈن سابقہ کھوڑی گارڈن کراچی کی امامت و خطابت آپ کے سپرد فرمائی، اُس وقت سے تاحال آپ اس ذمہ داری کو بحمدہ تعالیٰ آج تک نبھارہے تھے۔
دینِ متین کی تبلیغ واشاعت میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ اپنی تقاریر اور مواعظِ حسنہ کے ذریعے کونے کونے میں اسلام کی دعوت کو عام کیا۔ یہ سلسلہ 1977ء سے شروع ہوا جب آپ نے پہلا دورہ نیروبی کینیا کا فرمایا اور لوگوں کی دعوت پر کئی بار عرب امارات، سری لنکا، بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی، بیلجیئم ، امریکہ، جنوبی افریقہ، کینیا، زمبابوے، عراق، زمبیا، فرانس، اردن اور مصر تشریف لے گئے۔ اور سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے آپ نے اُس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے ہمراہ عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کیا ۔ نیز سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے اردن اور مصر کا بھی دورہ فرمایا۔
1956ء میں ضرورت محسوس کی گئی کہ تبلیغِ دین اور اشاعتِ مسلکِ اہلسنت کی انفرادی کوششوں کو اجتماعی طور پر منظم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے کراچی میں خالص مذہبی جماعت ’’جماعت اہلسنت‘‘ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ خطیبِ پاکستان حضرت علامہ محمد شفیع اوکاڑیؒ کے امیر شیخ محمد اسماعیل اس کے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے۔
1967ء میں آپ کو جماعت اہلسنت (پاکستان) کراچی کے حلقہ کورنگی کا امیر منتخب کیا گیا اور جماعت اہلسنت (پاکستان) کے زیر اہتمام شائع ہونے والا ماہنامہ ’’تروین اہلسنت‘‘ بھی آپ ہی چلاتے تھے اور ’’ماہنامہ افق‘‘ کے روحانی کالم میں شرعی مسائل کے جوابات بھی آپ ہی تحریر کرتے تھے۔ جماعت اہلسنت (پاکستان) کو کراچی میں فعال رکھنے میں آپ کا بڑا کردار ہے۔ آپ جماعت اہلسنت (پاکستان) کے حلقہ کراچی کے امیر ہونے کے ساتھ ساتھ ’’جماعت اہلسنت‘‘ کے ناظم الامور بھی تھے۔ آپ نے بفضلہٖ تعالیٰ دنیا کے کئی ممالک میں ’’جماعت اہلسنت‘‘ کی تنظیم سازی اور دینی اداروں کے قیام کے سلسلے میں کوششیں کیں اور الحمدللہ وہاں بھی ’’جماعت اہلسنت‘‘ کا کام جاری و ساری ہے۔
تحریک ختم نبوت و تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی حضرت نے بھرپور کردار ادا فرمایا۔ آپ مختلف مساجد اور جلسوں میں تقاریر کے ذریعے نوجوانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرتے۔
پیرطریقت حضرت سید شاہ تراب الحق قادری مدظلہ نے دینِ متین کی ہر شعبے میں خدمت انجام دی ہے۔ آپ 1985ء میں کراچی کے حلقہ این اے 190 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ یاد رہے کہ 1985ء میں انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر ہوئے جس میں جمعیت علماء پاکستان نے ان انتخابات کے طریقہ کار سے اختلاف کرتے ہوئے حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا، جبکہ شاہ صاحب قبلہ اور ان کے چند رفقا نے اس فیصلے کے برعکس الیکشن لڑا ۔
تصانیف:
حضرت شاہ صاحب قبلہ نے متعدد موضوعات پر قلم بھی اٹھایا اور کتابی صورت میں اہلسنت والجماعت کو تفسیر، حدیث شریف، فقہ حنفی، عقائد، تصوف اور فضائل وغیرہ عنوانات پر بہترین مواد فراہم کیا۔ حضرت کی جو کتب اب تک منظرعام پر آچکی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
-1 تصوف و طریقت،-2 خواتین اور دینی مسائل،-3 ضیاء الحدیث، -4 جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، -5 امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ،-6 مزاراتِ اولیا اور توسل،-7 فلاح دارین، -8 رسولِ خدا کی نماز، -9 مبلغ بنانے والی کتاب،
(باقی صفحہ 41پر)
-10 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں سے محبت،-11 دینی تعلیم، 12۔ تفسیر سورہ فاتحہ،-13 مبارک راتیں،14۔ اسلامی عقائد، 15۔ تبلیغی جماعت کی نقاب کشائی، 16۔ جنتی لوگ کون؟، 17۔ مسنون دعائیں، 18۔ فضائل شعبان المعظم، 19۔ فضائل صحابہ و اہل بیت، 20۔ تفسیر سورہ والضحیٰ تا سورہ الناس۔
حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری کی وفات: 6 اکتوبر 2016ء بمطابق 4 محرم الحرام 1438 ہجری ہوئی۔اہلسنت کا یہ چمکتا سورج اپنی ضوفشانیوں سے اہلِ محبت کے دلوں کو جگمگاتے جگمگاتے ہم سے ہمیشہ کے لیے رحمتوں بھرے بادلوں میں اوجھل ہوگیا۔